امام کی آواز کے مقابلہ میں افراد کی آواز کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ تمہارا فرض ہے کہ جب بھی تمہارے کانو ںمیں خدا تعالیٰ کے رسول کی آواز آئے تم فوراً اُس پر لبیک کہو اور اُس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑو کہ اسی میں تمہاری ترقی کا راز مضمر ہے (المصلح الموعودؓ) اسلام کے دورِ اوّل کو چشمِ تصور میں لائیں تودل ودماغ ایک روح پرور منظرسے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔ مسلمانوں میںجب تک خلافت راشدہ قائم رہی وہ روحانی اور دنیوی اعتبار سے دنیا کی راہنمائی اور قیادت کے علمبردار رہے۔قرون اولیٰ کی پہلی تین صدیوں (خیرالقرون) کے بعد جب خالصتاً دنیاوی بادشاہتیں قائم ہوگئیں تب دینی اور اخلاقی اقدار تیزی سے پامال ہونے لگیں اور ہوتے ہوتے حالات ظَھَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ بِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِی النَّاسِ(الروم:۴۲) کا نقشہ پیش کرنے لگے۔ اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ تھا کہ ترقیات وبرکات کی کلید ( نظام خلافت) اُن کے ہاتھ سے جاتی رہی اور امت مسلمہ یوسف بے کارواں بن کے رہ گئی۔ شیرازہ بندی اور وحدت کی جگہ انتشار و افتراق نے لے لی۔وہ جوکبھی ایک جماعت ہوتی تھی محض ایک بِھیڑ بن کر رہ گئی۔ خلافت سے محرومی کے درد اور قلق کو آج تک شدّت سے محسوس کیا جارہا ہے۔جیسا کہ درج ذیل بیانات سے ظاہر ہے:’’امت کا اندرونی نظام پاش پاش ہوچکا ہے …مسلمانوں کا اس وقت نہ کوئی امیر ہے اور نہ ہی ان کے امور کا محافظ کوئی خلیفہ ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آخری رسول کی امت پر کفار ومشرکین نے ہر طرف سے ہلہ بول رکھا ہے۔ ایسی سنگین صورتحال میں معمول کی زندگی جینے کاخیال عبث ہے۔ ‘‘( خلافت تمام مسائل کا حل۔ پیش لفظ از راشد نیاز۔ نئی دہلی ۱۹۹۹ء صفحہ ۷،۶) امیر جماعت اسلامی لاہور نے کہا کہ ’’ایک وقت تھا کہ مٹھی بھر مسلمانوں سے قیصر وکسریٰ کے بادشاہ بھی مرعوب تھے۔ آج ہم ہیں کہ ۷۵کروڑ کی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ ‘‘( نوائے وقت لاہور،۱۷؍جولائی ۱۹۷۵ء ) مشہور صحافی م۔ش تحریر کرتے ہیں کہ ’’پاکستان کے مقاصد کی تکمیل پارلیمانی یا صدارتی نظام ہائے حکومت رائج کرنے سے نہیں بلکہ خلافت کے قیام سے ہی کی جاسکتی ہے۔‘‘ (روزنامہ نوائے وقت لاہور۔ ۲۱؍مارچ ۱۹۶۷ء ) ایڈیٹر ’تنظیم اہلحدیث ‘ لاہور لکھتے ہیں :’’اگر زندگی کے ان آخری لمحات میں بھی ایک دفعہ خلافت علیٰ منہاج نبوت کا نظارہ نصیب ہوگیا تو ہوسکتا ہے کہ ملت اسلامیہ کی بگڑی سنور جائے اور روٹھا ہوا خدا پھر سے مان جائے اور بھنور میں گری ہوئی ملت اسلامیہ کی یہ نائو شاید کسی طرح اس کے نرغہ سے نکل کر ساحل عافیت سے ہمکنار ہوجائے۔ ‘‘(ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث لاہور ۱۲؍ستمبر ۱۹۶۹ء) ماہنامہ جدو جہد لاہور لکھتا ہے:’’مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک تیس ممالک کا ایک عظیم اسلامی بلاک صرف اتحادو اتفاق کی نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے مغربی اقوام سے پٹ رہا ہے۔اب وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہوکر اس دشمن اسلام اقوام متحدہ کو چھوڑ کر خلافتِ اسلامیہ کا احیا کریں۔‘‘(ماہنامہ جدوجہد لاہور۔اگست ۱۹۷۴ء) اقبال کہتا ہے: تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی ! پھر ایک اور جگہ کہا: تا خلافت کی بِنا دنیا میں ہو پھر استوار لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایاہے : ھُوَالَّذِیۡٓ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡھُدٰی وَدِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡھِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَلَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ(التوبہ:۳۳) وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے سب دینوں پر غالب کردے خواہ مشرک کیسا ہی ناپسند کریں۔اس آیت میں غلبۂ اسلام کی جو پیشگوئی کی گئی ہے تمام مشہور مفسرین کے نزدیک یہ غلبہ آخری زمانے میں مسیح موعود کے ذریعہ ہوگا۔ چنانچہ حضرت سید محمد اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ’’ظہور دین کی ابتداء پیغمبر ﷺ کے زمانہ میں ہوئی اور اس کی تکمیل حضرت مہدی علیہ السلام کے ہاتھ سے ہوگی۔‘‘ (منصب امامت صفحہ ۷۶۔ گیلانی پریس لاہور مطبوعہ۱۹۴۹ء) اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریمﷺکے ذریعہ جو آسمانی مائدہ اور فیض ربّانی نوع انسان کی روحانی بقا اور نشوونماکے لیے اُتارا گیاہے۔ اُسی نظام اور پیغام کی حفاظت اورترویج و اشاعت کے لیے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایاہے۔حضور علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی گئی تمام استعدادوں اور توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مرجھائے ہوئے باغ کی دوبارہ آبیاری کی اور اسلام کے زندگی بخش پیغام کو اُس کی اصل صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا تواسلام کا خوبصورت اور روشن چہرہ دنیا پر عیاں ہوگیا۔پس اس جماعت کے قیام کی اصل غرض یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید وتفرید کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے کوشش کرتی رہے اور اسلام کی امن پسند تعلیم دنیا میں پھیلاتی رہے تاکہ دنیا امت واحدہ بن جائے۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام جماعت احمدیہ کے خدائی سلسلہ ہونے کے حوالے سےفرماتے ہیں: ’’یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودہ ہے خدا اس کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ وہ راضی نہیں ہوگا جب تک کہ اس کو کمال تک نہ پہنچا دے۔ اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گرد احاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا۔‘‘(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد۱۱صفحہ ۶۴) اللہ تعالیٰ نے جن مقاصد کے حصول کے لیے خلافت کا نظام جاری فرمایا ہے وہ تبھی پورے ہوسکتے ہیںجب جماعت کے تمام افراد نظام خلافت کے ساتھ کماحقہٗ وابستگی اختیار کریں اور ان ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں ادا کرنے کی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺنے ہمارے اوپر عائد کی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے جماعت مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاہے:یٰٓاَیُّھَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡن (اٰلِ عمران:۱۰۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو !اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا اس کے تقویٰ کا حق ہے اور ہر گز نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم پورے فرمانبردار ہو۔ اوراس تقویٰ کے حصول کا ذریعہ اس سے اگلی آیت میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا (اٰلِ عمران:۱۰۴)اور اللہ کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑلو اور تفرقہ نہ کرو۔ نیز سورہ نور میں خلافت کے اغراض و مقاصد اوراُس کی برکات کا ذکر کرنے کے بعداللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ (النور:۵۶) اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے ابتدائی سالوں میں درس القرآن میں نظام خلافت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’خلافت، اسلام کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے اور اسلام کبھی ترقی نہیں کرسکتا جب تک خلافت نہ ہو۔ ہمیشہ خلفاء کے ذریعہ اسلام نے ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا۔ اور ہمیشہ خداتعالیٰ خلفاء مقرر کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی خداتعالیٰ ہی خلفاء مقرر کرے گا…پس تم خوب یاد رکھو کہ تمہاری ترقیات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اور جس دن تم نے اس کو نہ سمجھا اور اسے قائم نہ رکھا وہی دن تمہاری ہلاکت اور تباہی کا دن ہوگا۔ لیکن اگر تم اس کی حقیقت کو سمجھے رہوگے اور اسے قائم رکھو گے تو پھر اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں ہلاک کرنا چاہے گی تو نہیں کرسکے گی اور تمہارے مقابلہ میں بالکل ناکام و نامراد رہے گی۔‘‘(درس القرآن مطبوعہ۱۹۲۱ء) ہماری ذمہ داریاں جماعت مومنین کے اوپر عائد ہونے والی بہت سی ذمہ داریوں میں سے چندایک نہایت اختصار کے ساتھ بیان کی جاتی ہیں: صالح اعمال: اللہ تعالیٰ نے خلافت کا وعدہ صرف اور صرف اُن لوگوں سے کیا ہے جو اپنے ایمان میں کامل ہوںاوراُس کی نگاہ میں اعمالِ صالحہ بجالانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایاہے:وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّھُمۡ فِی الۡاَرۡض(النور:۵۶)تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’پس اے مومنوں کی جماعت ! اور اے عملِ صالح کرنے والو! میں تم سے کہتا ہوں کہ خلافت، خدا تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو۔ جب تک تم لوگوں کی اکثریت ایمان اور عملِ صالح پرقائم رہے گی خدا اس نعمت کو نازل کرتا چلا جائے گا۔ لیکن اگر تمہاری اکثریت ایمان اور عمل صالح سے محروم ہوگئی تو پھر یہ امر اس کی مرضی پر موقوف ہے کہ چاہے تو اس انعام کو جاری رکھے اور چاہے تو بند کردے۔پس خلیفہ کے بگڑنے کا کوئی سوال نہیں۔ خلافت اس وقت چھینی جائے گی جب تم بگڑ جائو گے۔ پس اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری مت کرو اور خدا تعالیٰ کے الہامات کو تحقیر کی نگاہ سے مت دیکھو بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تم دعائوں میں لگے رہو تا قدرتِ ثانیہ کا پے در پے تم میں ظہور ہو تا رہے۔ تم ان ناکاموں اور نامرادوں اور بے عملوں کی طرح مت بنو جنہوں نے خلافت کو ردّ کردیا بلکہ تم ہر وقت ان دعائوں میں مشغول رہو کہ خُدا قدرت ثانیہ کے مظاہر تم میں ہمیشہ کھڑے کرتا رہے تاکہ اس کا دین مضبوط بنیادوں پر قائم ہوجائے اور شیطان اس میں رخنہ اندازی کرنے سے ہمیشہ مایوس ہوجائے۔‘‘(خلافت راشدہ،انوارالعلوم جلد۱۵صفحہ۵۶۷) شرک سے اجتناب: آیت استخلاف میںجماعت مومنین کی ایک ذمہ داری یہ بیان کی گئی ہے : یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَایُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا(النور:۵۶) وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اس آیت کے مطابق ہماری ایک ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی خالص توحید دنیا میں قائم کرنے کے لیے خلیفۂ وقت کی تمام کوششوں کا ساتھ دیں اور دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ کرتے رہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ کی ذات یا صفات یا اقوال و افعال یا اس کے استحقاق معبودیت میں کسی دوسرے کو شریکانہ دخل دینا گو مساوی طور پر یا کچھ کم درجہ پر ہو یہی شرک ہے جو کبھی بخشا نہیں جائے گا۔ اور اس کے مقدمات جن سے یہ پیدا ہوتا ہے یہ ہیں کہ کسی بشر میںکوئی ایسی خصوصیت اس کی ذات یا صفات یا افعال کے متعلق قائم کردی جاوے جو اُس کے بنی نوع میں ہرگز نہ پائی جائے نہ بطور ظلّی اور نہ بطور اصل۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۴۴) حضور علیہ السلام اپنی جماعت کو شرک سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’قرآن شریف نے تمہارے لئے بہت پاک احکام لکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ تم شرک سے بکلی پرہیز کرو کہ مشرک سرچشمۂ نجات سے بے نصیب ہے۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ ۲۸) قیام نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی: اللہ تعالیٰ نے آیت استخلاف کے معاً بعداگلی آیت میں قیام نماز، ادائیگیٔ زکوٰۃ اور اطاعت رسول ؐکی تاکید فرمائی ہے چنانچہ فرماتا ہے:وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیۡعُوۡاالرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ(النور:۵۷) اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تین اہم ذمہ داریاں بیان فرمائی ہیں۔ قیام نماز، ادائیگیٔ زکوٰۃ اوراطاعت رسولؐ۔اس بارے میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’خلافت کے ذکر کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَاَقِیۡمُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتُواالزَّکٰوۃَ وَاَطِیۡعُوۡاالرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ۔یعنی جب خلافت کا نظام جاری کیا جائے تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ تم نمازیں قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرو۔ گویا خلفاء کے ساتھ دین کی تمکین کرکے وہ اطاعت رسول کرنے والے ہی قرار پائیں گے۔ یہ وہی نکتہ ہے جو رسول کریم ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ مَنۡ اَطَاعَ اَمِیۡرِیۡ فَقَدۡ اَطَاعَنِیۡ وَمَنۡ عَصٰی اَمِیۡرِیۡ فَقَدۡ عَصَانِیۡ(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ وتحریمھا فی المعصیۃ) یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی پس وَاَقِیۡمُوۡاالصَّلٰوۃَ وَاٰتُواالزَّکٰوۃَ وَاَطِیۡعُوۡا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ فرما کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اُس وقت رسول کی اطاعت اسی رنگ میں ہوگی کہ اشاعت و تمکین دین کے لئے نمازیں قائم کی جائیں،زکوٰتیں دی جائیں اور خلفاء کی پورے طور پر اطاعت کی جائے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اقامت صلوٰۃ اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہوسکتی اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی خلافت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔‘‘(تفسیر کبیر جلد۸صفحہ ۵۷۳-۵۷۴۔ ایڈیشن ۲۰۲۳ء) کامل اطاعت: اطاعت ہر نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔خواہ وہ دنیاوی نظام ہو یا دینی نظام۔ گویا اطاعت کے بغیر دنیا کا کوئی نظام نہیں چل سکتا۔کسی قوم یا جماعت کی ترقی اوربقا کا راز اطاعت میں مضمر ہے۔جو قومیںاور جماعتیں اس راز کو حرزِ جان بنالیتی ہیںوہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوکر ترقی کی منازل طے کرلیتی ہیں۔ہٹلر کے بارے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی نے اُس سے پوچھا کہ اُس کی ترقی اور کامیابی کا راز کیا ہے۔ اُس وقت وہ ایک پہاڑ کی چوٹی پرتھا۔اُس نے قریب کھڑے ایک سپاہی کو اشارہ کیا۔وہ سپاہی اُس کا اشارہ پاتے ہی پہاڑ سے نیچے کودگیا اور اپنی جان دےدی۔ ہٹلر نے سوال کرنے والے سے کہا کہ یہ ہے میری کامیابی اور ترقی کا راز۔ اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی طرف سے آنے والی ہر آواز پر لبیک کہا جائے اور اُس کام کی تکمیل کے لیے بدل وجان بھرپور کوشش کی جائے۔خلیفہ وقت کے کسی ارشا د کی طرف توجہ نہ دینا ایک احمدی کے شایانِ شان نہیں۔ اس بابت حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے۔‘‘( ماہنامہ الفرقان ربوہ مئی۔ جون ۱۹۶۷ء صفحہ ۲۸) قرآن کریم اور احادیث رسولؐ میں کثرت سے اطاعت امام کی تاکید وتلقین فرمائی گئی ہے کیونکہ کوئی جماعت اطاعت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی اور نہ اُس کا شیرازہ قائم ر ہ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ حکم دیا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوااللّٰہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُم۔ (النساء:۶۰) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی۔قرآن کریم کے ایک اور مقام پرفرمایا ہے : وَاَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَتَذۡھَبَ رِیۡحُکُمۡ وَاصۡبِرُوۡا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ۔ (الانفال:۴۷) اور اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تم بزدل بن جائو گے اور تمہارا رعب جاتا رہے گا۔ اور صبر سے کام لو یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺنے اطاعت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایاہے : مَنۡ رَأَی مِنۡ أَمِیۡرِہِ شَیۡئًا یَکۡرَھُہُ فَلۡیَصۡبِرۡ عَلَیۡہِ فَاِنَّہُ مَنۡ فَارَقَ الۡجَمَاعَۃَ شِبۡرًا فَمَاتَ اِلَّامَاتَ مِیۡتَۃً جَاہِلِیَّۃً (صحیح البخاری کتاب الفتن باب قَوۡل النَّبِیِّ ﷺ سَتَرَوۡنَ بَعۡدِی أُمُورًا تُنۡکِرُونَھَاحدیث ۷۰۵۴)جو شخص اپنے سردار اور امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جو اسے پسند نہ ہو تو صبر سے کام لے کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی دور ہوتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔رسول اللہﷺ کا ایک اور ارشادِمبارک ہے:عَلَیۡکَ السَّمۡعَ وَالطَّاعَۃَ فِیۡ عُسۡرِکَ وَیُسۡرِکَ وَمَنۡشَطِکَ وَمَکۡرَھِکَ وَاَثَرَۃٍ عَلَیۡکَ(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب و جوب طاعۃ الامر اء فی غیرمعصیۃ وتحریمھا فی المعصیۃ حدیث ۱۸۲۶)تنگ دستی اور خوش حالی اور ناخوشی۔ حق تلفی اور ترجیحی سلوک غرض ہر حالت میں تیرے لیے (حاکم وقت کے حکم کو ) سننا اور اطاعت کرنا واجب ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے عہد بیعت میں دسویں شرط یہ بیان فرمائی ہے :’’یہ کہ اس عاجز سے عقدِاخوت محض للہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تاوقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۲۰۷۔شائع کردہ نظارت نشرواشاعت قادیان مارچ ۲۰۱۹ء) حضور علیہ السلام آیت کریمہ اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَت (الغَاشِیَۃِ:۱۸)(کیا وہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے پیدا کیے گئے ؟)کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اونٹوں میں ایک دوسرے کی پیروی اور اطاعت کی قوت رکھی ہے۔دیکھو! اونٹوںکی ایک لمبی قطار ہوتی ہے اور وہ کس طرح پر اس اونٹ کے پیچھے ایک خاص انداز اور رفتار سے چلتے ہیں۔ اور وہ اونٹ جو سب سے پہلے بطور امام اور پیشرو کے ہوتا ہے وہ ہوتاہے جو بڑا تجربہ کار اور راستہ سے واقف ہو۔ پھر سب اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے برابر رفتار سے چلتے ہیں اور ان میں سے کسی کے دل میں برابر چلنے کی ہوس پیدا نہیں ہوتی جو دوسرے جانوروں میں ہے … اسی طرح پر ضروری ہے کہ تمدنی اور اتحادی حالت کو قائم رکھنے کے واسطے ایک امام ہو۔ پھر یہ بھی یادرہے کہ یہ قطار سفر کے وقت ہوتی ہے۔ پس دنیا کے سفر کو قطع کرنے کے واسطے جب تک ایک امام نہ ہو انسان بھٹک بھٹک کر ہلاک ہوجاوے۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ۱۸-۱۹۔ ایڈیشن۲۰۲۲ء) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعدپہلے خطبہ میں اطاعت کے بارے میں فرمایا: ’’اللہ عزّوجلّ نے ایسی کتاب نازل فرمائی جو لوگوں کو ہدایت کرنے والی ہے اس کتاب میں ہر قسم کے خیرو شر کو بیان کیاگیا ہے اب تمہیں چاہیے کہ تم خیر کو قبول کرو اور شر کو چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ کے فرائض کو اد اکرو وہ تمہیں جنت میں داخل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے اُمور فرمائے ہیں جو قطعاً ڈھکے چھپے نہیں اور تمام حرام کاموںسے زیادہ مسلمانوں کا خون حرام فرمایا ہے اس نے مسلمانوں کے ساتھ اخلاص اور باہم متحد رہنے کا حکم فرمایا ہے اور مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان بھائی محفوظ رہیں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے اس کی ایذا دہی کا حکم دیا ہو…اللہ عزّوجلّ کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی نہ کرو اور جس چیز میں بھی تمہیں خیر نظر آئے تم اسے قبول کرو اور جو بھی برائی دیکھو اسے چھوڑ دو اور اس وقت کو یاد کرو جب تم لوگ تھوڑی تعداد میں تھے اور زمین میں کمزور تھے۔‘‘(تاریخ طبری جلد سوم حصہ دوم صفحہ ۲۸۔ ناشر نفیس اکیڈمی کراچی کمپیوٹر ایڈیشن اپریل ۲۰۰۴ء) اطاعت کے معیار ماپنے کا ایک طریق:کوئی شخص اپنی اطاعت کے معیار کو کس طرح ماپ سکتا ہے اور اُسے کس طرح پتا چل سکتا ہے کہ اس کا عمل واقعی اطاعت کے زمرے میں آتا بھی ہے یا نہیں۔ اس ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا درج ذیل ارشاد ہماری راہنمائی کے لیے کافی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر یہ بھی فرمایا اور یہ بڑی اہم بات ہے کہ اطاعت اگر سچے دل سے کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت و روشنی آتی ہے اور یقیناً اس سے مراد روحانی نظام کی اطاعت ہے اور ہر ایک کے لیے اپنی اطاعت کے ماپنے کا یہ معیار ہے کہ کیا دل میں نور پیدا ہورہا ہے اطاعت سے روح میں لذت روشنی آرہی ہے ؟اگر ہر ایک خود اس پر غور کرے تو وہ خود ہی اپنے معیار اطاعت کو پرکھ لے گا کہ کتنی ہے۔ کس قدر وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کررہا ہے کس قدر وہ رسول کی اطاعت کررہا ہے اور کس قدر مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم کردہ نظام خلافت کی اطاعت کررہا ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ ۵؍دسمبر۲۰۱۴ء۔ خطبات مسرور جلد ۱۲صفحہ ۷۳۱) خلافت سے وابستگی اور ذاتی تعلق: قوموں کی بقا،اُن کی نشوونما اور خوشحالی کا راز ایک قیادت کے گرد جمع ہوکر،باہمی اتفاق واتحاد، مضبوط ارادوں اور غیر متزلزل یقین کے ساتھ آگے بڑھنے میں پنہاں ہے۔چنانچہ دنیا کے نظاموںمیں خلافت ہی وہ آسمانی نظام ہے جس کی بنا خالق کائنات نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے جو مسلمانوں کے اتحادویگانگت کا واحد ذریعہ اور ایک مضبوط حصار ہے جو انہیں ہر مشکل سے نکال کر سکون کی دولت سے مالامال کرتا ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم کامل وفا کے ساتھ خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ جتنا تعلق مضبوط ہوگااُسی مناسبت سے خلیفۂ وقت سے عقیدت ومحبت میں اضافہ ہوگا۔کیونکہ جب کسی شخص سے محبت ہوجائے تو اُس کی ہر بات اچھی لگتی ہے۔اطاعت کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور انسان زیادہ یکسوئی کے ساتھ خدمت دین کے کاموں میں حصہ لیتا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’مبارک ہیں وہ افراد جو ہمیشہ دامن خلافت سے وابستہ رہ کر غلبۂ اسلام کی عظیم مہم میں حسب توفیق حصہ پاتے ہیں۔‘‘ (الحکم ۷؍مارچ ۱۹۱۴ء۔بحوالہ مشکوٰۃ قادیان،مئی ۲۰۱۰ء صفحہ ۲۰) حقیقی ایمان اور صالح اعمال بجالانے کی ایک زبردست کسوٹی خلیفۂ وقت کے ساتھ ہمارا تعلق ہے۔ اگر ہم خلیفۂ وقت کے خطبات، پیغامات اور ہدایات کو پیش نظر رکھیں۔ اُن کے مطابق اپنی زندگی گزاریں تو ہمارا ایمان سلامت رہے گا۔ہمارے اعمال، صالح اعمال شمار ہوں گے۔ملائکہ سے ہمارا تعلق ہوگا اور انوارِ الہٰیہ سے حصہ ملے گا۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ملائکہ سے فیوض حاصل کرنے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ خلفاء سے مخلصانہ تعلق قائم رکھا جائے اور اُن کی اطاعت کی جائے۔ چنانچہ اس جگہ طالوت کے انتخاب میں خدائی ہاتھ کا ثبوت یہی پیش کیا گیا ہے کہ تمہیں خداتعالیٰ کی طرف سے نئے دل ملیں گے جن میں سکینت کا نزول ہوگااور خداتعالیٰ کے ملائکہ ان دلوں کو اُٹھائے ہوئے ہوں گے۔ گویا طالوت کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے نتیجہ میں تم میں ایک تغیر عظیم واقع ہوجائے گا تمہاری ہمتیں بلند ہوجائیں گی۔ تمہارے ایمان اور یقین میں اضافہ ہوجائے گا۔ ملائکہ تمہاری تائید کے لئے کھڑے ہوجائیں گے اور تمہارے دلوں میں استقامت اور قربانی کی روح پھونکتے رہیں گے۔ پس سچے خلفاء سے تعلق رکھناملائکہ سے تعلق پیدا کردیتا اور انسان کو انوار الٰہیہ کا مہبط بنا دیتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۳صفحہ۴۱۲-۴۱۳۔مطبوعہ یوکے۲۰۲۳ء) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۶۷ء کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے میرے عزیز بھائیو! جو مقاماتِ قرب تمہیں حاصل ہیں اگر انہیں قائم رکھنا چاہتے ہواور روحانیت میں ترقی کرنا چاہتے ہو تو خلیفۂ وقت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا کیونکہ اگر یہ دامن چھوٹا تو محمد رسول اللہﷺ کا دامن چھوٹ جائے گاکیونکہ خلیفۂ وقت اپنی ذات میں کوئی شَے نہیں اسے جو مقام بھی حاصل ہے وہ محمد رسول اللہ ﷺ کا دیا ہؤا مقام ہے نہ اس میں اپنی کوئی طاقت نہ اس میں اپنا کوئی علم۔ پس اس شخص کو نہ دیکھو اس کرسی کو دیکھو جس پر خدا اور اس کے رسول ؐ نے اس شخص کو بٹھا دیا ہے۔ ‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ سالانہ نمبر ۳۱؍ دسمبر ۱۹۶۸ء صفحہ ۱۲ب) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک پیغام میں احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پرغالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہوجائیں۔ اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔ اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور آپ کو خلافت احمدیہ سے کامل وفا اور وابستگی کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘( احمدیہ گزٹ کینیڈا مئی و جون۲۰۰۳ء) اپنی اولاد کو خلافت سے وابستہ کرنا: نظام خلافت کے تعلق میں والدین کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی اولادوں کو خلافت کی برکات اور اس نظام کی اہمیت سے آگاہ کرتے رہیں۔ ان کے اندر یہ روح اور جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں کہ خلافت کے ساتھ وابستگی میں ہی ہماری بقا اور ترقی کا راز مضمر ہے۔والدین کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آج کے بچے کل کے جوان ہیں جو جماعت کے علمبردار اور جماعت کے نمائندے بنیں گے۔ اس لیے اُن کے دلوں میں خلافت کی محبت ڈالنا والدین کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۵۹ء کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اٹھارویں سالانہ اجتماع کے موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے نوجوانوں سے ایک تاریخی اور تاریخ ساز عہد لیاتھا۔اس عہد کے الفاظ یہ ہیں: ’’ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے۔ اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے۔‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۸ ؍اکتوبر ۱۹۵۹ء ) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک پیغام میں احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اسلام احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرنی ہے اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا ہے اور اپنی اولاد کو ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہنا ہے اور ان کے دلوں میں خلیفہ وقت سے محبت پیدا کرنی ہے۔ اتنا بڑا اور عظیم الشان نصب العین ہے کہ اس عہد پر پورا اترنا اور اس کے تقاضوں کو نبھانا ایک عزم اور دیوانگی چاہتا ہے۔‘‘(سہ ماہی الناصر جرمنی۔