https://youtu.be/533YMqvhT34 حدیث کی مختلف روایات اور امت کے پانچ ادوار کا تذکرہ مسیح موعود ظاہر ہوا۔مہدی معہود طلوع ہوا۔اس نے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی پھر بنا ڈالی وہی اس خلافت کے دوسرے دور کا بانی مبانی تھا اس نے اپنے بعد قدرت ثانیہ اور خلافت کی بشارت دی اور ۱۹۰۸ء میں اس کی وفات کے بعد اس کی جماعت میں اس کی نیابت کا سلسلہ جاری ہوا جو خلافت احمدیہ کے نام سے موسوم ہے اور کل عالم میں اسلام کی تبلیغ واشاعت اور حق کے غلبہ کے لیے کوشاں ہے رسول کریم ﷺ کی احادیث میں ان حدیثوں کا خاص مرتبہ ہے جو آئندہ زمانےکی پیشگوئیوں پر مشتمل ہیں کیونکہ وہ خاص خدا کی صفت علیم یعنی علم غیب سے تعلق رکھتی ہیں درج ذیل حدیث بھی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کو اللہ کی طرف سے عطا کردہ علم غیب کا شاہکار ہے۔اس میں امت محمدیہ پر آنے والے تمام روحانی اور سیاسی ادوار کی پیشگوئی ہے جو لفظاً لفظاً پوری ہو چکی ہے اور اللہ کی ہستی اور رسول اللہ ﷺ کی سچائی اور خلافت کی حقانیت کا ثبوت ہے۔ امت محمدیہ کے پانچ دور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اِنَّكُمْ فِي النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللّٰهُ اَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا اِذَا شَاءَ اَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللّٰهُ اَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا اِذَا شَاءَ اَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللّٰهُ اَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا اِذَا شَاءَ اَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللّٰهُ اَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا اِذَا شَاءَ اَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّة حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم اب زمانہ نبوت میں ہو پھر اللہ اسے اٹھا لے گا جب چاہے گا پھر خلافت علیٰ منہاج النبوة قائم ہوگی اور جب تک اللہ چاہے گا قائم رہے گی پھر اللہ اسے اٹھا لے گا جب چاہے گا۔ پھر ایذا رساں بادشاہت قائم ہوگی اور جب تک اللہ چاہے گا قائم رہے گی پھر اللہ اسے اٹھا لے گا جب چاہے گا۔ پھر اس کے بعد جابر بادشاہت قائم ہوگی اور جب تک اللہ چاہے گا قائم رہے گی پھر اللہ اسے اٹھا لے گا جب چاہے گا۔ بعد ازاں خلافت علیٰ منہاج النبوة قائم ہوگی۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے پانچ زمانوں کا ذکر فرمایاہے جو یکے بعد دیگرے پورے ہوگئے ہیں۔ ۱۔ نبوت یعنی رسول اللہﷺ کا مبارک دور ۲۔ خلافت علی منہاج النبوۃ۔یعنی خلافت راشدہ کا دور۔جس میں چار خلفاء شامل ہیں ۳۔ملکا عاضا کا دور۔یعنی جب خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو گئی بنو امیہ اور بنو عباس کی حکومتیں وغیرہ ۴۔ملکا جبریۃ کا دور۔مسلمانوں کی ظالمانہ حکومتیں اور غیر ملکی حکومتیں جنہوں نے مسلم علاقوں پر حکومت کی ۵۔خلافت علی منہاج النبوۃ کا دوسرا دور۔یعنی مسیح موعود جو خاتم الخلفاء ہے اور اتبا ع رسول ﷺ میں ظلی نبی ہے اس کے ذریعہ خلافت کا دوسرا اور آخری دور اس حدیث کے راویوں میں چار صحابہ شامل ہیں حضرت نعمان بن بشیرؓ،حضرت بشیر بن سعدؓ،حضرت ابو ثعلبہ ؓاور حضرت حذیفہ بن یمانؓ۔ ایک مجلس میں آخری تین صحابہ اس حدیث کے مضمون کو یاد کر رہے ہیں اور آخر میں حضرت حذیفہ بن یمان ؓیہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث سب سے زیادہ یاد ہے اور پھر انہی سے یہ روایت درج کی گئی ہے۔ حدیث کا سب سے ابتدائی حوالہ یہ حدیث زمانی لحاظ سے سب سے پہلے مسند ابو داؤد طیالسی میں ملتی ہے اس کے مؤلف ابو داؤد سليمان بن داؤد بن الجارود الطيالسی البصرى ہیں(صحاح ستہ والے ابوداؤد نہیں) کتاب کے مؤلف اورمندرجہ بالا صحابہ کے درمیان صرف دو واسطے ہیں ایک تابعی اور ایک تبع تابعی۔ اور کتا ب کا مکمل حوالہ یہ ہے جلد۱ صفحہ ۳۴۹ حدیث نمبر ۴۳۹۔مؤلف کا سال وفات ۲۰۴ھ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث بالکل ابتدائی زمانہ کی کتا ب میں ہے کیونکہ صحاح ستہ کے تمام مؤلفین کا زمانہ ان کے بعد ہے مثلاً امام بخاری کا زمانہ مؤلفین صحاح ستہ میں سب سے پہلے ہے ان کی وفات ۲۵۶ھ میں ہوئی۔ ابوداؤد طیالسی کبار محدثین میں سے تھے اور فارسی الاصل تھے انہوں نے کئی تابعین سے مل کر ان سے روایات لی ہیں۔صحابہ سے فیض پانے والے آخری تابعی حضرت خلف بن خلیفہ کی وفات ۱۸۱ھ میں ہوئی (تدریب الراوی از علامہ سیوطی جلد ۲ صفحہ ۲۲۸ ،۲۴۳ باب نمبر ۳۹ ،۴۰ مکتبۃ الریاض الحدیثہ۔ ریاض) دیگر کتب جن میں یہ حدیث موجود ہے: یہ حدیث بہت سے محدثین اور علماء نے اپنی کتب میں نقل کی ہے ( ان کی ترتیب زمانی اعتبار سے درج کی گئی ہے ) مثلاً ۱۔دلائل النبوة ومعرفة احوال صاحب الشريعة۔ المؤلف: احمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني، ابو بكر البيهقي (المتوفى: ۴۵۸ھ)الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت۔جلد ۶ صفحہ ۴۹۱۔بَابُ مَا جَاءَ فِي اِخْبَارِهِ بِالشَّرِّ الَّذِي يَكُونُ بَعْدَ الْخَيْرِ ۲۔