https://youtu.be/txIY-gMFk3I (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍مارچ۲۰۱۷ء) اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ دین دیکھنا بیشک ترجیح ہے لیکن بعض دفعہ ہر جوڑ ہر ایک کے لئے مناسب نہیں ہوتا۔ اس لئے رشتوں سے پہلے استخارہ کرلیا کرو۔ (صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عند الاستخارۃ حدیث 6382) اللہ تعالیٰ سے رشتہ کے لئے خیر طلب کرو۔ یا پھر یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس رشتے میں خیر نہیں ہے تو اس میں روک پیدا فرما دے۔ اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے ایک موقع پر بڑے خوبصورت انداز میں فرمایا کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا ہی احسان فرمایا ہے کہ ہم کو ایسی راہ بتائی ہے کہ ہم اگر اس پر عمل کریں تو انشاء اللہ نکاح ضرور سُکھ کا موجب ہو گا اور جو غرض اور مقصود قرآن مجید میں نکاح سے بتایا گیا ہے کہ وہ تسکین اور مودّت کا باعث ہو، وہ پیدا ہوتی ہے۔‘‘(شادی بیاہ اس لئے کیا جاتا ہے تا کہ ایک دوسرے کے لئے تسکین ہو اور اس امر کا باعث ہوتا ہے کہ آپس میں پیار اور محبت پیدا ہو۔) فرمایا کہ ’’سب سے پہلی تدبیر یہ بتائی کہ نکاح کی غرض ذَاتِ الدِّیْن ہو۔‘‘(پہلے ذکر ہو چکا دین کو تلاش کرنا ہے۔) ’’حسن و جمال کی فریفتگی یا مال و دولت کا حصول یا محض اعلیٰ حسب ونسب اس کے محرکات نہ ہوں۔ پہلے نیت نیک ہو۔ پھر اس کے بعد دوسرا کام یہ ہے کہ نکاح سے پہلے بہت استخارہ کرو۔‘‘(خطباتِ نور صفحہ 518-519 خطبہ فرمودہ 25 دسمبر 1911ء) پس رشتے سے پہلے جب بندہ دعا میں اللہ تعالیٰ سے تسکین اور محبت سے زندگی گزارنے کی دعا کرے اور یہ دعا کرے کہ اگر اس میں میرے لئے تسکین ہے اور خیر ہے تو یہ رشتہ ہو جائے اور شادی ہو جائے تو پھر شادی شدہ زندگی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی کامیاب گزرتی ہے لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ شادی کے بعد بھی شیطان مختلف ذریعوں سے حملے کرتا رہتا ہے۔ اس لئے یہ دعا ہمیشہ کرتے رہنا چاہئے کہ شادی ہمیشہ سکون اور محبت اور پیار سے گزرے۔ پھر حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے مزید استخارے کی اہمیت بتائی ہے۔ ایک موقع پر اس کی نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ’’بڑے بڑے کاموں میں سے نکاح بھی ایک کام ہے۔‘‘(ایک چھوٹا کام نہیں ہے۔ بڑے بڑے کاموں میں سے ایک کام ہے۔) ’’اکثر لوگوں کا یہی خیال ہوتا ہے کہ بڑی قوم کا انسان ہو۔ حسب نسب میں اعلیٰ ہو۔ مال اس کے پاس بہت ہو۔ حکومت اور جلال ہو۔ خوبصورت اور جوان ہو۔ مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کوشش کیا کرو کہ دیندار انسان مل جاوے‘‘(چاہے وہ لڑکی ہے یا لڑکا ہے۔) ’’اور چونکہ حقیقی علم، اخلاق، عادات اور دیانتداری سے آگاہ ہونا مشکل کام ہے۔ جلدی سے پتا نہیں لگ سکتا۔‘‘ (بعض رشتے ٹوٹتے ہیں تو وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے بظاہر یہ دیکھ کر رشتہ کر لیا کہ دیندار ہے، اچھے اخلاق ہیں، سب کچھ ہے لیکن بعد میں پتا لگا سب کچھ غلط تھا۔ کیونکہ یہ پتا نہیں لگ سکتا) ’’اس لئے فرمایا کہ استخارہ ضرور کر لیا کرو۔‘‘(خطباتِ نور صفحہ 254 خطبہ فرمودہ 13 ستمبر 1907ء) آپؓ نے فرمایا کہ ’’ہم انجام سے بے خبر ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے۔ اس لئے اوّل خوب استخارہ کرو اور خدا سے مدد چاہو‘‘۔ (خطباتِ نور صفحہ 478 خطبہ فرمودہ 26 اگست 1910ء) آپ خطبہ نکاح پر پڑھی جانے والی آیات کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ان میں یہ نصیحت ہے کہ تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے رحمی رشتوں کا خیال رکھو۔ قولِ سدید سے کام لو۔ یہ جائزہ لو کہ تم اپنے کل کے لئے کیا آگے بھیج رہے ہو۔ اگر تم نے زندگی کی کامیابیاں دیکھنی ہیں تو تقویٰ بہت ضروری ہے۔ اس بارے میں استخارے کے بعد جب نکاح کا موقع آتا ہے تو آپ فرماتے ہیں ’’اس خطبہ میں بھی (یعنی نکاح پہ جو تلاوت کی جاتی ہے) اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ ان دعاؤں سے کام لے اور اپنے اعمال و افعال کے انجام کو سوچے اور غور کرے۔ پھر نکاح کی مبارکباد کے موقع پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا سکھائی بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ وَبَارَکَ عَلَیْکَ وَجَمَعَ بَیْنَکُمَا فِی الْخَیْرِ۔ (جامع الترمذی کتاب النکاح باب ما جاء فی ما یقال للمتزوّج) یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے اور تم دونوں پر برکت نازل کرے اور تم دونوں کو نیکی پر جمع کرے۔‘‘(خطباتِ نور صفحہ 519-520 خطبہ فرمودہ 25 دسمبر 1911ء) پس ہر موقع پر خیر اور برکتوں کی دعا کی جاتی ہے تو پھر رشتے بابرکت بھی ہوتے ہیں۔ بعض لوگ پاکستانی اور ہندوستانی ماحول کے زیر اثر ابھی تک خاندان، برادری، قوم کے مسئلہ میں الجھے ہوئے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ جب رشتے آئیں تو دعا کرو۔ دعا کرو اور استخارہ کرو۔ دین کو ترجیح دو۔ تو بجائے اس کے کہ دعا کریں، دین کو ترجیح دیں، یہ باتیں ان کے محلّ نظر نہیں ہوتیں بلکہ برادری اور قوم مدّنظر ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’رشتہ ناطہ میں یہ دیکھنا چاہئے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا تو نہیں جو موجب فتنہ ہو۔ اور یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں۔ صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 9 صفحہ 46۔ ایڈیشن 1984ء) پس یہ بنیادی اصول ہے کہ تقویٰ دیکھو۔ باقی سب باتیں بدعات ہیں۔ ہاں کُفو دیکھنے کا ارشاد ہے اس لئے کفودیکھنا چاہئے اور ضرور دیکھنا چاہئے لیکن اس میں بھی سختی نہیں ہونی چاہئے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خلافت سے وابستگی ہی اصل چیز ہے