اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ خلفائے کرام کے ساتھ الٰہی تائیدات مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ نومبر دسمبر ۲۰۱۴ء میں کتاب ’’واقفین زندگی کے ساتھ الٰہی تائیدات و نصرت کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ‘‘ (مؤلفہ محترم سرافتخار احمد ایاز صاحب) کا تعارف بقلم خاکسار محمود احمد ملک شامل اشاعت ہے۔ اس کتاب میں ایسی ایمان افروز داستانیں شامل ہیں جو آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی روشنی کا ایک مینار ثابت ہوں گی۔ ذیل میں اُس باب سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے جس میں خلفائے عظّام کی پاکیزہ زندگیوں سے روح پرور واقعات شامل ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کا تعلقِ ارادت ۱۸۸۴ء سے قائم ہوا جو روزبروز بڑھتا چلا گیا اور ۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء کو سب سے پہلے آپؓ نے ہی لدھیانہ میں شرف بیعت حاصل کیا۔ اس کے بعد تو فدائیت کا یہ عالم رہا کہ حضور علیہ السلام کے وصال پرآپؓ کو بالاتفاق خلیفۃالمسیح منتخب کیا گیا اور نہایت کامیابی اور کامرانی کے ساتھ اپنا چھ سالہ دَورِ خلافت پورا کرکے ۱۳؍مارچ ۱۹۱۴ء کو آپؓ نے وفات پائی۔ ٭…حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی خدمت میں میاں خدابخش صاحب اور میاں غلام رسول صاحب پٹواری نے لکھا کہ چونکہ آپ کے تقویٰ و طہارت پر ہم کو پورا یقین ہے اس لیے اگر آپ حلفیہ اپنی دستخطی یہ تحریر کرکے بھیج دیں کہ مرزا صاحب موصوف وہی مہدی و مسیح موعود ہیں جن کی بابت ہمارے نبی آخر الزمان جناب رسول مقبول ﷺ نے پیشگوئی فرمائی ہے اور بے شمار احادیث میں جن کا ذکر ہے تو ہم محض اسی بِنا پر سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوجاویں گے…۔ آپؓ نے جواب میں لکھا: أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ چند حروف لکھتا ہوں کہ مرزا غلام احمد پسر مرزا غلام مرتضیٰ ساکن قادیان ضلع گورداسپور اپنے د عویٰ مسیح و مہدی و مجددیت میں میرے نزدیک سچا تھا۔ اس کے دعاوی کی تکذیب میں کوئی آیت قرآنیہ اور کوئی صحیح حدیث کسی کتاب میں نہیں دیکھی۔ ٭…ایک مرتبہ مہاراجہ کشمیر نے حضورؓ سے کہا کہ کیوں مولوی جی! تم ہم کو کہتے ہو کہ تم سؤر کھاتے ہو۔ اس لیے بےجا حملہ کر بیٹھتے ہو۔ بھلا یہ تو بتلائو کہ انگریز بھی سؤر کھاتے ہیں وہ کیوں اس طرح ناعاقبت اندیشی سے حملہ نہیں کرتے۔ آپؓ نے فرمایا کہ و ہ ساتھ ہی گائے کا گوشت بھی کھاتے رہتے ہیں۔ اس سے اصلاح ہوجاتی ہے۔ ٭…آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ کشمیر میں ایک بوڑھے آدمی تھے۔ انہوں نے بہت علوم و فنون کی حدود یعنی تعریفیں یاد کر رکھی تھیں۔ بڑے بڑے عالموں سے کسی علم کی تعریف دریافت کرتے۔ وہ جو کچھ بیان کرتے یہ اس میں کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتے کیونکہ الفاظ تعریفوں کے یاد تھے۔ اس طرح ہر شخص پر اپنا رُعب بٹھانے کی کوشش کرتے۔ ایک دن سرِِ دربار مجھ سے دریافت کیا کہ مولوی صاحب! حکمت کس کو کہتے ہیں؟ مَیں نے کہا کہ شرک سے لے کر عام بداخلاقی تک سے بچنے کا نام حکمت ہے۔ وہ حیرت سے دریافت کرنے لگے کہ یہ تعریف حکمت کی کس نے لکھی ہے؟ مَیں نے کسی سے کہا کہ ان کو سورۂ بنی اسرائیل کے چوتھے رکوع کا ترجمہ سنادو جس میں آتا ہے ذٰلِکَ مِمَّآ اَوْحٰٓی اِلَیْکَ رَبُّکَ مِنَ الْحِکْمَۃِ۔ پھر تو وہ بہت ہی حیرت زدہ ہوئے۔ ٭…کچھ آریہ آپؓ سے ملنے کے لیے آئے جن میں سے ایک پلیڈر تھا اور اس نے دعویٰ کیا تھا کہ مولوی صاحب کو مَیں چند منٹ میں تناسخ کے مسئلہ پر گفتگو کرکے ہرا دوں گا۔ حضورؓ کو اُس کا ارادہ معلوم ہوا تو آپؓ نے اپنی جیب سے دو روپے نکال کر اُس کے سامنے رکھ دیے اور کہا کہ پہلے ان میں سے ایک روپیہ اٹھالیں، بعد ازاں میں آپ سے بات کروں گا۔ اُس نے ان روپوں کو دیکھنا شروع کیا اور اسی حالتِ خاموشی میں کافی وقت گزر گیا۔ پھر حاضرین کے پوچھنے پر کہا کہ مَیں تو مشکل میں پھنس گیا۔ اگر اِن میں سے ایک اٹھالوں تو یہ سوال کریں گے کہ تم نے دوسرے کو کیوں نہ اٹھایا؟ اس طرح تناسخ کی تائید میں میرا یہ اعتراض باطل ہوجائے گا کہ خدا نے ایک کو امیر اور ایک کو غریب کیوں بنایا۔ اگر مَیں کوئی ایک روپیہ اٹھاسکتا اور دوسرے کو چھوڑ سکتا ہوں تو پھر خدا کیوں ایک کو بڑا اور دوسرے کو چھوٹا کیوں نہیں کرسکتا۔ ٭…ایک سکھ نے حضورؓ کی خدمت میں عرض کی کہ گوروگرنتھ صاحب ایک ایسی کتاب ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ اس میں صرف توحید اور اخلاقی باتوں کا ذکر ہے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ اس مذہب میں داخل ہوجائیں۔ آپؓ نے فرمایا: بےشک ہم تو ہر ایک راستی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آپ اپنی ماں یا بہن سے شادی کریں تو اس شادی کے جلسہ میں ہم بھی شامل ہوکر اسی جگہ پوہل لے لیں گے (یعنی سکھ بن جائیں گے)۔ وہ حیران ہوا کہ یہ کیا جواب ہے۔ اس پر آپؓ نے فرمایا کہ سچا اور عالمگیر مذہب وہ ہوسکتا ہے جو صرف اخلاق ہی کو بیان نہ کرے بلکہ تمام قواعد شریعت متعلق عقائد، اخلاق اور تمدّن بھی بیان کرے۔ جب گوروگرنتھ صاحب آپ کے نزدیک کامل کتاب ہے اور اس میں یہ نہیں لکھا کہ ماں بہن کے ساتھ نکاح ناجائز ہے تو اس کی رُو سے تو جائز ہوا۔ سردار صاحب نے کہا کہ یہ بات اَور مذہب والوں سے لے لیں گے۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا: پھر ایسے مذہب کو قبول کرنا نامناسب ہے جو دوسرے مذاہب کا محتاج ہو۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ ٭…حضرت مصلح موعودؓ اپنے خود نوشت حالات زندگی میں فرماتے ہیں: مَیں ابھی نوجوان تھا قریباً بیس سال کی عمر تھی کہ میں تبدیلی آب و ہوا کے لیے ڈلہوزی گیا۔ وہاں ایک مشہور پادری آئے ہوئے تھے جن کا نام غالباً فرگوسن تھا۔ انہوں نے سینکڑوں عیسائی بنا لیے تھے اور وہ پہاڑ پر بھی اپنے ٹریکٹ تقسیم کرتے اور عیسائیت کی تعلیم پھیلاتے رہتے تھے۔ کچھ غیرت مند مسلمان مولویوں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ اس فتنہ کا مقابلہ کریں مگر انہوں نے جواب دیا کہ ہم سے تو مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ آخر وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ چلیں اور اُن سے بات کریں ہم لوگ بڑے شرمندہ ہیں۔ مَیں ابھی چھوٹی عمر کا ہی تھا۔ اور میری دینی تعلیم ایسی نہ تھی لیکن مَیںان کے کہنے پر تیا رہو گیا اور ہم چندآدمی مل کر ان کی کوٹھی کی طرف چل پڑے وہاں جا کر مَیں نے اُن سے کہا کہ پادری صاحب! مَیں آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت ہم میز پر بیٹھے ہوئے تھے اور میرے سامنے ایک پنسل پڑی ہوئی تھی۔ مَیں نے کہا فرمائیے اگر یہ پنسل اُٹھانے کی ضرورت ہو اور آپ اس وقت مجھے بھی آواز دیں کہ آئو اور میری مدد کرو۔ اپنے ساتھیوں کو بھی آوازیں دینی شروع کریں۔ اپنے بیرے کو بھی بلائیں۔ اپنے باورچی کو بھی بلائیں۔ اپنے ارد گرد کے ہمسایوں کو بھی بلائیں اور جب سارا محلہ اکٹھا ہو جائے تو آپ اُن سے یہ کہیں کہ یہ پنسل میز پر سے اُٹھا کر میرے ہاتھ میں دے دو تو وہ آپ کے متعلق کیا خیال کریں گے؟ کہنے لگا: پاگل سمجھیں گے۔ مَیں نے کہا: اب یہ بتائیے کہ باپ خدا میںاکیلے دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی یا نہیں؟ کہنے لگا: تھی۔ مَیں نے کہا: بیٹے خدا میں اکیلے دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی یا نہیں؟ کہنے لگا: تھی۔ مَیں نے کہا: رُوح القدس خدا میں اکیلے دنیا کوپیدا کرنے کی طاقت تھی یا نہیں؟ کہنے لگا: تھی۔ میں نے کہا: پھر یہ وہی پنسل والی بات ہو گئی کہ تینوں میں ایک جیسی طاقت ہے اور اس کام کے کرنے کے قابل ہیں۔ مگر تینوں بیٹھے وقت ضائع کررہے ہیں حالانکہ وہ اکیلے اکیلے بھی دنیا کو پیدا کرسکتے تھے۔ مَیں نے کہا آپ یہ بتائیں کیا دنیا میں کوئی کام ایسا ہے جو باپ خدا کر سکتا ہے۔ اور بیٹا خدا نہیں کر سکتا۔ یا بیٹا خدا کرسکتا ہے اور روح القدس خدا نہیں کر سکتا۔ یا رُوح القدس خدا کر سکتا ہے اور باپ خدا نہیں کرسکتا یا بیٹا خدا کر سکتا اور باپ خدا نہیں کر سکتا؟ کہنے لگا کوئی نہیں۔ میں نے کہا یہ تو بڑی مصیبت ہے کہ دو خدا کام تو کر سکتے ہیں مگر فارغ بیٹھے وقت ضائع کر رہے ہیں اور اگر ایک کام کو تینوں مل کر کرتے ہیں حالانکہ ان تینوں میں سے ہر ایک اکیلا اکیلا بھی وہ کام کر سکتا ہے تو یہ جنون کی علامت ہے۔ اس پر وہ گھبرا کر کہنے لگا کہ عیسائیت کی اصل بنیاد کفّارہ کے مسئلہ پر ہے تثلیث کا مسئلہ تو ایمان کے بعد سمجھ میں آتا ہے۔ مَیں نے کہا جب تک تثلیث سمجھ میں نہ آئے انسان ایمان نہیں لا سکتا۔ اور جب تک ایمان نہ لائے تثلیث سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ تو یہ تو دَورِ تسلسل ہو گیا جس کو تمام منطقی ناممکن قرار دیتے ہیں اس پر وہ کہنے لگا کہ آپ مجھے معاف کریں اور کفارہ پر بات کریں۔ ٭…حضورؓ فرماتے ہیں کہ میاں نظام الدین صاحب ابھی بیعت میں شامل نہیں تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر مَیں قرآن کریم کی سو آیتیں ایسی نکلوا کر لے آئوں جن سے حیات مسیح ثابت ہوتی ہو تو کیا آپ مان جائیں گے کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں۔ آپؑ نے فرمایا: آپ ایک آیت ہی پیش کردیں تو مَیں ماننے کے لیے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں دس آیتیں تو ضرور لاکر آپ کو دکھائوں گا۔ اور یہ کہہ کر خوش خوش مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے پاس گئے اور کہا کہ مَیں مرزا صاحب کو منواکر آیا ہوں کہ اگر میں قرآن سے دس آیتیں ایسی نکلوا کر لے آئوں جن سے حیات مسیح ثابت ہوتی ہو تو وہ اپنے عقیدہ کو ترک کردیں گے آپ مہربانی فرماکر مجھے جلدی سے ایسی دس آیتیں قرآن سے لکھ دیں تاکہ میں مرزا صاحب کے سامنے پیش کروں۔ مولوی صاحب کے تو یہ بات سنتے ہی حواس اڑگئے اور جوش میں کہنے لگے تجھے کس پاگل اور جاہل نے کہا تھا کہ تُو اس معاملہ میں دخل دیتا۔ میں دو مہینے بحث کرکرکے مولوی نورالدین کو حدیث کی طرف لایا تھا تُو پھر اس مسئلہ کو قرآن کی طرف لے گیا ہے۔ یہ اتنا گندا فقرہ تھا کہ میاں نظام الدین صاحب جو اپنے دل میں اسلام سے محبت رکھتے تھے اسے برداشت نہ کرسکے۔ تھوڑی دیر تک حیرت سے ان کا منہ دیکھتے رہے اور پھر کہنے لگے: اگر یہی بات ہے تو پھر جدھر قرآن ہے اُدھر ہی مَیں ہوں۔ چنانچہ وہ وہاں سے واپس آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہوگئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ٭…آپؒ کے ساتھ بچپن سے اللہ تعالیٰ کا سلوک امتیازی تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ دریا پر کچھ دوست میرے ساتھ کشتی میں سوار تھے کہ میرے لڑکے ناصر احمد نے اپنے بچپن کے لحاظ سے کہا کہ اگر اس وقت ہمارے پاس مچھلی بھی ہوتی تو بڑا مزہ آتا۔ مَیں نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ پانیوں میں خواجہ خضر کی حکومت ہے۔ اگر خواجہ خضر کوئی مچھلی ہماری طرف پھینک دیں تو تمہاری یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے۔ اس پر بھائی عبدالرحیم صاحب جھنجھلا کر کہنے لگے کہ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں، اس سے بچے کی عقل ماری جائے گی۔ میں نے کہا ہمارے خدا میں تو سب طاقتیں ہیں وہ چاہے تو ابھی مچھلی بھجوا دے۔ مَیں نے یہ فقرہ ابھی ختم ہی کیا تھا کہ یکدم پانی کی ایک لہر اٹھی اور ایک بڑی سی مچھلی کود کر ہماری کشتی میں آگری۔ مَیں نے کہا: دیکھ لیجیے خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت نمائی کر دی۔ خواجہ خضر بیشک وفات پاچکے ہیں مگر ہمارا خدا جو ہمارا خالق اور مالک ہے اور سمیع الدعا ہے وہ تو زندہ ہے اور وہ ہمارے جذبات کو جانتا ہے۔ ٭…حضورؒ کی صاحبزادی امۃالشکور صاحبہ بیان کرتی ہیں: ۱۹۵۳ء کے فسادات میں ایک دن فوج آپؒ کی گرفتاری کے لیے فجر کی نماز کے وقت رتن باغ لاہور پہنچی جہاں ہمارا قیام تھا۔ فوج کے آنے کی خبر بالکل پُرسکون انداز میں اس طرح سنی جیسے پہلے ہی جانتے تھے۔ فرمانے لگے: اُن سے کہو انتظار کریں، مَیں نماز پڑھ کر آیا۔ امی اُن دنوں ہسپتال میں داخل تھیں۔ فوج نے تلاشی وغیرہ لی تو صرف ایک چھوٹا سا پرانا تاریخی خنجر اُنہیں ملا جو کہ امی کو جہیز میں ملا تھا اور حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے آباء و اجداد کے وقت کا چلا آ رہا تھا۔ اس پر ابا کو لے گئے۔ بہت کڑا وقت تھا۔ ہم بچے ایک لائن میں کھڑے تھے۔ آنکھوں سے آنسو، دل کی عجیب حالت۔ ہمارے پاس آئے۔ مسکراتے ہوئے سب کو ملے۔ پھر میرے چہرے پر تھپکی دے کر بولے: ’’مسکرائو مسکرائو‘‘۔ یہ پہلا سبق تھا جو مشکل وقت میں مسکرانے کا ابا نے دیا۔ حضورؒ نے بعد میں خود بیان فرمایا کہ اُس رات مَیں اپنی بیوی سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کوہسپتال میں داخل کرواکر آیا تھا اور تہجدکی نمازپڑھ کرتکیے پر سر رکھا ہی تھا کہ الہاماً بتایاگیاکہ گرفتاری ہونے والی ہے۔ چندہی لمحوں کے بعد ملٹری آگئی اور اس نے تلاشی لینا چاہی۔ جب وہ میری شیروانی کی جیبوں میں ہاتھ ڈالنے لگے جو الماری میںکھونٹی کے ساتھ لٹک رہی تھی تواس کی ایک جیب میں حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ کا ایک خط تھاجس میں اگرچہ کوئی ایسی بات نہیںتھی جس سے کوئی خطرہ لاحق ہوتا لیکن مجھے پسندنہیںتھا کہ تلاشی لینے والا افسر وہ خط پڑھے۔ جب تلاشی لینے والے افسرنے ایک جیب کی تلاشی لی اوراپناہاتھ دوسری جیب میں ڈالنا چاہا توشیروانی ایسے گھوم گئی کہ اس کاہاتھ پھر پہلی جیب میں چلا گیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی حکمت سے وہ خط اُن کے ہاتھ نہ لگا۔ پھر جب ظالمانہ طور پر ہمیں قید میں بھیج دیا گیا تو گرمیوں کے دن تھے اورمجھے پہلی رات اس تنگ کوٹھڑی میں رکھا گیا جس میں ہوا کا کوئی گزر نہیں تھا۔ اس قسم کی کوٹھڑیوں میں ان لوگوں کو رکھا جاتا ہے جنہیں اگلے دن پھانسی پر لٹکایا جانا ہو۔ زمین پر سوتا تھا۔ اوڑھنے کے لیے ایک بوسیدہ کمبل تھا اور سرہانے رکھنے کے لیے اپنی اچکن تھی۔ بڑی تکلیف تھی۔ مَیں نے اس وقت دعا کی … میری آنکھیں بند تھیں۔ مَیں بلا مبالغہ آپ کو بتاتا ہوں کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے نزدیک ایک ایئرکنڈیشنر لگا ہوا ہے اور اس سے ایک نہایت ٹھنڈی ہوا نکل کر پڑنی شروع ہوئی اور میں سو گیا۔ ٭…حضورؒ کے ہمراہ مکرم محمد بشیر صاحب زیروی بھی اسیر بنائے گئے تھے وہ لکھتے ہیں: جب ہمیں ٹرک پر بٹھاکر جیل کی طرف لے گئے تو حضرت میاں ناصر احمد صاحبؒ نے ٹرک میں بیٹھتے ہی بلند آواز میں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ کا ورد شروع کردیا جس سے دلوں میں سکینت و اطمینان کی لہر دوڑنا شروع ہوگئی۔ حضرت میاں شریف احمد صاحبؓ ہم سب میں بڑے تھے اور صحت کے لحاظ سے بھی کمزور مگر حوصلہ کے اعتبار سے ازحد مضبوط و مستحکم۔ ہمیں اپنے مخصوص انداز میں ہر آنے والے وقت کے لیے تیار کرتے رہتے۔ جب ہم میں سے ایک نوجوان نے اپنے بیان میں کسی قدر جھوٹ ملایا تو آپؓ بیتاب ہوکر بار بار فرماتے کہ اب یہ سزا سے نہیں بچ سکتا، اس نے اپنا ثواب بھی ضائع کرلیا۔ پھر ہمیں فرمایا: ’’بیٹا! ہم خدا کی خاطریہاں آئے ہیں۔ یہ ہمارے ایمانوں کی آزمائش ہے۔ اگر ہم آزمائش میں پورے نہ اترے تو (ہم) جیسا بدنصیب کوئی نہ ہوگا اور اگر اس آزمائش میں کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے۔ اگر ہم نے جھوٹ بولا تو اُس کی نصرت سے محروم ہو جائیں گے۔ خواہ کتنی بڑی سزا مل جائے مگر سچ کا دامن کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑنا۔