البداية والنهاية۔جلد ۶ صفحہ ۲۶۷۔ الاشارة النَّبوية الى دولة عمر بن عبد الْعَزِيزِ۔ المؤلف: ابو الفداء اسماعيل بن عمر بن كثير المشہور بابن کثیر (المتوفى: ۷۷۴ھ)الناشر: دار احياء التراث العربي ۳۔ امتاع الاسماع بما للنبي من الاحوال والاموال والحفدة والمتاع۔ جلد ۱۲ صفحہ ۲۶۷ باب اما اخباره صلّى اللّٰه عليه وسلم بوقوع الشر بعد الخير۔ المؤلف: احمد بن علي المقريزي (المتوفى: ۸۴۵ھ) ۴۔ محض الصواب في فضائل امير المومنين عمر بن الخطاب جلد ۱ صفحہ ۳۰۴ الباب التاسع والعشرون: خلافته وقول الرسول فيها۔المؤلف: يوسف بن حسن ابن المبرد الحنبلي (المتوفى: ۹۰۹ھ) ۵۔ الخصائص الكبرىٰ۔ جلد ۲ صفحہ۱۹۷۔ باب ذكر المعجزات۔المؤلف: عبد الرحمٰن بن ابي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: ۹۱۱ھ)الناشر: دار الكتب العلمية بيروت۔ ۶۔ بحوث ومقالات حول الثورة السورية - جلد۱ صفحہ۶۴۷۔ المؤلف: علي بن نايف الشحودالطبعة: الاولىٰ، ۱۴۳۳ھ تکون النبوۃ فیکم ۷۔حضرت امام احمد بن حنبل نے بھی ابو داؤد طیالسی سے اپنی مسند میں یہی روایت کی ہے مگر اس میں پہلی حدیث سے معمولی یہ فرق ہےکہ مسند طیالسی میں یہ الفاظ تھے اِنَّكُمْ فِي النُّبُوَّةِ یعنی تم زمانہ نبوت میں ہو اور مسند احمد کی روایت کے آغاز میں تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ کے الفاظ ہیں یعنی نبوت تم میں رہے گی۔پوری حدیث یہ ہے تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللّٰهُ اَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا اِذَا شَاءَ اَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ اَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا اِذَا شَاءَ اللّٰهُ اَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللّٰهُ اَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا اِذَا شَاءَ اَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللّٰهُ اَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا اِذَا شَاءَ اَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّة (مسند الامام احمد بن حنبل۔جلد۳۴ صفحہ۴۲۶ حدیث نمبر ۱۸۴۰۶۔ المؤلف: ابو عبد الله احمد بن محمد بن حنبل (المتوفى: ۲۴۱ھ)مسند احمد بن حنبل والے الفاظ میں کئی محدثین نے روایت درج کی ہےچند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے یہ ترتیب زمانی اعتبار سے ہے ۸۔مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار جلد۷صفحہ۲۲۳ حدیث نمبر ۲۷۹۶۔۔المؤلف: ابو بكر احمد بن عمرو المعروف بالبزار (المتوفى: ۲۹۲ھ)الناشر: مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورةالطبعة: الاولى، اپنی سند سےروایت ہے ۹۔مشكاة المصابيح۔المؤلف: محمد بن عبد الله الخطيب العمري، ابو عبد الله، ولي الدين، التبريزي (المتوفى: ۷۴۱ھ) جلد ۳ صفحہ ۱۴۷۸ حدیث نمبر۵۳۷۸ کتاب الرقاق باب الانذار والتحذیر الفصل الثالث ۱۰۔ شرح الطيبي على مشكاة المصابيح المسمى بہ (الكاشف عن حقائق السنن)۔جلد ۱۱ صفحہ ۳۴۰۰۔حدیث نمبر۵۳۷۸۔ المؤلف: شرف الدين الحسين بن عبدالله الطيبي (۷۴۳ھ) ۱۱۔ جامع المسانيد والسُّنَن الهادي لاقوم سَنَن۔المؤلف: ابو الفداء اسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: ۷۷۴ھ)۔جلد ۲ صفحہ ۳۹۹۔حدیث نمبر۲۲۶۸۔ جلد ۸ صفحہ ۲۷۹۔حدیث نمبر۱۰۳۷۶ ۱۲۔ : مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۔المؤلف: ابو الحسن نورالدين علي بن ابي بكر بن سليمان الهيثمي (المتوفى: ۸۰۷ھ) جلد ۵صفحہ ۱۸۸۔حدیث نمبر۸۹۶۰۔ بَابُ كَيْفَ بَدَاَتِ الْاِمَامَةُ وَمَا تَصِيرُ اِلَيْهِ وَالْخِلَافَةُ وَالْمُلْكُ۔انہوں نے اپنی کتاب غاية المقصد فى زوائد المسندمیں بھی یہ حدیث لکھی ہے جلد ۲ صفحہ ۳۰۵۔حدیث نمبر۲۳۸۲ باب كيف بدات الامامة وما تصير اليه الخلافة والملك ۱۳۔جامع الاحاديث جلد ۱۱ صفحہ ۳۴۸۔حدیث نمبر۱۰۹۴۵۔المؤلف: عبد الرحمٰن بن ابي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: ۹۱۱ھ) ۱۴: مبلغ الارب في فخر العرب۔المؤلف: شهاب الدين احمد بن محمد، ابن حجر الهيتمي (المتوفى: ۹۷۴ھ) جلد ۱صفحہ ۳ ۱۵۔ كنز العمال في سنن الاقوال والافعال۔المؤلف: علاءالدين علي بن حسام الدين الشهير بالمتقي الهندي (المتوفى: ۹۷۵ھ) جلد ۶صفحہ ۱۲۱۔حدیث نمبر۱۵۱۱۴۔ كتاب الخلافة مع الامارة ۱۶۔مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح۔جلد ۸ صفحہ ۳۳۷۵۔حدیث نمبر۵۳۷۸۔ المؤلف: علي بن (سلطان) محمد، ابو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (المتوفى: ۱۰۱۴ھ)الناشر: دار الفكر، بيروت لبنان روایت صحیح ہے مندرجہ بالا کئی کتب کے مصنفین کے علاوہ ذیل کے علماء نے اس حدیث کو درج کر کے روایت کے لحاظ سے صحیح قرار دیا ہے۔ ۱۷۔ الفكر السامي في تاريخ الفقه الاسلامي۔المؤلف: محمد بن الحسن بن العربيّ بن محمد الحجوي الثعالبي الجعفري الفاسي (المتوفى: ۱۳۷۶ھ) الناشر: دارالكتب العلمية بيروت-لبنان۔الطبعةالاولى - ۱۴۱۶ھ- ۱۹۹۵م جلد ۲صفحہ ۵۲۸۔ ۱۸۔ سلسلة الاحاديث الصحيحة۔المؤلف محمد ناصر الدين، الالباني (المتوفى: ۱۴۲۰ھ) جلد ۱صفحہ ۳۴۔