https://youtu.be/JlKmza1Otjw مکرم ڈاکٹر ولی احمد شاہ صاحب ۱۹۳۷ء میں محترم ڈاکٹر سیّد محمد اقبال شاہ صاحب کے ہاں کینیا (مشرقی افریقہ) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی طور پر حاصل کرنے کے بعد تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں چھٹی اور ساتویں جماعت پاس کی۔ اسی دوران ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند ہوگئی تو آپ واپس افریقہ چلے گئے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد مزید تعلیم کے لیے پاکستان آگئے۔ میٹرک کا امتحان جہلم شہر سے پاس کیا اور پھر تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے ایف ایس سی کیا۔ ڈینٹل کالج لاہور میں چار سال تعلیم حاصل کی اور بی ڈی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ فائنل امتحان میں آپ اوّل آئے اور طلائی تمغے کے حقدار قرار پائے۔ بعدازاں چند روز اپنے والدین کے پاس افریقہ میں قیام کرنے کے بعد ۱۹۶۰ء میں لندن تشریف لے آئے۔ بلفاسٹ (آئرلینڈ) سے ایک سال کے لیے ڈپلومے کی تعلیم حاصل کی اور رائل کالج آف سرجن لندن سے ایل ڈی ایس کرکے بطور ڈینٹسٹ پریکٹس شروع کردی۔ اگرچہ آپ ڈینٹسٹری میں پوسٹ گریجوایشن کرکے پاکستان جاکر طلبہ کو اعلیٰ تعلیم دینے کے خواہشمند تھے تاکہ جو علمی فائدہ پاکستان نے آپ کو پہنچایا ہے وہ قرض کسی حد تک ادا کرسکیں لیکن جماعت احمدیہ کے خلاف مُلّاؤں کی طرف سے فسادات برپا کرنے کی وجہ سے لاہور ڈینٹل کالج کا رُخ نہ کرسکے۔ بہرحال ۲۰۰۳ء تک لندن میں ہی کام کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی۔ پھر چار سال تک نصرت جہاں سکیم کے تحت گیمبیا (مغربی افریقہ) میں وقف عارضی کرکے پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیں۔ خداتعالیٰ کے فضل سے لندن میں آپ کو سالہاسال تک مختلف حیثیتوں سے جماعتی خدمات کی توفیق ملتی رہی ۔ آپ کو آٹھ سال بطور قائد مجلس خدام الاحمدیہ لندن کے علاوہ لمبا عرصہ جماعت احمدیہ برطانیہ کے سیکرٹری ضیافت، نائب امیر جماعت احمدیہ یوکے، نائب افسر جلسہ سالانہ برطانیہ، ریجنل امیر لندن اورکئی سال تک اصلاحی کمیٹی کے انچارج کے طور پر بھی خدمت کی سعادت حاصل رہی۔ آپ اپنی منکسرالمزاجی، خدمت دین اور خدمت خلق کے حوالے سے اپنے حلقۂ احباب میں بہت محبت اور عزت کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں۔ آپ نے مختلف نشستوں میںاپنے مشاہدات کے حوالے سے خلفائے کرام کے بارے میں اپنی بعض ناقابلِ فراموش یادیں بیان کی ہیں جو ایمان افروز بھی ہیں اور سبق آموز بھی۔ ان خوبصورت یادوں میں سے ایک انتخاب ہدیۂ قارئین ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی زیارت میرے والد محترم ڈاکٹر سید محمد اقبال شاہ صاحب ۱۹۴۶ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لیے مشرقی افریقہ سے قادیان حاضر ہوئے تو مجھے بھی اپنے ہمراہ لے گئے۔ اس وقت میری عمر ۹سال تھی۔ حضور کی طبیعت کچھ ناساز تھی اور آپ چارپائی پر رونق افروز تھے۔ ابا جی قریب پڑی کرسی پر بیٹھ گئے اور مَیں چارپائی کی پائنتی کی جانب بیٹھ گیا۔ میری حضورؓ سے کوئی بات تو نہ ہوئی لیکن مَیں حیرت سے سارا منظر دیکھتا رہا۔ اباجی نے مجھے کچھ رقم بطور نذرانہ پیش کرنے کے لیے دی تھی جو خاکسار نے حضور کی خدمت میں پیش کردی۔ مئی ۱۹۴۷ء میں ہماری افریقہ واپسی ہوئی جس کے بعد جلد ہی قادیان سے ہجرت کا واقعہ پیش آیا۔ میں ساری دنیا کا خلیفہ ہوں نومبر ۱۹۵۲ء میں ہماری پاکستان آمد ہوئی اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے میری زندگی کی دوسری ملاقات ۱۹۵۳ء میں ربوہ میں ہوئی جب میرے ماموں مکرم غلام احمد قریشی صاحب حضورؓ کی ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو ساتھ مجھے بھی لے گئے۔ حضورؓ نے میرے ماموں کا حال احوال جاننے کے علاوہ کئی رشتہ داروں کے نام لے لے کر دریافت کرنا شروع کر دیا جو بیرون ملک مقیم تھے۔ میرے ماموں نے حیرت سے حضورؓ سے دریافت کیا کہ حضور! آپ کو یہ سارے لوگ اور نام کیسے یاد ہیں؟ اس پر حضورؓ مسکرائے اور فرمایا کہ مَیں صرف پاکستان کا خلیفہ نہیں ہوں بلکہ ساری دنیا کا خلیفہ ہوں۔ خلیفۂ وقت کی دعا سے امتحان میں کامیابی خاکسار تعلیم الاسلام کالج میں F.Sc کا طالبعلم تھا۔ سالانہ امتحان قریب تھے اور سخت پریشانی تھی کیونکہ تیاری بالکل نہ تھی اور ڈر تھا کہ فیل ہو جاؤں گا۔ ہوسٹل میں میرے ایک ساتھی عادل ایاز نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر اُن سے دعا کی درخواست کی جائے۔ چنانچہ ہم حضرت مولوی صاحبؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مَیں نے عرض کیا کہ میری تیاری بالکل نہیں ہے اور مجھے ڈر ہے کہ مَیں فیل ہو جاؤں گا۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے اسی وقت دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے اور لمبی دعا کروائی۔ پھر فرمایا کہ ’’کاکا! تم پاس ہو جاؤ گے مگر ایک شرط ہے کہ تمہیں خلیفۃالمسیح کو بھی دعا کی غرض سے ضرور خط لکھنا ہو گا۔