۲۷/مئی کادن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں نہایت اہمیت کاحامل ہے۔اس دن یعنی ۲۷/مئی ۱۹۰۸ءکوخلافت احمدیہ کاآغازہوا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی وفات کےبعد،قدرت ثانیہ کاظہورہوااوراللہ تعالیٰ کےوعدوں کےمطابق حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کوخلافت کی رداپہنائی گئی۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کےفضلوں اورانعامات کےشکرانےکادن ہے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرما تاہے:وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنْ قَبۡلِہِمۡ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًاؕیَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًاؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ(النور:۵۶)تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔آج ہم وہ خوش نصیب لوگ ہیں کہ ہم اس دَور میں ہیں جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے خود کیا اور دن رات ہم اپنی آنکھوں سےاس کے فضل و کرم کے نظارے دیکھ رہیں جو خلافت احمد یہ پر نازل ہو رہے ہیں اور خداتعالیٰ کے یہ انعامات ہم سے تقاضاکرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت عظمیٰ کا شکر اداکریں۔جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرما تا ہے:وَاِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکُمۡ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ وَلَئِنۡ کَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ ( ابراہیم:۸) اور جب تمہارے ربّ نے یہ اعلان کیا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔اس آیت کی تفسیر میں حضرت مصلح موعودؓبیان کرتے ہیں”: اس آیت میں ایک عظیم الشان قانون بتایا ہے کہ تمام ترقیات شکر کے ساتھ وابستہ ہیں۔ شکر کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بیان کیا گیا ہے احسان ماننا اور محسن کی ثناکرنا ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر اسی طرح سے ہو تا کہ انسان اس کی دی ہوئی چیز کو عمدگی کے ساتھ اور برمحل استعمال کرے۔“ (تفسیر کبیر، جلد پنجم، صفحہ ۱۱۴)جلسہ خلافت اس نعمت عظمیٰ کی شکر گزاری کا ایک حصہ بھی ہے جو ہر سال دنیا کے ہر خطے میں منعقد کیا جا تا ہے جو ہمیں خلافت سےمتعلق اس عظیم الشان وعدہ کے پورا ہونے کی یاد میں خداکاشکرگزاربنا تاہے۔ ہمیں خلافت احمدیہ کےساتھ وفا اور اخلاص کا احساس دلاتا ہے۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونے اور اس کی حمد و ثناکرنے اور خلافت سے وفا کی تجدید کا دن ہے۔اس لیےہمارافرض ہےکہ خلافت کےاستحکام کےلیےبہت دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور وعدہ کریں کہ ہم ہر آن اس کی اس نعمت کی قدر کریں گے۔ اور مزید اس کے فضلوں کو پانے کے لیے مل کر خلیفۃ المسیح کی ہدایت وراہنمائی میں غلبۂ اسلام واحمدیت کی اس مہم میں آگےہی آگے بڑھتے چلےجائیں گے۔ انشاءاللہ!اپنی آئندہ نسلوں کو خلافت سے جوڑے رکھنے کے لیے ضروری ہےکہ ہم اپنا ہر قدم اس کی اطاعت میں اُٹھائیں اور اس کی قدر ہمیشہ ہمارے دلوں میں قائم رہے ہمارا ہر عمل ہماری آئندہ نسلوں کے لیے سنگِ میل ثابت ہو۔ ہم اگر خود خلافت سے محبت کا اظہار کریں گے تو ہماری نسليں خود بخود اس راہ پر چلنے والی ہوں گی۔ ان شاء الله! حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے:’’میں خدا کی طرف سےایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدر ت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کامظہر ہوں گے سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو۔ اور چاہیے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادرخدا ہے۔‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰، صفحہ ۳۰۶ )جس نعمت کے پانے کے لیے حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے اس قدر تلقین فرمائی تو اس کے قائم رہنے اور دائمی ہونے کے لیے کس قدر دعاؤں کی ضرورت ہے جو کہ ہر لمحہ خلافت اور نظام خلافت سے افراد جماعت کی محبت اور رشتے کو مضبوط سے مضبوط کرتی چلی جائیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:کل۲۷ / مئی تھی جسے ہم یوم خلافت کے نام سے یادرکھتے ہیں۔ یوم خلافت کی مناسبت اور حوالے سے جماعت میں جلسےبھی منعقد ہو تے ہیں تا کہ جماعت کی تاریخ اور خلافت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے ہم واقف رہیں اور خلافت کی بیعت میں آنے کے بعد ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے بنیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر جو احسان کیا ہے کہ ہم نے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستاده کومانا جو اس نے اسلام کی حقیقی تعلیم بتانے کے لیے ہم میں بھیجا اور پھر اس کے بعد خلافت کی بیعت میں آئے تا کہ اس تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتائی اور آگے دنیا میں پھیلاتے بھی چلے جائیں۔پس خلافت احمدیہ سے منسلک ہونا ہر احمدی پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے۔ اگر ہم اس ذمہ داری کو ادا کریں گے تبھی ہم احسان کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ ( خطبہ جمعہ ۲۸/ مئی۲۰۲۱ء)دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو ہمیشہ خلافت کی نعمت سےاخلاص ووفاکےساتھ جوڑے رکھے۔آمین مزید پڑھیں:خلافت کے ذریعہ عالمی وحدت کا قیام