وہ محمود سیّد، بہت محترموہ ناصر، جو طاہر کے تھے ہم قدم ہوئے ہم سے رُخصت وہ شیخِ عجمخدا کی رضا پر کیے سر ہیں خم خوش اخلاق، عاجز، لبوں پر ہنسیمحقّق، محدّث، رواں تھا قلم شب و روز گزرے تھے تحقیق میںطلب علم کی، ہو کوئی بھی دھرم عجب شان تھی علمِ قرآن میںحدیث و فقہ کے معلّم اہم شرف اس تعلّق کا حاصل ہواتھیں بیٹی خلیفہ کی ان کی حرم ملی ذمہ داری جو لنگر کی تھیتو محنت سے تاریخ کر دی رقم خلافت پہ مرتے تھے ڈرتے بھی تھےہوا اس کا اظہار بھی لَا جَرَم بڑے پُر اثر درس ہوتے سبھیمضامین لکھنے میں چلتا قلم مربی تھے وہ متّقی باعملبہت پھونک کر سارے رکھتے قدم سبھی جامعہ کے جو شاگرد تھےوہ نظروں میں ان کی، رہے محترم رہے خُلق اعلیٰ، جہاں بھی گئےرکھا اونچا اسلام کا جو علَم بہت زندہ دل اور مطہّر مذاقجو ناراض ہوتے تو غصّہ تھا کم یتٰمیٰ کا رہتا تھا ان کو خیالبڑھاپے کا سب کے، وہ رکھتے بھرم نبھایا ہے وقف آخری سانس تکتھے مصروف خدمت میں نکلا جو دم ملے ان کو جنّت میں درجہ بلندہو قربِ خدا میں، مکانِ عدم (ڈاکٹر طارقؔ انور باجوہ۔ لندن) مزید پڑھیں: خلافت اِک نظامِ آسمانی ہے زمانے میں