یوم خلافت کی مناسبت سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ارشادات سے ایک انتخاب ہر یوم خلافت جو ہم مناتے ہیں، ہمیں اپنی دعاؤں اور عبادتوں اور توحید پر قائم رہنے اور توحید کو پھیلانے کے معیاروں کو ماپنے کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے ۲۷؍مئی کا دن جماعت احمدیہ کے لئے تسکین اور امن کا پیغام بن کر آیا مئی کے مہینہ میں جماعت احمدیہ کے لئے ایک خاص دن ہے، یعنی ۲۷؍مئی کا دن جو یومِ خلافت کے طور پر جماعت میں منایا جاتا ہے۔ …۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کا دن جماعت احمدیہ کے لئے ایک دل ہلا دینے والا دن تھا، بہت سوں کے ایمانوں کو لرزا دینے والا دن تھا۔ بعض طبیعتوں کو بے چین کر دینے والا دن تھا۔ دشمن کے لئے افرادِ جماعت کے دلوں کو اور جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا دن تھا۔ تاریخ احمدیت میں دشمنانِ احمدیت کی ایسی ایسی حرکات درج ہیں کہ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی انسان اس حد تک بھی گر سکتا ہے جیسی حرکتیں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے وقت کیں۔ کجا یہ کہ مسلمان کہلا کر اپنے آپ کو رحمت للعالمین کی طرف منسوب کر کے پھر ایسی حرکات کی جائیں۔ بہرحال ہر ایک اپنی فطرت کے مطابق اُس کا اظہار کرتا ہے لیکن پھر اللہ تعالیٰ کی بھی اپنی قدرت چلتی ہے۔ اُس کے وعدے پورے ہوتے ہیں۔ ۲۷؍مئی کا دن جماعت احمدیہ کے لئے تسکین اور امن کا پیغام بن کر آیا۔ خدا تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے کے پورا ہونے کی خوشخبری لے کر آیا اور دشمن کو اُس کی آگ میں جلانے والا بن کر آیا۔ اُس کی خوشیوں کوپامال کرنے کا دن بن کر آیا۔ پس جماعت احمدیہ کے لئے یہ دن کوئی عام دن نہیں ہے۔ اس دن کی بڑی اہمیت ہے۔ اور اس کی اہمیت اَور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو دیکھتے ہیں۔ اُمّت مسلمہ کی اکثریت بڑی حسرت سے جماعت کی طرف دیکھتی ہے، بلکہ حسرت سے زیادہ حسد سے کہنا چاہئے دیکھتی ہے کہ ان میں خلافت قائم ہے اور اپنے میں یہ قائم کرنے کے لئے کئی دفعہ اپنی سی کوشش کر چکے ہیں اور کرتے رہتے ہیں لیکن ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح حکم اور ہدایت کی نافرمانی کر رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ جب مسیح موعود اور مہدی موعود کا ظہور ہو گا تواپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بَل گھسٹتے ہوئے بھی جانا پڑے تو اُس کے پاس جانا (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی حدیث نمبر ۴۰۸۴) اور میرا سلام کہنا۔ (مسند احمد بن حنبل مسند ابی ھریرۃ جلد سوم صفحہ ۱۸۲حدیث نمبر ۷۹۵۷ بیروت ۱۹۹۸ء) پھر آپ نے نشانیاں بھی بتا دیں کہ وہ پوری ہو جائیں تو سمجھنا کہ دعویٰ کرنے والا سچا ہے۔ یہ نشانیاں آسمانی بھی ہیں اور زمینی بھی ہیں۔ کئی دفعہ جماعت کے سامنے بھی پیش ہوتی ہیں۔ افرادجماعت مخالفین کے سامنے بھی پیش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی وضاحت مَیں نہیں کروں گا لیکن نہ ماننے والوں کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے دنیاوی مصلحتوں کی وجہ سے یا نام نہاد دینی علماء کے خوف سے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر کان نہ دھرنے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ دعویٰ کرنے والے کو قبول نہیں کیا بلکہ بعض سخت قسم کے مُلّاں شدید دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں۔ اُن کے خوف سے حکومتیں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے کے خلاف نہایت گندی اور مکروہ قسم کی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ انتہائی کریہہ قسم کے ان کے فعل ہوتے ہیں۔ یہ سب جانتے ہوئے کہ زمانہ پکار پکار کر آنے والے کے وقت کا اعلان کر رہا ہے، خدا تعالیٰ نشان دکھا چکا ہے اور نشان دکھا رہا ہے۔ (پھر بھی)یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کی مخالفت کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر مخالفت کے بعد ایک نئے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن ڈھٹائی ایسی ہے کہ مخالفت چھوڑنا نہیں چاہتے۔ پس اس کو ان لوگوں کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا، اس دن کی اہمیت ہے اور اس کا اعلان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک پیشگوئی میں فرما چکے ہیں۔ گو معین تاریخ کے ساتھ تو نہیں، لیکن آنے والے اپنے عاشقِ صادق اور مسیح موعود کی بعثت کا پہلے اعلان فرما کر اور پھر خلافت کا ذکر فرما کر آپ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی۔ پس اس سے زیادہ کس چیز کی اہمیت ہو سکتی ہے جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا ہو۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۴؍مئی ۲۰۱۳ء) خلافت سے جڑ کر رہنا ہی اصل چیز ہے اللہ تعالیٰ کا ایک احسان اور بہت بڑا احسان جس نے جماعت احمدیہ کو ایک اکائی میں پرویا ہوا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد جاری نظام خلافت ہے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ کے گذشتہ ۱۰۶ سال اس بات کے گواہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد جیساکہ آپ علیہ السلام نے رسالہ الوصیۃ میں بیان فرمایا تھا افراد جماعت نے کامل اطاعت کے ساتھ نظام خلافت کو قبول کیا۔ دنیا میں بسنے والا ہر احمدی چاہے وہ کسی قوم یا ملک سے تعلق رکھتا ہے اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کے ساتھ جو خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا سلسلہ شروع ہونا تھا اس سے جُڑ کر رہنا اس کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔ مَیں ان لوگ کی بات نہیں کر رہا جو شروع میں علیحدہ ہو گئے اور ان کی اب حیثیت بھی کوئی نہیں۔ جو جماعت احمدیہ کی اکثریت ہے، وہ جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام و مرتبہ کو سمجھتی ہے وہ بہر حال اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ خلافت سے جڑ کر رہنا ہی اصل چیز ہے۔ اسی سے جماعت کی اکائی ہے۔ اسی سے جماعت کی ترقی ہے۔ اسی سے دشمنان احمدیت اور اسلام کے حملوں کے جواب کی طاقت ہم میں پیدا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اب اسلام کی اس نشأۃ ثانیہ میں خلافت کے نظام سے وابستہ ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف زبانی ایمان کا اعلان اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل کرنے والا نہیں بنا دیتا بلکہ آیت استخلاف میں جہاں اللہ تعالیٰ نے مومنوں میں خلافت کا وعدہ فرمایا ہے، ان کے خوف کو امن میں بدلنے کی خوشخبری دی ہے، خلافت سے وابستہ رہنے والوں کو تمکنت عطا فرمانے کا اعلان فرمایا ہے وہاں ان انعامات کا صرف ان لوگوں کو مورد ٹھہرایا ہے جو عبادتوں اور دعاؤں کی طرف توجہ دینے والے ہوں اور اس مقصد کے لئے قربانیاں کرنے والے ہوں کہ خدا کی توحید دنیا میں قائم کرنی ہے۔ پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنے والے تو بہت سے ہوں گے لیکن حقیقی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنے والے وہی ہیں جو ہر حالت میں صرف خدا تعالیٰ کی طرف دیکھتے ہیں۔ غیر اللہ کی طرف اُن کی نظر نہیں ہوتی۔ پس ہر یوم خلافت جو ہم مناتے ہیں، ہمیں اپنی دعاؤں اور عبادتوں اور توحید پر قائم رہنے اور توحید کو پھیلانے کے معیاروں کو ماپنے کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے۔ ورنہ اگر یہ نہیں، اگر ہمارے معیار اللہ تعالیٰ سے تعلق میں پہلے سے بلندنہیں ہو رہے تو جلسے، تقریریں، علمی باتیں اور خوشیاں منانا کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ پس اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دعاؤں کی طرف ہماری توجہ ہو گی، توحید کی حقیقت کو سمجھنے کی طرف ہماری نظر ہو گی تو ہم میں سے ہر ایک ان فضلوں کا وارث بنے گا جس کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۳۰؍مئی ۲۰۱۴ء) جماعت کی ترقی اللہ تعالیٰ کے فضل اور خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے۔ یہ دوسری قدرت خدا تعالیٰ کی قائم کردہ ہے اور اس کی تائید کے اظہار ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ پس جو اپنے ایمان میں مضبوط رہیں گے وہ نشانات اور تائیدات دیکھتے رہیں گے۔ پس اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے رہیں۔ خلافت احمدیہ سے اپنے تعلق کو جوڑیں اور اس حق کی ادائیگی کی طرف توجہ بھی دیں جس کا خدا تعالیٰ نے خلافت کا انعام حاصل کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے۔ خلافت کی نعمت اسلام کے اوّل دور میں اُس وقت چِھن گئی تھی جب دنیاداری زیادہ آ گئی تھی۔ اب ان شاء اللہ تعالیٰ یہ فیض تو خدا تعالیٰ جاری رکھے گا لیکن اس فیض سے وہ لوگ محروم ہو جائیں گے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا نہیں کریں گے۔ اگر ان شرائط پر عمل نہیں کریں گے جو خلافت کے انعام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں تو وہ محروم ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے ذریعہ خوف کو امن میں بدلنے کا وعدہ فرمایا ہے لیکن ان لوگوں سے جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے ہوں اور پہلا حق یہ ہے کہ یَعْبُدُوْنَنِیْ۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ پس اگر اس نعمت سے فائدہ اٹھانا ہے تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کریں۔ پانچ وقت اپنی نمازوں کی حفاظت کریں اور احسن رنگ میں ادائیگی کی طرف توجہ دیں۔ پھر فرمایا لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا۔کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے۔ پس اس دنیا میں جہاں انسان کی مختلف ترجیحات ہیں اور خاص طور پر ان ترقی یافتہ ممالک میں جہاں مادیت کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ان مادیت کی چیزوں کو بعض لوگوں نے خدا تعالیٰ کے احکامات پر ترجیح دینی شروع کر دی ہے یا دیتے ہیں۔ دنیاوی فائدہ کے اٹھانے کے لئے غلط بیانی اور جھوٹ سے بھی کام لیتے ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے۔پس ایسے لوگ خلافت سے صحیح فیضیاب نہیں ہو سکتے۔…اسی طرح کام کرنے والوں اور عہدیداروں سے بھی میں یہی کہتا ہوں کہ یہ برکت جو آپ کے کام میں ہے یا جو آپ کو اللہ تعالیٰ کام کی توفیق دے رہا ہے یہ صرف اور صرف خلافت سے وابستگی میں ہے۔ اس سے علیحدہ ہو کر کوئی ایک کوڑی کا بھی کام نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی بعض کاموں کے اچھے نتائج کو دنیاوی علم اور عقل اور محنت کی وجہ سمجھتا ہے تو یہ محض اس کی خوش فہمی ہے۔ دین کے نام پر کئے جانے والے کام میں خلافت سے علیحدہ ہو کر ایک ذرہ کی بھی برکت نہیں پڑے گی۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ علیحدہ ہونے والوں نے نتیجہ دیکھ لیا۔ روزبروز ان کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ ان کی مرکزیت ختم ہو رہی ہے۔ ان کا نظام بے سہارا ہو رہا ہے۔ پس یہ خلافت کے ساتھ محبت اور اطاعت ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر رہی ہے اور بہتر نتائج نکل رہے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ نظام ہے اس لئے دین کی ترقی کے لئے ہر کوشش کو اس نے خلافت سے وابستہ کر دیا۔ …پس جماعت احمدیہ کی ترقی میں نہ علماء کی علمیت کام دے رہی ہے، نہ عقلمند کی عقل کام دے رہی ہے، نہ دنیاوی علم رکھنے والے کا علم و ہنر کام دے رہا ہے۔ اگر کسی دینی علم رکھنے والے، اگر کسی عقلمند کی عقل، اگر کسی دنیاوی علم والے کی علمیت، اگر ماہرین کے ہنر جماعت کے کاموں میں غیر معمولی نتائج پیدا کر رہے ہیں تو یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے کی وجہ سے ہے کیونکہ اس وابستگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا ان نتائج کا وعدہ ہے اور اس لئے وہ عطا فرما رہا ہے۔ دنیا داروں میں یا دنیاداری میں بیشک علم عقل اور ہنر کام دے سکتا ہے لیکن جماعت میں رہنے والے کو بہر حال بہترین نتائج کے لئے جماعتی کاموں میں خاص طور پر اپنے آپ کو خلافت کا تابع فرمان کرنا ہو گا۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍مئی ۲۰۱۵ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: نظام کی کامیابی اطاعت میں ہے