https://youtu.be/LEa0gFxKogI?si=oUMvyiqTZXzDc57S اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے طریق یہی ہے کہ وہ انسانوں کو اپنے مرسلوں اور منذروں اور مبشّروں کے ذریعہ ہی ہدایت دیتا ہے اور انسان ان کے ذریعہ ہی ہدایت پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنےاسی قانون کے مطابق اس زمانہ میں امّتِ محمدیہ میں رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کو مبعوث فرمایا اور پھر پیشگوئیوں کے مطابق آپؑ کے ذریعہ خلافتِ راشدہ کا قیام فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام سورۃ الفاتحہ کی غیر معمولی خوبیوں کے نادر پہلو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’إِنَّهَا جَامِعَةٌ لِكُلِّ مَا يَحْتَاجُ الْاِنسَانُ اِلَيْهِ فِي مَعْرِفَةِ الْمَبْدَءِ وَالْمَعَادِ كَمَثَلِ الِْاستِدْلَالِ عَلٰى وُجُودِ الصَّانِعِ وَضَرُورَةِ النُّبُوَّةِ وَ الْخِلَافَةِ فِي الْعِبَادِ۔وَمِنْ أَعْظَمِ الْأَخْبَارِ وَأَكْبَرِهَا أَنَّهَا تُبَشِّرُ بِزَمَانِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ وَأَيَّامِ الْمَهْدِيِّ الْمَعْهُودِ۔‘‘(اعجازالمسیح۔ روحانی خزائن، جلد ۱۸،صفحہ ۷۰۔۷۱)جن امور کا انسان کو مبدء و معاد کے سلسلہ میں جاننا ضروری ہے، وہ سب اس(سورۃ الفاتحہ) میں موجود ہیں۔مثلاً وجودِباری، ضرورت نبوّت اور مومن بندوں میں سلسلہ ٔخلافت کے قیام پر استدلال۔ اور اس سورۃ کی سب سے بڑی اور اہم خبر یہ ہے کہ یہ سورۃ مسیح موعود اور مہدیٔ معہود کے زمانہ کی بشارت دیتی ہے۔ اس عبارت میں’’الْخِلَافَةِ فِي الْعِبَادِ‘‘ میں فِی الْعِبَاد کا ترجمہ ’’مومن بندوں میں‘‘ کیا گیا ہے۔ یہ اس لیےہے کہ خلافت کے ساتھ جب لفظ اَلْعِبَاد آیا ہے تو اس کا معنیٰ سوائے مومن بندوں کے اور نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ آیتِ استخلاف (النّور:۵۶) میں ایمان لانے اور عملِ صالح بجا لانے والوں ہی سے وعدۂ خلافت ہے۔اس بنیاد اور فہم کے تحت ہم جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس پُرمعارف تحریر میں استدلالِ خلافت کو ڈھونڈتے ہیں تو آپؑ ہی کے الفاظ ’’الْخِلَافَةِ فِي الْعِبَادِ‘‘ کے الفاظ ہمیں ایک دلکش گلستانِ ایمان و ایقان میں پہنچا دیتے ہیں۔کیونکہ لفظ اَلْعِبَاد کا استعمال ہمیں سورۃ الفاتحہ میں لفظ ’’نَعْبُدُ‘‘ سے ملا دیتا ہے۔ اَلْعِبَاد اور نَعْبُدُ کاباہمی ناتا کیا ہے؟ مفردات امام راغبؒ میں لکھا ہے:عَبْدٌ: اَلْعُبُوْدِیَّۃُ کے معنیٰ ہیں کسی کے سامنے تذلّل اور انکسار ظاہر کرنا اور اَلْعِبَادَۃُ کے معنے ہیں انتہائی درجہ کا تذلّل اور انکسار۔یعنی اَلْعِبَادَۃُ کا لفظ اَلْعُبُوْدِیَّۃُ سے زیادہ بلیغ ہے۔لہٰذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہو سکتی ہے جو بےحد صاحبِ افضال و انعام ہو اور ایسی ذات صرف ذاتِ الٰہی ہے۔ فرمایا:’’اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ۔‘‘(بنی اسرائیل:۲۴) اَلْعَبْدُ: بندہ، غلام۔ غلام وہ انسان ہے جسے خریدنا اور فروخت کرنا شرعًا جائز ہے۔ اسی طرح لکھا ہے: عَبْدٌ وہ ہے جو عبادت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔وہ اللہ تعالیٰ کامخلص بندہ بن جاتا ہے۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ ایسے خالص بندوں اور انبیاء ؑکے ذکر کے طور پر بھی آیا ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ عبادت اور عبدیّت میں عبدیّت کو فوقیت حاصل ہے کہ اس میں عبادت کے ساتھ ہر لمحہ اللہ کی اطاعت اور اس کی رضا طلبی میں گزرتا ہے۔یہ پہلو غلامی کے تصوّر یا اس کی صفات سے ہم آہنگ ہے۔ جب کہ عبادت شریعت کے مقررہ مخصوص اعمال کی ا دائیگی ہے۔ لفظ غلام کے معنوں میں یا ایک غلام کے کردار میں یہ صفت بھی موجود ہے کہ اسے اپنے مالک کے حکم کو ہرحال میں ماننا ہے نیز وہ فروخت بھی ہوتا ہے اور خریدا بھی جاتا ہے۔ ہم ان تفصیلی معنوں کے تناظر میں سورۃ الفاتحہ میں جب آیت ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ پڑھتے ہیں تو اس میں یہ دونوں معنے موجود پاتے ہیں یعنی ۱۔ عبودیّت کے پہلو سے ہم صرف اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کا اقرار کرتے ہیں اوراس کے لیے صرف اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ ۲۔عبدیّت کے پہلو سے یہ اقرار کرتے ہیں کہ ہم اس ہی کے غلام ہیں اور اپنی اس حیثیت کو ہمیشہ کے لیےقائم رکھنے کے لیے بھی اسی سے مدد مانگتے ہیں۔یہاں ہم اللہ تعالیٰ کی غلامی کا جؤا اپنی گردنوں پر ڈال کر خود کو اللہ تعالیٰ کی سپردگی میں دے دیتے ہیں۔ اس حقیقت کے عرفان کے بعد اگلا منظر یہ ہے کہ قرآن کریم ہمیں واضح رنگ میں بتاتا ہے کہ یہ الٰہی قانون ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی عبدیّت میں اس کے بھیجے ہوئے رسولوں یا مقرر کردہ مقدّس راہنماؤں کی اتّباع ہی سے داخل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔جیسا کہ وہ فرماتا ہے: وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ الْأَوَّلِيْنَ۔ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيْهِمْ مُنْذِرِيْنَ۔ (الصّٰفّٰت: ۷۲-۷۳) کہ یقیناً ان سے قبل پہلی قوموں میں سے بھی اکثر گمراہ ہو چکے تھے۔ جبکہ یقیناً ہم ان میں ڈرانے والے بھیج چکے تھے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ گمراہوں کی ہدایت کے لیے آگاہ کرنے والے بندے بھیجے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ جنّتیوں کے اس اقرار کا بھی ذکر بیان فرماتا ہے : وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي هَدَانَا لِهٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَٓا أَنْ هَدَانَا اللّٰهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ۔ (الاعراف:۴۴) اور وہ کہیں گے کہ تمام حمد اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں یہاں پہنچنے کی راہ دکھائی جب کہ ہم کبھی ہدایت نہ پاسکتے تھے اگر اللہ ہمیں ہدایت نہ دیتا۔ یقیناً ہمارے پاس ہمارے ربّ کے رسول حق کے ساتھ آئے تھے۔ ان آیات کریمہ میں اس الٰہی قانون کا ذکر لکھا گیا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نبیوں یا اس کی طرف سے مقررہ مقدّس راہنماؤں کی اتّباع کے بغیر سیدھے راستہ پر نہیں چل سکتا۔ چنانچہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُسےاگلی آیت میں ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کہ اےاللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ یعنی تیرے سوا ہمیں اور کوئی صراط مستقیم پر نہیں ڈال سکتا۔ لیکن قرآن کریم یہ بھی ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو صراط مستقیم یعنی سیدھے اور سچّے راستہ پر اپنے مقررہ بندوں کے ذریعہ ہی چلاتا ہے۔وہ یہ دعا کرنے والے ہر فردِ واحد کے پاس خود آ آ کر اپنی وحی یا الہام کے ذریعے راہنمائی نہیں کرتا۔ ایک مشہور پنجابی صوفی شاعر میاں محمد بخشؔ نے بھی اپنے ایک شعر میں اس حقیقت کو پیش کیا ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کے ہم عصر تھے۔وہ اپنی اس صوفیانہ شاعری کی دنیا ہی میں غلطاں رہے اور باوجود ہدایت کے اس فلسفہ کو جاننے کے اپنے قریب اور آس پاس موجود الٰہی مرشد کو نہ پہچان سکے اور اس الٰہی ہدایت سے محروم رہے اوربالآخر راستہ ہی میں رُل کر اس دنیا سے چلے گئے۔ انہوں نے چونکہ بات سچ کی ہے اس لیے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ وہ کہتے ہیں راہ دے راہ دے ہر کوئی آکھے، میں وی آکھاں راہ دےبِن مرشد دے راہ نئیں لبھنا، رُل مرسیں وِچ راہ دے یعنی ہر کوئی سیدھے راستہ کی بابت پوچھتا ہے اور میں خود بھی اس بارے میں پوچھتا ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ بغیر سچّے راہنما کے یہ راستہ نہیں مل سکتا اور اگر اس سے راستہ نہیں پوچھتے تو لازماً راستہ ہی میں مر کھپ جاؤ گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے اس مضمون کوانتہائی خوبصورت اور بلیغ الفاظ میں یوں بیان فرمایا ہے کہ اس جہاں میں خواہشِ آزادگی بے سود ہےاک تری قیدِ محبت ہے جو کر دے رستگار یعنی اس دنیا میں کوئی شخص آزادی کی خواہش رکھتا ہے تو اس کی یہ خواہش بے فائدہ ہے جو پوری نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ وہ کسی نہ کسی قید میں ضرور مقیّد ہوتا ہے اور وہ کسی نہ کسی جذبہ یا کشش کا اسیر رہتا ہے۔