https://youtu.be/PIxgfr5qWD8 ٭… فتح مکہ کو فتح عظیم بھی کہتے ہیں۔ اس کی بشارت اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کوپہلے ہی دے دی تھی جس کے نتیجے میں جوق در جوق لوگ اسلام میں داخل ہوئے ٭… حقیقت تو یہ ہے کہ جس دن آنحضرتﷺ نے مکّے سے ہجرت کی، اللہ تعالیٰ نے اُسی روز آپؐ کو فتح مکّہ کی بشارت دے دی تھی۔ ٭… مکرم ڈاکٹر شیخ محمد محمود صاحب شہیدآف سرگودھا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب ٭… اللہ تعالیٰ جلد ان مخالفین کی پکڑ کے سامان کرے کیونکہ ملک کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اب ان سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ یہ نام نہاد مذہبی لوگ جو مذہب کے نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں یہ لوگ ملک کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہماری فریادیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہیں اور اس کا حق ادا کرنے کی طرف ہمیں پوری توجہ کرنی چاہیے خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۳؍مئی ۲۰۲۵ء بمطابق ۲۳؍ہجرت ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامسايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۲۳؍مئی۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمدصاحب(مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: گذشتہ خطبےمیں مَیں نے ایک مسلمان کا ایک شخص کے سلام کہنےکےباوجود اسے قتل کرنےکا ذکر کیا تھا اور اس حوالے سے سورة النساء کی آیت پڑھی تھی جس میں ذکر ہے کہ اگر کوئی تمہیں سلام کہے تو یہ نہ کہو کہ وہ مومن نہیں۔ اس کی تفصیل میں یہی ہے کہ آنحضرتﷺ نے نہ صرف اس سے روکا بلکہ ایسا کرنے والے پر بہت غصّے کا اظہار بھی فرمایا اور اسے اپنی نظروں سے دُور کردیا اور بعض روایات کے مطابق آپؐ نے اس کے خلاف دعا بھی کی، آنحضرتﷺ کو اس کا بہت رنج تھا۔ اس مقتول کے قصاص کا معاملہ کیونکہ غزوہ حنین کے بعد آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تھا اس لیے اِس کی تفصیل وہاں بیان ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ بہرحال آنحضرتﷺنےاسے بڑا گھناؤنا جرم قرار دیا تھا، کاش! آج کل پاکستان کے نام نہاد ملاں، دین کے ٹھیکیدار انہیں بھی یہ بات سمجھ آجائے اور احمدیوں پر جو ظلم کر رہے ہیں اس سے باز آجائیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ سکیں۔ اب غزوات کے ذکر کے ذیل میں غزوہ فتح مکّہ کا ذکر ہوگا جورمضان ۸؍ہجری میں ہوا۔ اسے فتح عظیم بھی کہتے ہیں۔اس کی بشارت اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کوپہلے ہی دے دی تھی جس کے نتیجے میں جوق در جوق لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ حضرت مصلح موعودؓ آیت قُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ …کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ یہ وہ آیت ہے جو ہجرت سے پہلے سورہ بنی اسرائیل میں آپؐ پر نازل ہوئی تھی، اور جس میں ہجرت اور پھر فتح مکّہ کی بشارت دی گئی تھی۔ سورة الفتح میں فتح مکّہ کی بشارت یوں بیان ہوئی ہے کہ لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَاَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا۔(الفتح:۱۹)یقیناً اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے تیری بیعت کر رہے تھے، وہ جانتا ہے جو ان کے دلوں میں تھا، پس اُس نے ان پر سکینت اتاری اور ایک فتح عطا کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس دن آنحضرتﷺ نے مکّے سے ہجرت کی، اللہ تعالیٰ نے اُسی روز آپؐ کو فتح مکّہ کی بشارت دے دی تھی۔ چنانچہ ہجرت کے دوران اس آیت کے نازل ہونے کا بھی ذکر ملتا ہے کہاِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ۔(القصص:۸۶)یقیناً وہ جس نے تجھ پر قرآن کو فرض کیا ہے ایک روز ضرور تجھے واپس آنے کی جگہ واپس لے آئے گا۔ امام فخر الدین رازی کہتے ہیں اس جگہ واپس آنے کی جگہ سے مراد مکّہ ہے۔ سورة البقرة کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اس آیت کےمعنی یہ ہوئے کہ تم جہاں سے بھی نکلو، یا جس جگہ سے بھی نکلو تمہارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم نے مکّہ فتح کرنا ہے۔ پھر خروج کے معنی لشکر کشی کے بھی ہوتے ہیں، اس طرح آیت کے معنی یہ ہوئے کہ تم جہاں بھی لشکر کشی کرو، کسی جگہ بھی لڑائی کےلیے جاؤ… تمہارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ تمہارا یہ خروج فتح مکّہ کی بنیاد رکھنے والا ہو۔ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ (اے مسلمانو! )تمہارا ایک ہی مقصد ہونا چاہیے کہ تم نے خانہ کعبہ کو فتح کرکےاسے اسلام کا مرکز بنانا ہے، کیونکہ جب تک مکّے میں اسلام پھیل نہیں جاتا ، جب تک مکّہ مسلمانوں کے ماتحت نہیں آجاتا، اس وقت تک باقی تمام عرب مسلمان نہیں ہوسکتا، یہ پروگرام تھا جو مسلمانوں کا مقرر کیا گیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ پروگرام مسلمانوں کی طاقت سے بہت بالا تھا۔ خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِانور نے ایک شہید کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت مَیں ایک شہید کا ذکر کروں گا اور نمازِ جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ یہ ذکر مکرم ڈاکٹر شیخ محمد محمود صاحب آف سرگودھا ابن مکرم شیخ مبشر احمد صاحب دہلوی کا ہے،جنہیں ایک معاندِ احمدیت نے 16 مئی کو فائرنگ کرکے شہید کردیا تھا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وقوعے کے روز ڈاکٹر صاحب نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنی فیملی کے ہمراہ فاطمہ ہسپتال سرگودھا جہاں وہ پریکٹس کرتے تھے، پہنچے تو راہ داری میں ایک شخص جو وہاں پہلے سے موجود تھا، اس نے شاپنگ بیگ سے پستول نکالا اور پشت سے آپ پر فائرنگ کردی۔ انہیں دو گولیاں لگیں جو آر پار ہوگئیں، انہیں فوری طور پر سول ہسپتال لے جایا گیا لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب شہید ہوگئے۔ وقوعے کے بعد حملہ آور اسلحہ لہراتے ہوئے اپنے ساتھی کے ساتھ وہاں سے فرار ہوگیا۔ شہادت کے وقت شہید مرحوم کی عمر ۵۹؍سال تھی۔ شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا مکرم بابو اعجاز حسین صاحب کے بھائی حضرت سرفراز حسین صاحب دہلویؓ کے ذریعے سے ہوا تھا، جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی تھی۔ بعد میں شہید مرحوم کے پڑدادا مکرم بابو اعجاز حسین صاحب نے اپنے بھائی کی وساطت سے بیعت کرلی۔ شہید مرحوم کے پڑدادا مکرم بابو اعجاز حسین صاحب دہلوی اور دادا مکرم بابو نذیر احمد صاحب دونوں کو یکےبعد دیگرے بحیثیت امیر جماعت احمدیہ دہلی خدمت کی توفیق ملی۔ شہید مرحوم نے ایف سی کالج لاہور سے ایف ایس سی کی ، پھر راولپنڈی میڈیکل کالج سے ۱۹۹۰ءمیں ایم بی بی ایس کیا، اس کے بعد پنجاب سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا اور چار سال سروسز ہسپتال اور جناح ہسپتال میں جاب کی۔ ۱۹۹۸ءمیں رائل کالج آف فزیشنز یوکے کی ممبر شپ اور ۲۰۲۱ءمیں فیلو شپ کا اعزاز ملا۔ شہید مرحوم ۲۰۰۱ءمیں سرگودھا منتقل ہوئے، اس میں بھی انسانیت کی خدمت کا پہلو نمایاں تھا، آپ سرگودھا کے پہلے ماہر امراضِ جگر و معدہ تھے۔ سرگودھا میں ایک نجی ہسپتال جوائن کرلیا، جہاں اس کے مالک سے بہت اچھے تعلقات تھے، مگر اُس کا سیاسی پس منظر تھا، ۲۰۱۸ءمیں اس نے قومی اسمبلی کے انتخاب میں حصّہ لینا تھا، اسے مولویوں نے دھمکیاں دیں تو اُس نے ڈاکٹرصاحب سے کہا کہ آپ ہسپتال چھوڑ دیں ۔ ۲۰۰۱ء میں سرگودھا منتقل ہونےکے بعد باقاعدگی سے فضلِ عمر ہسپتال میں بھی وزیٹنگ ڈاکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی، کثیر تعداد میں مریض شفایاب ہورہے تھے۔ دنیاوی علم کے ساتھ دینی علم بھی بہت تھا، قرآن کریم کی تفسیر، تذکرہ، روحانی خزائن، دیگر جماعتی کُتب اور اختلافی امور پر مشتمل کتب کا بھی وسیع مطالعہ تھا۔ شہید مرحوم کو نائب امیر ضلع سرگودھا کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی، میڈیکل ایسو سی ایشن کے قیام کے بعد سے اُس کے ممبر تھے، ۲۰۲۴ءسےایسو سی ایشن کے نائب صدر تھے، اسی طرح سرگودھا چیپٹر کے صدر تھے۔ گذشتہ تین سال سے انہیں کینسر کی تکلیف تھی، لیکن ا س کے باوجود ہمیشہ اپنی بیماری پر دوسروں کی بیماری کو ترجیح دی اور ہر وقت خدمت کے لیے تیار رہتے تھے۔ مریضوں سے ہمدردی ، محبت اور ضرورت مندوں کا مفت علاج آپ کا نمایاں وصف تھا۔ ضرورت مند مریضوں کو مفت علاج کے علاوہ واپسی کا کرایہ بھی دے دیتے تھے، ان کے بعض ٹیسٹ مفت کرواتے اور ان کے پیسے دے دیتے۔ مالی لحاظ سے کمزور بچیوں کی شادیوں کے لیے کوشش کرتے، بڑی نمایاں مدد کرتے۔ ایک ضرورت مند کی مستقل مدد کیا کرتےتھے، جب اس نے ہر دوسرے دن آنا شروع کردیا تو ایک روز جب اس نے زیادہ ضد کی ہوگی تو ڈاکٹر صاحب جو عموماً ناراض نہیں ہوتے تھےاُن کے منہ سےکوئی سخت بات نکل گئی۔ مگر طبیعت کی نرمی اور نیکی تھی کہ ساری رات بےچین رہے ۔ اگلے روز اسے بلایا اور اس سے معذرت کی اور پھر اسے مالی مدد کے لیے کافی رقم دے دی۔ بزرگانِ سلسلہ سے عقیدت کا تعلق تھاضرورت پڑنے پر خصوصی طور پر ربوہ جاکر مریضوں کا علاج کرتے۔ شہید مرحوم کی والدہ محترمہ امة الحئی صاحبہ کہتی ہیں کہ مرحوم،والدین کا بےحد احترام کرنے والے تھے، کوئی ایسی ضرورت نہیں تھی جو بغیر مطالبے کے پوری نہ کی ہو۔ بچپن سے بےشمار خوبیوں کےمالک تھے، اپنے کام سے کام رکھنے والے، خلافت سے بےا نتہا عشق تھا، غریبوں اور مریضوں کا بہت خیال رکھتے، مالی معاملات اور لین دین کا پورا حساب رکھتے، خاندان کے سب افراد کو باہم جوڑ کر رکھا ہوا تھا۔ ان کی اہلیہ محترمہ امة النور صاحبہ کہتی ہیں کہ بچوں کو ہمیشہ نظامِ جماعت سے جوڑنے کی تلقین کرتے، خلافت سے والہانہ عقیدت تھی، خطبات باقاعدہ سنتے اور نکات ڈائری میں نوٹ کرتے۔ حضورِانور نے فرمایاکہ بہت کم لوگ ایسے ہیں بلکہ واقفینِ زندگی بھی پوائنٹس نوٹ نہیں کرتے۔ چندہ جات کی ادائیگی مثالی تھی،بوقتِ شہادت ان کا چندہ وصیت کا ۲۰۲۵ءتک حساب صاف تھا۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر بصیر کہتے ہیں کہ ہمیشہ ہمیں خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے۔ان کی بیٹی صائمہ کہتی ہیں کہ بے حد شفیق باپ تھے، میری شادی پر مجھے ایک ہی نصیحت کی کہ بیٹا! اپنے سسرال جاکر ہمیشہ نظامِ جماعت سے منسلک رہنا۔ اگر کبھی کسی حوالےسے جماعتی خدمت کا اعزاز ملے تو کبھی انکار نہ کرنا۔ ایک بہو کہتی ہیں، توکل علی اللہ پر بہت زور دیتے تھے، جب بھی کسی معاملے میں راہنمائی کی درخواست کی تو بات دعا سے شروع کرتے اور دعا پر ہی ختم کرتے۔ ان کی بہن کہتی ہیں کہ جماعت کے مخالفانہ حالات کی وجہ سے بہت پریشان رہتے، راتوں کو اٹھ کر نفل پڑھنا، تہجد پڑھنا روز کا معمول تھا۔ امیر صاحب ضلع سرگودھا کہتے ہیں غریبوں کے مسیحا اور نافع الناس ہونے کے علاوہ عاجزی اور انکسار کا وصف نمایاں تھا۔ جماعتی عہدےداروں کا بہت احترام کرتے۔ وہاں کے مربی سلسلہ کہتے ہیں کہ ہمارا انتہائی محبوب، انسانیت کا خادم، رحمت و شفقت کا پیکر، لاکھوں افراد کا مسیحا، خلافت کا شیدائی، مجسم فرشتہ انسان ہم سے جُدا ہوگیا۔ شہید مرحوم درویش انسان تھے، زندگی کا ہر پہلو مثالی تھا۔ جب بھی کوئی عہدے دار یا واقفِ زندگی اُن کے پاس جاتا تو اٹھ کر کھڑے ہوجاتے۔ مخالفین نے ضلع بھر میں ان کے خلاف اشتہار بھی تقسیم کیے تھے، اسی طرح ٹارگٹ کیے جانے والے احمدیوں کی مخالفین نے فہرست بنائی تھی اور اُس میں ڈاکٹر صاحب کا نام سرِ فہرست تھا۔ایک مولوی اکرم طوفانی نے اِن کے واجب القتل ہونےکا فتویٰ دیا ہوا تھا، یہی نہیں بلکہ یہ فتویٰ تقسیم بھی کیا گیا تھا لیکن پھر بھی حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ حضورِانور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جلد ان کی پکڑ کے سامان کرے کیونکہ ملک کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اب ان سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ یہ نام نہاد مذہبی لوگ جو مذہب کے نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں یہ لوگ ملک کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہماری فریادیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہیں اور اس کا حق ادا کرنے کی طرف ہمیں پوری توجہ کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے، ان کے لواحقین کو صبر اورحوصلہ عطا فرمائے۔ ان کی والدہ بڑی عمر کی ہیں اللہ تعالیٰ اُن کے غم کو ہلکا کرے، ان کی بیوی اور بچے اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ09؍ مئی 2025ء