https://youtu.be/uyQmbv1WqBQ (بر اعظم افریقہ کے بعض ایمان افروز واقعات) احباب کو بارش میں بھیگتا دیکھ کر حضور بھی احباب کی محبت کی وجہ سےاسی بارش میں بھیگتے خود بھی سٹیج پر تشریف لے آئے محبت دو طرفہ جذبے کا نام ہے، جو دونوں فریقین کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے عزت، تعظیم اور تکریم کے جذبات پیدا کرتی ہے۔ کسی انسان کے دل میں اپنے سے بڑی اور معزز ہستی کے لیے ایسے جذبات پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ تاہم، اس محبت کا دیرپا اور مضبوطی سے قائم رہنا ایسا معاملہ ہے جس کی ضمانت دینا آسان نہیں۔دنیا میں پیر و مرید کا تعلق اکثر عزت و احترام سے شروع ہوتا ہے، جو وقت کے ساتھ عقیدے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اور جب پیر ایسا شخص ہو جسے اللہ تعالیٰ نے خود منتخب فرمایا ہو، تو محبت کا یہ رشتہ رفتہ رفتہ عشق میں ڈھل جاتا ہے۔تصوف کی رُو سے، اس قسم کی محبت میں زماں و مکاں کی قیود باقی نہیں رہتیں۔ روح، روح سے ایسا پاکیزہ تعلق قائم کر لیتی ہے کہ انسان کی محبت عشق کا رنگ اختیار کر کے عقیدت کی انتہا کو چھو لیتی ہے۔ فی زمانہ جماعت احمدیہ میں قائم نظامِ خلافت ایک روشن خدائی نظام ہے کہ دنیا بھر سے خلافت کے شیدائی اور فدائیان پروانے کی مانند اس کے گرد اکٹھے ہونے کے خواہشمند ہیں۔ آج آپ کو بر اعظم افریقہ کے ان محبان کے عشق و محبت کے چند قصے بتاتے ہیں جو دنیا کی نظر میں تو ایک پسماندہ طبقہ ہےلیکن خدا اور اس کے چنیدہ خلیفہ کے دل میں ان کے پیار اور محبت کے اظہار کی عظمت کس طرح قائم ہے۔ براعظم افریقہ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ دور اول میں بھی یہ پہلا بر اعظم تھا جہاں رسول کریم ﷺ کی حین حیات اسلام کا پیغام پہنچا وہیں اسلام کی نشأة ثانیہ کے دور میں بھی اسی بر اعظم کے حصے میں یہ سعادت آئی کہ مسیح پاک کی زندگی میں ہی ایک منظم جماعت یہاں قائم ہوئی۔ اس براعظم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ خلافت احمدیہ کے پانچوں ادوار میں یہاں اس کے محبین پہلے سے موجود رہے ہیں۔ خلافتِ ثانیہ کے دور میں مختلف ممالک میں احمدیت کے پیغام کی اشاعت ہوئی اور مشرقی کنارے سے پھوٹنے والی عشق کی لہر مغربی افریقہ میں پہنچ گئی۔ الفضل اور اس وقت کے دیگر اخبارات و رسائل میں مطبوعہ مبلغین کی رپورٹس میں یہ بات عیاں ہے کہ کس طرح افریقن احمدی ایک اَن دیکھی محبت اور عشق میں مبتلا تھے۔ سینکڑوں ہزاروں احمدی حضرت خلیفةالمسیح الثانی ؓکی خدمت میں دعائیہ خطوط یا پیغامات بھجواتے اور پھر جواب پا کر خوشی سے نہال ہوجاتے۔ سیرالیون کے ایک افریقن بزرگ ربوہ کی جانب اشارہ کرکے کہتے تھے کہ میرا جسم تو یہاں ہے لیکن میری روح وہاں رہتی ہے۔ یہ خلافت سےمحبت ہی تھی کہ خلیفۂ وقت کے نمائندہ مبلغ کی جانب سے کی جانے والی تحریک پر یہ محبینِ خلافت کبھی مسجد کی تعمیر تو کبھی پریس کی تعمیر کے لیے زمین، مکان اور سینکڑوں پاؤنڈز کی قربانی کے لیے تیار ہوجاتے۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے مغربی افریقہ کے دورہ کے دوران افریقن احباب کی محبت کا یہ عالم تھا کہ کئی کئی گھنٹے دھوپ میں کھڑے رہتے۔ حضورؒ کے چہرے پر نظر پڑتے ہی ان کی تمام تھکان کافور ہو جاتی اور تازہ دم ہو کر نعرے لگانے شروع ہو جاتے۔ حضرت خلیفةا لمسیح الثالثؒ نے ۲۴؍اگست۱۹۸۰ء کو اکرا، گھانا میں مشن ہاؤس میں مسجد کا افتتاح فرمایا۔اس اثنا میں ابھی حضور تشریف نہ لائے تھے کہ تین بجے کے قریب بارش شروع ہو گئی اور اس کے ساتھ ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔ اس علاقہ میں بارش کے ساتھ جب ہوا چلنے لگے تو یکدم شدید ٹھنڈ ہو جاتی ہے اور لوگ گھروں کے اندر تو آگ بھی جلا لیتے ہیں۔ بارش شروع ہونے سے قبل ہزاروں افراد کو جو حضور کے انتظار میں تھے یہ ہدایت کی گئی کہ حضور تشریف لانے والے ہیں اس لیے کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ اس اثنا میں بارش شروع ہو گئی مگر خلیفۂ وقت سے وارفتگی اور محبت کا یہ عالم تھا کہ کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلا اور اس دوران عربی نظمیں مقامی زبان میں مسیح کی آمد کے متعلق پڑھی جاتی رہیں۔ کورس کے رنگ میں دعائیں پڑھی گئیں۔ سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر اور تسبیحات و تکبیرات کا ورد جاری رہا۔ کبھی کبھی کوئی نعرہ بھی لگا دیتا۔ جماعت کے انتظام کا یہ عالم تھا کہ ہزاروں ہزار لوگوں کا انتظام کرسیوں پر کیا گیا تھا۔ بارش جاری تھی اور لوگ آرام و سکون سے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران جبکہ بارش پورے زور سے جاری تھی حضور تشریف لے آئے، احباب کو بارش میں بھیگتا دیکھ کر حضور بھی احباب کی محبت کی وجہ سے اسی بارش میں بھیگتے خود بھی سٹیج پر تشریف لے آئے۔ حضور کی شیروانی مبارک بارش میں بھیگ گئی اور اسی عالم میں زبردست نعروں کے جلو میں حضور نے احباب کو خطاب فرمایا۔(روزنامہ الفضل خاص نمبر ۲۶ اکتوبر ۱۹۸۰ء صفحہ۲۳) حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے دورہ افریقہ کے موقع پر ایسی ہی محبت کا اظہا رہوا کہ حضور رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ایک اور بات بڑی اہم یہ ہے کہ جماعت کا جو ذاتی تعلق خلیفہ وقت سے ہوتا ہے اور خلیفہ وقت کو جو گہری محبت اپنی جماعت سے ہے اس کا کوئی دوسرا عالم دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا کہ وہ رشتہ ہے کیا ؟ اس قدر گہرا محبت اور پیار کا رشتہ ہے کہ خونی رشتوں میں اس کی مثال نہیں ملتی اور ایسی فدائیت ہے دوسری طرف سے بھی جماعت کی طرف سے بھی کہ اس کا کوئی نظارہ اور جگہ دکھائی نہیں دے سکتا۔‘‘(خطباتِ طاہر جلد ۷ صفحہ ۱۱۰) مصافحہ کی لمبی قطاریں، معانقہ کا شوق، امامِ وقت کی قربت کے بابرکت لمحات کو لفظوںمیں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ کے اوراق نے اس محبت کو اپنے اندر سمو لیا۔ حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۸ء میں افریقہ کا دورہ فرمایا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ مصافحے کے لیے لوگ لائن میں تھے ایک شخص نے ہاتھ بڑھایا اور ساتھ ہی جذبات سے مغلوب ہو کر رونا شروع کر دیا۔ کیا یہ تعلق، یہ محبّت کا اظہار، ملوک یا بادشاہوں کے ساتھ ہوتا ہے یا خدا کی طرف سے دلوں میں پیدا کیا جاتا ہے۔ ایک صاحب پرانے احمدی جو فالج کی وجہ سے بہت بیمار تھے، ضد کرکے ۴۰-۵۰کلومیٹر یا میل کا فاصلہ طے کرکے مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ اور فالج سے ان کے ہاتھ مڑ گئے تھے، ان مڑے ہوئے ہاتھوں سے اس مضبوطی سے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑاکہ مجھے لگا کہ جس طرح شکنجے میں ہاتھ آ گیاہے۔ کیا اتنا تردّد کوئی دنیا داری کے لیے کرتا ہے۔ غرض کہ جذبات کی مختلف کیفیات تھیں۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍ مئی ۲۰۰۵ء) محترم عبد الماجد طاہرصاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر رقم طراز ہیں کہ ۲۲؍مارچ ۲۰۰۴ء کو حضور انو ر وا (Wa) اپرویسٹ ریجن (Upper West Region) کے لیے روانہ ہوئے۔ قریباً چھ گھنٹے کے طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد حضور انورپونے تین بجے Wa مشن ہا ؤ س پہنچے۔ ٹیچی مان سے وا (Wa)جانے والی ۱۹۵ میل لمبی سٹرک میں سے ۷۱میل کا حصہ کچا ہے اور اتنی گردپائی جاتی ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ کدھر جا رہے ہیں۔ نہ اگلی گاڑی نظر آتی ہے نہ پچھلی۔ اس گردوغبار میں اندازہ لگا کر ہی سڑک پر رہنا پڑتا ہے۔ سڑک میں چھوٹے چھوٹے گڑ ھے ہونے کی وجہ سے اس قدر جھٹکے لگتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ یہ ۷۱ میل کا سفر قریباً چار گھنٹے میں طے ہوا۔ اگر یہ حصہ، پختہ سڑک پر مشتمل ہوتا تو وا کا سارا سفر تین ساڑھے تین گھنٹے کابنتا ہے۔ حضور انور کی گاڑی مسلسل ’’WA‘‘ کی جانب عازم سفر تھی۔ وا کی حدود میں داخل ہوئے تو سڑک کے دونوں طرف خدام اورلجنہ نے نعرہ ہائے تکبیر سے حضور انور کا استقبال کیا۔ مشن ہا ؤ س تک پہنچنے کے لیے ابھی دو میل کا سفر باقی تھا۔ اس سارے راستے میں احباب جماعت مختلف گروپس اور ٹولیوں کی شکل میں حضور انور کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ سڑکوں پر خوش آمدید اور اھلاًوسھلاً ومرحبا کے بینرز لگے ہوئے تھے۔ حضور انور کی گاڑی مشن ہا ؤ س پہنچی تو احمدیوں کی بھاری تعداد حضو ر کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ سب احمدی احباب سفید لباس میں ملبوس نعرہ ہائے تکبیر لگا رہے تھے اور اھلاًوسھلاًومرحبا کے الفاظ پڑھ رہے تھے۔ خدام کی حضور انور سے وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ حضور کی گاڑی مٹی سے اٹی پڑی ہے تو وہ گاڑی کے دونوں طرف بھاگنے لگے۔ بھاگتے بھاگتے حضورانور کی چلتی ہوئی گاڑی مشن ہا ؤ س میں پہنچنے سے پہلے ہی صاف کر ڈالی۔ حضور انور کے استقبال کے وقت لا ؤ ڈ سپیکر پر، احمدیت زندہ باد اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس زندہ باد کے نعرہ ہائے تکبیر بلند کیے جا رہے تھے۔ حضور انور لجنہ کی طرف بھی تشریف لے گئے اور ہاتھ ہلا کر ان کے والہانہ نعروں کا جواب دیا۔ حضور انور نے Elders کو بھی جو ایک قطار میں کھڑے تھے شرف مصافحہ بخشا۔(دورہ افریقہ نمبر الفضل ربوہ ۲۸؍دسمبر ۲۰۰۴ء) خلافت احمدیہ حقہ سے یہ محبت جہاں ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ پلائی جاتی ہے وہیں باپ اسی محبت کی گڑھتی دیتا ہے پھر نسلاً بعد نسلٍ یہ محبت منتقل ہوتی جا رہی ہے۔ یکم مئی ۲۰۰۴ء کو مغربی افریقہ سے واپسی پر لجنہ اماء اللہ یوکے کی ریسیپشن کے موقع پرحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب میں فرمایا کہ ’’ خلیفۂ وقت سے جو محبت کا اظہار ان کی آنکھوں میں نظر آتا تھا، کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ ان پڑھ لوگ ہیں۔ یا بہت Remoteعلاقے کے، دور دراز گاؤں کے، جہاں سڑکیں بھی نہیں پہنچی ہوئیں تکلیفیں اٹھا کرسفر کر کے یہاں آئے ہیں صرف دیکھنے کے لیے۔ تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے کہ مَیں تیری جماعت قائم کروں گا جو نیک لوگوں کی جماعت ہوگی اور دنیا پر غالب آئے گی۔ بچوں کے اندر بھی وہی روح تھی۔ مختلف ممالک میں مختلف طریقہ تھا اظہار کا،لیکن ہر جگہ یونہی جذبات ظاہر ہوتے تھے لگتا کہ جس طرح ان کو ایک ہمیشہ سے، ایک ہوتا ہے ایک تعلق ایسا پیدا ہو جاتا ہے، آدمی بہت قریب رہے تو تعلق پیدا ہوجاتا ہے، پہلی دفعہ دیکھنے کے باوجود بھی ان کووہ تعلق ان کی نظروں میں نظر آرہا تھا اور اظہار ہورہا تھاکہ حیرت ہوتی تھی۔ بچوں میں، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں وہ اتنی محبت کا اظہار کرتے تھے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اب کسی بچے کو اگر مَیں نے پیار کردیا تو خلافت سے محبت کی وجہ سے وہ عورتیں اردگرد کی جتنی کھڑی ہو تی تھیں وہ اس بچے کو پیا ر کرنے لگ جاتی تھیں۔ تو یہ ان کے اظہار تھے محبت کے۔ حضور نے فرمایا کہ سیکیورٹی کا گورنمنٹ کی طرف سے بھی بڑا انتظام تھا لیکن اس کے باوجود چھوٹے چھوٹے بچے ان کو ڈاج دے کر دائیں بائیں سے نکل کر آکے چمٹ جایا کرتے تھے اور لوگ دیکھتے رہ جاتے تھے۔ تو یہ محبت ہے ان کی اور اس سے دل کو تسلّی ہوتی ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ الٰہی وعدے جو ہیں وہ ضرور پورے ہو کر رہیں گے۔ اور ایک دن تمام دنیا پر احمدیت کا اور اسلام کا غلبہ ہو گا۔ لیکن یہ سب کچھ تبھی ہوگا جب ہم خلافت کے نظام سے وابستہ رہیں گے اور خلافت کے ہر حکم پر لبیک کہنے کو اپنے ذاتی کاموں پر ترجیح دیں گے۔‘‘ ۲۰۰۸ء میں جلسہ سالانہ گھانا کے موقع پر جلسہ پر احباِب جماعت نے کشائش نہ ہونے کے باوجود بھی رختِ سفر باندھا کہ وہ اپنے امام کا دیدار کر سکیں۔ ان کے مشکل سفر کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ نے خطبہ جمعہ ۹؍مئی ۲۰۰۸ء میں خصوصی ذکر فرمایا۔ اور بھی کئی واقعات پیش فرمائے۔ چند اختصار کے ساتھ پیش ہیں: بورکینا فاسو سے خدام سائیکلوں پر سوار ہو کر، مختلف جگہوں پر پڑاؤ کرتے ہوئے، سات دن مسلسل سفر کرتے رہے اور یہاں پہنچے۔ ان سائیکل سواروں میں ۵۰ سے ۶۰ سال کی عمر کے سات انصار بھی شامل تھے اور ۱۳ اور۱۴ سال کے دو بچے بھی شامل تھے۔ گیمبیا سے ۲۲ افراد کا ایک وفد آیا تھا جو غربت کی وجہ سے By Air تو سفر نہیں کرسکتے تھے، بس کے ذریعہ ان لوگوں نے سفر کیا۔ تین ملکوں سینیگال، مالی اور بورکینافاسو، یہ بڑے بڑے ملک ہیں ان میں سے گزرتے ہوئے پانچ دن میں سات ہزار کلو میٹر کا سفر طے کرکے یہ گھانا پہنچے۔ اور مقصد یہ تھا کہ حضور انور ایدہ تعالیٰ کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔ ابینگرو ریجن آئیوری کوسٹ کی ایک جماعت نے عزم کیا کہ کیونکہ خلافت کے سو سال مکمل ہو رہے ہیں تو اس مناسبت سے ہمارے گاؤں سے ۱۰۰؍افراد کا وفد جلسہ سالانہ غانا میں شرکت کرے گا۔ یہ انتہائی غریب لوگ ہیں لیکن ان کے عزم کے سامنے پہاڑ بھی ہیچ تھے۔ انہوں نے ارادہ کیا کہ جلسہ سالانہ غانا سے چھ ماہ قبل ایک کھیت اس مقصد کے لیے تیار کریں گے اور اس کی ساری آمد جلسہ سالانہ غانا کے لیے ٹرانسپورٹ پر خرچ کریں گے۔ تو انہوں نے کچھ فصل بوئی۔ اللہ تعالیٰ بھی پھر ایسے مخلصین کے کاموں پر پیار کی نظر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی فصل میں برکت ڈالی اور ایسی برکت پڑی کہ نہ صرف ان ۱۰۰؍ کے اخراجات پورے ہوئے بلکہ زائد آمد ہوئی اور ۱۰۰؍کی بجائے ۱۰۳؍افراد وہاں سے آئے۔ آئیوری کوسٹ کے ایک ریجن کی دو بچیاں جن کی ۱۲-۱۳ سال کی عمر تھی اپنے حصے کے ٹرانسپورٹ اخراجات جمع کروانے آئیں اور کہا کہ جس روز سے خلیفۃ المسیح کے غانا آنے کی خبر ہمیں ملی ہے، اسی روز سے ہم نے ایک کھیت میں کام کرنا شروع کر دیا تھا کہ ہم جیسے غریب اور بے سرمایہ لوگ خلیفۃالمسیح کے دیدار سے فیضیاب ہو سکیں اور اپنے سفر کے لیے محنت کرکے یہ پیسے کمائے ہیں۔ یہ آپ رکھ لیں اور ہمارے سفر پر خرچ کریں۔ آئیوری کوسٹ کی ایک خاتون حبیبہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لیے آئیں۔ وہ بڑی سخت بیمار تھیں۔ ان کو ٹی بی کی یا اس طرح کی کوئی اور بیماری تھی۔ ان کے بھائی اور خاوندنے بتایا کہ جب اپنے گاؤں سے جلسے کے لیے چلی ہیں تو اپنے گھر والوں کو انہوں نے کہہ دیا کہ مَیں اپنی بیماری کے باوجود خلافت جوبلی کے جلسے میں شرکت کرنے جا رہی ہوں اور ہو سکتا ہے کہ ملاقات کے بعد مَیں واپس نہ آؤں اور مجھے لگتا ہے کہ میں واپس نہیں آؤں گی اس لیے میری غلطیاں معاف کردو۔ وہ شدید بیمار تھیں اور وہاں آکربیماری اور زیادہ بڑھ گئی۔ سفر کی تھکان بھی تھی۔ اسی بیماری کی حالت میں لمبا سفر اور گرمی کا سفر، حضور انور سے ان کی ملاقات ہو گئی اور ایک دن کے بعد ان کی وفات ہو گئی، حضور انور نے ان کا وہیں جنازہ پڑھایا اور وہ وہیں دفن بھی ہوئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ عورتوں کا جوش بھی دیدنی تھا۔ نماز کے بعد واپس گھر تک تقریباً ایک کلو میٹر کا فاصلہ تھا۔ رینگتی ہوئی گاڑی گزرتی تھی۔ دو رویہ عورتیں کھڑی ہوتی تھیں، مرد کھڑے ہوتے تھے۔ بچوں کو اٹھایا ہوتا تھا۔ ان سے سلام کرواتی تھیں۔ محبت یوں ٹپک رہی ہوتی تھی کہ جیسے دو سگے بہن بھائی یا بھائی بھائی آپس میں مل رہے ہیں۔ فرمایا کہ پس یہ ہیں گھانین عورتیں اور مرد۔ عورتوں کی تعداد بھی کم از کم ۵۰؍ہزار تھی جو خلافت سے اخلاص و محبت کے ساتھ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنا جانتی تھیں اور کر رہی تھیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ خداتعالیٰ کا دائمی خلافت کاو عدہ ہے اور جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی خلافت کی محبت نسل درنسل چلتی چلی جائے گی۔ بینن (Benin) کے ایک فرانسیسی زبان بولنے والے صحافی نے جلسہ سالانہ یو کے کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے کہاکہ جب سے میں یہاں آیا ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے لوگ آپ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ وہ آپ کی عبادت نہیں کرتے، مگر ان کے دل خلیفہ سے محبت سے لبریز ہیں۔ اور اسی طرح لگتا ہے کہ آپ بھی ہر احمدی سے خلوص سے محبت کرتے ہیں اور آپ کا ہر ایک سے ذاتی تعلق ہے۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’یہ احمدیت کی صداقت کی نشانی ہے کہ خلافت اور احمدیوں کے درمیان ایک دائمی روحانی تعلقِ محبت قائم ہے۔ یہ تعلق فطری ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے احمدی مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کیا گیا ہے۔ یہ اسی دو طرفہ محبت کا تسلسل ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے درمیان قائم تھی۔‘‘ (ماخوذ از ڈائری جلسہ یو کے ۲۰۱۶ء، حصہ چہارم) ایک اور جگہ محترم عابد وحید خان صاحب (انچارج مرکزی پریس اینڈ میڈیا آفس) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’تم میرے ساتھ ۲۰۰۸ء کے دورۂ افریقہ میں تھے، اس لیے تم نے افریقہ کے احمدیوں کو بھی دیکھا ہے اور اب تم نے مشرقِ بعید کے احمدیوں کو بھی دیکھ لیا ہے۔ تمہیں اندازہ ہو گیا ہوگا کہ خلافت سے محبت ایک عالمگیر جذبہ ہے، جو صرف پاکستانی احمدیوں تک محدود نہیں۔‘‘ (ماخوذ از ڈائری سنگاپور ۲۰۱۳ء ) آج کے دور میں خلافتِ احمدیہ کے ان شیدائیان کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ایم ٹی اے کی نعمت سے اس محبت کا اظہار اور بھی نمایاں ہو گیا ہے۔ مشرق میں کینیا، تنزانیہ ہو یا مغرب میں گھانا، سیرالیون۔ شمال کے الجزائر اور مراکش جیسے عرب ممالک ہوں یا جنوب میں ساؤتھ افریقن ممالک ہیں۔ مشرق میں ماریشس، مڈغاسکر اور مایوٹ آئی لینڈ جبکہ مغرب میں ساؤتومے اینڈ پرنسپ جیسے چھوٹے ممالک، سب میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کے عشاق پیدا کر دیے ہیں اور یہ خود خلافت احمدیہ کی صداقت کی ایک دلیل ہے۔ اس بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ میں افریقن احباب سے اس پیارو محبت کا اظہار پیش ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’یہاں ایک اور بات مَیں بیان کرنے سے نہیں رہ سکتا کہ آپ میں خلافت سے محبت اور وفا کا جذبہ قابل تعریف ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تقویٰ پر قائم رکھتے ہوئے اس مضبوط بندھن کو اَور مضبوط کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور مجھے بھی آپ سے پہلے سے بڑھ کر محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ مجھے پیارے ہیں اس لیے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت وجود کی سر سبز شاخیں ہیں۔ اور ہر وہ شخص مجھے پیارا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔ اور آپؐ کے روحانی فرزند سے آپؐ سے محبت کی وجہ سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے یہ سب تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘(خطبہ جمعہ ۱۳؍ مئی ۲۰۰۵ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: کیا جنگیں تنازعات کا حل ہوا کرتی ہیں؟