لیکن صرف ایک قید، جو کہ محبتِ الٰہی کی قید ہے، وہی ہے جو انسان کو دوسری ہر قید سے آزاد کر دیتی ہے۔اس قیدِ محبّتِ الٰہی کا حصول صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے مرسَل کی غلامی کےذریعہ ممکن ہوتا ہے۔ اس سے باہر رہ کر ممکن نہیں۔ الغرض اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے طریق یہی ہے کہ وہ انسانوں کو اپنے مرسلوں اور منذروں اور مبشّروں کے ذریعہ ہی ہدایت دیتا ہے اور انسان ان کے ذریعہ ہی ہدایت پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنےاسی قانون کے مطابق اس زمانہ میں امّتِ محمدیہ میں رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کو مبعوث فرمایا اور پھر پیشگوئیوں کے مطابق آپؑ کے ذریعہ خلافتِ راشدہ کا قیام فرمایا۔ آپؑ نےیہ خبر دی کہ آپؑ کے بعد یہ خلافت تا قیامت قائم رہے گی۔لہٰذا اب حقیقی، سچّا اور الٰہی مرشَد وقت کا خلیفہ راشد ہے جو صراطِ مستقیم کے لیے حقیقی راہنما ہے۔اس خلافت کے ساتھ عبدیّت کا پہلو یہ ہے کہ جماعتِ مومنین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کے بعد خلافت کے ہاتھ پر بیعت کرتی ہے۔ بیعت کے لغوی معنے فروخت ہوناہے۔یہی وہ صفت ہے جو’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ ‘‘میں ایک عبد یعنی ایک غلام کی ہے کہ وہ ایک طرف بِکتا بھی ہے اور دوسری طرف خریدا بھی جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بِک جانے والے خود کو ہر خلیفۃ المسیح کے ہاتھ پر بیچتے ہیں اور وہ خلیفۃ المسیح انہیں اپنی بیعت کے ساتھ خریدلیتا ہے۔ اس بِکنے والے کے لیے خلیفۂ وقت کی اطاعت کا معیار، طریق اور فلسفہ اسی عبادت کے معنوں میں ہے جو وہ نبی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ذریعہ نازل شدہ الٰہی تقدیر یہی ہے کہ اب قیامت تک خلافت ہے جو اس عملی طریق کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہنمائی، ہدایت اور سیدھے راستہ پر قائم رکھنے کا دائمی اور مقرر ہ ذریعہ ہے۔ اس ذریعہ کی طرف سورۃ الفاتحہ ہمیں آیتِ کریمہ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ میں لفظِ عَبْد کے ذریعہ راہنمائی کرتی ہے۔ لفظِ ’’نَعْبُد‘‘ میں بیعت کا واضح معنیٰ،مفہوم اور اس کی غرض و غایت بیان شدہ ہے۔الغرض جب ہم صرف اپنی نمازوں اور سنّتوں میں بار بار اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُپڑھتے ہیں تو ہم یہ اقرار کر رہے ہوتے ہیں کہ اےاللہ !ہم تیرے ہی غلام ہیں یعنی ’’ الْخِلَافَةِ فِي الْعِبَادِ‘‘ اس طرح ہے کہ سورۃ النور آیت ۵۶ میں مذکورہ خلافت ان عباد میں جاری ہے جو اس خلافت کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بیعت میں داخل ہیں اور وہی ہیں جو سورۃ الفاتحہ کی برکات سے فیضیاب ہیں۔ وہی صراط مستقیم پر ہیں اور بارگاہِ الٰہی سے انعام یافتہ ہیں۔ پس سورۃ الفاتحہ میں جماعتِ مومنین کو خلافت راشدہ سے وابستہ کرنے کا ایک بنیادی ذریعہ آیت اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے اس کی طرف اپنی اس تحریر میں یہ ذکر فرمایا ہے کہ سورۃ الفاتحہ میں ضرورتِ نبوّت اور مومن بندوں میں سلسلہ خلافت کے قیام پر استدلال موجود ہے۔فالحمدللہ علیٰ ذٰلک اللہ تعالیٰ ہر نماز میں کی ہوئی ہر دعا قبول فرمائے اور ہمیں خلافت کے ذریعہ اَلْعِبَادِ میں شامل فرمائے۔ آمین اللّٰھم آمین! (ہادی علی چودھری۔ نائب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا) مزید پڑھیں: حقوق العباد کی اہمیت