نئی سُر فضا میں بکھرنے کے دن ہیںزمیں پر خدا کے اترنے کے دن ہیں کبھی کا منادی صدا دے چکا ہےارے غافلو! کان دھرنے کے دن ہیں زمانہ نئی کروٹیں لے رہا ہےاٹھو تم بھی جلدی کہ ڈرنے کے دن ہیں وہ مظلوم جن کو ہے روندا عدو نےبہت جلد اُن کے ابھرنے کے دن ہیں زلازل یہ طوفان، سیلاب آتشاشارہ ہے لوگو! سدھرنے کے دن ہیں خدا کے غضب سے بھڑکنے سے پہلےیہ مہلت ہے کچھ کر گزرنے کے دن ہیں مٹا کر سبھی نقش نفسانیت کےدلوں میں نئے رنگ بھرنے کے دن ہیں ہر اک گھر منور ہو نورِ خدا سےیہ سجنے، سنورنے، نکھرنے، کے دن ہیں تکبر انا خودپسندی ہے شیطاںکچل دو اسے اس کے مرنے کے دن ہیں ظفرؔ ہر طرف ہیں تباہی کے منظرخدا کو بہت یاد کرنے کے دن ہیں (مبارک احمد ظفرؔ۔ یوکے) مزید پڑھیں: دیے لہو کے جلاتے چلے گئے عشّاق