جون تا ستمبر ۲۰۰۳ء صفحہ ۱) نظام خلافت کی بقا کے لیے دعائیں کرنا: جماعت ِمومنین کی ایک اور اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نظام خلافت کے استحکام اُس کی بقا کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے رہیں۔ اپنے آقا ومطاع کے مقاصدِ عالیہ میں برکت کے لیے دعائوں سے کام لیناکس قدر ضروری ہے اس کا اندازہ نبی کریم ﷺکے درج ذیل ارشاد مبارک سے بخوبی لگایا جاسکتاہے۔آپؐ نے فرمایا ہے:خِیَارُ أَئِمَّتِکُمُ الَّذِیۡنَ تُحِبُّوۡنَھُمۡ وَ یُحِبُّوْنَکُمۡ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیۡکُمۡ وَتُصَلُّوْنَ عَلَیۡھِم(صحیح مسلم کتاب الامارۃ بَاب خِیَارِ الۡأَئِمَّۃِ وَشِرَارِھِمۡ) تمہارے بہترین ائمہ وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں۔ وہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں اور تم ان کے لیے دعا کرتے ہو۔ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’تم بھی دعاؤں سے کام لو۔ میں بھی تمہارے لیے دعا کروں گا۔ ‘‘(اخبار البدر قادیان مورخہ ۱۱؍جولائی ۱۹۱۲ء جلد ۱۲نمبر ۲صفحہ ۵کالم ۳) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ نے انتخاب خلافت کے بعد احباب جماعت سے تاریخی خطاب میں فرمایا:’’جب سے ہمیں ہوش آئی ہے ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے اور یقیناً یہ سچ ہے تو پھر نہ مجھے گھبرانے کی ضرورت ہے اور نہ آپ میں سے کسی کو گھبرانے کی ضرورت ہے۔ جس نے یہ کام کرنا ہے وہ یہ کام ضرورکرے گا۔ اور یہ کام ہوکر رہے گا۔لیکن کچھ ذمہ داریاں مجھ پر عاید ہوتی ہیں اور کچھ ذمہ داریاں آپ پر۔ میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر آپ لوگوں کو گواہ ٹھہراتا ہوں اس بات پر کہ جہاں تک اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھ دی ہے، جہاں تک اُس نے مجھے توفیق عطا کی ہے، جہاں تک اُس نے مجھے طاقت دی ہے، آپ مجھے اپنا ہمدرد پائیں گے۔ میں ہر لمحہ اور ہر لحظہ دعاؤں کے ساتھ اور اگر کوئی اَور وسیلہ بھی مجھے حاصل ہوتو اس وسیلہ کے ساتھ آپ کا مددگار رہوں گا۔ اور میں اپنے ربّ سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ آپ کو بھی یہ توفیق دے گا کہ آپ صبح وشام اور رات اور دن اپنی دعاؤں سے، اپنے اچھے مشوروں سے، اپنی ہمدردیوں سے اور اپنی کوششوں سے میری اس کام میں مدد کریں گے کہ خدا تعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم ہو، اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تمام دنیا میں لہرانے لگے۔‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۳؍دسمبر ۱۹۶۵ء صفحہ ۸) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’دعائیں کرتے ہوئے آپ میری مدد کریںکیونکہ ایک ذات اس عظیم الشان کام کا حق ادا نہیں کرسکتی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد فرمایا ہے۔ دعائیں کریں اور بکثرت دعائیں کریں اور ثابت کردیں کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی قدرتِ ثانیہ اور جماعت ایک ہی وجود ہیں اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍مئی ۲۰۰۳ء صفحہ اوّل) حضور انور ایدہ اللہ نے ایک اور موقع پر فرمایا:’’ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ …استحکام خلافت کے لئے دعائیں کریں تاکہ خلافت کی برکات آپ میں ہمیشہ قائم رہیں …ہر احمدی کو اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھتے ہوئے دعاؤں کے ذریعہ سے ان فضلوں کو سمیٹنا چاہئے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا ہے۔اپنے بزرگوں کی اس قربانی کو یاد کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ انہوں نے جو قیام اور استحکام خلافت کے لیے بھی بہت قربانیاں دیں… اپنے اندر خاص تبدیلیاں پیدا کریں۔پہلے سے بڑھ کر ایمان وا خلاص میں ترقی کریں …جماعت اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت پھیل چکی ہے اس لیے کسی کو یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ ہمارا خاندان۔ ہمارا ملک یا ہماری قوم ہی احمدیت کے علمبردار ہیں۔ اب احمدیت کا علمبردار وہی ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہے اور خلافت سے چمٹا رہنے والا ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۲۷؍مئی ۲۰۰۵ء خطبات مسرور جلد سوم صفحہ ۳۲۰-۳۲۲) خلیفہ وقت کے ارشادات کو غور سے سننا: قرآن کریم نے مومنوں کی ایک خوبی سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا بیان کی ہے یعنی وہ نیک باتوں کونہ صرف سنتے ہیں بلکہ ان پر دل وجان سے عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ نو رمیںمومنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاہے: لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمۡ کَدُعَآءِ بَعۡضِکُمۡ بَعۡضًا (النور:۶۴) تمہارے درمیان رسول کا (تمہیں) بلانااس طرح نہ بنائو جیسے تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کی تفسیربیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’امام کی آواز کے مقابلہ میں افراد کی آواز کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ تمہارا فرض ہے کہ جب بھی تمہارے کانو ںمیں خدا تعالیٰ کے رسول کی آواز آئے تم فوراً اُس پر لبیک کہو اور اُس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑو کہ اسی میں تمہاری ترقی کا راز مضمر ہے بلکہ اگر انسان اُس وقت نماز پڑھ رہا ہو تب بھی اُس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ نماز توڑ کر خدا تعالیٰ کے رسول کی آواز کا جواب دے … یہی حکم اپنے درجہ کے مطابق خلیفۂ رسولؐ اللہ پر بھی چسپاں ہوتا ہے اور اُس کی آواز پر جمع ہوجانا بھی ضروری ہوتا ہے اور اُس کی مجلس سے بھی چپکے سے نکل جانا بڑا بھاری گناہ ہوتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ ۶۲۴-۶۲۵۔زیر آیت النور:۶۴۔ ایڈیشن ۲۰۲۳ء) منصب خلافت کی حفاظت: خلافت کے تعلق میں ہماری ایک اَور ذمہ داری نظام خلافت اور منصب خلافت کی حفاظت ہے۔ اس کے لیے نہ صرف خود تیار اور ہر لمحہ چوکس رہیںبلکہ اپنی اولاد اور نسلوں کے دلوں میں خلافت کی محبت کا بیج بوتے رہیں تاکہ وہ بھی خلافت کے تابع فرمان رہتے ہوئے اُس کے تمام حکموں پر چلنے والے بنیں۔ اس طرح یہ فیض نسل در نسل منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔منصب خلافت کی اصل حفاظت یہی ہے کہ ہر احمدی خلیفہ وقت کے ساتھ اخلاص ووفا کا تعلق رکھے۔۲۷؍ مئی ۲۰۰۸ء کو خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے پر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب میں فرمایا: ’’اے میرے پیارو اور میرے پیاروں کے پیارو! اُٹھو آج اس انعام کی حفاظت کے لیے نئے عزم اور ہمت سے اپنے عہد کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گرتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے میدان میں کود پڑو کہ اسی میں تمہاری بقا ہے۔ اسی میں تمہاری نسلوں کی بقا ہے اور اسی میں انسانیت کی بقا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو بھی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ ہم اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں۔ اَللّٰھُمَّ آمِیۡن۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۲۵؍جولائی ۲۰۰۸ء صفحہ ۱۲) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ ۲۰۲۳ء کے اختتامی اجلاس سے اپنے ولولہ انگیز خطاب کے دوران… خدام سے (روزنامہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍اکتوبر ۲۰۲۳ء) نیز سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ برطانیہ ۲۰۲۳ء کے اختتامی اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ایک ارشاد کے پیش نظر انصار سے درج ذیل عہد لیا:’’ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فریضے کی تکمیل کے لیے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کرکے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں گے۔ ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظامِ خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لیے آخر دم تک جدوجہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ ٔ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے۔ اے خدا ! تُو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اللّٰھُمَّ آمِیۡن! اللّٰھُمَّ آمِیۡن! اللّٰھُمَّ آمِیۡن!‘‘ (روزنامہ الفضل انٹرنیشنل۱۲؍اکتوبر۲۰۲۳ء صفحہ اوّل) خلاصہ کلا م یہ کہ اسلام کی ترویج و اشاعت اور ایمانوں کی مضبوطی کے لیے خلافت کا نظام انتہائی ناگزیر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک خلافت کے مقام کو اپنے دلوں میں جاگزیں کرے۔اسی طرح ہم اپنی نسلوں کے سامنے خلافت کی ضرورت واہمیت اور اس کی برکات کا تذکرہ کرتے رہا کریں تاکہ اُن کے دلوں میں خلافت سے محبت کی کھیتیاں پروان چڑھیں اور یہ فیض نسل در نسل منتقل ہوتا رہے۔ آمین یا رب العالمین ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: زمانہ چال قیامت کی چل گیا