حدیث نمبر۵ ۱۹۔ شرح صحيح مسلم جلد ۱۷صفحہ ۱۲۔حدیث نمبر۵۳۷۸ باب الجمع بين حديث (الخلافة بعدي ثلاثون سنة)، وحديث (حتى يمضي فيهم اثنا عشر خليفة)المؤلف: ابو الاشبال حسن الزهيري آل مندوه المنصوري المصري ۲۰۔البدعة الشرعية۔المؤلف: ابو المنذر محمود بن محمد بن مصطفى بن عبد اللطيف المنياوي۔الناشر: المكتبة الشا ملة، مصر۔ جلد ۱۱صفحہ ۳۴۸۔حدیث نمبر۱۰۹۴۵ الفاظ مختلف مگر مفہوم وہی ہے روایات کا ایک سلسلہ وہ ہے جس میں الفاظ مختلف ہیں مگر مفہوم پہلی روایات کا ہی ہے مثلاً: ۲۱۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ اَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ اَبِيْهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰهَ بَدَاَ هَذَا الْاَمْرَ نُبُوَّةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُوْنُ خِلَافَةً، ثُمَّ يَكُوْنُ سُلْطَانًا، وَيَكُوْنُ مُلْكًا، ثُمَّ يَكُوْنُ جَبْرِيَّةً، ثُمَّ يَكُوْنُ جَائِزَةً۔(مسند عمر بن عبد العزيز۔ جلد ۱صفحہ ۹۹۔حدیث نمبر۴۸۔المؤلف: الباغندي الصغير محمد بن محمد ابو بكر الواسطي (المتوفى: ۳۱۲ھ) یہ روایت بڑی دلچسپ ہے اس کی سند حضرت عمر بن عبد العزیز سے چل کر حضرت عمرؓ تک پہنچتی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایااللہ نے اس دین کو نبوت و رحمت سے شروع کیا پھر خلافت ہو گی پھر بادشاہت اور ملوکیت ہو گی پھرحکومت جبریہ کا دور ہو گا اور پھر انعام ہو گا۔اس انعام سے مراد مسیح کا روحانی نزول اور خلافت کا قیام ہے جس کی تفصیل دوسری روایات میں آ چکی ہے مثلاً اگلی حدیث ملاحظہ ہو۔ ۲۲۔اَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ- سَيَكُونُ مِنْ بَعْدِي خُلَفَاءُ، وَمِنْ بَعْدِ الْخُلَفَاءِ اُمَرَاءُ، وَمِنْ بَعْدِ الْاُمَرَاءِ مُلُوكٌ، وَمِنْ بَعْدِ الْمُلُوكِ جَبَابِرَةٌ، ثُمَّ يَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ اَهْلِ بَيْتِي يَمْلَاُ الْاَرْضَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا۔(المعجم الكبير۔المؤلف: سليمان بن احمد، ابو القاسم الطبراني (المتوفى: ۳۶۰ھ) جلد ۲۲صفحہ ۳۷۴۔حدیث نمبر۹۳۷) ترجمہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:میرے بعد خلفاء ہوں گے۔خلفاء کے بعد امراء ہوں گے اس کے بعد ملوک،اس کے بعد جابر لوگ ہوں گے پھر میرے اہل بیت میں سے ایک شخص نکلے گا جو زمین کو عدل سے بھر دے گا جیسے پہلے ظلم سے بھر گئی تھی۔ یہ روایت حضرت جابر بن ماجد الصدفی سے ہے اور کئی کتب میں مروی ہے جیسے ۲۳۔معرفة الصحابة۔المؤلف: ابو نعيم الاصبهاني (المتوفى: ۴۳۰ھ) جلد ۲صفحہ ۵۵۳۔حدیث نمبر۱۵۳۸۔ نیز جلد ۵صفحہ ۲۸۵۷۔حدیث نمبر۶۷۳۷ ۲۴۔ فتح الباري شرح صحيح البخاري جلد ۱۳صفحہ ۲۱۴۔حدیث نمبر۷۲۲۲۔کتاب الفتن باب الاستخلاف۔۔المؤلف: احمد بن علي بن حجر العسقلاني یہ حدیث شیعہ لٹریچر میں بھی موجود ہے جس کا ذکر آگے آئے گا ۔ امام مہدی اور مسیح ابن مریم رسول اللہ ﷺ کا ارشاد کہ اہل بیت میں سے ایک شخص نکلے گا یہ وہی شخص ہے جسے دوسری احادیث میں مسیح اور مہدی اور آخری زمانہ کا مامور قرار دیا گیا ہے اور اس کے ذریعہ عدل کے قیام کی پیشگوئی کی گئی ہے چنانچہ شیعہ لٹریچر کی مشہور کتاب بحار الانوار میں ہے۔ ۲۳۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا سیکون بعدی خلفاء ومن بعدالخلفاء امراء ومن بعد الامراء ملوک جبابرۃ ثم یخرج المہدی من اھل بیتی یملا الارض عدلا کما ملئت جورا۔(بحار الانوار جلد ۵۱ صفحہ ۹۶،۸۴)از شیخ محمدباقر مجلسی المتوفیٰ ۱۱۱۰ ھ۔داراحیاء التراث العربی : بیروت) میرے فوراً بعدخلفا٫ ہوں گے ان کے بعد امرا٫ ہوں گے ان کے بعد ظالم بادشاہ ہوں گے اور اس کے بعد میرے اہل بیت میں سے امام مہدی نکلے گا اور زمین کو عدل سے بھر دے گا۔ ۲۴۔حضرت حذیفہ بن یمان ؓجن سے خلافت علی منہاج النبوۃ والی حدیث مروی ہے انہی سے ایک اور حدیث بھی ملتی ہے جو اس مضمون پر کمال روشنی ڈالتی ہے۔ عن حذیفہ قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اذا کان عند خروج القائم ینادی مناد من السماء۔ ایھا الناس قطع عنکم مدۃ الجبارین وولی الامرخیر امۃ محمد فالحقوابمکۃ فیخرج النجباء من مصر والابدال من الشام وعصائب العراق رھبان باللیل لیوث بالنھار۔ (بحار الانوار جلد ۵۲ صفحہ ۳۰۴ از شیخ محمدباقر مجلسی۔ المتوفیٰ ۱۱۱۰ ھ۔ داراحیاء التراث العربی:بیروت)حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: امام مہدی کے ظہور کے وقت ایک منادی آسمان سے آواز بلند کرے گا کہ اے لوگو! جابروں کا دور تم سے ختم کردیا گیا ہے اور امت محمدیہؐ کا بہترین فرد اب تمہارا نگران ہے۔ اس لیے مکہ پہنچو۔ یہ سن کر مصر کی سعید روحیں اور شام کے ابدال اور عراق کے بزرگ اس کی طرف نکل پڑیں گے۔ یہ لوگ راتوں کے راہب اور دنوں کے شیر ہوں گے۔ یہ حدیث کئی ایمان افروز امور کا مجموعہ ہے: (۱) اس کا جملہ ینادی مناد من السماء آیت یَوۡمَ یُنَادِ الۡمُنَادِکے مضمون کا حامل ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ امام مہدی اور مسیح موعود کے زمانے میں دین کے عالمی غلبہ کے متعلق تو بزرگان سلف اور مفسرین نے قرآن کریم کی متعدد آیات سے استنباط کیا ہے جن پر سنی اور شیعہ مفسرین دونوں متفق ہیں۔