https://youtu.be/oRseky57RGQ سلطنتِ عثمانیہ زوال ظہور پذیر تھی کہ خلافتِ احمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔ نہ دنیوی ریاست۔ نہ زمینی سلطنت۔ صرف روحانیت کا پیغام۔ وہی پیغام جو اسلام کے دورِ اولیٰ کے مکی دور کا پیغام تھا۔ جو اصل پیغام تھا۔ محمد رسول اللہﷺ کا اصل پیغام۔ حجۃ الوداع کے آخری پیغام کی نشأۃ ثانیہ اگر آپ کا کوئی دوست آپ کو فون کر کے پوچھے کہ میں ایک ایسے شہر میں ہوں جہاں جدھر دیکھوں ایک سے زیادہ مساجد کے گنبد اور مینار نظر آتے ہیں۔ بوجھو میں کہاں ہوں۔ تو فوراً بوجھ جائیے کہ آپ کا دوست استنبول جانکلا ہے۔ یہ وہ منظر ہے جو استنبول پہنچ کر ہوائی اڈے سے باہر نکلیں تو آپ کی نگاہوں کا استقبال کرتا ہے۔ آپ جس طرف دیکھیں گے، مخصوص طرز کے گنبد اور نوکیلے میناروں والی ایک سے زیادہ مساجد نظر آئیں گی۔ کچھ نزدیک۔ کچھ دُور۔ اور آپ ٹیکسی والے سے ہر مسجد کے بارے میں پوچھیں گے کہ کیا یہ Blue Mosque ہے؟ اور وہ ہر بار مسکرا کر، گویا آپ کی معصومیت پر ہنستے ہوئے، جواب دے گا کہ نہیں نہیں۔ یہ کہاں سے Blue Mosque ہے۔ وہ تو بہت بڑی ہے۔ اور آپ کا اس مسجد کو دیکھنے کا اشتیاق اَور بھی بڑھ جائے گا۔ کہ اگر یہ مسجد بڑی نہیں ہے تو جو بہت بڑی ہے وہ کیسی ہوگی؟ اور پھر آپ سڑکوں پر سے گھومتے ، پل عبور کرتے اپنی قیام گاہ یعنی کسی ہوٹل پر پہنچیں گے۔ اور نیلی مسجد آپ کو نظر نہ آئے گی،کہ وہ استنبول کے پرانے حصے میں واقع ہے۔ اصل استنبول میں۔ اس حصے میں جو کبھی قسطنطنیہ تھا۔ سلطنتِ روم، جو مشرق تک سمٹ کر بازنطینی سلطنت بن گئی، کا مایہ ناز دارالحکومت۔ تو یہ احساس ہی استنبول میں نووارد کو عجیب و غریب احساسات میں لے جاتا ہے کہ وہ دنیا کے اس شہر میں موجود ہے جو دنیا کی آنکھ کا تارا رہا۔ بلکہ تہذیب اور تمدن اور صنعت و حرفت کے آسمان کا تارا۔ وہ تارا جسے بہت سوں نے آسمان سے توڑ کر اپنی دسترس میں لینے کی کوشش کی۔ مگر ناکام رہے۔ پھر اسلام کا ظہور ہوا۔ اور اس آسمانی خبر کا بھی کہ غُلِبَتِ الرُّوۡمُ۔ اورمسلمانوں نے یہ خواب آنکھوں میں سجا لیا۔ کوئی آٹھ صدیاں مسلمان قسطنطنیہ یعنی سلطنتِ روم کو فتح کرنے کی امنگیں لے کر جیا کیے۔ سلطنتِ اسلامیہ نے متعدد مرتبہ اس کے لیے مہم جوئی کی۔ مگر ناکامی ہوتی رہی۔ کہ بالآخر۱۴۵۳ء میں عثمانی بادشاہ سلطان محمد نے قسطنطنیہ کو فتح کر لیا۔ اور یوں مسلمانوں کی آنکھ کے اس تارے کو ایک مسلم سلطنت کے دامن میں لا کر سلطنتِ عثمانیہ کو مسلمانوں کی آنکھ کا تارا بنا دیا۔ عثمانی سلاطین نے اپنے لیے خلیفہ کا لقب تو بعد میں استعمال کرنا شروع کیا، مگر شاید یہ وہ لمحہ تھا جب آنحضورﷺ کی پیشگوئی کی تکمیل پر خلافت کی خلعت اوڑھ لینے کا یہ خواب پہلی مرتبہ دیکھا گیا۔ پیشگوئی میں تھا کہ جو قسطنطنیہ کو فتح کرے گا وہ کوئی عام سپہ سالار نہ ہوگا۔ بلکہ عظیم الشان سپہ سالار ہوگا۔