‘‘ جیل میں پہلی رات نہایت ہی کرب میں گزری۔ صبح نماز پڑھ کر ہم باہر اپنے کمبل بچھا کر بیٹھ گئے۔ حضرت میاں ناصر احمد صاحبؒ نے میری اداسی دیکھ کر فرمایا: سورت ملک یاد ہے؟ چنانچہ اس عاجز نے سورت ملک سنائی۔ پھر فرمایا: کوئی خواب آئی ہے؟ مَیں نے گذشتہ رات دیکھی ہوئی اپنی خواب عرض کی تو آپؒ نے فرمایا کہ آپ تو Interrogation میں ہی رہا ہو جائیں گے مگر اس سے آگے آپ خاموش ہوگئے۔ اتنے میں اُبلے ہوئے چنوں کا ناشتہ آگیا۔ مَیں نے چنوں کی طرف کچھ ترچھی سی نگاہوں سے دیکھاتو آپؒ میرے دل کی کیفیت بھانپ گئے اور اُن کو چادر پر بکھیرنے کے بعد مزے لے لے کر کھانا شروع کر دیا اور ساتھ فرماتے بھی جاتے: ’’یہ تو بےحد لذیذ ہیں۔‘‘غالباً اسی دن سے آپؒ کے گھر سے کھانا آنا شروع ہو گیا جو اس قدر ہوتا تھا کہ ہم سب سیر ہو کر کھا لیتے پھر بھی بچ جاتا تھا۔ میری دلجوئی کی خاطر آپؒ میرے گھر سے آیا ہوا نہایت سادہ کھانا لے بیٹھتے کہ مَیں تو یہ کھائوں گا۔ میرے اصرار کے باوجود میرا وہ سادہ سا کھانا حضوؒر خود تناول فرماتے اور آپؒ کے لیے آیا ہوا کھانا ہم کھاتے۔ ٭…مکرم چودھری محمد علی صاحب لکھتے ہیں: جب ربوہ کالج کے حضورؒ پرنسپل تھے اور کالج ہال کا لنٹل ڈالنے کے لیے کثیر مقدار میں سیمنٹ اور مصالحہ بھگو کر تیار کیا جا چکا تھا تو سیاہ بادل گھر کر چھا گیا۔ حضورؒ نے ہاتھ اٹھا کر بادل کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ یہ غریب جماعت کی خرچ کی ہوئی رقم ہے۔ اگر تُو برسا تو یہ رقم ضائع ہو جائے گی۔ جا یہاں سے چلا جا۔ دراصل آپ کی اللہ کے حضور یہ ایک رنگ میں فریاد تھی جو قبول ہوئی اور جس طرح ابر آیا تھا اُسی طرح چلا گیا۔ ٭…محترم ثاقب زیروی صاحب لکھتے ہیں: ۱۹۴۸ء میں مَیں حضورؒ کے ساتھ فرقان فورس کے جوانوں سے ملنے کشمیر گیا۔ ایک رات پیدل سفر میں ہمارا گائیڈ چلتے چلتے ایک دم ایک جگہ بیٹھ کر اپنا دایاں ٹخنہ پکڑ کر کراہنے لگا۔ معلوم ہوا کہ اسے بچھو نے ڈس لیا ہے۔ حضورؒ نے اسے تسلی دی اور اس کے سامنے بیٹھ کر بِسْمِ اللّٰہ اور ھُوَالشَّافِیْ پڑھ کر اس کے ٹخنے کو سہلانے لگے۔ یہ عمل کوئی دو یا تین منٹ تک جاری رہا۔ اس کے بعد اس شخص کے چہرے پر رونق ابھرنے لگی یہاں تک کہ وہ ہشاش بشاش اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ اُس نے مجھ سے کہا: آپ کے صاحب تو بڑے کرنی والے ہیں۔ یہ سنتے ہی آپؒ نے فرمایا : دیکھو اس میں کسی کرامت کا دخل نہیں ہے، اگر چاہو تو میرے جیسے کرنی والے تم بھی بن سکتے ہو۔ بس اتنا کیا کرو کہ جب آموں کو بُور آجائے تو اس بُور کو اچھی طرح اپنے ہاتھوں میں رگڑ رگڑ کر مل لیا کرو۔ اس بُور کا کم از کم سال بھر اثر ضرور رہتا ہے۔ پھر مجھے مخاطب کرکے فرمایا: شرک ہمیشہ باریک در باریک راہوں سے انسانی جذبات و محسوسات پر وار کرتا ہے، اسے اس کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ ٭…حضورؒ فرماتے ہیں کہ ۱۹۷۴ء میں جس دن قومی اسمبلی کے سارے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی بنی اور اعلان ہوا کہ اس کمیٹی کا اجلاس خفیہ ہوگا تو اس اطلاع کے ملنے کے بعد مَیں بہت پریشان رہا اور مَیں نے بڑی دُعائیں کیں۔ سورۂ فاتحہ بہت پڑھی۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ بہت پڑھا۔ اور صبح چاربجے اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار سے مجھے یہ کہا وَسِّعْ مَکَانَکَ۔ اِنَّاکَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ کہ ہمارے مہمانوں کی خاطر اپنے مکان وسیع کرو، مخالفین کے لیے ہم ہی کافی ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ٭…۲۶؍اپریل ۱۹۸۴ء کو ضیاءالحق نے جب ظالمانہ آرڈیننس جاری کیا تو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان سے ہجرت کرنا پڑی۔ آپ پہلے بذریعہ کار کراچی پہنچے۔ وہاں سے بذریعہ ہوائی جہاز انگلستان جانے کا پروگرام تھا۔ آپ کی فلائٹ ایمسٹرڈم جانے والے KLM کے جہاز پر ۳۰؍اپریل کے لیے مخصوص ہو چکی تھی۔ جہاز کی پرواز کے وقت اعلان ہوا کہ جہاز کی روانگی میں تاخیر ہو گئی ہے۔ اس تاخیر کی وجہ جنرل ضیاءالحق کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک حکم نامہ تھا، جس کا مفہوم سمجھنے کی ایئرپورٹ کا حفاظتی عملہ ناکام کو شش کررہا تھا۔ آخر قریباً دو گھنٹوں کی تاخیر کے بعد جہاز کو پرواز کی اجازت دے دی گئی۔ جنرل ضیاءالحق کا وہ حکم نامہ کس طرح کراچی ایئرپورٹ کے عملے کے لیے عقدۂ لاینحل بنا رہا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جنرل ضیاء نے آرڈیننس کے اجرا کے فوراً بعد نہ صرف حضورؒ کی نقل و حرکت کی کڑی نگرانی شروع کردی بلکہ ایک خفیہ حکم بھی جاری کر دیا جس کے مطابق آپؒ کے لیے پاکستان سے باہر جانے پر پابندی لگادی۔ لیکن جنرل ضیاء الحق سے وہ حکم نامہ لکھتے وقت ایک بہت بڑی فروگزاشت ہو گئی۔ اس نے عبارت یہ لکھی: ’’مرزا ناصر احمد کو جو اپنے آپ کو جماعت احمدیہ کا خلیفہ کہتے ہیں، پاکستان چھوڑنے کی ہرگز اجازت نہیں۔‘‘ چونکہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ دو سال قبل وفات پاچکے تھے۔ چنانچہ کراچی ایئرپورٹ پر متعین عملہ اس الجھن میں پڑ گیا اور اس پر کافی لے دے ہوتی رہی کہ آیا وہ اس حکم نامہ کے رُو سے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفۃالمسیح الرابعؒ) کو روک سکتے ہیں یا نہیں۔ اس الجھن کے حل کے لیے بالآخر انہوں نے اسلام آباد فون بھی کیا تاکہ ضیاءالحق سے اس کی وضاحت کروائی جائے۔ مگر وہاں سے جواب ملا کہ جنرل صاحب محواستراحت ہیں اور ان سے رابطہ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اس حکم نامے کو کسی پرانے اور زائد المیعاد حکم پر محمول کرتے ہوئے ہوائی جہاز کو پرواز کی اجازت دے دی گئی۔ جب جنرل ضیاءالحق کو علم ہوا کہ اس کا ’شکار‘اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہے،تو وہ غصے سے بائولا ہو گیا۔ بہرحال حضورؒ اﷲ تعالیٰ کی حفاظت میں پاکستان سے باہر آچکے تھے اور اس طرح پر ایک ظالم اور سفاک ڈکٹیٹر کی دست برد سے آزاد ہوچکے تھے۔ اس کے جلد بعد ہی خدائے غیور کے غضب کی لاٹھی خود اس (ظالم ڈکٹیٹر) کے اُوپر چل گئی اور وہ اپنے جرنیلوں کو بھی ساتھ لیتا ہوا اس حاکم ازلی کی عدالت میں حاضر ہو گیا جس کے آگے بڑے بڑے خودسروں اور فرعونوں کی گردنیں جھک جاتی ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ٭…حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب بطور واقف زندگی گھانا میں خدمات سرانجام دے رہے تھے تو مکرم عبدالرزاق بٹ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک رات گیارہ بارہ بجے کے قریب حضورانور کی اور میری فیملی سفر کررہی تھی کہ ایک جگہ ہماری گاڑی کا پچھلا پہیہ نکل کر جنگل میں غائب ہوگیا، گاڑی گھسٹتی گھسٹتی کھڑی ہوگئی۔ آپ فرمانے لگے میرا خیال ہے کہ ان جھاڑیوں کے پیچھے ایک گائوں ہے۔ اس گائوں کا ایک لڑکا میرے سکول میں پڑھتا ہے۔ مَیں جاکر اسے ڈھونڈ لاتا ہوں۔آپ گئے۔ گہرا اندھیرا تھا۔ بجلی وغیرہ کا تو کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ تقریباً پونے گھنٹے بعد اُس لڑکے کے ہمراہ واپس آئے۔ مَیں حیران تھا کہ سکول کے اکثر لڑکوں کے نام آپ کو یاد تھے بلکہ اُن کے گائوں کا نام بھی۔ اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ گائوں کی Location آپ کو رات کے اندھیرے میں بھی یاد تھی۔ حالانکہ سکول میں پڑھنے والے اکثر عیسائی لڑکے تھے۔ ٭…مکرم مولاناسلطان محمود انورصاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور انور جب ناظر اعلیٰ تھے تو ایک دن میرے ایک ہم زلف کہنے لگے کہ ہم کار میں کھاریاں جارہے ہیں، شام تک واپس آجائیں گے، آپ بھی ساتھ چلیں ۔ مَیں نے محترم میاں صاحب کو بتایا تو فرمایا: ٹھیک ہے چلے جائیں۔ مَیں نے عرض کی کہ مَیں اجازت نہیں بلکہ مشورہ مانگ رہا ہوں۔ اس پر فرمانے لگے کہ پھر نہ جائیں۔ خاکسار یہ الفاظ سن کر واپس آگیا اور میرے ہم زلف روانہ ہوگئے۔ شام کو اطلاع ملی کہ ڈرائیور کو ڈرائیونگ کے دوران ہارٹ اٹیک ہوگیا جس کی وجہ سے حادثہ ہوا اور وہ موقع پر ہی فوت ہوگیا جبکہ میرے ہم زلف کا کولہا ٹوٹ گیا اور وہ آخری وقت تک معذور رہے۔ ٭…مکرم محمداقبال صاحب تحریرکرتے ہیں: ۱۹۹۸ء میں مجھے عرق النساء کی شدید تکلیف ہوگئی۔ علاج شروع کیا مگربے یقینی تھی چنانچہ خاکسار نے ربوہ فون کرکے حضرت میاں صاحب کو بیماری کا بتایا اور جذبات میں آکر رونے لگا تو آپ نے مجھے تسلّی دی اور فرمایا جو بھی بزرگ میرے پاس آئیں گے مَیں اُنہیں بھی درخواستِ دعا کروں گا۔ پھر ازراہ شفقت رسٹاکس+آرنیکا ۱۰۰۰ طاقت میں لینے کا ارشاد فرمایا۔ میری بیماری کو دیکھ کر ڈاکٹر بھی پریشان تھے اور لنگڑاپن پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کررہے تھے کیونکہ اُس وقت خاکسار چل پھر نہ سکتا تھا اور نہ بیٹھ سکتا تھا۔ اگلے دن میاں صاحب کا تسلّی آمیز فون آیا۔ میرا یقین و ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے آپ کی دعائیں قبول فرمائیں اور صحت دے دی۔ خاکسار ۲۰۰۳ء میں ربوہ گیا۔ دو سال سے کھانسی اور ٹی بی کے مرض میں مبتلا تھا جس کی وجہ سے بےحد کمزور اور لاغر ہوچکا تھا۔ چلنا پھرنا مشکل ہو گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ لاپروائی کی وجہ سے بہت بُری حالت ہوچکی ہے۔ پھر حضرت میاں صاحب کے پاس حاضر ہوکر صورتحال بتائی اور عرض کیا کہ پتا نہیں زندگی ہے کہ نہیں میں آپ سے ملنے آیا ہوں کیونکہ ڈاکٹر صاحبان کے بقول خاکسار لاعلاج ہے۔ آپ نے بڑے پیار اور شفقت سے فرمایا کہ ڈاکٹر نوری صاحب سے چیک کروائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے چیک کرنے کے بعد ایک سال کی دوائی لکھ دی۔ خاکسار بہت زیادہ مایوس تھا۔ چیک اَپ کروانے کے بعد مَیں میاں صاحب کے پاس حاضر ہوا اور تفصیل بتاکر خدشہ ظاہر کیا کہ شاید کینسر ہے کیونکہ آٹھ دس سال قبل خاکسار کثرت سے سگریٹ نوشی کرتا تھا۔ آپ نے اگلے روز مجھے اپنے گھر آنے کا ارشاد فرمایا۔ پہلے ابلے ہوئے دو انڈے اور ایک دودھ کا گلاس دیا اور پھر فرمایا ایک اُبلا ہوا انڈا روز استعمال کرنا ہے۔ کہیں زیادہ انڈے نہ کھالیں یرقان ہو جائے گا۔ پھر فرمایا: میں نے ڈاکٹر نوری صاحب سے پوچھا تھا، کینسر نہیں ہے۔ آپ فکر مت کیا کریں۔ مَیں نے کہا کہ رات کو اکثر میرا سانس کھانسی کی وجہ سے اُکھڑ جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پانی گرم کرکے بھاپ لیا کریں اس سے سانس درست ہو جاتا ہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور حضور انور کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ خاکسار ٹی بی کی بیماری سے ایک سال کے اندر اندر ٹھیک ہوگیا۔ ٭… ۱۹۹۸ء میں ملّاؤں نے چار افراد کے خلاف قرآنی آیات کی بےحرمتی کا جھوٹا مقدمہ درج کروا دیا جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی ربوہ بھی شامل تھے۔ آپ کے ہمراہ اسیری کا وقت گزارنے والے مکرم اکبر بھٹہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ کسی بھی قائد کو پرکھنے کا زمانہ مصائب کا دَور ہوتا ہے۔ حضور میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو کسی بھی بہترین قائد میں ہونی چاہئیں۔ جب ایڈیشنل سیشن جج چنیوٹ نے ہماری ضمانت منسوخ کردی تو ہمارے وکیل نے آپ کو وہاں سے خفیہ طور پر چلے جانے کا مشورہ دیا جس پر آپ نے اُن کی طرف بڑے غصہ سے دیکھا اور کہا کیوں؟ پھر بڑے اطمینان سے باہر آئے اور ہمارے ساتھ ہی ہاتھ آگے کردیے۔ ایس ایچ او نے ہمیں ہتھکڑیاں لگادیں اور آپ سے کہا کہ آپ رہنے دیں۔ میاں صاحب نے کہا کہ آپ اپنا فرض پورا کریں لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ جیل میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی تنگ سی جگہ پر ڈھیر ساری بھیڑ بکریوں کو بند کر رکھا ہو۔ ہر آدمی بڑے فخر سے بتاتا کہ اس نے قتل کیا ہے یا ڈاکہ ڈالا ہے۔ خطرناک قیدیوں کو بیڑیاں لگی ہوئی تھیں اور ان کے آنے جانے سے چھن چھن کی آوازیں آتی تھیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے یہ فضل کیا کہ کوشش کرنے پر اللہ تعالیٰ نے وہ ساری بیرک احمدی اسیران کو دے دی اور دیگر قیدیوں کو احتجاج کرنے کے باوجود وہاں سے منتقل کردیا گیا۔ پھر انتظامیہ نے ساری بیرک پانی سے دھلوائی، صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کیا اور دونوں غسل خانے اور لیٹرینیں سفیدی کر دیں۔ احمدی احباب کی طرف سے وافر مقدار میں فروٹ اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء آتی تھیں۔ محترم میاں صاحب نے حکم دیا کہ ضرورت سے زیادہ سامان سٹاک نہیں رکھنا جو زیادہ سامان ہو وہ قیدیوں اور عملے میں بانٹ دیا کرو۔ آپ نے خاص طور پر قرآن مجید، درثمین،کلام محمود اور درّعدن منگوائیں۔ آپ ہمارے حوصلے بلند رکھنے اور مصروف رکھنے کی غرض سے فارغ اوقات میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات سناتے رہتے۔ ایک دن بیت بازی کا مقابلہ بھی کیا۔ ایک رات کرنل صاحب کو خواب میں سیدہ آپا طاہرہ صدیقہ صاحبہ ملیں اور کہا کہ میں آپ لوگوں کی شہادت دینے آئی ہوں۔ میاں صاحب نے خواب سن کر فرمایا کہ ان شاءاللہ ہماری بےگناہی ثابت ہوگی۔ ایک خاتون نے ملاقات کے دوران محترم میاں صاحب کو بتایا کہ رات مَیں بہت دعا کرتے کرتے سو گئی تو خواب میں یہ مصرع سنائی دیا: ’’خدا رُسوا کرے گا تم کو مَیں اعزاز پاؤں گا‘‘ ایک صبح محترم میاں صاحب کے چہرے پر بہت زیادہ اطمینان اور اعتماد کے ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی مسکراہٹ بھی تھی۔ پوچھنے پر فرمایا کہ رات مجھے خواب میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ، حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ اور حضرت مرزا منصور احمد صاحب ملے ہیں۔چند خواب لوگوں نے بھی لکھ کر بھیجے تھے جن سے علم ہوتا تھا کہ سوموار کو رہائی ہوگی۔ ایک خواب کی تعبیر آپ نے یہ کی تھی کہ تم (خاکسار) ہمارے ساتھ جاتے نظر نہیں آتے اور مجھے ایک دعا سکھائی کہ یہ دعا کثرت سے پڑھا کرو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ سوموار کو میاں صاحب اور کرنل صاحب کی رہائی ہوئی اور دیگر دو اسیران کی اگلے روز رہائی عمل میں آئی۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۲۷؍جنوری ۲۰۱۴ء میں مکرم محمد مقصود احمد منیب صاحب کی خلافت کے حوالے سے ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے: دن مسافت ہے شب مسافت ہےجاودانی تو بس خلافت ہےاس کی برکت سے ہم فقیروں کیبادشاہوں پہ بادشاہت ہےپھول چہرے پہ جاں فدا اپنیپھول چہرہ ہی اس کی زینت ہےہم ہیں نورِ نظر ، عدو مُردہاپنی اپنی ہی سب کی قسمت ہےجسم کو چیر دے تو بسم اللہ!زندگی موت کی امانت ہےکربلائیں ہزار دیکھی ہیںمسکرانا ہماری فطرت ہےگالیاں سن کے دے رہے ہیں دُعااک مسیحا کی یہ نصیحت ہے ………٭………٭………٭……… خلافت احمدیہ کے حوالے سے روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۲۵؍مئی ۲۰۱۵ء میں شامل اشاعت مکرم مبارک احمد ظفر صاحب کی ایک نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: وجود تعویذ جان تیراہے قرب جائے امان تیراتُو جانشینِ مسیحِ دوراںہے وقت تیرا زمان تیرادلوں پہ ہے سلطنت تمہاریہے معتقد اِک جہان تیراکڑی ہو جو دھوپ سایہ بخشےوہ سر پہ ہے سائبان تیراجو بخت سوئے ہوئے جگا دےنظر وہ تیری دھیان تیراجو مجھ میں خوشبو رچی بسی ہےدیا ہے تیری ، ہے دان تیرادعا ظفرؔ کی ہے ربّ اعلیٰرہے محافظ ہر آن تیرا مزید پڑھیں: ۸؍مئی: ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے’شعور، یکجہتی اور زندگی کی امید‘