مگر خاص طور پر ٹیلی ویژن کے ذریعہ امام مہدی کی آواز کل عالم میں پہنچنے کے متعلق بھی قرآن کریم میں اشارات موجود ہیں اوریہ ایک ایسا استنباط ہے جو یقیناً الٰہی تفہیم سے روشن ہے ورنہ آج سے۱۴۰۰؍سال قبل اس نظام کا تصور بھی انسان کے لیے کسی طور ممکن نہیں تھا۔ یہ استدلال سورت ق کی آیات ۴۲، ۴۳ سے کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَاسۡتَمِعۡ یَوۡمَ یُنَادِ الۡمُنَادِ مِنۡ مَّکَانٍ قَرِیۡبٍ۔ یَّوۡمَ یَسۡمَعُوۡنَ الصَّیۡحَۃَ بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ یَوۡمُ الۡخُرُوۡجِ۔ یعنی سن رکھو کہ ایک دن ایک پکارنے والا قریب کی جگہ سے پکارے گا جس دن سب لوگ ایک پوری ہوکر رہنے والی گرجدار آوازسنیں گے۔ یہ خروج کا دن ہوگا۔ اس آیت کے متعلق تفسیر صافی کا بیان ملاحظہ ہو جہاں علامہ قمی حضرت امام جعفر صادق کے حوالہ سے ایک حیرت انگیز استنباط کرتے ہیں: وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ۔ القمی قال ینادی المنادی باسم القائم واسم ابیہ علیھماالسلام من مکان قریب بحیث یصل نداء ہ الی الکل علی سواء يَوْمَ يَسْمَعُونَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ۔ القمی قال صیحۃ القائم من السماء۔ ذٰلِكَ يَوْمُ الْخُرُوجِ۔ القمی عن الصادق علیہ السلام قال ھی الرجعہ۔ (تفسیر صافی زیر آیت مذکورہ صفحہ۔۵۰۶ از ملامحسن فیض کاشانی، از انتشارات کتاب فروشی محمودی)یعنی علامہ قمی نے کہا کہ ایک منادی امام قائم اور اس کے باپ علیہما السلام کے نام کی ندا دے گا اس طرز پر کہ اس کی آواز ہر آدمی تک برابر انداز میں پہنچے گی۔ قمی نے کہا ہے کہ صیحہ سے مراد یہ ہے کہ قائم کی صیحہ یعنی انذاری آواز آسمان سے آئے گی۔ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا کہ یہ رجعت یعنی امام مہدی کا زمانہ ہوگا۔ مراد یہ ہے کہ امام مہدی کی طرف سے ایک منادی امام مہدی اور اس کے عظیم روحانی باپ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کرندا بلند کرے گا اور اس کی آواز دور اور نزدیک کے تمام لوگوں کو یکساں طریق سے پہنچے گی اور آواز آسمان سے اُترے گی۔ آواز کا آسمان سے اترنا اور یکساں سب لوگوں کو پہنچنا عالمی مواصلاتی نظام کی طرف بلیغ اشارہ ہے ورنہ عام آواز تو قُرب و بُعد کا فرق رکھتی ہے۔یہ حیرت انگیز پیشگوئی پوری تفصیلات کے ساتھ مسلم ٹیلی ویژ ن احمدیہ یعنی ایم ٹی اے پرچسپاں ہوتی ہے۔ جہاں امام مہدی کا خلیفہ امام مہدی اور اس کے کامل آقا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے نام کی آسمان سے منادی کر رہا ہے۔ اور انہی الفاظ میں ینادی مناد من السماء حضرت مرزا غلام احمد قادیانی امام مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا ہے۔ آپؑ کو ۱۲؍دسمبر۱۹۰۲ء کوالہام ہوا۔ینادی منادمن السماء۔ایک منادی آسمان سے پکارے گا۔ (بدر ۱۹؍دسمبر۱۹۰۲ء۔تذکرہ صفحہ ۴۴۶ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ ۱۹۶۹ء) اور پھر خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نے اسے سچا ثابت کردکھایا ہے۔ اور ۱۹۹۴ء سے خلافت احمدیہ کے ذریعہ نشریاتی رابطو ں کے ساتھ اسلام کی عالمی نشرو اشاعت کا کام جاری ہے۔ (۲) مدۃالجبارین سے وہ زمانہ مراد ہے جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث خلافت میں مُلْکًا عَاضًّا اور مُلْکًا جَبْرِیَّۃً کے طورپر بیان فرمایا ہے۔ یعنی جبری اور ظالمانہ حکومتیں۔ یعنی ان کے بعد دین کی نشأۃ ثانیہ کا دور شروع ہوگا۔ (۳)مکہ سے مرادتمثیلی طور پر امام مہدی کا علاقہ قادیان ہے جہاں دوبارہ مکی زندگی والی تکالیف کا آغاز ہونا تھا اور اسلام کے غلبہ کی بنیاد رکھی جانی تھی۔ (۴) اس حدیث میں ابدال شام کا ذکر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً اس کی خبر دی گئی ہے:یدعون لک ابدال الشام عباد اللّٰہ من العرب(تذکرہ صفحہ ۱۲۶ الشرکہ الاسلامیہ ربوہ ۱۹۶۹ء)تیرے لیے شام کے ابدال اور عرب کے بندگان خدا دعائیں کرتے ہیں اوریہ واقعاتی لحاظ سے پورا ہورہا ہے۔ (۵)اما م مہدی کی فتوحات دعاؤں کے ذریعہ ہونی ہیں اس لیے اس کے ساتھیوں کو رھبان باللیل کہنا پوری طرح ان کا نقشہ بیان کرتا ہے۔ اور دجال کے سامنے شیروں کی طرح ڈٹ جانے کو لیوث بالنہار کے نام سے بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ روایت قرآن و احادیث صحیحہ کی کسوٹی پر پوری اترتی ہے اور عمل کے میدان میں اپنی سچائی ثابت کرتی ہے۔ تائیدی روایات کئی کتب احادیث میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی تائیدی روایات بھی بیان ہوئی ہیں جو اس کے مضمون کو تقویت دیتی ہیں یعنی ملتے جلتے یا کم و بیش الفاظ میں بیان ہوئی ہیں اور روایت کے لحاظ سے اسے مزید پختہ کرتی ہیں۔بہت سی روایات ہیں جن میں ۲، ۳ یا ۴ دور بیان ہوئے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ راوی کچھ بھول گئے ہیں یا ہو سکتا ہے رسول اللہﷺ نے مختلف اوقات میں کم و بیش ذکر کیا ہو مثلاً ۲۵۔