‘‘ آپؓ کی نصیحت پر مَیں نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں بھی دعا کی غرض سے خط لکھا اور اس طرح معجزانہ طور پر خاکسار امتحان میں کامیاب ہوگیا۔ الحمدللہ علیٰ ذٰلک حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سے تعارف ۱۹۵۲ء میں جب خاکسار کے ابا جی مجھے گورنمنٹ کالج لاہورمیں داخلہ کے لیے لے جانے لگے تو گورنمنٹ کالج سے کچھ فاصلے پر اچانک حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ سے ملاقات ہو گئی۔ آپؒ اور ابا جی قادیان میں کلاس فیلو بھی رہے تھے اور آپس میں بے تکلفی تھی۔ آپؒ نے ابا جی سے پوچھا کہ کدھر جارہے ہیں؟ اس پر اباجی نے میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ ولی شاہ کو گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ دلانے کے لیے لے جا رہا ہوں۔ یہ سن کر میاں صاحب سخت ناراض ہوئے اور ابا جی کو کہا کہ آپ نے خود تو جماعتی اور مرکزی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے اور بیٹے کو غیروں کے کالج میں لے جا رہے ہو، اسے بھی جماعت کے کالج میں داخلہ دلوانا چاہیے۔ اس پر اباجی نے حضرت میاں صاحب سے یہ وعدہ لے کر اپنا ارادہ بدل لیا کہ اگر اسے جماعت کے کالج میں داخلہ دلایا تو آ پ اس کا خیال رکھیں گے۔ چنانچہ مجھے تعلیم الاسلام کالج لاہورمیں داخل کروادیا گیا۔ تعلیم الاسلام کالج لاہور میں داخلہ تو مجھے مل گیا، اور اس امید پر کہ کالج کے پرنسپل صاحب میرے ابّا کے دوست ہیں اس لیے مجھ سے اچھا سلوک ہو گا لیکن مجھے حضرت میاں صاحبؒ کے رویے سے سخت مایوسی ہوئی۔ مجھ سے کسی طرح بھی فوقیت کا سلوک نہ ہوا بلکہ مجھ سے بےرغبتی اور سختی کا برتاؤ رکھتے تھے۔ میں دل ہی دل میں کُڑھتا بھی رہتا تھا۔ ایک سال بعد تعلیم الاسلام کالج، لاہور سے ربوہ منتقل ہوگیا۔بہرحال کالج میں مَیں نے دو سال اسی طرح گزارے۔ جب میرے F.Sc finalکے داخلہ کا وقت قریب تھا اور ابا جی نے ابھی پیسے بھی نہیں بھجوائے تھے تو وقت گزر رہا تھا اور سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں کیونکہ میرا داخلہ روک دیا گیا تھا۔ آخر میرے ایک دوست نے میری مدد کی اور میرا داخلہ جاسکا۔ پرنسپل صاحب کی طرف سے اور کالج میں درپیش ایسےرویے سے مَیں بہت دل برداشتہ تھا۔ حضرت میاں صاحبؒ انتظامی معاملات میں بھی بہت اصول پسند تھے اور کسی قسم کی رعایت دینے کے حق میں نہیں ہوا کرتے تھے۔ ہمارے دل میں آپؒ کا بہت رعب رہتا تھا۔ چند واقعات سے ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ آپؒ ڈسپلن کو قائم رکھنے کے معاملے میں بہت سخت ہیں یہاں تک کہ اپنی اولاد کوبھی کوئی رعایت نہیں دیتے۔ چنانچہ تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں اور پھر ڈینٹل کالج لاہور میں تعلیم حاصل کرکے اپنے والدین کے پاس افریقہ آگیا۔ پھر چند روز والدین کے پاس افریقہ میں گزار کر مَیں انگلینڈ آگیا اور یہاں مزید تعلیم حاصل کرکے بطور ڈینٹسٹ اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ میری خلافتِ ثالثہ کی بیعت کے محرّکات ۱۹۶۵ء میں جب مَیں شمالی آئرلینڈ میں مقیم تھا اور وہاں اکیلا ہی احمدی تھا کہ ایک روز میری والدہ نے مجھے بتایا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی ہے اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو خلیفہ چن لیا گیا ہے۔ پھر انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا تم نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی بیعت کرلی ہے؟ مَیں نے جواب دیا کہ نہ بیعت کی ہے اور نہ ہی کروں گا۔ دراصل مذکورہ بالا حالات و واقعات کی روشنی میں اس امر کو تسلیم ہی نہیں کر پارہا تھا۔ میری شومئی قسمت کہ میرا ذہن نے یہ قبول ہی نہیں کیا تھا کہ اتنا سخت مزاج شخص خلیفہ بھی بن سکتا ہے۔ تاہم میرے اس طرح کا جواب دینے پر میری والدہ مجھ سے ناراض ہوگئیں چنانچہ ابتداءً اپنی والدہ کی خوشنودی کے لیے مَیں نے فوراً بیعت کا خط لکھ دیا۔ لیکن پھر جب مجھے اپنے لکھے ہوئے خط کا جواب ملا تو میری تو گویا کایا ہی پلٹ گئی۔ مجھے یہ یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ آیا یہ حضورؒ ہی کا خط ہے۔ آپؒ نے بڑی شفقت اور پیار کے ساتھ مجھے مخاطب فرمایا تھا۔ آپؒ کا یہ پُرشفقت رُوپ دیکھ کر مجھ پر بہت ہی خوشگوار اثر ہوا۔ اور اس کے بعد تو قربتوں، شفقتوں اور عنایات کا ایک لمبا دَور شروع ہوگیا۔ الحمدللہ ہٹلر کی جائے پیدائش کی سیر ۱۹۷۳ء میں لندن تشریف لانے کے بعدحضورؒ سوئٹزرلینڈ کے دورے پر تشریف لے گئے تو ازراہ شفقت خاکسار کو بھی اپنے ہمراہ لے گئے۔ وہاں سے واپسی کے سفر کے دوران حضورؒ نے مکرم امام بشیر احمد رفیق خان صاحب سے دریافت فرمایا کہ ہٹلر کی جائے پیدائش یہاں سے کتنی دُور ہے؟ جب بتایا گیا کہ زیادہ دُور نہیں ہے تو حضورؒ نے وہاں جانے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ ہم آسٹریا میں واقع ہٹلر کی جائے پیدائش دیکھنے کے لیے وہاں چلے گئے۔ بعدازاں حضورؒ نے اس حوالے سےایک ایسی بات ارشاد فرمائی جسے اگرچہ تحریر میں لانا مناسب نہیں لیکن اسے سن کر ہم سب ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے۔ [قارئین کے لیے عرض ہے کہ وَکُلُّ اَمۡرٍ مُّسۡتَقِرٌّ کے تحت ہمارا پختہ ایمان ہے کہ خلفاء کے تمام ارشادات کی طرح حضورؒ کی یہ بات بھی ایک دن روز روشن کی طرح سچی ثابت ہوجائے گی، ان شاءاللہ۔] اہل علم کے ساتھ ایک یادگار نشست ڈنمارک میںمکرم میر مسعود احمد صاحب مرحوم مبلغ انچارج تھے۔ حضورؒ کے اعزاز میں انہوں نے مشن ہاؤس میں ایک تقریب منعقد کی جس میں علاقے کے چند دانشور مدعو تھے۔ اگرچہ اُن کی تعداد تو صرف پندرہ تھی لیکن وہ سب اپنے اپنے شعبوں میں نامور شخصیات تھیں۔ اُن میں سے ہر کسی نے اپنی دانست میں اپنے مخصوص مضمون کے حوالے سے بات چیت کی اور سوال جواب کی لمبی نشست ہوئی۔ حضورؒ نے ہر ایک کے ساتھ سیرحاصل گفتگو فرمائی اور اس حد تک سب کی تسلی کروائی کہ سبھی انگشت بدنداں دکھائی دے رہے تھے۔ ہمارے لیے یہ مجلس بڑی حیرت انگیز اور ایمان میں اضافے کاباعث تھی کہ ایک شخص کس طرح تمام مفکرین پر حاوی ہے۔ ہماری نظروں کے سامنے یہ ایک ایسا معجزہ رونما ہورہا تھا جو خدائی تائید کے بغیر ممکن نہ تھا۔ شہد کی مکھیوں سے معجزانہ حفاظت ایک بار حضورؒ کا قافلہ Somersetکاؤنٹی سے گزر رہا تھا کہ ایک خوبصورت وادی کا نظارہ کرنے کے لیے رُک گیا۔ حضورؒ نے دریافت فرمایا کہ شہد کی مکھیوں کا کوئی فارم اس علاقے میں ہو تو وہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتفاقاً راستے میں ایک فارم کے آثار ملے۔ یہ بہت وسیع و عریض فارم تھا۔ ہم وہاں ٹھہر گئے اور مالک سے ملاقات کی۔ اُس نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ اچانک حضورؒ حفاظتی احتیاطوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مکھیوں کے چھتوں کے پاس چلے گئے۔ فارم کے مالک نے یہ نظارہ دیکھا تو نہایت پریشانی کے عالم میں حضور اقدس کو روکنا چاہا۔ سچ تو یہ ہے کہ بظاہر تو بغیر کسی مخصوص لباس اور دوسری احتیاط کے حضورؒ کے اس احاطے میں چلے جانے سے ہم سب بھی پریشان تھے کیونکہ وہاں لاکھوں کی تعداد میں مکھیاں تھیں۔ ڈر تھا کہ اگر انہوں نے کاٹ لیا تو مشکل پڑ جائے گی۔ لیکن حضورؒ نے اس کی بے تابی دیکھ کر اسے تسلی دی اور فرمایا کہ شہد کی مکھیاں مجھے کچھ نہیں کہیں گی بلکہ میرے ساتھیوں کو بھی کچھ نہیں کہیں گی۔ اور پھر حقیقت میں ایسا ہی ہوا کہ ایک بھی مکھی نہ حضورؒ کی جانب بڑھی اور نہ ہماری طرف آئی۔ یہ نظارہ ہم سب کے لیے بہت ہی عجیب اور حیرت انگیز تھا۔ جب ہم اُس فارم سے باہر آئے تو اُس کے مالک نے امام صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے حضورانور کے بارے میں کہا کہ He must be a Saint۔ اُس نے مزید بتایا کہ اس طرح نہ کبھی وہ خود اور نہ کبھی اُس کے بچے فارم کے اندر مکھیوں کے پاس گئے ہیں۔ حضورؒ کا پاکیزہ دورِ طالب علمی حضور رحمہ اللہ آکسفورڈ میں اپنے طالب علمی کے زمانہ میں چھٹیوں کے دوران گلوسٹرشائر میں مقیم جس لینڈلیڈی کے گھر میں قیام فرما رہے تھے، ایک بار اُس خاتون سے ملنے کے لیے بھی حضورؒ تشریف لے گئے۔ تب اس خاتون کی عمر ۸۰-۸۵سال کے قریب ہو چکی تھی۔ حضورؒ سے مل کر وہ بہت خوش ہوئی۔ ایک موقع پر جب لاؤنج میں امام بشیر احمد رفیق خان صاحب اور خاکسار اُس خاتون کے ساتھ موجود تھے تو دیگر باتوں کے علاوہ امام صاحب نے اُس سے حضورانور کے بارے میں دریافت کیا کہ جب مسٹر ناصرآپ کے پاس رہتے تھے تو آپ نے ان کو کیسا انسان پایا؟ اس پر وہ یوں گویا ہوئی کہ یہ شخص تو گویا شرافت کا پُتلا تھا۔ زیادہ تر خاموش رہتا تھااوراپنے کام سے کام رکھتا تھا،عبادت میں مصروف ہوتا یا کوئی کتاب اس کے زیر مطالعہ ہوتی تھی۔ نصرت جہاں سکیم میں شمولیت گلوسٹرشائر میں واقع مذکورہ لینڈلیڈی کے گھر میں ہی حضورؒ نے مجھے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’ڈاکٹر! نصرت جہاں سکیم کے لیے اپنا نام پیش کرو۔‘‘ اگرچہ اُس وقت تک نصرت جہاں سکیم کا باقاعدہ اعلان نہیں ہوا تھا۔ اس عظیم الشان تحریک کا اعلان حضورؒ نے بعد میں باقاعدہ طور پر مسجد فضل لندن میں فرمایا اور وہاں یہ بھی تحریک فرمائی کہ اس کے لیے جوان ڈاکٹرز اپنا نام پیش کریں۔ اس وقت مسجد فضل میں کوئی درجن بھر ڈاکٹر موجود تھے جن میں خاکسار بھی شامل تھا۔ مَیں نے وہاں ہاتھ کھڑا کرکے اُسی وقت خود کو پیش کردیا۔ اس موقع پر مکرم ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب نے بھی اپنا ہاتھ کھڑا کیا جس پر حضورؒ نے فرمایا کہ ہمیں جوان ڈاکٹر چاہئیں۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ حضور! احمدی ڈاکٹر کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔ تب حضورؒ نے تبسّم فرماتے ہوئے اُن کا نام بھی قبول فرما لیا۔ مالی تحریک میں ادائیگی اور اعجازی نشان حضورؒ نے جب نصرت جہاں سکیم کے حوالے سے چندے کی تحریک کا اعلان فرمایا تو اس وقت ایک صد پاؤنڈ اور دو صد پاؤنڈ پیش کرنے کی تحریک ہوئی۔ جب عطایا دینے والوں کے نام لکھے جارہے تھے اور میرا نام دو صد پاؤنڈ پیش کرنے والوں کی فہرست میں درج تھا تو حضورؒ نے فہرست دیکھ کر وہیں فرمایا: ولی شاہ نے تین سو پاؤنڈ دینے ہیں اور اِسی وقت ادا کرنے ہیں۔ حضورؒ کے ارشاد پر خاکسار نےاُسی وقت چیک بک نکالی اور وہ رقم لکھ کر دے دی۔ لیکن اس حوالے سے پہلی قابل ذکر بات یہ تھی کہ زندگی بھر میں نے چیک بُک گھر سے باہر جاتے وقت کبھی اپنے پاس نہیں رکھی تھی تاہم حُسنِ اتفاق تھا کہ کسی ضرورت کے تحت اُس روز چیک بُک میری جیب میں تھی۔ دوسری طرف حقیقت یہ بھی تھی کہ بینک کے میرے اکاؤنٹ میں اُس وقت بالکل رقم موجود نہیں تھی بلکہ اکاؤنٹ over draft پر چل رہا تھا۔ چنانچہ مسجد سے گھر آنے تک مَیں یہی سوچتا رہا کہ یہ رقم کہاں سے ادا ہوگی۔ آخر فیصلہ کرلیا کہ قرض لے کر اپنا وعدہ ادا کردوں گا۔ اللہ تعالیٰ کی بھی عجیب شان ہے کہ گھر پہنچا تو آگے ٹیکس کے محکمے کی طرف سے ایک خط موجود پا یا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ گذشتہ سال میں میری طرف سے ادا کی جانے والی ٹیکس ریٹرن کی رقم محکمے کی طرف زائد ہوگئی تھی جو وہ مجھے فوری طور پر واپس کررہے تھے جو کہ تین صد سڑسٹھ (۳۶۷) پاؤنڈ بنتی تھی۔ الحمدللہ اس رقم کی واپسی میں ایک خاص نشان یہ بھی تھا کہ عموماً کاروباری (Business)ٹیکس کا حساب اگر زیادہ ادا ہوگیا ہو تو وہ اگلے سال کے حساب میں adjust کرلیا جاتا ہے نہ کہ اسی سال میں وہ رقم واپسی کردی جائے۔ لیکن اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اسی سال مجھے ادائیگی کروا دی بلکہ عین اس وقت کروادی جس وقت خداتعالیٰ کی راہ میں ادائیگی کی گئی تھی۔ آج تک اس بات کی سمجھ مجھے نہیں آسکی کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا تھا۔ بارش کے دوران ایک حیران کُن مشاہدہ Stonehenge کے قریب واقع ایک خوبصورت پارک میں سیر کے دوران یہ معجزہ بھی میرے مشاہدہ میں آیا کہ جب حضورؒ اپنی گاڑی سے نکل کر پیدل چلنے لگے تو اس وقت بارش ہورہی تھی۔ چونکہ حضورؒ کی گاڑی میں چھتری نہیں تھی اس لیے سیکیورٹی گارڈ جلدی سے آیا اور میری گاڑی سے چھتری لے کر حضورؒ کی جانب بھاگا۔ ہم سب بھی حضورؒ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے اور بارش میں بھیگ رہے تھے لیکن اچانک یہ دیکھ کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ حضورؒ پر بارش کا ایک قطرہ بھی نہ پڑا تھااور حضور کا لباس بالکل خشک تھا اور بارش صرف ہم پیچھے چلنے والوں پر برس رہی تھی۔ یہ عجیب نظارہ ہم حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ حضورؒ کا غیرمعمولی صبر اور قوتِ برداشت الحمدللہ کہ حضورؒ کے دانتوں کے علاج کی سعادت میرے حصے میں بھی آتی رہی۔ حضورؒ کی ذات عجیب برداشت اور صبر کا پیکر تھی۔ ایک موقع پر حضورؒ کی Root Canal Treatment کرنی تھی تو اس کے لیے جگہ کو سُن کیے بغیر علاج ممکن نہیں ہوا کرتا لیکن حضور نے فرمایا کہ مَیں ٹیکہ نہیں لگواؤں گا۔ یہ بات سن کر میرے تو اوسان خطا ہونے لگے کہ اس کے بغیر تو یہ علاج ممکن ہی نہیں۔ خاکسار نے ٹیکہ لگانے کے لیے جب اصرار کیا تو حضورؒ نے سختی سے فرمایا کہ مَیں کہہ رہا ہوں کہ ٹیکہ لگائے بغیر علاج کرو، مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ چنانچہ خاکسار نے ڈرتے ڈرتے علاج کیا اور مجال ہے کہ حضوؒر نے کسی قسم کی درد کا اظہار بھی کیا ہو۔ یہ سب کچھ میری سمجھ سے باہر تھا۔ بعد ازاں ایک ٹیکہ Citanestنکل آیا جو نصف گھنٹہ تک جگہ کو سُن رکھتا تھا اور اس طرح منہ جلد ٹھیک ہوجاتا تھا۔ حضورؒ یہ ٹیکہ لگوا لیا کرتے تھے جس پر مجھے بھی سکون نصیب ہوا۔ کار کا حادثہ اور حضورؒ کا تسلّی دینا ایک بار حضورؒ کا مختصر سا قافلہ مکرم ڈاکٹر سعید خان صاحب کے گھر واقع Gomersal, Wakefield (یارک شائر) سے Lake Districtکی جانب رواں دواں تھا۔ حضورؒ کی گاڑی آگے تھی جسے امام بشیر احمد رفیق خان صاحب چلارہے تھے جبکہ مَیں پچھلی گاڑی چلارہا تھا۔ ایک ٹریفک لائٹ پر مجھے کھڑے ہونا پڑا تو حضورکی گاڑی کافی آگے نکل گئی۔ اسی دوران امام صاحب حسبِ معمول کسی سروسز پر چائے وغیرہ کے لیے رُک گئے جس کا مجھے علم نہ ہوسکا تو اس طرح میری گاڑی آگے نکل گئی اور مَیں پریشانی کے عالم میں حضورؒ کی گاڑی کی تلاش میں آگے ہی آگےچلتا رہا۔ اسی دوران اچانک ایک گاڑی کو بچاتے ہوئے میری گاڑی دیوار سے جاٹکرائی اور بالکل بے کار ہو گئی اورچلنے کے قابل نہ رہی۔ حادثہ اتنا شدید تھا کہ اس کے نتیجے میں مکرم مرزا انس احمد صاحب کی ٹانگ پر فریکچر ہوگیا اور اسی طرح مکرم ظہور احمدباجوہ صاحب کی ناک پر بھی چوٹ لگی۔ کچھ دیر کے بعد حضور انور ؒکی گاڑی بھی وہاں پہنچ گئی۔ حضور کو دیکھ کر میری جان نکلتی جارہی تھی کہ نہ جانے کیا فرمائیں گے۔ لیکن میری اس پریشان کُن حالت میں حضور انور کا رویہ بہت ہی مشفقانہ اور ہمدردانہ تھا۔ سب کی خیریت دریافت فرمائی اور مجھے دیکھ کر فرمایا: فکر نہیں کرنی، تمہارا نقصان نہیں ہوگا۔ پھر ہم نے ایک گاڑی کرائے پر حاصل کی اور اپنا سفر جاری رکھا۔ لندن واپس آکر جب ہم نے انشورنس والوں سے گاڑی کا کلیم کیا تو ایجنٹ نے کہا انشورنس کمپنی والے تو حادثے کے گواہان کی گواہی مانگیں گے لیکن تمہارے گواہ تو سارے وہ مسافر تھے جو واپس پاکستان جا چکے ہیں اب اُن کی گواہی کہا ں سے لاؤ گے؟ یہ بھی کہا کہ دوسرا ڈرائیور جھوٹے گواہ لے آئے گا۔ بہرحال انشورنس کمپنی نے مجھے ہرجانہ دینے سے انکار کردیا جس پر مَیں نے قانونی مشورے کے لیے معروف کمپنی AAسے رابطہ کیا جن کی ممبرشپ میرے پاس تھی اور حادثے کی صورت میں وہ قانونی مشورہ بھی دیتے ہیں۔ اُن کی طرف سے جب انشورنس کمپنی سے براہ راست رابطہ کیا گیا تو الحمدللہ کہ چند روز بعد انشورنس کمپنی نے میرا کلیم (دعویٰ) مان لیا اور اس طرح حضورؒ کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں نقصان سے بچ گیا۔ حضورؒ کی ڈانٹ اور ایک بڑے خطرے سے بچت ایک موقع پر جب ہم یارکشائر کے دورے سے واپس آئے تو میں نے اپنی گاڑی مسجد فضل سے ملحقہ سڑک پر ایسی جگہ کھڑی کر دی جہاں پہلے 61-Melrose Roadکی عمارت ہوا کرتی تھی (یعنی اس وقت جہاں مسجد فضل کا سیکیورٹی کیبن ہے۔) اچانک حضورؒ کی نظر مجھ پر پڑی تو نہ جانے کیوں بڑی سختی سے فرمایا ’’ولی شاہ! دُور ہو جاؤ یہاں سے۔‘‘ حضرت بیگم صاحبہ آپا منصورہ مرحومہ بھی ساتھ تھیں۔ انہوں نے حضورؒ سے کہا کہ آپ کیوں بچے کو ڈانٹ رہے ہیں؟ لیکن اُن کی بات کا حضوؒر نے کچھ جواب نہ دیا۔ خاکسار کو اس وقت کچھ سمجھ نہ آئی کہ مجھے اس جگہ سے دُور ہٹ جانے کا کیوں فرمارہے ہیں تاہم میں نے اپنی کار وہاں سے ہٹالی۔ کچھ عرصے بعد جب اُس جگہ کچھ تعمیر کا کام شروع کیا گیا تو یہ انکشاف ہوا کہ جن لوگوں نے پہلا مکان گرایا تھا انہوں نے اس جگہ کے نیچے ایک بیس پچیس فٹ کا گڑھا بغیر پُر کیے چھوڑ دیا تھا اور اس کے اوپر معمولی لکڑیوں کی چھت ڈال کر زمین ہموار کردی تھی۔ نیچے اسی طرح گڑھا موجود تھا جو زیادہ بوجھ پڑنے کی صورت میں بہت خطر ناک ہو سکتا تھا۔ تب یہ عقدہ مجھ پر کھلا کہ حضورؒ نے مجھے اس خاص جگہ سے ہٹ جانے کے لیے کیوں فرمایا تھا۔ اسی حوالے سے ضمناً عرض ہے کہ حضرت چودھری سر محمدظفراللہ خان صاحبؓ اکثر ہمارے ہاں تشریف لایا کرتے تھے اور کوکوا (cocoa) نوش کرنا پسند فرماتے تھے۔ ایک بار میری اہلیہ نے اجازت لے کر آپؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ چودھری صاحب! مجھے کوئی ایسی نصیحت کریں جس کی مَیں پابندی کیا کروں۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے فرمایا: آپ نے قرآن مجید پڑھا ہوا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بھی پڑھی ہوئی ہیں، تمام نصا ئح ان میں موجود ہیں۔ لیکن جب اہلیہ نے اصرار کیا کہ آپ بھی نصیحتاً کچھ فرمائیں تو چند لمحے خاموشی اختیار کرنے کے بعد آپؓ نے فرمایا کہ میری پہلی تو یہی نصیحت ہے کہ اللہ کو ہی اپنا ربّ بناؤ کسی اَور کو نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ کبھی خلیفۂ وقت کی کسی بات یا فعل کو نہ جھٹلاؤ خواہ تم نے اپنی آنکھوں سے کوئی ایسا قابل اعتراض فعل دیکھا ہو یا کانوں سے بات سنی ہو، اپنے کان اور آنکھ کو جھٹلادو کیونکہ خلیفۂ وقت کو اللہ کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے۔ حضرت چودھری صاحبؓ کی زبان سے اس نصیحت کے سننے پر خاکسار کو فوراً مذکورہ بالاوہ واقعہ یاد آگیا جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی سے کار اُس جگہ سے ہٹانے کا ارشاد فرمایا تھا جہاں مَیں نے اپنی کار ابھی پارک کی ہی تھی۔ اور پھر اس واقعے کے کئی سال بعد یہ عقدہ کھلا تھا کہ عین اُس جگہ نیچے بیس پچیس فٹ کا ایک ایسا خطرناک گڑھا تھا جس کو کسی پرانے ٹھیکیدار نے مٹی سے بھرنے کی بجائے اُس پر لکڑیوں کی ایک چھت ڈال کر اوپر سے زمین برابر کردی تھی۔ الحمدللہ کہ خداتعالیٰ نے خلافت کی نعمت سے ہمیں نوازا ہے جس کے ذریعے ہمارے لیے معجزات بھی دکھاتا چلاجاتا ہے۔ حضورؒ کا میری کار میں سفر ۱۹۷۸ء میں کسرصلیب کانفرنس میں شمولیت کے لیے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ جب لندن تشریف لائے تو میڈیا میں اس کانفرنس کی بہت دھوم تھی۔ حضورؒ نے کانفرنس کے لیے لندن کے ایک ہال میں تشریف لے جانا تھا کہ سکاٹ لینڈ یارڈ (پولیس) والوں کا مکرم امام صاحب کو فون آیا کہ آپ کے خلیفۂ وقت پر حملے کی کچھ خبریں ہیں اس لیے آپ احتیاط کریں۔ جب یہ بات حضورانور ؒکی خدمت میں عرض کر دی گئی تو اس پر فیصلہ ہوا کہ جو گاڑی حضوؒر کے لیے مختص کی گئی تھی (اور وہ محترم امام صاحب کی تھی) اس میں سفر نہ کیا جائے۔ چنانچہ حضورؒ نے میری گاڑی میںسفر اختیار فرمانے کا فیصلہ فرمایا جو میرے لیے نہایت خوش کن اور اعزاز کا موجب ہوا۔ الحمدللہ۔ مَیں نے بھی انہی دنوں یہ نئی گاڑی خریدی تھی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی شفقتیںمیلے کچیلے کپڑوں میں ملاقات خاکسار سیکر ٹری ضیافت کی حیثیت سے کچن میں مصروف تھا کہ اچانک مبارک ساہی صاحب آئے اور مجھے کہا کہ جلدی کریں حضور سے آپ کی ملاقات ہے۔ مَیں پریشان ہوا کہ ایسی حالت میں جبکہ میں نے ایپرن باندھا ہوا تھا اور کچن میں کام کی وجہ سے کپڑے شدید میلے کچیلے تھے۔ تاہم ایپرین اتار کر دفتر میں پہنچا تو وہاں میری اہلیہ بھی موجود تھیں۔ (مجھے علم نہیں تھا کہ میری اہلیہ نے اپنے طور پر ملاقات لکھوا رکھی تھی۔) خاکسار کو دیکھ کرحضور نے مجھے میرے گندے کپڑوں کے ساتھ گلے لگا لیا۔ میں نے کوشش تو کی کہ حضور ایسا نہ کریں لیکن حضور نے فرمایا کہ مجھے اندازہ ہے کہ کچن میں کس طرح کا کام ہوتا ہے اس لیے فکر نہ کریں۔ معمول کے مطابق اُس وقت بھی مَیں نے صرف ایک قمیص پہن رکھی تھی۔ حضورؒ نے مجھے ایک قمیص میں دیکھ کر فرمایا کہ میں اکثر سوچتا ہوں کہ آپ کو سردی نہیں لگتی اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا کھاتے ہیں؟ میرے منہ سے بےساختہ نکلا: بیگم کی مار۔ حضور یہ سن کر خوب ہنسے اور فرمایا: ٹھیک ہے، یہ میں نے نہ سوچا تھا۔ اس پر میری اہلیہ نے عرض کی حضور کبھی کسی مرد کو بیوی کی مار کھاتے دیکھا ہے؟ حضور نے ہنس کر فرمایا: پہلے تو نہیں دیکھا تھا لیکن آج دیکھ لیا ہے۔ لندن کے ریجنل امیر کی حیثیت سے تقرری مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے ساتھ ہماری فیملی کے گھریلو مراسم تھے۔ ایک بار جب آپ لندن تشریف لائے ہوئے تھے تو اہلیہ سے بات کرتے ہوئے پوچھاکہ ولی شاہ کے پاس آجکل کونسا عہدہ ہے؟ جس کا جواب اہلیہ نے دیا کہ وہ سیکر ٹری ضیافت یوکے ہیں۔ میاں صاحب نے کہا کہ کیا اس نے ساری عمر ہی سیکر ٹری ضیافت رہنا ہے؟ یہ بات آئی گئی ہوگئی۔ اگلے روز حسب معمول میری اہلیہ جب حضورؒ کے گھر گئیں تو وہاں بھی مکرم میاں صاحب کی بات کا ذکر ہوا اور بات ختم ہو گئی۔ اس کے اگلے ہی روز حضور ؒنے اچانک ارشاد فرمایا کہ ولی شاہ کو لندن ریجن کا امیر مقرر کررہا ہوں۔ مَیں حیران تھا کیونکہ مجھے تو امیر کی حیثیت سے کام کا بالکل اندازہ نہ تھا اور خود کو اس قابل بھی نہ سمجھتا تھا تاہم یہ میرے لیے سعادت تھی کہ مجھے سیکرٹری ضیافت کے طور پر تیرہ سال خدمت کی توفیق ملی تھی اور اب حضورانور کی طرف سے ازخود امیر جماعت احمدیہ لندن مقرر کر دیا گیا تھا۔ الحمدللہ بطور امیر جماعت یوکے خدمت کی توفیق ۱۹۸۶ء میں یوکے جماعت کے انتخابات ہوئے تو مکرم آفتاب احمد خان صاحب کا نام بھی امارت کے لیے پیش ہوا۔ اگرچہ آپ کے ووٹ بہت کم تھے لیکن اس کے باوجود حضور رحمہ اللہ نے آپ کا نام منظور فرمالیا۔ بعد ازاں آپ کی خدمات کا وسیع اور تاریخی دَور شروع ہوا۔ ۱۹۹۶ء میں آ پ کی اچانک وفات ہوئی تو احباب جماعت تعزیت کے لیے حضورؒ کی خدمت میں بھی حاضر ہورہے تھے۔ اسی سلسلے میں مجلس عاملہ کے احباب بھی تشریف لائے۔ محترم عطاءالمجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن اورخاکسار بھی حاضر ہوئے۔ ہم تعزیت کے بعد اٹھ کر جب باہر آرہے تھے تو حضورؒ مجھ سے مخاطب ہوئے لیکن مَیں حضورؒ کی بات کو سمجھ نہ سکا اور باہر آگیا۔ تب مجھے محترم امام صاحب نے توجہ دلائی کہ حضورؒ مجھ سے مخاطب تھے لیکن میری توجہ نہیں تھی۔ اس پر خاکسار دوبارہ حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوا جس پر حضورؒ نےمجھے فرمایا کہ اب اس کارواں کو سنبھالیں۔ پھر مجھے امیر یوکے مقرر کر دیا گیا۔ یہ اچانک ذمہ داری میری بساط اور سوچ سے بڑھ کر تھی۔ تاہم آقا کا حکم تھا جس کے آگے انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ امارت کا بوجھ واقعی میری بساط سے بہت بڑھ کر تھا جس کا احساس حضورؒ کو بھی تھا۔ جب تقریباًسات آٹھ ماہ گزر گئے تو حضورؒ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ ذمہ داری آپ کے بس کی بات نہیں، آپ میں غیر معمولی شرافت ہے۔ یہ ذمہ داری کسی چاق و چوبند شخصیت کے سپرد ہونی چاہیے اس لیے آپ کوئی نام تجویز کریں۔ اس ہدایت کے ملنے پر خاکسار نے خداتعالیٰ کا شکر ادا کیا اور حضور کی ہدایت پر تین چار نام تجویز کرکے خدمت اقدس میں پیش کیے جس پر مکرم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب کو امیر یوکے مقرر کر دیا گیا۔ افریقہ میں خدمت کی توفیق اور بیماری سے حفاظت کی یقین دہانی ایک بار حضورؒ نے مجھ سے استفسار فرمایا کہ آپ افریقہ کیوں نہیں گئے کیونکہ آپ کا نام تو میں نے افریقہ میں وقف کرنے والوں کی فہرست میں دیکھا تھا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ کیونکہ مَیں دستانے (gloves) پہن کر کام نہیں کرسکتا اور افریقہ میں چونکہ AIDSکی بیماری کثرت سے پائی جاتی ہے اس لیے وہاں میرے لیے کام کرنا مشکل لگ رہا ہے (مجھے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے بھی انہی وجوہات کی بِنا پر افریقہ جانے سے روک دیا تھا)۔ تاہم حضورؒ نے فرمایا کہ تم نہ صرف ایک احمد ی ہو بلکہ سیّد بھی ہو اس لیے تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ چنانچہ بعدازاں مجھے افریقہ جا کر چار سال تک خدمت خلق کرنے کی توفیق ملی۔ اپنے مریضوں کا علاج بغیر دستانے پہنے کرتا رہا۔ الحمدللہ کہ ہر قسم کی بیماری سے اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ معجزانہ رنگ میں بچیوں کی شادی کا سامان خاکسار کو اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹیوں سے نوازا ہے۔ ان کی شادیوں کے بارے میں خاکسار اور اہلیہ کو سخت پریشانی تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ سب کام کیسے سرانجام پائیں گے۔ جب حضورؒ کی سب سے چھوٹی بیٹی بی بی طوبیٰ کی شادی کے دن حضور مرکزی میز پر تشریف فرما تھے تو مَیں نے محترم امیر صاحب سے درخواست کی کہ مَیں بھی حضور اقدس کے پاس کھڑا ہونا چاہتا ہوں مجھے اس کی اجازت دے دیں۔ وہ مجھے سمجھاتے رہے کہ یہ مناسب نہیں ہے اور یہ کہ میں آرام سے کرسی پر بیٹھوں۔ لیکن میرا اصرار تھا کہ میں بھی حضور اقدس کے پیچھے کھڑا ہو جاؤں۔ چنانچہ پھر امیر صاحب نے مجھے اجازت دے دی کہ ایک طرف ہو کر کھڑا ہوجاؤں۔ تقریب کے بعد حضور کی جب مجھ پر نظر پڑی تو خاکسار نے ادب سے عرض کیا کہ ’’حضور! بی بی طوبیٰ کی شادی بہت مبارک ہو۔ آپ کی تو آخری بچی کی شادی ہوگئی ہے، ہمارا بھی کچھ خیال فرمائیں میری ابھی چار بیٹیاں شادی کے قابل ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں۔ ‘‘اس پر حضورؒ نے فرمایا: ’’ان شاءاللہ۔‘‘ اس بات کے تقریباً ڈیڑھ ہفتہ بعد حضور بیمار ہوگئے اور ہسپتال داخل ہونا پڑا جب واپس تشریف لائے تو بہت کمزور ہو چکے تھے۔ مجھے گمان ہوا کہ خلافت کی مصروفیات اور بیماری کی وجہ سے حضور بھول گئے ہوں گے۔ لیکن تقریباً تین ماہ بعد مجھے فون آیا کہ میں حضور کو ملوں۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے حضورؒ سےکی گئی اپنی گزارش بھی بھول چکی تھی۔ بہرحال حضورؒ کا ارشاد ملنے پر ۴۱؍گیسٹ ہاؤس میں میری اور میری بیوی کی حضور اقدس سے ملاقات ہوئی۔ حضور انور جب کمرے میں داخل ہوئے تو فرمایا ’’مجھے اپنا وعدہ یاد ہے میں بھولا نہیں ہوں۔‘‘ پھر ایک بیٹی کا نہ صرف رشتہ بتا یا بلکہ اسی دن طے بھی کروا دیا۔ اسی طرح چھ سات ماہ کے اندر اندر ہماری چاروں باقی بیٹیوں کی شادیاں طے ہو گئیں۔ الحمد للہ علی ذٰلک۔ کیا ہی پیاری ہستی تھی مجھ جیسے ناکارہ شخص کو نہ صرف اپنی دعاؤں میں یاد رکھتےبلکہ عملاً میرے کاموں میں مدد گار رہے۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء۔ بھاری جرمانے کی معجزانہ طور پر معافی برطانیہ کے ٹیکس وصول کرنے والے معروف ادارے Inland Revenue نے ایک بار میری آمدنی کی انکوائری کی اور پھر میرا جرم یہ قرار دیا کہ چونکہ میری آمدنی دیگر ڈینٹسٹس کی نسبت کئی گنا کم ہے اس لیے یہ فراڈ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس پر مجھے ایک لاکھ پاؤنڈ جرمانہ کر دیا گیا۔ میں نے افسران کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ میں احمدی بھائی بہنوں سے علاج کے پیسے نہیں لیتا اور نہ ہی ڈاکٹروں وغیرہ سے لیتا ہوں۔ انہوں نے اعتراض کیا کہ کسی کے چھ سات ہزار بھائی بہن نہیں ہوتے۔ جب انہیں اپنی کمیونٹی کے بارے میں بتا یا تو میری اس دلیل کے بعد میرا جرمانہ ۱۰ہزار پاؤنڈ کرکے فوری طور پر ادا کرنے کا کہا گیا۔خاکسار نے یہ ساری صورتحال حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں عرض کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی۔ اس پر حضور نے دعا کرنے کا وعدہ کر لیا۔ میرے پا س بظاہر کوئی چارہ نہ تھا اور سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیسے رقم ادا کی جائے۔ با لآخر خاکسار اپنے بینک مینیجر Mr Perrymanکے پاس گیا جو ایک انگریز تھا۔ اس مینیجر سے میری پرانی واقفیت تھی کیونکہ اس کا تعلق جلنگھم کے علاقہ سے تھا جہاں مقیم میرے بہت سے عزیز و اقارب کو وہ جانتا تھا۔ میں نے قرض لینے کے لیے درخواست کی تو مینیجر نے پوچھا کہ تمہیں ایسی کیا ضرورت پڑگئی ہے؟ جب اسے ساری بات بتائی کہ اس طرح ٹیکس والوں نے جرمانہ کر دیا ہے تو یہ سن کر اسے افسوس ہوا اور بڑی ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ تم ابھی قرض نہ لو اور مجھے ٹیکس والوں سے بات کرنے کا موقع دو۔ یہاں حیرت کا باعث یہ بات تھی کہ اگرچہ بینک مینیجر کی کارکردگی کے لیے مجھے قرض دینا فائدہ مند تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اُس کے دل میں میرے لیے ہمدردی ڈال دی۔ اور چونکہ اس کے ٹیکس والوں سے بھی اچھے تعلقات تھے اس لیے جب اُس نے ٹیکس والوں سے ساری صورتحال بیان کی تو معجزانہ طور پر دس ہزار پاؤنڈ کا جرمانہ بھی معاف کردیا گیا۔ یہ محض اللہ کا فضل تھا اور حضور رحمہ اللہ کی دعاؤں کے طفیل ہی سارے سامان ہوئے تھے۔ الحمد للہ معجزانہ رنگ میں شفا کا ایک نشان خاکسار کے خالو سسر مکرم عطاء الرحمٰن صاحب کی وفات ۱۹۹۶ء میں ربوہ میں ہوئی۔ تدفین جس میں شمولیت کے لیے ہم بھی پاکستان گئے تو واپسی پر مجھے Hepatitis ہوگیا جس سے مسلسل بخار ہونے لگا۔ میری چونکہ ڈینٹسٹ کی پریکٹس تھی اس لیے مجھے بخار اترنے اور مکمل شفا کے بعد بھی چھ ہفتے تک انتظار کرنا پڑنا تھا۔ اس سے پہلے میں اپنے مریضوں کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ خاکسار نے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں ساری صورتحال عرض کی تو حضورؒ نے مجھے ہومیو پیتھی ادویات عطا فرمائیں۔ ادویات کے استعمال سے میرے کان سوج گئے اور مجھے یوں لگتا تھا میں نے کسی باکسر سے مار کھائی ہو۔ جب حضور کی خدمت میں یہ علامات بیان کی گئیں تو حضورؒ نے فرمایا کہ بالکل ٹھیک ہے۔ پھر سوجن اترنے پر حضورؒ نے ارشاد فرمایا کہ اب جاکر اپنا ٹیسٹ کروائیں۔ ٹیسٹ کروانے پر حیران کُن رزلٹ تھا کہ بیماری کا نام و نشان تک نہ تھا۔ محض حضور کی دعاؤں اور علاج کے باعث معجزانہ شفا ہوئی۔ الحمدللہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی وفات اور حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا بابرکت انتخاب خاکسار خود کو کسی طرح بھی اس کا اہل نہیں سمجھتا کہ میرا نام بھی انتخاب خلافت کمیٹی یعنی الیکٹورل کالج (مجلس انتخابِ خلافت) میں شامل ہو سکتا۔ لیکن الحمدللہ کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کی شفقت سے یہ اعزاز بھی ممکن ہوا اور اس عاجز کو اس شرف سے نوازا گیا۔ چنانچہ حضور رحمہ اللہ کی وفات کے بعد جب مسجد فضل لندن میں مجلس انتخاب کو اکٹھے ہونے کی ہدایت ملی تو خاکسار بھی حاضر ہوا اور مسجد میں ایک جانب بیٹھ گیا۔ مکرم چودھری حمیداللہ صاحب صدر مجلس تھے۔ آپ نے انتخاب کے لیے نام تجویز کرنے کے لیے کہا جس پر نام تجویز ہونے لگے۔ میرے ساتھ ایک افریقن دوست بھی تشریف فرما تھے انہوں نے مجھے کہا میں تو کسی کو نہیں جانتا۔ اس پر خاکسار نے جسارت کرتے ہوئے صدر مجلس کو درخواست کی کہ جن کے نام پیش کیے جارہے ہیں ہم میں سے بعض لوگ انہیں نہیں جانتے اس لیے اگر ممکن ہو تو ان کا تعارف کروا دیا جائے۔ یہ درخواست قبول کرتے ہوئے آ پ نے نامزد حضرات کو کھڑے ہونے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کا نام سب سے پہلے پیش ہوا تھا۔ آپ مسجد کے پچھلے حصے میں جوتیوں کے قریب تشریف فرما تھے۔ آ پ کھڑے ہوئے تو میرے ساتھ بیٹھے افریقن دوست نے انگلش میں کہا This is the man (یہی ہے وہ شخص)۔ اس پر مجھے حیرت ہوئی کہ چند ثانیے پہلے تو یہ کسی کو نہیں جانتے تھے اور اب ایسا تأثر دے رہے ہیں کہ وہ انہیں پہچانتے ہیں۔ میرا غالب خیال ہے کہ انہوںنے بھی کوئی خواب وغیرہ دیکھا ہوگا یا پھر خداتعالیٰ نے اُن کے دل پر القا کیا ہو گا جو ایسا برجستہ فقرہ اُن کے منہ سے نکلا۔ واللہ اعلم انتخابِ خلافت کی تائید میںایک خواب یہاں خاکسار عرض کرتا ہے میں بھی چہرے سے حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو نہیں جانتا تھا تاہم آپ کا نام سنا ہوا تھا بلکہ مجھ پر بھی خواب میں ہی مرزا مسرور احمد صاحب کا نام ظاہر ہوا تھا۔ انتخابِ خلافت سے دو راتیں پہلے میں نے اس انتخاب کی تائید میں یہ خواب دیکھا تھا کہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب مسجد فضل لندن سے محمود ہال کی جانب جا رہے ہیں۔مَیں نے مکرم ناصر سعید صاحب مرحوم (کارکن عملہ حفاظت) سے پوچھا کہ یہ کو ن ہیں ؟ جس پر انہوں نے کہا کہ ’’تمہیں نہیں معلوم کہ یہ کون ہیں! یہ تمہارے خلیفہ ٔ وقت ہیں۔‘‘ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی شفقت سےگیمبیا میں خدمت کی توفیق خلافت کے ابتدائی دنوں میں احمدیہ مسلم ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے تحت میٹنگ تھی جس میں ڈاکٹر محمد زبیر راناصاحب (صدرایسوسی ایشن) نے مجھے پہلی قطار میں بیٹھنے کا ارشاد فرمایا۔ جب حضورانور اندر تشریف لائے تو مجھے دیکھ کر فرمایا آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ خاکسار ڈر گیا کہ شاید میں غلط جگہ بیٹھ گیا ہوں۔ حضورانور نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ آپ کو تو افریقہ میں ہونا چاہیے تھا۔ اگرچہ مجھے حیرت بھی ہوئی کہ حضورانور نے مجھے کیسے پہچانا ہے جبکہ ہمارا آپس میں کوئی تعارف نہ تھا۔ بہرحال میرے لیے یہ ملاقات غیر معمولی تھی۔ معاً بعدآپ نے مجھے افریقہ جانے کا ارشاد فرمایا جہاں چار سال تک مجھے گیمبیا میں خدمت خلق کی توفیق ملی۔ الحمدللہ معجزانہ شفا حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں سے شفایابی جیسے کئی معجزات کا مَیں خود بھی شاہد ہوں۔ الحمدللہ۔ مثلاً خاکسار کو ۲۰۱۷ء میں کینسر تشخیص ہوا تو ڈاکٹرز نے محض چند ماہ کی زندگی کا وقت دیا۔ مَیں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی جو آپ نے قبول فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی فضل فرماتے ہوئے خاکسار کو صحت سے نوازا اور آٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے پر آج بھی معجزانہ طور پر باحیات ہوں اور خداتعالیٰ کے فضل سے صحت مند ہوں۔ الحمدللہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس فانی دنیا سے جب بھی کوچ کا وقت لائے تو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹتے ہوئے انجام بخیر فرما دے۔ آمین (محمد اسلم خالد، محمود احمد ملک۔یوکے) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے!