https://youtu.be/q4lERBsSl4Q ہریک مدح و ثنا جو کسی مومن کے الہامات میں کی جائے وہ حقیقی طور پر آنحضرتؐ کی مدح ہوتی ہے اور وہ مومن بقدر اپنی متابعت کے اس مدح سے حصہ حاصل کرتا ہے۔ اور وہ بھی محض خدائے تعالیٰ کے لطف اور احسان سے نہ کسی اپنی لیاقت اور خوبی سے براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میںابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویومذہبی نکتہ چینی کی جواب کا بقیہ (جس میں فریق دوم یعنی لدھیانہ کے مکفرین کا جواب ہے) دوسرے یہ فائدہ کہ نئے مستفیض کی تعریف کرنے میں بہت سی اندرونی بدعات اور مفاسد کی اصلاح متصوّر ہے۔ کیونکہ جس حالت میں اکثر جاہلوں نے گذشتہ اولیاء اور صالحین پر صدہا اس قسم کی تہمتیں لگا رکھی ہیں کہ گویا انہوں نے آپ یہ فہمائش کی تھی کہ ہم کو خدا کا شریک ٹھہراؤ اور ہم سے مرادیں مانگو اور ہم کو خدا کی طرح قادر اور متصرف فی الکائنات سمجھو۔ تو اس صورت میں اگر کوئی نیا مصلح ایسی تعریفوں سے عزت یاب نہ ہو کہ جو تعریفیں ان کو اپنے پیروں کی نسبت ذہن نشین ہیں۔ تب تک وعظ اور پند اُس مصلح جدید کا بہت ہی کم مؤثر ہوگا۔ کیونکہ وہ لوگ ضرور دل میں کہیں گے کہ یہ حقیر آدمی ہمارے پیروں کی شان بزرگ کوکب پہنچ سکتا ہے۔ اور جب خود ہمارے بڑے پیروں نے مرادیں دینے کا وعدہ دے رکھا ہے تو یہ کون ہے اور اس کی کیا حیثیت اور کیا بضاعت اور کیا رتبت اور کیا منزلت۔ تا ان کو چھوڑ کر اس کی سنیں۔ سو یہ دو فائدے بزرگ ہیں جن کی وجہ سے اس مولیٰ کریم نے کہ جو سب عزتوں اور تعریفوں کا مالک ہے اپنے ایک عاجز بندے اور مشت خاک کی تعریفیں کیں۔ ورنہ درحقیقت ناچیز خاک کی کیا تعریف۔ سب تعریفیں اور تمام نیکیاں اسی ایک کی طرف راجع ہیں کہ جو رب العالمین اور حیّ القیوم ہے۔ اور جب خداوند تعالیٰ عزاسمہ مصلحت مذکورہ بالا کی غرض سے کسی بندے کی جس کے ہاتھ پر خلق اللہ کی اصلاح منظور ہے کچھ تعریف کرے تو اس بندے پر لازم ہے کہ اس تعریف کو خلق اللہ کی نفع رسانی کی نیت سے اچھی طرح مشتہر کرے (حاشیہ: اِس میں مخالفین کے اِس اعتراض کا کہ ’’مؤلف اپنے الہامات و کرامات ظاہر کیوں کرتا ہے‘‘جواب ہے۔ یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ بغرض صدق الہامات اِن الہامات کا اظہار ملہم پر بحکم فَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ واجب ہے۔ اگر یہ اظہار عیب ہوتا تو اُس عیب سے بچنے کے اوّل مستحق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے جنہوں نے اپنے فضائل صدہا خود بیان کئے ہیں۔ (ایڈیٹر) اور اس بات سے ہرگز نہ ڈرے کہ عوام الناس کیا کہیں گے۔ عوام الناس تو جیسا ان کا مادہ اور ان کی سمجھ ہے ضرور کچھ نہ کچھ بکواس کریں گے۔ کیونکہ بدظنی اور بداندیشی کرنا عوام الناس کی قدیم سے فطرت چلی آتی ہے۔ اب کسی زمانہ میں کب بدل سکتی ہے۔ مگر درحقیقت یہ تعریفیں عوام کے حق میں موجب بہبودی ہیں اور گو ابتداء میں عوام الناس کو وہ تعریفیں مکروہ اور کچھ افتراسے معلوم ہوں۔ لیکن انجام کار خدائے تعالیٰ ان پر حق الامر کھول دیتا ہے اور جب اس ضعیف بندے کا حق بجانب ہونا اور مؤید من اللہ ہونا عوام پر کھل جاتا ہےتو وہ تمام تعریفیں ایسے شخص کی کہ جو میدان جنگ میں کھڑا ہےایک فتح عظیم کا موجب ہوجاتی ہیں اور ایک عجیب اثر پیدا کرکے خدا کے گم گشتہ بندوں کو اس کی توحید اور تفرید کی طرف کھینچ لاتے ہیں۔ اور اگر تھوڑے دن بھی اور ملامت کا موجب ٹھہریں تو ان ٹھٹھوں اور ملامتوں کا برداشت کرنا خادم دین کے لئے عین سعادت اور فخر ہے۔ وَ الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسَالَاتِ رَبِّھِمْ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ۔اور آپ نے بصفحہ ۴۹۶ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ میں الہام یا اٰدم اسکن انت و زوجک الجنۃ۔ معہ دو فقرہ ہم معنی اس الہام کے جو بصفحہ ۲۶۰ منقول ہوئے نقل کر کے اس کے اخیر میں یہ فقرہ الہامی نقل کیا ہے۔ نفخت فیک من لدنی روح الصدق۔ پھر اِس کے ترجمہ کے بعد فرمایا ہے۔ اس آیت میں بھی روحانی آدم میں بلاتوسط اسباب ظاہریہ نفخ روح ہوتا ہے اور یہ نفخ روح حقیقی طور پر انبیاء علیھم السلام سے خاص ہے اور پھر بطورتبعیت اور وراثت کے بعض افرادِ خاصہ امت محمدیہ کو یہ نعمت عطا کی جاتی ہے۔ (یہ بھی لائق توجہ ناظرین ہے۔) اور آپ نے بصفحہ ۴۸۷ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ میں یہ الہام کہ میں تجھ سے راضی ہوں اور تجھے بلند کروں گا نقل کر کے فرمایا ہے اور ان کلمات کا حاصل مطلب تلطّفات اور برکاتِ الٰہیہ ہیں جو حضرت خیر الرسل کی متابعت کی برکت سے ہرایک کامل مومن کے شامل حال ہوجاتے ہیں اور حقیقی طور پر مصداق ان سب عنایات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دوسرے سب طفیلی ہیں۔ اور اس بات کو ہر جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہریک مدح و ثنا جو کسی مومن کے الہامات میں کی جائے وہ حقیقی طور پر آنحضرتؐ کی مدح ہوتی ہے اور وہ مومن بقدر اپنی متابعت کے اس مدح سے حصہ حاصل کرتا ہے۔ اور وہ بھی محض خدائے تعالیٰ کے لطف اور احسان سے نہ کسی اپنی لیاقت اور خوبی سے۔ اور بصفحہ ۵۲۱ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ میں یہ الہام کہ میں نے تجھ کو تیرے وقت کے تمام عالموں پر فضیلت دی ہے نقل کر کے فرمایا۔ اس جگہ جاننا چاہئے کہ یہ تفضیل طفیلی اور جزوی ہے یعنی جو شخص حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل طور پر متابعت کرتا ہے۔ اُس کا مرتبہ خدا کے نزدیک اسکے تمام تمام ہمعصروں سے برتر و اعلیٰ ہے۔ پس حقیقی اور کلی طور پر تمام فضیلتیں حضرت خاتم الانبیاء کو جنابِ احدیت کی طرف سے ثابت ہیں اور دوسرے تمام لوگ اُس کی متابعت اور اس کی محبت کی طفیل سےمتابعت ومحبت علیٰ قدر مراتب پاتے ہیں۔ فما اعظم شان کمالہ اللّٰھم صل علیہ وآلہ۔ اور بصفحہ ۵۵۸ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۴ اِس مضمون کے الہامات کہ تو خدا کا دوست ہے خلیل اللہ اسد اللہ ہے محمد پر درود بھیج وغیرہ وغیرہ نقل کرکے فرمایا ہے۔ یعنی یہ اِسی نبی کریم کی متابعت کا نتیجہ ہے۔ یہ حواشی کتاب میں آپ کا کلام ہے۔ اور متن کتاب میں آپ نے ایک خاص تمہید (ہشتم) میں ثابت کیا ہے کہ جو امر خارق عادت اولیاء اللہ سے (جن میں وہ اپنے آپ کو بھی داخل سمجھتے ہیں) صادر ہوتا ہے وہ اُسی نبی متبوع کا معجزہ ہوتا ہے جس کی وہ اُمّت ہیں۔ پھر اِس کو تفصیل و دلیل سے ثابت کیا ہے۔ اور اُس اشتہار میں جن کی آپ نے بیس ہزار کاپی چھپوا کر ہندوانگلنڈ میں شائع کرنی چاہی ہے آپ نے یہ فرمایا ہے اُس کتاب میں دین اسلام کی سچائی کو دو طرح پر ثابت کیا گیا ہے۔ اوّل تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان و شوکت و قدر و منزلت اِس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی مخالف اسلام اِن دلائل کو توڑ دے تو اس کو دس ہزار روپیہ دینے کا اشتہار ہوا ہے۔ اگر کوئی چاہے تو اپنی تسلی کے لئے عدالت میں رجسٹری بھی کرا لے۔ دوم اُن آسمانی نشانوں سے کہ جو سچے دین کی کامل و سچائی ثابت ہونے کے لئے ازبس ضروری ہیں۔ اِس امر دوم میں مؤلف نے اِس غرض سے کہ سچائی دین اسلام کی آفتاب کی طرح روشن ہو جائے تین قسم کے نشان ثابت کر کے دکھائے ہیں۔اوّل وہ نشان کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مخالفین نے خود حضرت ممدوح کے ہاتھ سے اور آنجناب کی دعا اور توجہ اور برکت سے ظاہر ہوتے دیکھے جن کو مؤلف یعنی خاکسار نے تاریخی طور پر ایک اعلیٰ درجہ کے ثبوت سے مخصوص و ممتاز کر کے درج کتاب کیا ہے۔ دوم وہ نشان کہ جو خود قرآن شریف کی ذات بابرکات میں دائمی اور ابدی اور بے مثل طور پر پائے جاتے ہیں۔ جن کو راقم نے بیان شافی اور کافی سے ہر ایک عام و خاص پر کھول دیا ہے اور کسی نوع کا عذر کسی کے لئے باقی نہیں رکھا۔ سوم وہ نشان کہ جوکتاب اللہ کی پیروی اور متابعت رسول برحق سے کسی شخص تابع کو بطور وراثت ملتی ہیں جن کے اثبات میں اِس بندہ درگاہ خدا نے بفضل خداوند حضرت قادر مطلق یہ بدیہی ثبوت دکھایا ہے کہ بہت سے سچے الہامات اور خوارق اور کرامات اور اخبار غیبیہ اور اسرار لدنیہ اور کشوف صادقہ اور دعائیں قبول شدہ کہ جو خود اِس خادم دین سے صادر ہوتی ہیں اور جن کی صداقت پر بہت سے مخالفین مذہب (آریہ وغیرہ) بشہادت رویت گواہ ہیں کتاب موصوف میں درج کئے ہیں اور مصنف کو اِس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشدّت مناسبت و مشابہت ہے اور اس کو خواص انبیاء و رسل کے نمونے پر محض بہ برکت متابعت حضرت خیر البشر و افضل الرسل صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ان بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو اِس سے پہلے گذر چکے ہیں اور اِس کے قدم پر چلنا (حاشیہ: اِس فقرہ کا مطلب نمبر ۷ کے صفحہ ۲۱۹ میں گزرا) موجب نجات و سعادت و برکت اور اِس کے برخلاف چلنا موجب بُعد و حرمان ہے۔ ’’یہ سب ثبوت کتاب براہین احمدیہ کے پڑھنے سے کہ منجملہ تین سو جزو کے قریب ۳۷ جزو کے چھپ چکی ہے۔ ظاہر ہوتے ہیں اور طالب حق کے لئے خود مصنف پوری پوری تسلی و تشفی کرنے کو ہر وقت مستعد اور حاضر ہے۔ و ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء و لا فخر و السلام علی من اتبع الھدی۔‘‘ ان تصریحات و عبارات کے علاوہ آپ کی کتاب کا کوئی ورق و صفحہ بلکہ سطر و لفظ ایسا نہیں ہے جس سے نبوّت محمدی اور حقانیت قرآن کا ثبوت مقصود نہ ہو۔ جن لوگوں نے کتاب نہیں دیکھی اور بن دیکھے آپ پر دعویٰ پیغمبری کا بہتان باندھا ہے وہ آپ کی کتاب کا پورا نام’’(البراھین الاحمدیہ علی حقیقۃ کتاب اللہ القران و النبوۃ المحمدیۃ) ‘‘ہی کسی سے سنیں تو ان کو اپنے گمان کا بہتان ہونا ثابت ہو جائے اور بخوبی معلوم ہو کہ اِس کتاب کی تصنیف سے مؤلف کا مقصود یہی ہے کہ قرآن خدا کا کلام برحق اور آنحضرت اُس کے رسولؐ ہیں جس کے ساتھ دعویٰ نبوّت کا امکان نہیں رہتا۔ اس کے سوا مؤلف کا شبانروزی عمل و قول دیکھنا چاہیے کہ وہ کلمہ کس نبی کا پڑھتے ہیں۔ لَا اِلٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کہتے ہیں یا لَا اِلