https://youtu.be/2Dh5KgRmnlE (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍مارچ ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: حضرت مسیح موعودؑ نے قرآن کریم کا ادراک حاصل کرنے اور اس سے فیض پاتے ہوئے اس کی برکات حاصل کرنے کے راستے دکھانے کے لیے بےشمار ارشادات اور تحریرات ہمارے لیے چھوڑی ہیں جن کو پڑھ کر اور عمل کر کے ہم حقیقی رنگ میں قرآن کریم سے فیض اٹھانے والے بن سکتے ہیں۔ ان میں سے آپؑ کے چند ایک اقتباسات مَیں اس وقت پیش بھی کروں گا۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب جماعت کوتلاوت قرآن کریم کی بابت کیاتاکیدفرمائی؟ جواب: فرمایا: قرآن کریم کی تلاوت کی اہمیت کے بارے میں بتا دوں کہ یہ بھی انتہائی ضروری چیز ہے جسے رمضان میں خاص طور پر ہر ایک کو ضرور کرنا چاہیے اور کم از کم ایک سیپارہ روزانہ تلاوت کرنی چاہیے تا کہ رمضان میں قرآن کریم کا ایک دَور مکمل ہو جائے۔ حضرت جبرائیلؑ آنحضرت ﷺ کو رمضان میں نازل شدہ قرآن کریم کا ایک دَور مکمل کروایا کرتے تھے اور آخری سال میں مکمل قرآن کریم کا دو مرتبہ دَور مکمل کیا۔پس ہر ایک کو قرآن کریم کی تلاوت کی اہمیت کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےقرآن کریم کوسمجھ کرپڑھنےکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعود ؑ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’مَیں نے قرآن کے لفظ میں غور کی۔ تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبر دست پیش گوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اَور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے قابل کتاب ہو گی جبکہ اَور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی۔‘‘ فرمایا ’’اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہو گی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی۔ (اور فرمایا) فرقان کے بھی یہی معنی ہیں۔ یعنی یہی ایک کتاب حق وباطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی اور کوئی حدیث کی یا اَو ر کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہو گی۔‘‘ فرمایا ’’…اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو … بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی دن رات جھکا رہے… ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبّر میں جان ودل سے مصروف ہوجائیں اور حدیثوں کے شغل کو ترک کر دیں… بڑے تاسف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ اعتنا اور تدارس نہیں کیا جاتا جو احادیث کا کیا جاتا ہے… اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے۔اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی۔ مَیں کہتا ہوں درحقیقت یہی ایک ہتھیار ہے جو اَب بھی کارگر ہے اور ہمیشہ کے لئے کارگر ہو گا اور پہلے بھی قرنِ اوّل میں یہی ایک حربہ تھا جو خود حضور سرور عالم علیہ الصلوٰة والسلام اور صحابہؓ کے ہاتھ میں تھا۔‘‘ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے قرآن کریم کےعلم وعمل میں کمال تک پہنچانےکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا:حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:’’یاد رہے کہ اکیلی عقل کو ماننے والے جیسے علم اور معرفت اور یقین میں ناقص ہیں ویسا ہی عمل اور وفاداری اور صدقِ قدم میں بھی ناقص اور قاصر ہیں اور ان کی جماعت نے کوئی ایسا نمونہ قائم نہیں کیا جس سے یہ ثبوت مل سکے کہ وہ بھی ان کروڑہا مقدس لوگوں کی طرح خدا کے وفادار اور مقبول بندے ہیں کہ جن کی برکتیں ایسی دنیا میں ظاہر ہوئیں کہ ان کے وعظ اور نصیحت اور دعا اور توجہ اور تاثیر صحبت سے صدہا لوگ پاک روش اور باخدا ہوکر ایسے اپنے مولیٰ کی طرف جھک گئے کہ دنیا و مافیہا کی کچھ پرواہ نہ رکھ کر اور اس جہان کی لذتوں اور راحتوں اور خوشیوں اور شہرتوں اور فخروں اور مالوں اور ملکوں سے بالکل قطع نظر کرکے اس سچائی کے راستہ پر قدم مارا جس پر قدم مارنے سے ان میں سے سینکڑوں کی جانیں تلف ہوئیں۔‘‘دین کی خاطر قربانی کا جذبہ ان میں پیدا ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر اللہ سے وفاکرنے کا جذبہ پیدا ہو کے قربانی کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ فرمایا ’’جانیں تلف ہوئیں۔ ہزارہا سرکاٹے گئے۔ لاکھوں مقدسوں کے خون سے زمین تر ہوگئی۔ پر باوجود ان سب آفتوں کے انہوں نے ایسا صدق دکھایا کہ عاشقِ دلدادہ کی طرح پابزنجیر ہوکر ہنستے رہے اور دکھ اٹھا کر خوش ہوتے رہے اور بلاؤں میں پڑ کر شکر کرتے رہے اور اسی ایک کی محبت میں وطنوں سے بے وطن ہو گئے اور عزت سے ذلّت اختیار کی اور آرام سے مصیبت کو سرپر لے لیا اور تونگری سے مفلسی قبول کر لی اور ہریک پیوند و رابطہ اور خویشی سے غریبی اور تنہائی اور بے کسی پر قناعت کی اور اپنے خون کے بہانے سے اور اپنے سروں کے کٹانے سے اور اپنی جانوں کے دینے سے خدا کی ہستی پر مہریں لگا دیں اور کلام الٰہی کی سچی متابعت کی برکت سے وہ انوار خاصہ ان میں پیدا ہو گئے کہ جو ان کے غیر میں کبھی نہیں پائے گئے اور ایسے لوگ نہ صرف پہلے زمانوں میں موجود تھے بلکہ یہ برگزیدہ جماعت ہمیشہ اہلِ اسلام میں پیدا ہوتی رہتی ہے اور ہمیشہ اپنے نورانی وجود سے اپنے مخالفین کو ملزم و لاجواب کرتی آئی ہے۔ لہٰذا منکرین پر ہماری یہ حجت بھی تمام ہے کہ قرآن شریف جیسے مراتبِ علمیہ میں اعلیٰ درجہ کمال تک پہونچاتا ہے ویسا ہی مراتبِ عملیہ کے کمالات بھی اسی کے ذریعہ سے ملتے ہیں اور آثار و انوار قبولیت حضرت احدیت انہیں لوگوں میں ظاہر ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ظاہر ہوتے ہیں جنہوں نے اس پاک کلام کی متابعت اختیار کی ہے۔‘‘ اگر حقیقی رنگ میں اس کی پیروی کرو گے تو یہ معیار حاصل ہوں گے۔ ’’دوسروں میں ہرگز ظاہر نہیں ہوتے۔ پس طالب حق کے لئے یہی دلیل جس کو وہ بچشم خود معائنہ کرسکتا ہے کافی ہے یعنی یہ کہ آسمانی برکتیں اور ربانی نشان صرف قرآن شریف کے کامل تابعین میں پائے جاتے ہیں۔‘‘ نشانات اگر دیکھنے ہیں تو وہ صرف قرآن کریم کے کامل اتباع کرنے والوں میں پائے جاتے ہیں۔ ’’اور دوسرے تمام فرقے کہ جو حقیقی اور پاک الہام سے روگردان ہیں کیا برہمو اور کیا آریا اور کیا عیسائی وہ اس نورِ صداقت سے بے نصیب اور بے بہرہ ہیں چنانچہ ہریک منکر کی تسلی کرنے کے لئے ہم ہی ذمہ اٹھاتے ہیں بشرطیکہ وہ سچے دل سے اسلام قبول کرنے پر مستعد ہو کر پوری پوری ارادت اور استقامت اور صبر اور صداقت سے طلبِ حق کے لئے اس طرف تکلیف کُش ہو۔‘‘ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کامیابی کےحصول کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں۔’’اور یہ دنیا کی کامیابی بھی ہے اور دین کی کامیابی بھی ہے اور آخرت کی کامیابی بھی ہے۔ دنیادار تو صرف دنیاوی کامیابیوں پہ انحصار کرتے ہیں۔ اگر ہر قسم کی کامیابی لینی چاہیے، تو قرآن کریم میں ملے گی۔ فرمایا ’’قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے۔ اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں۔ صحابہؓ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو۔ دیکھو! انہوں نے جب پیغمبرِ خدا ﷺ کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے پورے ہوگئے۔ ابتدا میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں۔’’ حال تو یہ ہے کہ چھپ کے عبادتیں کر رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں ہم بادشاہ بنیں گے۔‘‘لیکن رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جو صدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا۔ وہ قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ سے محبت کرتے اور انہی کی اطاعت اور پیروی میں دن رات کوشاں تھے۔ ان لوگوں کی پیروی کسی رسم و رواج تک میں بھی نہ کرتے تھے جن کو کفار کہتے تھے۔‘‘ کفار کے کسی رسم و رواج کی پیروی بھی نہیں کرتے تھے، سب کچھ چھوڑ دیا۔ ’’جب تک اسلام اس حالت میں رہا وہ زمانہ اقبال اور عروج کا رہا۔ اس میں سرّ یہ تھا۔ خدا داری چہ غم داری‘‘فرمایا کہ ’’مسلمانوں کی فتوحات اور کامیابیوں کی کلید بھی ایمان تھا۔‘‘ آج ایمان کے وہ معیار نہیں ہیں صرف باتیں ہیں لیکن اگر یہ سب کچھ حاصل کرنا ہے تو ایمان کو بڑھانا پڑنا ہے۔ فرمایا کہ ’’صلاح الدین کے مقابلہ پر کس قدر ہجوم ہوا تھا۔‘‘ بادشاہ صلاح الدین کی مثال دے رہے ہیں کہ اس کے مقابلے پر کئی فوجیں اکٹھی ہوئیں ’’لیکن آخر اس پر کوئی قابو نہ پا سکا۔ اس کی نیت اسلام کی خدمت تھی۔ غرض ایک مدت تک ایسا ہی رہا۔ جب بادشاہوں نے فسق وفجور اختیار کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کا غضب ٹوٹ پڑا اور رفتہ رفتہ ایسا زوال آیا جس کو اب تم دیکھ رہے ہو۔ اب اس مرض‘‘ یعنی اسلام کی کمزور حالت ’’کی جو تشخیص کی جاتی ہے ہم اس کے مخالف ہیں۔ ہمارے نزدیک اس تشخیص پر جو علاج کیا جاوے گا وہ زیادہ خطر ناک اور مضر ثابت ہو گا۔‘‘ تشخیص یہ کرتے ہیں کہ جی مغربی دنیا کی تقلید کرو۔ ترقی کرنی ہے تو یہ نئے مغربی علوم حاصل کرو۔ ہاں حاصل کرو لیکن قرآن کو اپنا راہنما بناؤ۔ فرمایا ’’جب تک مسلمانوں کا رجوع قرآن شریف کی طرف نہ ہو گا ان میں وہ ایمان پیدا نہ ہو گا، یہ تندرست نہ ہوں گے۔ عزت اور عروج اسی راہ سے آئے گا جس راہ سے پہلے آیا۔‘‘پس ایمان اور عمل میں ترقی بھی دنیا داروں کی پیروی سے نہیں ہو گی بلکہ قرآن کریم کی پیروی سے ہو گی۔ سوال نمبر۶:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے قرآن کریم کےحقیقی برکات کاسرچشمہ اورنجات کاسچاذریعہ ہونےکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: یاد رکھو قرآنِ شریف حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے۔ یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآنِ شریف پر عمل نہیں کرتے۔ عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ تو بہت دُور پڑے ہوئے ہیں لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ خداتعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفابخش نسخہ ہے۔ اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے۔ ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں۔ پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کی کلام سے ایسے غافل اور لاپروا ہیں ان کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت مصفیٰ اور شیریں اور خنک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفاء ہے۔ یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے، اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا۔‘‘ ایک ایسے پانی کا چشمہ ہے جو پیاس بھی بجھاتا ہے اور علاج بھی ہے اس کے پاس تو جاتا نہیں۔ بڑا بدقسمت ہے وہ۔ فرمایا ’’تو یہ اس کی کیسی بدقسمتی ہے اور جہالت ہے۔ اسے تو چاہئے تھا کہ وہ اس چشمہ پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اس کے لطف اور شفا بخش پانی سے حظ اٹھاتا مگر وہ باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دُور ہے جیسا کہ ایک بے خبر۔‘‘ فرمایا کہ ’’اور اس وقت تک اس سے دُور رہتا ہے جو موت آ کر خاتمہ کر دیتی ہے۔‘‘ بعضوں کو موت آجاتی ہے لیکن قرآن کریم کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ’’اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے۔ … فرمایا کہ ’’مسلمانوں کو چاہئے تھا اور اب بھی ان کے لئے یہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔ اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح ان کی مصیبتوں اور مشکلات کو دُور کر دیتا ہے۔ کاش! مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے یہ ایک نیک راہ پیدا کر دی ہے اور وہ اس پر چل کر فائدہ اٹھائیں۔‘‘ فرمایا ’’یقیناً یاد رکھو کہ جو شخص سچے دل سے اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اس کی پاک کتاب پر عمل کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو لاانتہا برکات سے حصہ دیتاہے۔ ایسی برکات اسے دی جاتی ہیں جو اس دنیا کی نعمتوں سے بہت ہی بڑھ کر ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک عفوِ گناہ بھی ہے۔‘‘ یعنی گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ’’کہ جب وہ رجوع کرتا اور توبہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔ دوسرے لوگ اس نعمت سے بالکل بے بہرہ ہیں اس لئے کہ وہ اس پرا عتقاد ہی نہیں رکھتے کہ توبہ سے گناہ بھی بخشے جایا کرتے ہیں ۔‘‘ مزید پڑھیں: سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا تقریب تقسیمِ اسناد جامعہ احمدیہ یوکے، کینیڈا، جرمنی و گھانا سے خطاب