اگر ہر عہدیدار … نہ صرف قول سے بلکہ دل کی گہرائیوں سے اس بات پر قائم ہو کہ خدمت دین ایک فضل الٰہی ہے۔ میری غلط سوچوں سے یہ فضل مجھ سے کہیں چھن نہ جائے تو ہماری ترقی کی رفتار اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی گنا بڑھ سکتی ہے [تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍مئی ۲۰۲۵ء] عہدیداران خرچوں میں اعتدال رکھیں فرمایا:’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بخل بھی ایک ایسا اظہار ہے جو کسی مومن کو زیب نہیں دیتا۔ عہدیدار اسراف سے تو بچیں، خرچوں میں اعتدال تو رکھیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بخیل اور کنجوس ہو جائیں۔ جہاں ضرورت ہو اور جائز ضرورت ہو، وہاں خرچ کرنا بھی چاہئے۔ لیکن یہ نہ ہو کہ کسی کے لئے تو بہت کھلا ہاتھ رکھ لیا اور کسی کے لئے ہاتھ بالکل بند ہو جاتے ہیں‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍مئی ۲۰۱۳ء) عہدیداران غصہ پر قابو رکھنے والے ہوں فرمایا:’’عہدیدار کی خاص طور پر ایک خوبی یہ بھی ہونی چاہیے کہ کَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ ۔(آل عمران: ۱۳۵) غصّہ پر قابو ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ خاص حکم دیا ہے۔ کہ بیشک بعض دفعہ بعض حالات میں غصہ کا اظہار ہو جاتا ہے۔ لیکن غصہ کو دبانے والے ہوں۔ جہاں جماعتی مفاد ہو گا، وہاں بعض دفعہ اصلاح کی غرض سے غصّہ دکھانا بھی پڑتا ہے۔ لیکن ذرا ذرا سی بات پر غصہ میں آنا اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی عزت کا خیال نہ رکھنا۔ یہ ایک عہدیدار کے لئے کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے، نہ ہونا چاہئے۔ بلکہ ایک اچھے عہدیدار کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سامنے رکھنا چاہیے کہ: قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا۔ (البقرۃ:۸۴) کہ لوگوں سے نرمی سے، ملاطفت سے، بشاشت سے ملو۔ اگر عہدیداروں کے ایسے رویے ہوں، تو بعض جگہوں سے عہدیداروں کے متعلق جو شکایات ہوتی ہیں وہ خود بخود ختم ہو جائیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍مئی ۲۰۱۳ء) ’’ہمیشہ عہدیدار کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سامنے رکھنا چاہیے کہ وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا۔(لقمان:۱۹) اور اپنے گال لوگوں کے سامنے غصہ سے مت پھلاؤ۔ (اپنا منہ نہ پھلاؤ غصہ سے) اور زمین میں تکبر سے مت چلو‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۶ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍اگست۲۰۱۶ء) پھر فرمایا: ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ عہدیدار اس بات کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو یہ حکم فرمایا ہے کہ ’’وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ‘‘ (آل عمران:۱۳۵) یعنی غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہوں۔ تو اس کے سب سے زیادہ مخاطب عہدیداروں کو اپنے آپ کو سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ ان کی جماعت میں جو پوزیشن ہے، جو ان کا نمونہ جماعت کے سامنے ہونا چاہیے وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ مکمل طور پر اپنے آپ کو عاجز بنائیں۔ اگر اصلاح کی خاطر کبھی غصے کا اظہار کرنے کی ضرورت پیش بھی آ جائے ،تو علیحدگی میں جس کی اصلاح کرنی مقصود ہو، جس کا سمجھانا مقصود ہواس کو سمجھا دینا چاہئے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل۱۴؍جنوری ۲۰۰۵ء) عہدیداران میں مہمان کی عزت کا وصف ہونا چاہیے فرمایا:’’عہدیداروں میں اعلیٰ اخلاق کے اوصاف میں سے مہمان کی عزت کا وصف بھی ہونا چاہئے۔ یہ بھی ایک اعلیٰ خلق ہے۔ ہر شخص جو عہدیدار کو ملنے آتا ہے، اُس کے دفتر میں آتا ہے، اُس سے عزت و احترام سے ملنا چاہیے اور عزت و احترام سے بٹھانا چاہئے۔ یہ بہت ضروری چیز ہے۔ اگر دفتر میں آیا ہے تو کھڑے ہو کر ملنا چاہئے۔ یہ اخلاق منتخب عہدیداران کے لئے بھی ہیں اور مستقل جماعت کے کارکنان کے لئے بھی ضروری ہیں۔ اس سے عزت بڑھتی ہے، کم نہیں ہوتی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍مئی۲۰۱۳ء) عہدیداران میں تواضع اور عاجزی ہونی چاہیے فرمایا: ’’عہدیداروں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت تواضع اور عاجزی بھی ہے۔ اور یہ عاجزی ایک احمدی کو بھی، عموماً عام آدمی کو بھی اپنی فطرت کا خاصہ بنانی چاہئے۔ لیکن ایک عہدیدار کو تو خاص طور پر اپنے اندر تواضع اور عاجزی پیدا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا۔(بنی اسرآئیل: ۳۸) کہ اور تم زمین میں تکبر سے مت چلو۔ ایک عام انسان کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کو تکبر پسندنہیں۔ تو جو لوگ خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی خدمات پیش کر رہے ہوں، اُن کے لئے ایک لمحہ کے لئے بھی خدا تعالیٰ کو تکبر پسندنہیں ہو سکتا۔ پس اس خصوصیت کو ہمارے تمام عہدیداروں کو زیادہ سے زیادہ اپنانا چاہیے اور ہر ملنے والے سے انتہائی عاجزی سے ملنا چاہیے‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍مئی ۲۰۱۳ء) ایک اور جگہ عاجزی کے بارے میں فرمایا: ’’ایک وصف جو خاص طور پر عہدیداروں کے اندر ہونا چاہیے وہ عاجزی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمٰن کی یہ نشانی بتائی ہے کہ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا ۔(الفرقان: ۶۴) کہ وہ زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں۔ پس اس کی بھی اعلیٰ مثال ہمارے عہدیداروں میں ہونی چاہئے۔ جتنا بڑا کسی کے پاس عہدہ ہے، اتنی ہی زیادہ اسے خدمت کے جذبے سے لوگوں کے ملنے کے لحاظ سے عاجزی دکھانی چاہیے اور یہی بڑا پن ہے۔ لوگ دیکھتے بھی ہیں اور محسوس بھی کرتے ہیں کہ عہدیداروں کے رویے کیا ہیں۔ بعض دفعہ لوگ مجھے لکھ بھی دیتے ہیں کہ فلاں عہدیدار کا رویّہ ایسا تھا ۔لیکن آج مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ اس عہدیدار نے مجھے نہ صرف سلام کیا۔ بلکہ میرا حال بھی پوچھا اور بڑی خوش اخلاقی سے پیش آیا، اور اس کے رویّے کو دیکھ کر خوشی ہوئی اور اس سے اس عہدیدار کا بڑا پن ظاہر ہوا۔پس ہمیشہ عہدیداروں کو خاص طور پر اس لحاظ سے اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ ان میں عاجزی ہے یا نہیں۔ اور ہے تو کس حد تک ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جتنا زیادہ کوئی عاجزی اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے… (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃوالآداب باب استحباب العفو والتواضع حدیث ۶۴۸۷) بسا اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض لوگ عام حالات میں اگر ملیں تو بڑی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ لوگوں سے بھی صحیح طریق سے مل رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جب کسی کا اپنے ماتحت یا عام آدمی سے اختلاف رائے ہو جائے تو فوراً ان کی افسرانہ رَگ جاگ جاتی ہے اور بڑے عہدیدار ہونے کا زعم اپنے ماتحت کے ساتھ متکبرانہ رویے کا اظہار کروا دیتا ہے۔ پس عاجزی یہ نہیں کہ جب تک کوئی جی حضوری کرتا رہے، کسی نے اختلاف نہیں کیا تو اس وقت تک عاجزی کا اظہار ہو۔ یہ بناوٹی عاجزی ہے۔ اصل حقیقت اس وقت کھلتی ہے جب اختلاف رائے ہو یا ماتحت مرضی کے خلاف بات کر دے تو پھر انصاف پر قائم رہتے ہوئے ،اس رائے کا اچھی طرح جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے۔ پس اس عاجزی کے ساتھ بلند حوصلگی کا بھی اظہار ہو گا اور جب یہ ہو گا تو یہ عاجزی حقیقی عاجزی کہلائے گی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۶ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍اگست۲۰۱۶ء) عہد یداران کو نیکی کی ہدایت کرنے والااور بدی سے روکنے والا ہونا چاہیے فرمایا: ’’ایک بہت بڑی ذمہ داری ہر امیر کی، ہر صدر جماعت کی، ہر عہدیدار کی تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (آل عمرآن: ۱۱۱) ہے کہ نیکی کی ہدایت کرنا اور بدی سے روکنا۔ پس تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر کو ہمیشہ ہر عہدیدار کو یاد رکھنا چاہیے اور یہ اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ہر عہدیدار خود اپنا جائزہ لیتے ہوئے اپنے قول و فعل کو ایک نہیں کرتا۔ اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا نہیں کرتا۔ تقویٰ کے اُن راستوں کی تلاش نہیں کرتا جن کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے۔ اور تقویٰ کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ صرف چندنیکیاں بجا لانا یا چند برائیوں سے رکنا، یہ تقویٰ نہیں ہے۔ بلکہ تمام قسم کی نیکیوں کو اختیار کرنا اور ہر چھوٹی سے چھوٹی برائی سے رکنا، یہ تقویٰ ہے‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍مئی ۲۰۱۳ء) عہدیداران کو ہر قسم کی اَنا سے پاک ہونا چاہیے فرمایا: ’’بعض ضد یں ہوتی ہیں کہ یہ کام اس طرح نہیں ہونا چاہئے، تو اگر جماعت کے مفاد میں ہو تو پھر تمہاری ضدیں یا تمہاری قسمیں زیادہ اہم نہیں ہیں۔ ان کو ختم کر و۔ یہ جماعت کے مفاد میں حائل نہیں ہونی چاہئیں بلکہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اس طرح کام ہونا چاہیے جس طرح جماعت کے حق میں بہترین ہو۔پھر ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسانی پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو۔ اور اچھی خبر ہی دیا کرو اور لوگوں کوبِدکا یا نہ کرو۔ (صحیح البخاری کتاب العلم، باب ما کان النبیؐ یتخولھم بالموعظۃ والعلم کی لاینفروا)تو اصولی قواعد بھی اس لئے ہیں کہ صحیح سمت میں چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں پر چلتے ہوئے لوگوں کے لئے بہتری اور آسانی پیدا کی جائے۔ تمہاری ضدیں، تمہاری قسمیں، تمہاری انائیں کبھی بھی کسی بات میں حائل نہ ہوں جس سے لوگ تنگ ہوں۔ اگر کوئی قاعدہ بن بھی گیا ہے یا کوئی فیصلہ ہو بھی گیا ہے اگر اس سے لوگ تنگ ہو رہے ہیں تو بدلا جا سکتا ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۴؍جنوری ۲۰۰۵ء) عہدیداران کو واقفین زندگی کا احترام کرنے والا ہونا چاہیے فرمایا: ’’دنیا میں ہر جگہ جماعتی عہدیداروں کی ایک یہ بھی ذمہ داری ہے کہ مبلغین یا جتنے واقفین زندگی ہیں ان کا ادب اور احترام اپنے دل میں بھی پیدا کیا جائے اور لوگوں کے دلوں میں بھی۔ ان کی عزت کرنا اور کروانا، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا۔حسب گنجائش اور توفیق ان کے لئے سہولتیں مہیا کرنا، یہ جماعت کا اور عہدیداران کا کام ہے۔ تاکہ ان کے کام میں یکسوئی رہے۔ وہ اپنے کام کو بہتر طریقے سے کر سکیں۔ وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنے فرائض کی ادائیگی کرسکیں۔ اگر مربیان کو عزت کا مقام نہیں دیں گے، تو آئندہ نسلوں میں پھر آپ کو واقفین زندگی اور مربیان تلاش کرنے بھی مشکل ہو جائیں گے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۴؍جنوری ۲۰۰۵ء) عہدیداران کو ہر ایک سے خوش اخلاقی، پیار، محبت، خوش دلی اور مسکرا کر ملنے والا ہونا چاہیے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’عہدیداروں کو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ لوگوں کے لئے پیار اور محبت کے پر پھیلائیں۔ خلیفہ وقت نے آپ پر اعتماد کیا ہے۔ اور آپ پر اعتماد کرتے ہوئے اس پیاری جماعت کو آپ کی نگرانی میں دیا ہے۔ ان کا خیال رکھیں۔ ہر ایک احمدی کو یہ احساس ہو کہ ہم محفوظ پروں کے نیچے ہیں۔ ہر ایک سے مسکراتے ہوئے ملیں، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو۔ بعض عہدیدار مَیں نے دیکھا ہے بڑی سخت شکل بنا کر دفتر میں بیٹھے ہوتے ہیں یا ملتے ہیں۔ ان کو ہمیشہ آنحضرت ﷺ کے اس اسوہ پر عمل کرنا چاہیے ،جس کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے۔ کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب سے مَیں نے اسلام قبول کیا تو آنحضرت ﷺ نے مجھے ملاقات سے منع نہیں فرمایااور جب بھی نبی ﷺ مجھے دیکھتے تو مسکرا دیتے تھے۔ (بخاری کتاب الأدب باب التبسم والضحک) تو کوئی پابندی نہیں تھی جب بھی ملتے مسکرا کر ملتے ‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۴؍جنوری ۲۰۰۵ء،صفحہ ۸) فرمایا:’’اکثریت افراد جماعت کی تو ایسی ہے کہ وہ عہدیداروں کے پیار، نرمی اور شفقت کے سلوک سے ہی خوش ہو کر ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی عہدیدار کے دل میں اپنے عہدے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی بڑائی پیدا ہوتی ہے۔ یا تکبر پیدا ہوتا ہے تو اسے یاد رکھنا چاہئےکہ یہ چیز اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہے اور جب خدا تعالیٰ سے انسان دور ہوجاتا ہے تو پھر کام میں برکت نہیں رہتی۔ اور دین کا کام تو ہے ہی خالصۃً خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اور جب خدا تعالیٰ کی رضا ہی نہیں رہی ،تو پھر ایسا شخص جماعت کے لئے بجائے فائدے کے نقصان کا موجب بن جاتا ہے۔‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۶ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍اگست۲۰۱۶ء) نیز فرمایا: ’’ایک وصف عہدیداران میں جو ہونا چاہیے وہ بشاشت ہے اور خوش اخلاقی سے پیش آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا(البقرۃ: ۸۴) یعنی اور لوگوں کے ساتھ نرمی سے بات کیا کرو۔ اور ان سے خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔ پس یہ بھی ایک بنیادی خُلق ہے جو عہدیداروں میں بہت زیادہ ہونا چاہئے۔ اپنے ماتحتوں سے، اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے بھی جب بات چیت کریں اور اسی طرح جب دوسرے لوگوں سے بھی بات کریں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہئے۔ بعض دفعہ انتظامی معاملات کی وجہ سے سختی سے بات کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے ،لیکن یہ ضرورت انتہائی قدم ہے اور اگر پیار سے کسی کو سمجھایا جائے اور عہدیدار لوگوں کو یہ احساس دلا دیں کہ ہم تمہارے ہمدرد ہیں تو ننانوے فیصد ایسے لوگ ہیں جو سمجھ جاتے ہیں‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۶ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍اگست۲۰۱۶ء) اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’مسکراتے ہوئے اور خوش دلی سے ملیں۔ جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص کا معیار بڑا اونچا ہے۔ ہر احمدی، اگر امیر مسکرا کر ملتا ہے تو اس کی مسکراہٹ پر ہی خوش ہو جاتا ہے، چاہے کام ہو یا نہ ہو۔اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا۔ معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو۔ اگرچہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنے کی نیکی ہو۔ (مسلم ،کتاب البر) تو مسکرا کر ملنا اور بھائی کے جذبات کا خیال رکھنا بھی نیکی ہے۔ تو نیکیوں کا پلڑا تو جتنا بھی بھاری کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ اس لئے عہدیداران کو، امراء کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍جنوری ۲۰۰۵ء) عہدیداران کو خود کو خادم تصور کرنا چاہیے فرمایا:’’کوئی عہدیدار افسر بننے کے تصور سے یا بنائے جانے کے تصور سے کسی خدمت پر مامور نہیں کیا جاتا۔ بلکہ اسلام میں تو عہدیدار کا تصور ہی بالکل مختلف ہے اور آنحضرتﷺ نے اس کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۔ (کنز العمال کتاب السفر، الفصل الثانی فی آداب السفر، جزء ۶ صفحہ ۳۰۲حدیث ۱۷۵۱۳ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت ۲۰۰۴ء)پس ایک عہدیدار کا لوگوں کے معاملے میں اپنی امانت کا حق ادا کرنا اس کا قوم کا خادم بن کر رہنا ہے۔ اور یہ حالت اس وقت پیدا ہو سکتی ہے، جب انسان میں قربانی کا مادہ ہو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۶ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍اگست۲۰۱۶ء) عہدیداران کو ماتحتوں سے حسن سلوک کرنے والا ہونا چاہیے فرمایا: ’’پھر ایک عہدیدار کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ اُس کا اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ حسنِ سلوک ہو۔ جماعت کے عہدے کوئی دنیاوی عہدے تو نہیں ہیں کہ افسران اور ماتحت کا سلوک ہو۔ ہر شخص جو جماعت کی خدمت کرتا ہے چاہے وہ ماتحت ہو، ایک جذبے کے تحت جماعت کے کام کرتا ہے۔ پس افسران کو اور عہدیداران کو اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کرنا چاہئے۔ اگر غلطی ہو تو پیار سے سمجھائیں، نہ کہ دنیاوی افسروں کی طرح سختی سے باز پرس ہو‘‘۔ ( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍مئی ۲۰۱۳ء) نیز فرمایا: ’’ایک خصوصیت عہدیداران کی یہ بھی ہونی چاہیے کہ وہ ماتحتوں سے حسن سلوک کریں۔ جماعت کے اکثر کام تو رضاکارانہ ہوتے ہیں۔ افراد جماعت جماعتی کام کے لئے وقت دیتے ہیں۔ اس لئے وقت دیتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔ اس لئے وقت دیتے ہیں کہ ان کو جماعت سے تعلق اور محبت ہے۔ پس عہدیداروں کو بھی اپنے کام کرنے والوں کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور ان سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے اور یہی اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۶ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍اگست۲۰۱۶ء) عہدیداران کو مرکز کی ہدایات پر عمل کرنے والا ہونا چاہیے فرمایا: ’’امراء اور صدران اور جماعتی سیکرٹریان کا یہ بھی بہت اہم کام ہے کہ مرکز سے جو ہدایات جاتی ہیں یا سرکلر جاتے ہیں ان پر فوری اور پوری توجہ سے عملدرآمد کریں اور اپنی جماعتوں کے ذریعہ بھی کروایا جائے۔ بعض جماعتوں کے بارے میں یہ شکایات ملتی ہیں کہ مرکزی ہدایات پر پوری طرح عمل نہیں کیا جاتا۔ اگر کسی ہدایت کے بارے میں کسی خاص ملک یا جماعت کو ملکی حالات کی وجہ سے کچھ تحفظات ہوں تو پھر بھی فوری طور پر مرکز سے رابطہ کر کے حالات کے مطابق اس میں تبدیلی کرنے کی درخواست کرنی چاہئے۔ اور یہ کام امیرجماعت اور صدر کا ہے۔ لیکن یہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں کہ اپنی عقل لڑاتے ہوئے اس ہدایت کو ایک طرف رکھ کر دبا دیا جائے۔ اور اس پر عمل نہ کروایا جائے اور نہ ہی مرکز کو اطلاع کی جائے۔ کسی بھی امیر یا صدر جماعت کی جو یہ حرکت ہے یہ مرکز گریز رویّہ سمجھی جائے گی اور اس بارہ میں پھر مرکز کارروائی بھی کر سکتا ہے‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۶ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍اگست۲۰۱۶ء) عہدیداران یہ سمجھیں کہ جماعت کا کام اللہ تعالیٰ چلا رہاہے فرمایا: ’’حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے وقت میں ایک عہدیدار کا خیال تھا کہ میری حکمت عملی اور میری محنت کی وجہ سے مالی نظام بہت عمدہ طور پر چل رہا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کو جب یہ پتا چلا تو آپ نے اس کو ہٹا کر ایک ایسےشخص کو اس کام پر مقرر کر دیا ،جس کو مال کی الف ب بھی نہیں پتا تھی۔ لیکن کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور خلیفہ وقت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو سلوک ہے اس وجہ سے نئے آنے والے افسر جس کو کچھ بھی نہیں پتا تھا ،اس کے کام میں اتنی برکت پڑی کہ اس سے پہلے کبھی تصور بھی نہیں تھا۔پس عہدیداروں کو تو اللہ تعالیٰ موقع دیتا ہے۔ جماعتی کارکنوں کو تو اللہ تعالیٰ موقع دیتا ہے۔ واقفین زندگی کو تو خدا تعالیٰ موقع دیتا ہے کہ وہ جماعت کی اور دین کی خدمت کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں ورنہ کام تو خود اللہ تعالیٰ کر رہا ہے اور یہ اس کا وعدہ ہے۔ اس لئے کسی کے دل میں یہ خیال نہیں ہونا چاہیے کہ میرا تجربہ اور میرا علم جماعت کے کاموں کو چلا رہا ہے۔ یامیرا تجربہ اور علم جماعت کے کاموں کو چلا سکتا ہے۔ جماعت کے کاموں کو خدا تعالیٰ کا فضل چلا رہا ہے۔ ہماری بہت ساری کمزوریاں، کمیاں ایسی ہیں کہ اگر دنیاوی کام ہو تو ان میں وہ برکت پڑ ہی نہیں سکتی۔ ان کے وہ اچھے نتیجے نکل ہی نہیں سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ پردہ پوشی فرماتا ہے اور خود فرشتوں کے ذریعہ سے مدد فرماتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۶ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍اگست۲۰۱۶ء) عہدہ ایک عہد اور فضل الٰہی ہے فرمایا: ’’ہمیشہ عہدیداران کو یہ بات سامنے رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومن کی نشانی ہی یہ بتائی ہے کہ وہ اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کا خیال رکھنے والے ہیں۔ ان کی نگرانی کرنے والے ہیں۔ یہ دیکھنے والے ہیں کہ کہیں ہمارے سپرد جو امانتیں کی گئی ہیں اور جو ہم نے خدمت کرنے کا عہد کیا ہے۔ اس میں ہماری طرف سے کوئی کمی اور کوتاہی تو نہیں ہو رہی؟ کیونکہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا۔ (بنی اسرائیل: ۳۵) کہ ہر عہد کے متعلق ایک نہ ایک دن جواب طلبی ہو گی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۶ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍اگست۲۰۱۶ء) نیز فرمایا:’’ہمیشہ یادرکھنا چاہیے عہدیداران کو، کارکنان کو کہ عہدہ بھی ایک عہد ہے، خدمت بھی ایک عہد ہے جو خدا اور ا س کے بندوں سے ایک کارکن، ایک عہدیدار، اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے کرتاہے۔ اگر ہر عہدیدار یہ سمجھنے لگ جائے کہ نہ صرف قول سے بلکہ دل کی گہرائیوں سے اس بات پر قائم ہو کہ خدمت دین ایک فضل الٰہی ہے۔ میری غلط سوچوں سے یہ فضل مجھ سے کہیں چھن نہ جائے تو ہماری ترقی کی رفتار اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ہم سب کے لئے لمحہ ٔفکریہ ہے، ایک سوچنے کا مقام ہے کہ امانت ایمان کا حصہ ہے، اگر امانت کی صحیح ادائیگی نہیں کر رہے،اگر اپنے عہد پر صحیح طرح کاربند نہیں ،جو حدود تمہارے لئے متعین کی گئی ہیں ان میں رہ کر خدمت انجام نہیں دے رہے تو اس حدیث کی رُو سے ایسے شخص میں دین ہی نہیں ۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ۸؍اگست۲۰۰۳ء، خطبات مسرورجلداول صفحہ۲۳۱) فرمایا: ’’یاد رکھیں جو عہد ہ بھی ملا ہے چاہے وہ جماعتی عہدہ ہو یا ذیلی تنظیموں کا عہدہ ہو۔ اس کو ایک فضل الٰہی سمجھیں۔ پہلے بھی بتا آیا ہوں اس کو اپنا حق نہ سمجھیں۔ یہ خدمت کا موقع ملا ہے، تو حکم یہی ہے کہ جو لیڈر بنایا گیا ہے وہ قوم کا خادم بن کر خدمت کرے۔ صرف منہ سے کہنے کی حد تک نہیں۔ چار آدمی کھڑے ہوں تو کہہ دیا جی میں تو خادم ہوں بلکہ عملاً ہربات سے ہر فعل سے یہ اظہار ہوتا ہو کہ یہ واقعی خدمت کرنے والے ہیں اور اگر اس نظریے سے بات نہیں کہہ رہے تو یقیناًپوچھے جائیں گے۔ جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس کو پوری طرح ادانہ کرنے کی وجہ سے یقیناً جواب طلبی ہوگی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍جنوری ۲۰۰۵ء) عہدیداران خلیفۂ وقت کے نمائندے ہیں فرمایا:’’یاد رکھیں امراء بھی، صدران بھی اور عہدیداران بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیدارا ن بھی کہ وہ خلیفۂ وقت کے مقرر کردہ انتظامی نظام کا ایک حصہ ہیں اور اس لحاظ سے خلیفۂ وقت کے نمائندے ہیں۔ اس لئے ان کی سوچ اپنے کاموں کو اپنے فرائض کو انجام دینے کے لئے اسی طرح چلنی چاہئے، جس طرح خلیفۂ وقت کی۔ اور انہیں ہدایات پر عمل ہونا چاہیے جو مرکزی طور پر دی جاتی ہیں۔ اگر اس طرح نہیں کرتے تو پھر اپنے عہدے کا حق ادانہیں کر رہے۔ جو اس کے انصاف کے تقاضے ہیں وہ پورے نہیں کر رہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍جنوری ۲۰۰۵ء) ایک جامع نصیحت فرمایا: ’’یاد رکھیں کہ امانت کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ اور جتنے زیادہ عہدیداران جماعت …امانت کے مطلب کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اتنے ہی زیادہ تقویٰ کے اعلیٰ معیارقائم ہوتے چلے جائیں گے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے اعلیٰ معیارقائم ہوں گے۔ نظام جماعت مضبوط ہوگا،نظام خلافت مضبوط ہوگا۔ آپ کی نظام سے وابستگی قائم رہے گی۔ خلافت کے نظام کو مضبوط کرنے کے لئے خلیفۂ وقت کی تو ہمیشہ یہی دعاہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے متقیوں کا امام بنائے۔ تو پھر ان دعاؤں کے مورد، ان کے حامل تو وہی لوگ ہوں گے جو اپنی امانتوں کا پاس کرنے والے،اپنے عہدوں کاپاس کرنے والے،اپنےخدا سے وفا کرنے والے ہوتے ہیں اور تقوی پر قائم رہنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کے ہرفرد کو یہ معیارقائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۸؍اگست۲۰۰۳ء مطبوعہ خطبات مسرورجلد اول صفحہ۲۳۶) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ووٹ اور عہدے کی قدر و منزلت اور عہدیداران کے فرائض(قسط اوّل)