عَنْ اَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِنَّ اَوَّلَ دِينِكُمْ بَدَاُ نُبُوَّةٍ وَرَحْمَةٍ، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا وَجَبْرِيَّةً، يُسْتَحَلُّ فِيهَا الدَّمُ (مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار جلد ۴ صفحہ ۱۰۸۔مُسْنَدُ اَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحٍ۔المؤلف: ابوبكر احمد بن عمرو المعروف بالبزار۔ المتوفى:۲۹۲ھ) یعنی اس دین کا آغاز نبوت و رحمت سے ہوا پھر خلافت و رحمت ہو گی پھر ملوکیت اور جبر کا دور ہو گا جس میں خون بہایا جائے گا۔ یہ حدیث حضرت ابو عبیدہؓ اور معاذ بن جبلؓ سے بہت سی کتب میں درج کی گئی ہے مثلاً ۲۶۔السنن الكبرىٰ بیہقی۔ جلد ۸ صفحہ ۲۷۵ حدیث نمبر۔۱۶۶۳۰ باب الصبر علی اذی۔المؤلف: احمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني، ابو بكر البيهقي (المتوفى: ۴۵۸ھ) ۲۷۔تَكُونُ نُبُوَّةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ خِلَافَةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ مُلْكًا عَضُوضًا وَجَبْرِيَّةٌ وَفَسَادٌ ۔كتاب الفتن۔ جلد ۱ صفحہ ۱۹۹ حدیث نمبر۲۳۹ باب مَا يُذْكَرُ مِنَ الْخُلَفَاءِ بَعْدَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔المؤلف: ابو عبد الله نعيم بن حماد (المتوفى: ۲۲۸ھ) پہلا حصہ پورا ہو گیا حضرت حذیفہ بن یمانؓ جنہوں نے رسول اللہﷺ سے پانچ ادوار والی حدیث روایت کی ہے وہ خلافت راشدہ کے دوران بتاتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی پیشگوئی کا پہلا حصہ پورا ہو گیا ہے رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے اوراب ہم خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے دَور میں ہیں اور اس کے بعد ملوکیت ہو گی۔ان کے الفاظ یہ ہیں: اِنَّ اللّٰهَ تَعَالَى بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا النَّاسَ مِنَ الضَّلَالَةِ اِلَى الْهُدَى، وَمِنَ الْكُفْرِ اِلَى الْاِيمَانِ، فَاسْتَجَابَ لَهُ مَنِ اسْتَجَابَ، فَحَيَى بِالْحَقِّ مَنْ كَانَ مَيِّتًا، وَمَاتَ بِالْبَاطِلِ مَنْ كَانَ حَيًّا، ثُمَّ ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ فَكَانَتِ الْخِلَافَةُ عَلَى مَنَهَاجِ النُّبُوَّةِ، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا (حلية الاولياء وطبقات الاصفياء جلد ۱ صفحہ ۲۷۵ باب حذیفہ۔المؤلف ابو نعيم احمد بن عبد الله الاصبهاني (المتوفى: ۴۳۰ھ) حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ اےلوگو! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو مبعوث کیا تھا۔ چنانچہ اس نے لوگوں کو گمراہی سے نکال کر ہدایت کی طرف اور کفر سے نکال کر ایمان کی طرف بلایا۔ کچھ نے آپ کی پکار پر لبیک کہا، اس طرح جو لوگ (روحانی طور پر)باطل کے اندھیروں میں مر چکے تھے، انہوں نے حق کے ساتھ نئی زندگی پا لی اور جو زندہ تھے، وہ باطل کی وجہ سے (روحانی طور پر)مرگئے۔ پھر اس کے بعد نبوت چلی گئی اور پھر نبوت کی طرز پر خلافت قائم ہو گئی ہے۔ اور اس کے بعد ملوکیت ہو گی۔ خلافت راشدہ کی مدّت ۱۔ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ایک صحابی نے رؤیا میں رسول کریم ﷺ کو اور ابو بکر ؓکو دیکھا۔پھر ابو بکرؓ کے ساتھ عمرؓ اور عمرؓ کے ساتھ عثمانؓ کو دیکھا اور تعبیر پوچھی تو آپؐ نے فرمایا خِلاَفَةُ نُبُوَّةٍ ثُمَّ يُؤْتِي اللّٰهُ الْمُلْكَ مَنْ یَّشَاءُ(مسند ابي داؤد الطيالسي۔ (المتوفى: ۲۰۴ھ)جلد ۲ صفحہ ۱۹۶ حدیث نمبر ۹۰۷ حدیث ابی بکرہ )اس سے مراد خلافت نبوت ہے پھر اللہ جسے چاہے ملوکیت دے گا۔(صحابی کو تین خلفا ءدکھائے گئے شاید اسے اتنا ہی زندہ رہنا ہو۔) ۲۔یہی روایت مسند بزار میں دو صحابہ حضرت سفینہؓ اور حضرت ابو بکرہ ؓ(حضرت ابوبکر صدیق ؓنہیں )سے دو الگ الگ سندوں کے ساتھ بیان ہوئی ہے (مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار جلد ۹صفحہ ۱۰۸،حدیث نمبر ۳۶۵۳ و جلد ۹صفحہ ۲۸۱،حدیث نمبر۳۸۲۹۔۔المؤلف: ابو بكر احمد بن عمرو المعروف بالبزار (المتوفى: ۲۹۲ھ) ۳۔جامع ترمذی میں روایت اس تفصیل کے ساتھ ہے: عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَفِينَةُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:الخِلَافَةُ فِي اُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ۔ثُمَّ قَالَ لِي سَفِينَةُ اَمْسِكْ خِلَافَةَ اَبِي بَكْرٍ، وَخِلَافَةَ عُمَرَ، وَخِلَافَةَ عُثْمَانَ، ثُمَّ قَالَ لِي اَمْسِكْ خِلَافَةَ عَلِيٍّ قَالَ فَوَجَدْنَاهَا ثَلَاثِينَ سَنَةً، قَالَ سَعِيدٌ فَقُلْتُ لَهُ اِنَّ بَنِي اُمَيَّةَ يَزْعُمُونَ اَنَّ الْخِلَافَةَ فِيهِمْ۔ قَالَ كَذَبُوا بَنُو الزَّرْقَاءِ بَلْ هُمْ مُلُوكٌ مِنْ شَرِّ المُلُوكِ (الجامع الكبير - سنن الترمذي۔ کتاب الفتن باب الخلافة حدیث نمبر۲۲۲۶۔المؤلف: محمد بن عيسى ابو عيسى الترمذي، (المتوفى: ۲۷۹ھ) ایک تابعی سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ صحابی رسولﷺ حضرت سفینہ ؓنے مجھ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں خلافت ۳۰؍سال رہے گی۔پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی۔ پھر حضرت سفینہ ؓنے سعید کے ساتھ مل کر چاروں خلفائے راشدین کا عرصہ شمار کر کے بتایا کہ ۳۰؍سال پورے ہوگئے اس لیے اب ملوکیت ہے سعید کہتے ہیں کہ اس پر میں نے سفینہ ؓسے کہا کہ بنو امیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ بھی خلفاء ہیں تو سفینہ نے کہا کہ ان کا خلافت کا دعویٰ جھوٹا ہے وہ تو ملوکیت کے حامل ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے حضرت ابو بکرؓ قریباً۲؍سال، حضرت عمرؓ قریباً ۱۰؍سال حضرت عثمانؓ قریباً ۱۲؍سال، حضرت علیؓ قریباً ۵؍سال خلیفہ رہے۔بعض لوگ اس میں حضرت حسن کے بھی ۶؍ماہ شامل کرتے ہیں لیکن اس بات پر اہل سنت کا عمومی اتفاق ہے کہ پیشگوئی کے مطابق خلفائے راشدین چار ہیں جس کے بعد خلافت راشدہ ملوکیت میں تبدیل ہو گئی اور حضرت معاویہ دورملوکیت کے پہلے بادشاہ تھے۔(تاريخ التشريع الاسلامي۔ جلد ۱ صفحہ ۲۹۰ المؤلف: مناع بن خليل القطان (المتوفى:۱۴۲۰ھ) خلفائے راشدین کے بعد رسول کریم ﷺ کا انتہائی کمزوری کے ایام میں اپنے بعد خلافت راشدہ کی خبر دینا بہت غیر معمولی بات تھی اور خلافت راشدہ کے بعد مسلمانوں کی عام حکومتوں کی پیشگوئی کرنا آپؐ کی صداقت کا ثبوت ہے۔ تاریخ اسلام محولہ بالا حدیث میں مذکور پیش گوئی کے بدرجہ اتم پورا ہونے کی گواہ ہے۔ خلفائے راشدین کے بعد حکمرانوں اور جابر وقاہر مطلق العنان بادشاہوں کا ایک گوشوارہ ملاحظہ فرمائیے۔ ( یہ گوشوارہ تیار کرتے وقت تاریخ اسلام کی بعض چھوٹی علاقائی یا مقامی سلطنتوں کے حکمرانوں کو اختصار کے پیش نظر شمار نہیں کیا گیا) شاہان بنو امیہ۔دمشق۔۶۶۱ تا ۷۵۰ء سلاطین ۱۱شاہان بنو عباس۔ بغداد ۷۵۰ تا ۱۲۵۸ء سلاطین ۳۷حکومت بنو عباس۔قاہرہ۔۱۲۶۱ تا ۱۵۱۷ سلاطین ۱۸سلطنت عثمانیہ۔۱۵۱۷ تا ۱۹۲۴ء سلاطین ۳۶ بنو عباس کے دور میں متوازی حکومتیں حکومت بنو امیہ۔سپین ۷۵۶تا ۱۰۳۱ء سلاطین ۱۶حکومت فاطمین مصر۔۹۰۹ تا ۱۱۷ سلاطین ۱۴سلاطین کی کل تعداد ۱۳۹ بنو امیہ کے حکمرانوں میں سے اکثر حکمران وسیع قتل و غارت میں ملوث تھے۔ اس دَور میں اسلامی سلطنت کی حدود میں وسعت آئی اور داخلی طور پر کاروبار مملکت میں بہتری آئی۔ایک بڑے طبقے کے نزدیک امت مسلمہ کے پہلے مجدد حضرت عمر بن عبد العزیز خاندان بنی امیہ کے ایک حکمران تھے۔ انہیں کئی مؤرخین نے کردار کے لحاظ سے پانچواں خلیفہ راشد قرار دیا ہے۔ خاندان بنو عباس میں ۵۵؍حکمران گزرے ہیں۔ان میں سے بعض نیک، پرہیز گار اور عادل تھے اور خلق خدا کی فلاح و بہبود کے کاموں میں منہمک رہے۔ لیکن بعض کے دورحکومت میں خونریزی ظلم اور تعدی کا دور دور ہ رہا۔ بزرگان دین اور ائمہ (امام مالک، امام احمد حنبل، امام ابو حنیفہ و غیرہ ) اور دیگر اہل علم و دانش کو زدو کوب کیا گیا، قید خانوں میں ڈالا گیا۔ بعض علماء کو مسئلہ خلق قرآن پر اختلاف کی بنا پر بےرحمی سے قتل کر دیا گیا۔اسلامی حکومت کی حدود میں اضافہ ہوا اور علمی ترقی ہوئی۔ ظلم اور بربریت کی آگ اکثر شبستان شاہی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔چنانچه در باری سازشوں، بغاوتوں اور سرکشیوں کے نتیجے میں خاندان عباسیہ کے سات حکمران معزول ہوئے۔ تین کو اندھا اور پانچ کو قتل کر دیا گیا۔ یہ صورتحال اس عہد کے جبر و قہر،ظلم وتعدی اور بدامنی وسفاکی کا نا قابل تردید ثبوت ہے۔ دوسرے شاہی خاندانوں کے حکمران بھی ظلم اور جور کی اسی کشتی میں سوار نظر آتے ہیں۔ خون ناحق کا ایک دریارواں دواں نظر آتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے ۳۶؍سلاطین و خلفاء میں سے ایک کو پھانسی دی گئی دو قتل ہوئے، سات کو معزول کیا گیا اور تین کو دوسرے افراد خاندان کے حق میں دستبردار ہونے پر مجبور کیا گیا۔ پانچویں عثمانی حکمران محمد ثالث نے اپنے بھائیوں کو سیاسی استحکام کی خاطر قتل کروادیا۔ (ملت اسلامیہ کی تاریخ میر محمود علی قیصر، جلد سوم ایڈیشن۱۹۹۴ء صفحہ ۷۳)قطع رحمی کی اس بدترین مثال کے بعد عثمانی حکمرانوں کے بھائیوں کا قتل یا کم از کم انہیں عمر بھر نظر بند رکھنا ایک دستورالعمل قرار پایا۔ خلافت راشدہ کے بعد آنے والے حکمران بھی اپنے آپ کو خلیفہ کہلواتے رہے مگر وہ نہ خدا کی نظر میں خلفاء تھے نہ امت کی نظر میں۔کیونکہ وہ رسو ل اللہﷺ کے روحانی جانشین نہیں تھے۔مگر جب اصلی وارث آگیا تو خدا نے اس وقت کی نام نہاد عثمانی خلافت کو بھی جو قریباً ۶۰۰؍سال سے جاری تھی۱۹۲۴ء میں باقاعدہ طور پر ترکو ں کے ہاتھوں سے ختم کردیا۔ اب یہ خدا کی عجیب تقدیر ہے کہ ہندوستان جہاں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو چکی تھی وہاں سے خلافت عثمانیہ کے قائم رکھنے کے لیے تحریک خلافت کے نام سے زبردست تحریکیں چلائی گئیں مگر سب ناکام رہیں اور سچے خلیفہ مہدی اور اس کے جانشینوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے جتنی سازشیں ہوئیں اور ہو رہی ہیں وہ سب نامراد رہیں، اور رہیں گی، انشاءاللہ خلافت او ر حکومت خلافت راشدہ کو رسول اللہﷺ کی وراثت میں روحانی خلافت کے ساتھ ظاہری حکومت بھی ملی تھی اس کے بعد حکومتی انتظام الگ ہو گیا اور روحانی خلافت مفسرین،محدثین، فقہاء، متکلمین،مجددین،صوفیاء اور اولیا ء اللہ کے ذریعہ جاری رہی اس عرصہ میں اسلام میں بڑے عظیم الشان وجود پیدا ہوئے۔