مگرہم یہاں پیشگوئی کی اصل حقیقت اورغُلِبَتِ الرُّوۡمُ کی تفاسیر میں نہیں جائیں گے۔ ابھی ہم استنبول میں ہیں اور ہم اس شہر کے جسم میں دھڑکتی تہذیبی اور ثقافتی روح کو محسوس کریں گے۔ ۱۵۱۷ء میں سلطان سلیم اوّل نے مملوکوں کے زیر تسلط مصر کو فتح کیا اور عباسی سلطنت کی رہی سہی باقیات کو مٹا کر مکہ اور مدینہ پر اپنی حکومت قائم کی، تو اپنے سر پر خلافت کا تاج پہن لینے میں خود کو حق بجانب محسوس کیا۔ ایسا نہیں کہ باقی مسلم دنیا نےعثمانیوں کو اپنا خلیفہ تسلیم کرلیا۔ مسلم دنیا میں ہر دوسرا سلطان خلیفہ کہلانے کے خواب ہی تو سجائے بیٹھا تھا۔ مگر پھر عثمانی جنگ جُو بھی تو تھے۔ وہ اپنا تسلط پھیلاتے گئے اور یوں سلطنتِ عثمانیہ ایک پُر شوکت سلطنت کے طور پر ابھری۔ یہاں تک کہ ان کے سوا خلافت کا کوئی بھی دعویدار نہ رہا، کہ ایسی سلطنت کوئی کہاں سے لے کر آتا۔ خلافت کو سلطنت کے تصور سے بھی تو وابستہ کر دیا گیا تھا۔ پس سلطنت اور ریاست ہی خلیفہ کے حق بجانب ہونے کا ثبوت ٹھہری ۔ اُس پر یہ کہ اور کون سا مسلم بادشاہ تھا جو حرمین شریفین کا والی بھی ہو۔ ہر مسلمان جو دنیا کے کسی بھی حصے سے حج یا عمرے کے فریضے کی ادائیگی کے لیے حرمین جاتا، اس کا وہاں داخلہ سلطنتِ عثمانیہ کا مرہونِ احسان ہوتا۔ اس امتیاز نے سلطنتِ عثمانیہ کو وہ ساکھ دے دی جو کسی اَور مسلم حکومت کے حصے میں نہ تھی۔ قسطنطنیہ کو رومیوں سے فتح کر لیا تو سلطان محمد، جو اسی حوالے سے سلطان محمد الفاتح کہلائے، اس سلطنت کے دل یعنی آیا صوفیہ نامی عظیم کلیسا میں داخل ہوئے۔ یہ اصل جشن فتح تھا، کہ وہ کلیسا جو سلطنتِ روم کی آن بان کا علمبردار تھا، اب مسلم سلطنت کے زیر تسلط تھا۔ اس کلیسا کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں سے اس جنگ جُو قوم نے اسلامی تشخص کو اجاگر کرنا شروع کیا۔عثمانی سلاطین نے جابجا مساجد بنائیں۔ استنبول میں ہر ہزار آدمی کے لیے ایک مسجد بنانے کا فرمان جاری ہوا۔ ہر سلطان نے ایک خاص مسجد بنائی جو اسی سلطان سے منسوب ہوکر اسی کے نام سے موسوم ہوئی۔ آیا صوفیہ کو فتح کرلینا عثمانی سلاطین کے دل ودماغ پر کیسا گہرا نقش چھوڑ گیا، یہ ان کی مساجد کی طرز تعمیر سے عیاں ہوتاہے۔ ایک بڑا نصف دائرہ نما گنبد۔ اس کے گرداگرد چھوٹے گنبد ۔ چونکہ آیا صوفیہ کو مسجد کا لباس پہنانے کے لیے کچھ تو کرنا تھا۔ سو اس کے اطراف میں مینار ایستادہ کر دیے گئے۔ اور یوں ہر مسجد جو عثمانی دور میں تعمیر ہوئی، اس کے گنبدوں کے علاوہ اس کی پہچان آیا صوفیہ کے میناروں سے مشابہ نوکیلے اور اونچے مینار بھی بنائے گئے۔ وہ زمانے توکب کے گزرگئے جب لوگ کسی ملک کا سفر کر کے آتے تو اس ملک اور اس کے شہروں کے مشہور مقامات کی سفرناموں میں تصویر کشی کیا کرتے۔ ان سے متعلق حقائق بتایا کرتے کہ فلاں مینار اتنے میٹر بلند ہے اور گنبد کا قطر اس قدر ہے۔ اب تو آپ دیکھ بھی آئیں اور کسی مجلس میں ان مقامات کے حقائق بتانے بیٹھ بھی جائیں، تو آپ کے سامعین آپ کو ایسی معلومات پر باتیں سنادیں گے جو آپ کو بھی معلوم نہ تھیں۔ بلکہ آپ نے ان مقامات کو ان زاویوں سے نہ دیکھا ہوگا جو آپ کے سامعین میں سے کوئی نوجوان فوراً اپنے فون میں کھول کر 4K معیار میں آپ کو دکھائے گا، اور بجائے اس کےکہ آپ جو سفر سے لوٹے تھے شمع محفل بنتے، سب اس نوجوان کے فون کے گرد جمع ہو جائیں گے اور آپ الگ خاموش بیٹھے چائے (اور شرمندگی) کے گھونٹ بھرتے رہیں گے۔ تو ہم بھی ایسے حقائق بتاکر خفت کیوں اٹھائیں۔ ہاں احساسات اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ انہیں بیان کردینے پر اکتفا کرتے ہیں۔ تو یہ منظر نامہ ہے۔ مسجدوں سے بھرا منظر نامہ۔ بلکہ پس منظر۔ کیونکہ اس پس منظر کے سامنے استنبول میں زندگی کا جو کھیل جاری ہے، وہ مکمل طور پر مغربی ہے۔رہن سہن، اوڑھناپہننا، طرزِ زندگی۔ سب مغربی طرز پر ہے۔ یونہی تو مغرب نے ترکی کو اپنی آغوش میں نہیں سمیٹ لیا۔ تو استنبول کا منظر نامہ پس منظر میں نظر آنے والی بےشمار مساجد اور پیش منظر میں چلتی پھرتی مغربی تہذیب سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ مگر جیسے کیمرے سے آپ جس چیز پر فوکس کریں، اس کے سوا سب نسبتاً دھندلا سا جاتا ہے، اسی طرح استنبول کے قدیم شہر ، جو کبھی قسطنطنیہ تھا، کی قدیم پتھروں سے بنی خوبصورت گلیوں میں چلتے پھرتے پیش منظر فوکس میں آجاتا ہے اور پسِ منظر کچھ دھندلا سا جاتا ہے۔ لیکن اگر آپ ایک ایسی جماعت سے ہیں جس کی ریڑھ کی ہڈی کانام خلافت ہے۔ اور آپ خلافت کی اہمیت سے واقف ہیں۔ تو آپ کا فوکس استنبول کے پس منظر پر آٹو فوکس کے تحت پیوست ہو جاتا ہے۔ مغربی تہذیب کی چکاچوند، سیاحوں کے رنگارنگ لباس۔ ان کی چہک مہک۔ سب پس منظر میں چلا جائے گا اور خلافت سے وابستہ اس شہر کی تاریخ آپ کے بالکل سامنے آکھڑی ہو گی۔سلطنت عثمانیہ کی تاریخ۔ اس کا عروج۔ اس کا زوال۔ اس زوال کے اسباب۔ سب کچھ۔ مگر یہ تو ایک مختصر کالم ہے۔ کوئی تاریخی تحقیقی مضمون نہیں۔ اور اگر آپ استنبول میں گئے ہی سلطنتِ عثمانیہ کی دستاویزات کا مطالعہ کرتے ہیں،اور آپ صبح سے سہ پہر تک انہی بوسیدہ کاغذات میں سر دیے بیٹھے رہتے ہیں، تو سہ پہر سے رات تک آپ استنبول کا کوئی بھی دوسرا رنگ دیکھنے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔ آپ کے دل و دماغ پر اس شہر کی تاریخ طاری رہتی ہےاور سیاح ہوتے ہوئے بھی، سیاحوں کے بیچ ہوتے ہوئے بھی آپ کہیں اَور ہوتے ہیں۔ تاریخی دستاویزات میں کیا تلاش کرنا تھا۔ کیا ملا؟ یہ کہانی ایک الگ وقت کے لیے ہے جو جلد الفضل ہی کے صفحات کے ذریعے آپ تک پہنچ جائے گی۔ یہاں صرف ان سہ پہروں کا بہت مختصر سا قصہ ہے جو سرکاری ریکارڈ سے نکل کر استنبول کے قدیم حصے میں بسر ہوئیں۔ پہلے روز عثمانی آرکائیوز سے نکلا اور ٹیکسی لے کر اپنے ہوٹل پہنچا۔ کچھ دیر آرام کر کے شہر کے قدیم حصے کے بھی مرکز سلطان احمد پہنچ گیا۔ جو ہوٹل سے کچھ قدم پر واقع تھا۔ یہیں آیاصوفیہ اور نیلی مسجد ہے جہاں ہمہ وقت سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ مگر اس ہجوم کے سروں کے اوپر ایک عجیب احساس یوں پھیلا رہتا ہے جیسے کسی کھیت میں فصل کے اوپر دھند کی ایک تہ۔ سیاحوں کے بولنے اور چہکنے کی آوازیں نیچے رہ جاتی ہیں اور آپ کے تخیل کا طیارہ پرواز کرتا اس دھند کےبادل کی تہ سے اوپر نکل جاتا ہے۔ جہاں آپ کو آیا صوفیہ نامی اس مسجد میں کلیسا کے آثار نظر آتے ہیں۔ اندرونی حصے میں اللہ، محمدﷺ اور چاروں خلفائے راشدین کے نام نہایت خوشخط اور نہایت گرا ں ڈیل طشتریوں پر آویزاں کیے گئے ہیں۔ کہ یہ کلیسا مسجد کا روپ دھار لے۔ قالین جائے نماز کے نقش و نگار لیے ہے۔ وہ بھی اسی لیے۔ اور پھر آپ کو گنبد میں وہ چادریں نظر آتی ہیں جو بعض مقامات پر تان دی گئی ہیں۔ انسان تجسس کا مارا تو ہے۔ اور وہ سیاح ہو تو یہ تجسس اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اور کسی عمارت کے اندر جانے کے لیے پیسے خرچ ہوئے ہوں تو آپ اس تجسس کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ آپ اسی تجسس میں ان چادروں کے پیچھے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور آپ زاویہ نگاہ بدل بدل کر اس کے پیچھے دیکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اور کیا دیکھتے ہیں کہ پیچھے حضرت عیسیٰ ابن مریم اور مریم ام عیسیٰ کی وہ تصاویر ہیں جو آیا صوفیہ کے گنبدوں میں رومی نقش کاروں نے کندہ کی تھیں۔ اس کلیسا کی عمر تقریباً اتنی ہی ہے جتنی آنحضورﷺ کی۔ بلکہ کچھ سال زیادہ کیونکہ یہ ۵۳۲ء سے ۵۳۷ء کے درمیان تعمیر ہوا۔ یہ سلطنتِ مشرقی روم یعنی بازنطینیوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے۔ بازنطینی بادشاہ عیسائیت کے علمبردارتھے اور جہاں جاتے وہاں کلیسا ضرور تعمیر کرلیتے۔ سلطنت اکسوم، یعنی حبشہ بھی ایک عیسائی سلطنت تھی جو بازنطینی آشیرباد پر کاروبارِ سلطنت چلاتی تھی۔ جنوبی عرب کا علاقہ، موجودہ یمن، جب اکسوم کے زیرتسلط آگیا تو وہاں شاہ اکسوم، جو نجاشی کہلاتا تھا، کے وائسرائے ابرہہ نے ایک بڑا سا کلیسا قائم کیا۔ مگر مکہ مکرمہ میں قائم کعبۃاللہ مرجع خلائق بنا رہا اور ابرہہ نے اپنے کلیسا کی بالادستی قائم کرنے کی خاطر کعبہ پر حملہ کا منصوبہ بنایا۔ یہ بھی تقریباً اسی زمانے کی بات ہے جب آیا صوفیہ وجود میں آیا۔ تقریباً چالیس سال بعد، سنہ ۵۷۰ء میں۔ وہ حملہ کیسے ناکام ہوا، ہم یہاں اس کی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ بس یہ بتائیں گے کہ کہیں آیا صوفیہ جیسا عظیم کلیسا وجود میں آرہا تھا۔ کہیں عرب کی زمین پر صنعا کا عظیم کلیسا قائم ہورہا تھا۔ اور اسی زمانے میں محمد رسو ل اللہ ﷺ کی ولادت ہوئی۔ یعنی زہر پھیل رہا تھا، تو خدا نے تریاق بھی بھیج دیا۔ نیلی مسجد ، جو Blue Mosque کے نام سے زیادہ معروف ہے آیا صوفیہ کے بالکل بالمقابل واقع ہے۔ اصل نام مسجد سلطان احمد ہے جو عثمانی سلطان احمد ثانی نے تعمیر کروائی اور اپنے نام سے موسوم کی۔ یہ مسجد نہ دن میں نیلی نظر آئی۔ اور نہ رات کو۔ رات کواس پر سرخ روشنیوں کی چادر تان دی جاتی ہے۔ وہ تو اس کے اندر جا کر معلوم ہوا کہ اندر سب نقش و نگار فیروزی رنگ کے ہیں۔ جسے انگریزی میں turquoise رنگ کہتے ہیں۔ یعنی ترک نیل۔ آپ چاہے سیاحوں کے ہجوم کے اوپر تنے تاریخ کے بادلوں میں جایا کریں، سیاحوں کا ہجوم جیت جاتا ہے۔ اور آپ ان مقامات سے الگ ہونا چاہتے ہیں۔ وہ زمانے بھی لَد گئے جب ایسے مقامات پر فوٹو گرافر پھرا کرتے اور آپ کی تصویر ان مقامات کے باہر بنا کر تصویر آپ کو بیچاکرتے۔ اب تو ہر ہاتھ میں کیمرہ ہے اور ہرآدمی فوٹوگرافر۔ تو اس مسجد میں آپ کودستِ دعا تو کم ہی دراز نظر آئے گا،اور آپ سیلفی لینے کے لیے دراز کی ہوئی بانہوں سے بچتے بچاتے کہیں اور جانا چاہیں گے۔ مگرمیں ان مقامات پر آنکلا تھاکہ یہ استنبول کے گویا نمائندہ مقامات ہیں۔ خود دیکھنے میں بھی دلچسپی تھی اور واپسی پر اپنے بچوں کو جواب بھی تو دینا تھا کہ آیا صوفیہ اور نیلی مسجد دیکھ کر آئے کہ نہیں۔ میری اصل منزل سلطان عبدالحمید ثانی کا مقبرہ تھا۔ وہ سلطان عبدالحمید جس کے دور میں سلطنتِ عثمانیہ کے تخت کے پائے لرزرہے تھے۔ مغربی طاقتیں زور پکڑچکی تھیں۔ ترکی میں بیداری کی لہر پھیل رہی تھی۔ یورپ میں بادشاہی نظام کے خلاف چلنے والی ہوا ترکی کے نوجوان اور ترقی پسند دماغوں کو بھی چھو گئی تھی۔ وہ بھی بادشاہت سے بیزاری کا اعلان کرچکے تھے، خواہ وہ خلافتِ اسلامیہ کے نام پرہی کیوں نہ ہو۔ جیسے مغرب میں بادشاہت کے مٹانے کے لیے عیسائیت سے بیزاری کا اعلان ہوا، اسی طرح ترکی کی نسلِ نو بادشاہت سے نجات حاصل کرنے کے لیے اسلام تک کو تیاگ دینے کے لیے تیار تھی۔ سلطان عبدالحمید ثانی نے اپنے کارندے مسلم دنیا میں روانہ کیے کہ خلافت کی ناموس کے نام پر مسلمانوں کو سلطنتِ عثمانیہ کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے تحریک چلائیں۔ یہ کارندے ملکوں ملکوں اور شہر وں شہروں گئے اور اس کوشش میں مصروف ہوگئے۔ ایسا ہی ایک کارندہ، کہ حسین کامی اس کا نام تھا اور بادشاہ کا معتمد تھا، ہندوستان کے شمالی علاقوں میں مصروف عمل تھا۔ وہ بارسوخ مسلمان لیڈروں سے ملتا اور خلافتِ عثمانیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کی ترغیب دیتا۔ اس سفر میں وہ قادیان بھی پہنچا اور بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ سے بھی ملا۔ اس ملاقات میں حضرت مسیح موعودؑنے اسے صاف بتا دیا کہ وہ خود اوران کی جماعت آسمانی بادشاہت کے ماننے والے ہیں۔ اور کسی بادشاہ کے ساتھ دنیاوی گٹھ جوڑ کرنا اس جماعت کی سرشت میں نہیں۔ اور یہ بھی بتا دیا کہ سلطنتِ عثمانیہ کے دن پورے ہوچکے۔ جاؤ جا کر بتادو اپنے سلطان کو! حسین کامی ناکام و نامراد کراچی گیا جہاں عثمانی قونصل خانے میں وہ تعینات تھا اور سلطان کو احوال لکھ بھیجا۔ میں عبدالحمید ثانی کے مقبرے پر اسی لیے جانا چاہتا تھا کہ اس کے ذریعے ایک نشان ظاہر ہوا۔ اس کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کبھی سنبھل نہ سکی اور اپنے ہی ملک کے لوگوں نے سلطان عبدالحمید ثانی کو تقریباً معزول کردیا۔ اس کے بعد جو سلاطین آئے وہ علامتی بادشاہ اور نام کے خلفا ٹھہرے۔ اور پھر خلافت عثمانیہ کا قصہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ جب یہ قصہ ختم ہو رہا تھا، تب بانیٔ جماعت احمدیہ تو موجود نہ تھے کہ ان کی وفات ۱۹۰۸ء میں ہوچکی تھی۔ ان کے فرزند اور خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ امتِ مسلمہ کی فلاح و بہبود پر کمر بستہ تھے۔ آپؓ نے تلقین فرمائی کہ سلطنتِ عثمانیہ کو بچانے کے لیے ہم بھی خواہش مند ہیں کہ یہ ایک مسلم سلطنت ہے۔ مگر خلافت کے نام پر چلنے والی تحریکات کارگر نہ ہوں گی کہ یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی خلافت ہے ہی نہیں۔ اگر اس دنیوی سلطنت کو بچانے کی تحریکات خلافتِ رسولؐ کے نام پر چلیں تو یقیناً ناکام ہوں گی۔ اور پھر وقت نے ثابت کردیاکہ ایسا ہی ہوا۔ مگر یہ پیشگوئیاں جن کا اوپر ذکر ہوا دراصل آنحضورﷺ کی بیان فرمودہ پیشگوئیاں تھیں۔ قسطنطنیہ نے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونا تھا۔ مگر یہ وہ آخری فتح نہ ہونی تھی جس کا وعدہ ہے۔ پیش گوئی کا وہ حصہ ہنوز پورا ہونا باقی ہے۔ پھر اپنی خلافت کے بارے میں آنحضورﷺ کی پیشگوئی تھی کہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کچھ عرصہ رہے گی۔ پھر ملوکیت میں تبدیل ہو جائے گی۔ پھر سنگدل بادشاہتیں ہوں گی۔ پھر یہ ادوار بھی گزر جائیں گے۔ اور پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا قیام ہوگا۔ سو ملوکیت اور بادشاہت کے رنگ کی آخری نام نہاد خلافت، سلطنتِ عثمانیہ تھی۔ اس کے ساتھ ریاست اور سلطنت والی خلافتوں کے دور کا اختتام ہوا۔ اب خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے قیام کا زمانہ آپہنچا تھا۔ سلطنتِ عثمانیہ زوال ظہور پذیر تھی کہ خلافتِ احمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔ نہ دنیوی ریاست۔ نہ زمینی سلطنت۔ صرف روحانیت کا پیغام۔ وہی پیغام جو اسلام کے دورِ اولیٰ کے مکی دور کا پیغام تھا۔ جو اصل پیغام تھا۔ محمد رسول اللہﷺ کا اصل پیغام۔ حجۃ الوداع کے آخری پیغام کی نشاۃ ثانیہ۔ وہاں ان سلاطین کی باقیات دیکھ کر، بلکہ یوں کہیں کہ خلافت کے نام پر حکومت کرنے والی دنیوی سلطنت کے آثار دیکھ کر جو اب صرف عجائب گھروں کی زینت ہیں، کچھ جذبات نظم کی شکل میں ڈھل گئے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مسئلہ وفات مسیح ؑکی اہمیت