(۲۴؍مئی۲۰۲۵ء،نمائندگان الفضل انٹرنیشنل)آج مورخہ ۲۴؍مئی۲۰۲۵ء بروز ہفتہ جماعت احمدیہ برطانیہ کی مجلس شوریٰ کا پہلا روز ہے۔ اسی طرح جماعت ہائے احمدیہ کینیڈا و بیلجیم بھی اپنی مجالس شوریٰ منعقد کر رہی ہیں۔ قارئین کو بخوبی علم ہو گا کہ جماعت احمدیہ میں نظام خلافت کے بعد مجلس شوریٰ خاص اہمیت رکھتی ہے جو قرآنی حکم کے تحت خلیفة المسیح کو مشورہ دیتی ہے۔ چنانچہ انگلستان کے وقت کے مطابق صبح ساڑھے گیارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسلام آباد ٹلفورڈ میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے براہ راست خطاب فرمایا۔ برطانیہ میں نمائندگان شوریٰ مسجد بیت الفتوح کے طاہر ہال میں جمع تھے جبکہ کینیڈا میں نمائندگان شوریٰ مسجد بیت الاسلام ٹورانٹو میں جمع تھے۔ یہ تمام مناظر ایم ٹی اے پر براہ راست دکھائے جا رہے تھے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے گیارہ بج کر ۳۵ منٹ پر ایم ٹی اے سٹوڈیوز اسلام آبادسے ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ کا تحفہ عنایت فرمایا۔ بعد ازاں حافظ فضل ربی صاحب نے سورة النساء کی آیات ۵۹اور۶۰ کی تلاوت کرنے کی سعادت حاصل کی۔ متلو آیات کا انگریزی ترجمہ Jonathan Butterworthصاحب نے پیش کیا۔ خلاصہ خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ گیارہ بج کر ۴۱ منٹ پر حضور انور ایده الله تعالیٰ منبر پر تشریف لائے اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمایا اور خطاب کا آغاز فرمایا۔ حضور انور نے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا اور بعد ازاں اردو میں اس کا خلاصہ بھی بیان فرمایا۔ تشہد و تعوذکے بعد حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ویک اینڈ میں یوکے جماعت کو اپنی مجلس شوریٰ کے انعقاد کی توفیق حاصل ہو رہی ہے۔ اس کےساتھ ساتھ کینیڈا اور بیلجیم کی جماعتیں بھی شوریٰ منعقد کر رہی ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ شوریٰ کے عظیم مقاصد کا حصول ممکن بنائے اور آپ نمائندگان مشاورت کی حیثیت سے جو بھی مشورے دیں ان کی بنیاد انصاف اور تقویٰ پر ہو۔ مزید برآ ں آپ اس سال جماعت کے الیکشن بھی منعقد کر رہے ہیں۔ میرا یہی پیغام اور ہدایت ہے کہ آپ نے اپنا ووٹ ان افراد کے لیے استعمال کرنا ہے جو حقیقتاً مختلف خدمات کے مستحق ہیں۔ کبھی بھی ذاتی تعلقات اور دوستیوں کو اپنے فیصلہ پر اثر انداز نہ ہونے دیں۔ ہمارے ہر کام کی بنیاد تقویٰ پر ہونی چاہیے۔ ورنہ شوریٰ کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہی مقصد ایک احمدی ہونے کا بھی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جب نظامِ شوریٰ کا قیام فرمایا۔ ابھی حضرت مسیح موعودؑ کے وصال پر چند سال ہی گزرے تھے اس لیے شروع کی مجالسِ شوریٰ میں کئی صحابہ بھی ممبران تھے۔ اب پوری دنیا میں بہت سے ایسے احمدی ہیں جنہوں نے ماضی قریب میں بیعت کی ہے۔ کئی جماعت میں نئے شامل ہوئے ہیں۔ جب حضرت مصلح موعودؓ نے نظامِ شوریٰ قائم فرمایا تو بڑی سیر حاصل ہدایات دیں۔ کئی خطبات اور تقاریر سے شوریٰ کے مقاصد واضح فرمائے۔ اور اس بات کو واضح کیا کہ مجلس شوریٰ کی کیا روح ہے، کس طرح اس کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔حضرت مصلح موعود ؓ کے یہ بیش بہا خطبات و ہدایات مختلف کتب میں جماعت شائع کر چکی ہے۔ مجلس شوریٰ کے تمام ممبران اور تمام عہدیداران کو ان کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ کچھ اردو میں ہیں،کچھ کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ اردو پڑھ سکنے والوں کو تو ان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ حضور انور نے فرمایا کہ میں شوریٰ کے بنیادی اصولوں کا ذکر کروں گا جو ہر شوریٰ کے ممبر کے پیش نظر رہنے چاہئیں۔ سب سے پہلا اور عظیم مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا جائے۔ انسان کا اگر اصل مقصد یہ ہو تو اس شخص کے جو مشورے ہیں وہ حقیقت اور انصاف پر مبنی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت قربانی مانگتی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ ہم سب کو ذاتی تعلقات، خواہشات، اپنی آرا کو اللہ تعالیٰ کی رضاکے لیے قربان کرنا ہوتا ہے۔ بہر حال کمی رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق ٹوٹنے کا نقصان بہت بڑا ہے۔ ایسے شخص کو لوگ ناپسندیدگی سے دیکھتے ہیں۔ دنیااور دنیوی طور پر وہ منقطع ہو جاتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ ایسا شخص جسے دنیا بھی حاصل نہ ہوئی اور خدا بھی نہ ملا وہ بد قسمت ترین لوگوں میں سے ہے۔ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ہمارے سارے کاموں اور عمل میں ہمارا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی خواہشات کو ایک طرف رکھیں۔ ہر عہدیدار اور شوریٰ کے ممبر کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کی خواہش سب سے بڑھ کر ہو۔ اس ضمن میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت کو حاصل کرنا چھوٹی بات نہیں۔ اس کے لیے وہ قربانی چاہیے جو کسی اور مقصد کے لیے نہیں ہو سکتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی سب سے بڑھ کر ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ لوگوں کی قربانی کی خواہش اہم نہیں بلکہ نیت اہم ہے۔ قربانی کا مقصد نام اور دکھاوا ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔اس میں اللہ کی رضا شامل نہیں۔ بطور شوریٰ کے ممبران کے اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ایسی قربانیاں کبھی بھی حقیقی نتائج کی حامل نہیں ہو سکتیں اور اگر ایسے لوگ زندگی گزارنے کے بعد اللہ کی محبت حاصل نہ کر سکے تو کیا فائدہ۔ کئی لوگ عزت و وقار کی قربانی کرتے ہیں پھربھی خدا کو حاصل نہیں کرسکتے۔کئی لوگ مال اور جائیداد کی قربانی کرتے ہیں، کئی علم، وقت کی قربانی کرتے ہیں۔ پھر بھی رضا حاصل نہیں کر سکتے۔ اور شیطان کے چنگل میں ہیں۔ اصل قربانی، قربانی کی وہ روح ہے کہ انسان مکمل اپنی خواہشات کو، انا کو قربان کر دے۔ جب نفس غالب ہو تو انسان حقیقی مطمح نظر سے دور ہو جاتا ہے۔ بظاہر ایک قربانی بہت بڑی نظر آتی ہے۔ لیکن اس کی بنا خالص نہیں۔ کیونکہ انا کی بھوک ختم نہیں ہوتی۔ حقیقتاً جان، مال اور وقت کی قربانی اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں بلکہ اس لیے ہے کہ دنیا میں ان کی عزت و وقار بڑھے۔ بظاہر لگتا ہے کہ انسان بڑی قربانی کرتا ہے تاہم پسِ پردہ انا کو تسکین دے رہا ہوتا ہے۔ اس کی اپنی خواہشات غالب ہوتی ہیں۔ انسان اپنے گہرائی میں جا کر دیکھے کہ کیا اس نے یہ قربانی خدا کے لیے کی ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان کی ذات کی نفی ہو۔ بطور شوریٰ ممبر آپ پورا سال ان باتوں کی جگالی کرتے رہیں۔ کیا آپ جو قربانیاں کر رہے ہیں وہ جماعت کی خاطر ہیں۔ یا پھر صرف اس لیے کہ آپ اپنے عہدے سے جانے جائیں۔ تو پھر ایسے عہدے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جب تک انسان اپنی ذات کی نفی نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کی ذات کی نفی کرتا ہے اور ایک قسم کا شرک کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے اور ذہن میں کچھ اور ہوتا ہے۔ در اصل اس کا مقصد اپنی ذات کو بڑھانا ہے وہ اپنے آپ کو الٰہ بنا رہا ہے۔ معبود بنا رہا ہے۔ قربانی کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے غیر مشروط محبت کرے۔ بہت سے لوگ قربانی کرتے ہیں۔ جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔ مقصد ان کا اپنی ذات ہوتا ہے۔ جب تک ان کا نفس اپنی ذات اور انا سے جان نہیں چھڑاتا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں کرتا۔ صحابہؓ نے آنحضرتﷺ کے ساتھ بڑی بہادری کے ساتھ جنگیں لڑیں۔ ایک شخص نے بڑی دلیری اور بہادری کے ساتھ جنگ لڑی۔ صحابہ نے اس کی بڑی تعریف کی لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص تو جہنم میں گیا۔ صحابہ حیران ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہوا۔ صحابہ نے دریافت کیا۔ لوگوں نے بعد میں بتایا کہ وہ شخص جب بہت زخمی ہوا تو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے نیزے پر خود کو گرا لیا۔ اور مرنے سے پہلے اس نے اقرار کیا کہ وہ تو بدلے کی لڑائی لڑ رہا تھا نہ کہ خدا کے لیے۔ تو رسول اللہ ﷺ کی بات سچ ثابت ہوئی۔ یہ ان تمام لوگوں کے لیے اور ہمارے لیے سبق ہے کہ ہر عمل اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ اگر انسان کی نفسانی خواہشات درپردہ ہوں تو اس کے انعامات نہیں مل سکتے۔ بطور مجلس شوریٰ ان چیزوں سے اپنے آپ کو بچائیں۔ جو چیز آپ کی خلوص نیت میں فرق ڈالےاس سے دوررہیں۔ بطور عہدیداران چند کا دوبارہ انتخاب ہو جائے گا، چند نئے آئیں گے۔ آپ اپنے پچھلے تین سالوں پر نظر ڈالیں محاسبہ کریں۔ آپ نے کونسی وہ خدمت کی ہے جو خالصةً اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تھی،کونسی خدمت اپنی ذات کے لیے تھی۔ اگر اپنےنفس کے لیے کی ہے یا دنیاوی مقام کے لیے کی ہے۔ تو پھر یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے افضال حاصل نہیں ہوسکتے۔ ایسے لوگ انتخابات میں جن کی منظوری آجائے گی، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت حاصل کرنے کے لیے خدمت ہو۔ مثلاً سیکرٹری تبلیغ یہ نہ سوچے کہ اس کی وجہ سے ہماری بیعت کا ٹارگٹ حاصل ہو جائے، سیکرٹری مال کا خیال ہو کہ اس کی محنت کی وجہ سے چندہ بڑھا ہے۔ سیکرٹری تعلیم یہ نہ سوچے کہ اس شعبہ کی ترقی اس کی وجہ سےہے۔ نہ سیکرٹری امورِ عامہ کو یہ خیال ہو کہ میری صلاحیت کی وجہ سے معاملات حل ہوئے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تربیت کے سیکرٹری کا خیال ہو کہ میری وجہ سے روحانی و اخلاقی ترقی ہوئی ہے۔ حضور نے فرمایا کہ چند شعبوں کا ذکر کیا ہے۔ کسی کو خیال نہ آئےکہ جماعت کی کامیابی آپ کی کسی قابلیت کا نتیجہ ہے۔ اس کے برعکس یہ خیال ہو یہ جو کچھ ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ خیال رہے تو جو دائمی ترقی مقدر ہے اس کودیکھنے والے ہوں گے۔ اور آپ کا مقام بھی اللہ تعالیٰ کی نظر میں بڑھے گا۔ اگر انانیت جڑ پکڑ گئی تو بربادی کا موجب بنیں گے۔ جماعت کے ہرایک عہدیدار کو جماعت کے اغراض و مقاصد یاد رکھنا چاہئیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو مبعوث فرمایا تھا۔وہ مقصد یہی تھا کہ بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب لایا جائے۔ دنیا میں حقیقی توحید قائم کی جائے، بنی نوع انسان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ اگر ذرا سی بھی کمی ہے ہم یہ مقاصد کس طرح پورا کر سکتے ہیں۔ انانیت کے برعکس اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفا کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو زندگی کے ہر موڑ پر بارش کی طرح دیکھیں گے۔ وہی خلافت کے حقیقی سلطانِ نصیر ہوں گے۔ جو بھی خدمت ملے سیکرٹری یا نائب ہوں، جماعت یا خلیفہ وقت کی جانب سے جو کام دیا جائے اس کے لیے پورے خلوص سے کوشش کریں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ میں بڑے درد سے کہتا ہوں کہ اپنے ذہن میں یہ بات رکھیں کہ حقیقی فلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اپنی ذات کی اہمیت کو مکمل طور پر انسان ختم نہیں کرتا۔ بطور شوریٰ کے ممبران کے اور عہدیداران کے یہ وہ بنیادی تقاضے ہیں جن کو آپ نے پورا کرنا ہے۔ اگر ایسا کریں گے تو جماعت میں روحانی اور اخلاقی ترقی ہوتی چلی جائے گی۔ جماعت کی مالی ضروریات اللہ تعالیٰ پوری کرے گا۔ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنا کافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وارث بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ممکن کوشش کریں اور ہر طرح کی قربانی کے لیے مسلسل اپنے آپ کو پیش کرتےرہیں۔ اگر ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کا مشاہدہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کا تقاضا ہے کہ تکبر اور انا کو چھوڑ دیں۔ کوئی سیکرٹری یہ سوچے کہ اس کے شعبہ کی ترقی اس کی وجہ سے ہے۔ کسی بھی عہدیدار کو یہ شائبہ بھی ہے اور یہ ذہن میں آتا ہےتو یقیناً انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ جھوٹی انکساری پیش کرتے ہیں۔لیکن دل میں وہ کچھ اور ہیں۔ اس کے برعکس حقیقتاً منکسر المزاج لوگوں کا دل اور دماغ ایک جیسا ہوتا ہے۔ حضور نے فرمایا۔ جو بھی تجاویز آپ پیش کریں۔پھر خلیفة المسیح جو بھی فیصلہ کریں اس پر عمل در آمد بھی ہو۔ صرف پر جوش تقاریر کرنا کافی نہیں۔ گذشتہ تین سال کی رپورٹس کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کئی باتوں پر آپ عمل نہیں کر پائے۔ آپ کئی تجاویز کو بھول بھی گئے ہوں گے۔ اس لیے گذشتہ تجاویز کو بھی دیکھیں کہ ان پر کیسے عمل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے وسائل محدود ہیں یہ بہانہ سازی ہے۔ اللہ تعالیٰ پر توکل کریں۔ اس بات پر ثابت قدم رہیں کہ جو کام ہے وہ میں نے کرنا ہے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، اپنی استعدادوں کو کمال پر پہنچائیں۔ ہر عہدیدار میں صلاحیت ہے وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں مثبت تبدیلی لا سکتاہے۔ اگر اس طور پر کام کریں گے تو ہی سلطان نصیر بن سکیں گے۔ بلکہ اپنی انانیت ختم کر کے، جوش و جذبے کے ساتھ قربانی کریں۔ آنے والی نسلوں کی تربیت کریں۔ محنت، کوشش اور دعا کے ساتھ قربانی کرتے رہیں اور آئندہ نسلوں میں بھی یہ روح منتقل کریں۔ پھر شوریٰ میں جو فیصلے کیے جاتے ہیں ا س پر عملدرآمد کروانے کے بھی اہل ہوں گے۔ شوریٰ کے دوران شوریٰ کے اصل وقار کو ملحوظ رکھیں۔ بحث برائے بحث نہ کی جائے۔ جو مشورہ دینا ہے دیکھیں کہ اس کی ضرورت ہے؟ مفید بھی ہے، اگر کسی اور نے وہ مشورہ دے دیا ہے تو ضرورت نہیں اس کو دہرا کر شوریٰ کا وقت ضائع کریں۔ اپنی انانیت، انا اور مَیں کو ماریں پھر کارروائی میں کردار ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ کا خوف، خشیت اور تقویٰ کے ساتھ رائے دیں۔ اگر ایسا ہو گا تو پھر اس وقار کو قائم رکھیں گے جو شوریٰ کا حق ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا خوف دلوں میں پیدا کریں۔ محض لفاظی اور خوش بیانی کسی طور پر بھی فائدہ مند نہیں ہوسکتی۔ نہ اس دنیا میں نہ آخرت میں۔ حضور انور نے فرمایا کہ ایک بات جو ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی دے سکتی ہے وہ ربنا اللہ ہے۔ رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ایسے لوگوں کے عمل میں دین کے بجائے دنیا حاصل کرنا ہے تو کوئی فائدہ نہیں۔ ایک چیز جو ہمیں دنیا سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ ہم نے اللہ کے منادی کی آواز پر لبیک کہا۔ حضرت مسیح موعودؑ کو ماننے کے بعد ہمارا فرض ہے کہ اللہ سے محبت، خوف اور خشیت کو بڑھاتے چلے جائیں۔ اس ضمن میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایاکہ اللہ کا خوف ہماری ہر سوچ اور رائے کے پسِ منظر میں ہو، خدا کرے کہ ہماری زبان اللہ تعالیٰ کے خوف سے چلے، ہمارے دماغوں میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کی خشیت ہمارے دلوں میں قائم رہے۔ ہمارے دل اللہ کے خوف سے لرزتے رہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ تمام نمائندگانِ شوریٰ اپنی ذاتی انانیت، کو ختم کرتے ہوئے ہر لفظ جو آپ کے منہ سےنکلے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور احمدیت کی ترقی کے لیے ہو۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس کو سمجھنے والے بھی ہوں او ر اس پر عمل کرنے والے بھی ہوں۔ آمین حضور انور کا خطاب بارہ بج کر۵۰؍ منٹ تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