انہوں نے اسلام کا نام معلوم دنیا تک پہنچا دیا اور حکومتوں کے عدم تعاون بلکہ مظالم کے باوجود اسلام کی شمع روشن رکھی۔یہ مرکزی اجتماعی خلافت راشدہ ٹوٹنے کے بعد متبادل انتظام تھا اور یہ ملکوں ملکوں اور ایک ایک مسلمان قوم میں تھا اور گویا انفرادی خلافت تھی جس نے قریباً ۱۳۰۰؍سال توحید کا جھنڈا بلند رکھا مگر آہستہ آ ہستہ روحانیت گم ہوتی چلی گئی۔ خدا سے تعلق کمزور ہوتا چلا گیا اور بالآخر مسلمان خدا سے سارے تعلق توڑ بیٹھے۔ سیاسی طور پر مسلمانوں نے عظیم حکومتیں اور سلطنتیں قائم کیں مگر ایک عرصہ گزرنے کے بعد قرآنی پیشگوئیوں کے مطابق دجال اور یاجوج ماجوج اُبھر آئے۔اس عرصہ میں مسلمان حکومتیں بھی کمزور ہوتی چلی گئی اور ۱۸ویں صدی کے آغاز تک مغربی اقوام نے سائنسی ترقیات اور ایجادات کا سہارا لے کر ایشیا،افریقہ اور یورپ سے قریباً تمام مسلم حکومتوں کا خاتمہ کر دیا تھا یا وہ کمزور حکومتیں تھیں جو ان قوموں کے دست نگر تھیں یا ٹمٹماتے چراغ تھیں اور زمانہ پھر ایک مامور کی تلاش میں تھا جو مسلمانوں کو دوبارہ ذلت سے اٹھا کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کردے۔ دوبارہ خلافت اور زمانہ مہدی مسلمانوں کو چار ادوار سے گزرنے کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی بشارت دی گئی ہے یہ زمانہ کب آئے گا؟اس کے متعلق علماء کا اتفاق ہے کہ وہ زمانہ آنے والا ہے اور آ کر رہے گا اور اس کا تعلق مسیح اور مہدی سے ہے۔ ۱۔اہلسنت کے مسلمہ اما م ملا علی القاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:وَالْمُرَادُ بِهَازَمَنُ عِيسَى عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ وَالْمَهْدِيِّ۔اس سے مراد عیسیٰ اور امام مہدی کا زمانہ ہے۔مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح جلد ۸ صفحہ ۳۳۷۶ کتاب الاداب باب التحذیر من الفتن حدیث نمبر ۵۳۷۸۔المؤلف: علي بن (سلطان) محمد، ابو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (المتوفى: ۱۰۱۴ھ) ۲۔ ابو الاشبال حسن الزهيري آل مندوه المنصوري المصري لکھتے ہیں: ان الخلافة التي تكون على منهاج النبوة هي خلافة الخلفاء الراشدين بعد عهد النبوة، ثم خلافة المهدي۔(شرح صحيح مسلم۔ جلد ۱۷ صفحہ ۱۲ کتاب الامارہ ) وہ خلافت جو علیٰ منہاج النبوۃ ہو گی وہ دو قسم کی ہے۔ ایک وہ جو رسول اللہﷺ کے بعدخلفائے راشدین کے ذریعہ ہوئی اور دوسری وہ جو مہدی کی خلافت ہو گی۔ پھر ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں:فهذا دليل على ان خلافة النبوة قادمة لا محالة۔(فوائد من خطبة الوداع جلد ۱ صفحہ ۴)خلافت نبوت لا محالہ قائم ہو کر رہے گی۔ پھر اپنی کتاب الارض المقدسہ میں لکھتے ہیں: والخلافة الراشدة هي التي تكون تحت راية المهدي المنتظر۔(الارض المقدسة في ضوء الكتاب والسنةجلد ۳ صفحہ۱۶)خلافت راشدہ امام مہدی کے جھنڈے تلے قائم ہو گی۔ ۳۔مجدی الہلالی عرب دنیا کے معروف داعی اور مصنف ہیں وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ امت محمدیہ اس حدیث میں بیان کردہ چار مراحل سے گزر چکی ہے اور اب خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے آخری مرحلہ کا وقت قریب ہے اور یہ حصہ بھی ضرور پورا ہو گا جیسا کہ پہلے حصے پورے ہو چکے ہیں اور جان لو کہ قرآن نے منہاج النبوۃ بھی بیان کیا ہے وہ کیا ہے۔ وما هو منهاج ودستور النبوة! اليس القرآن۔هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْاُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلَالٍ مُّبِيْن (الجمعة: ۳)۔ …والخلافة الموعودة منهجها القرآن، وهذا امر لا مجال فيه للشك، فان اردنا ان ننال هذا الشرف ونرى عز الاسلام (عودة المجد وهم ام حقيقة۔جلد ۱ صفحہ ۲۰۔المؤلف: مجدي الهلالي الناشر: مؤسسة اقرا للنشر والتوزيع والترجمة، القاهرة۔الطبعة: الاولى، ۱۴۲۸ھ - ۲۰۰۷)منہاج النبوۃ وہی ہے جس کا سورۃ الجمعہ میں ذکر ہے کہ رسول اللہﷺ کو امیین میں مبعوث کیا گیا ہے اور آپؐ کے چار کام بیان کیے گئے ہیں تلاوت آیات،تزکیہ نفوس،اور تعلیم کتاب اور حکمت۔ پس موعودہ خلافت منہاج القرآن پر قائم ہو گی یہ ایسا امر ہے جس میں کوئی شک نہیں اسی کے ذریعہ اسلام کو عزت نصیب ہو گی۔ ۴۔محمد صالح المنجد سعودی عرب کے عالم اور مدرس اور کئی کتب کے مصنف ہیں وہ اس حدیث کا ذکر کر کے لکھتے ہیں: هذه الخلافة لابد ان تاتي۔(دروس للشيخ محمد المنجد۔جز ۱۶۶ صفحہ۸۔المؤلف: محمد صالح المنجد۔مصدر الكتاب: دروس صوتية قام بتفريغها موقع الشبكة الاسلامية۔http://www.islamweb.net)یعنی یہ خلافت آ کر رہے گی۔ ۵۔ شام کے مشہور خطیب اور بیسیوں کتابوں کے مصنف علی بن نائف یہ حدیث درج کر کے لکھتے ہیں: فقد تواترت الاخبار النبوية عن الاحوال المستقبلية للامة، وانها تتعرض بعد النبوة والخلافة الراشدة وخلافة الرحمة، الى ملك عضوض، ثم ملك جبري، ثم حكم الطواغيت، ثم تعود خلافة على نهج النبوة،…ونحن الآن في المرحلة الرابعة من امور نظام الحكم في الاسلام۔(الاحكام الشرعية للثورات جلد ۱ صفحہ ۹۱۔المؤلف: علي بن نايف الشحود)رسول کریمﷺ سے تواتر سے امت کے مستقبل کے متعلق پیشگوئیاں ملتی ہیں یہ نبوت کے بعد خلافت راشدہ کا ذکر کرتی ہیں پھر ملک عضوض اور ملک جبری اور طاغوتی طاقتوں کے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوہ کی خبر دیتی ہیں…اسلامی نظام حکومت کے اعتبار سے ہم چوتھے مرحلہ میں ہیں جس کے بعد پانچواں دور آئے گا۔ ۶۔مشہور عالم القرضاوی کہتے ہیں کہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ لازمی قائم ہو گی۔(الرد الامين على كُتب عُمر اُمّة الاسلام وردّ السهام والقول المبين۔ جلد ۱ صفحہ۹۔المؤلف: شريف مراد ابو عمرو۔( یہکتاب غیر مطبوعہ ہے مگر انٹر نیٹ پر دستیاب ہے ) ۷۔ایک اور عالم امین جمال الدین نے اسے مہدی کی خلافت قرار دیا ہے الرد الامين على كُتب عُمر اُمّة الاسلام وردّ السهام والقول المبين۔جلد ۱ صفحہ ۹۔ المؤلف: شريف مراد ابو عمرو۔(یہ کتاب غیر مطبوعہ ہے مگر انٹر نیٹ پر دستیاب ہے۔) منتظرین خلافت یہ ایک نمونہ ہے مسلم علماء اور دانشوروں کا جو حدیث رسول ﷺ کی بنا پر خلافت کے قیام کا انتظار کر رہے ہیں اور مسلم دنیا کے ہر خطہ میں ایسے لوگ اور تنظیمیں موجود ہیں جو خلافت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد بھی کر رہی ہیں اور اس مقصد کے لیے ہتھیار بھی اٹھائے ہوئے ہیں پاکستان میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور ان کے ساتھیوں کی قلمی اور لسانی کاوشیں غیرمعمولی ہیں مگر کسی کو کامیابی نہیں ہوئی اور نہ ہو گی کیونکہ خلافت علی منہاج النبوۃ میں یہ بتا دیا گیا تھا کہ یہ خلافت اسی طرح قائم ہو گی جیسے پہلے دور میں ہوئی تھی پس اب بھی ایک امتی نبی رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں ظاہر ہو گا اور نبوت کی طرز پر خلافت جاری کرے گا۔ ایسے تمام لوگوں اور انتظار کرنے والوں کو بشارت ہو کہ ایک لمبے عرصہ کی ملوکیت اور ظالمانہ حکومتوں کے بعد موعود زمانے میں مقررہ پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مرزا غلام احمدقادیانیؑ کی شکل میں مہدی اور مسیح موعود ظاہر ہوا جس کو خدا کے رسول نے نبی اللہ قرار دیا تھا جورسول اللہﷺ کا خلیفہ بلکہ خاتم الخلفا٫ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فَاِذَا رَاَیْتُمُوْہُ فَبَایِعُوْہُ وَلَوْ حَبْوًا عَلَی الثَّلْجِ فَاِنَّہٗ خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ۔(سنن ابن ماجہ جلد ۲ صفحہ ۱۳۶۷۔کتاب الفتن باب خروج المہدی۔حدیث نمبر ۴۰۸۴۔المؤلف: ابن ماجہ ابو عبد الله القزويني (المتوفى: ۲۷۳ھ) جب تم اس کو دیکھو تو اس کی بیعت کرو خواہ تمہیں برف کے پہاڑوں پر سے گزر کر جانا پڑے۔ یہ حدیث معمولی فرق کے ساتھ مندرجہ ذیل معروف کتب میں موجود ہے اور سنّی اور شیعہ مکتب فکر اس پر متفق ہیں۔ ۱۔ مسند الامام احمد بن حنبل۔جلد ۳۷ صفحہ ۷۰۔حدیث نمبر ۲۲۳۸۷۔ المؤلف: ابو عبد الله احمد بن محمد بن حنبل (المتوفى: ۲۴۱ھ) ۲۔ مسند الروياني۔جلد ۱ صفحہ ۴۱۷۔ حدیث نمبر ۶۳۷۔ المؤلف: ابو بكر محمد بن هارون الرُّوياني (المتوفى: ۳۰۷ھ) ۳۔ المستدرك على الصحيحين جلد ۴ صفحہ ۵۱۰۔ حدیث نمبر ۸۴۳۲۔المؤلف: ابو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله (المتوفى: ۴۰۵ھ) ۴۔ السنن الواردة في الفتن وغوائلها والساعة واشراطها۔ جلد ۵ صفحہ ۱۰۳۲۔ حدیث نمبر ۵۴۸۔المؤلف: عثمان بن سعيد ابو عمرو الداني (المتوفى: ۴۴۴ھ) ۵۔ دلائل النبوة جلد۶ صفحہ ۵۱۵۔المؤلف: احمد بن الحسين ابو بكر البيهقي (المتوفى: ۴۵۸ھ) ۶۔ بحار الانوار جلد ۵۱ صفحہ ۸۷۔از شیخ محمدباقر مجلسی المتوفیٰ ۱۱۱۰ ھ۔داراحیاء التراث العربی : بیروت۔ خلافت قائم ہو گئی مسیح موعود ظاہر ہوا۔مہدی معہود طلوع ہوا۔اس نے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی پھر بنا ڈالی وہی اس خلافت کے دوسرے دور کا بانی مبانی تھا اس نے اپنے بعد قدرت ثانیہ اور خلافت کی بشارت دی اور ۱۹۰۸ء میں اس کی وفات کے بعد اس کی جماعت میں اس کی نیابت کا سلسلہ جاری ہوا جو خلافت احمدیہ کے نام سے موسوم ہے اور کل عالم میں اسلام کی تبلیغ واشاعت اور حق کے غلبہ کے لیے کوشاں ہے۔ یہ غلط فہمی ہے کہ خلافت کے لیے حکومت بھی ضروری ہے۔خدا کے سارے نبی خلیفۃ اللہ تھے مگر سوائے چند نبیوں کے کسی کو سیاسی حکومت حاصل نہیں تھی آدمؑ۔ نوح،ؑ ابراہیمؑ، اسماعیلؑ،اسحاقؑ، یعقوبؑ،ھودؑ، صالح ؑ،عیسیٰؑ سب بغیر حکومت کے روحانی اصلاح پر مامور تھے۔رسول کریمﷺ چونکہ آخری شارع نبی اورصاحب اسوۂ کاملہ تھےاس لیے اللہ نے خاص مصالح کے تحت آپ کو حکومت بھی عطا کی جو آپ کے خلفاء کو بھی حاصل ہوئی مگر ہر خلیفہ کے لیے ضروری نہیں۔ پہلےخلافت راشدہ خاتم النبیین اور تکمیل شریعت کے بعد قائم ہوئی تھی یہ خلافت اشاعت اسلام و احیاء شریعت محمدیہؐ کے لیے قائم ہوئی ہے۔پہلے دَور میں خلافت کو ورثہ میں حکومت ملی تھی مگر اس دَور میں مسیح موعود مسیح اوّل کی طرح بغیر حکومت کے آیا ہے اس لیے اس کی خلافت بھی روحانی ہے اور دلوں پر حکومت کررہی ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ایک ہم بھی ہیں کلہ داروں کے بیچ میر صاحب کے پرستاروں کے بیچ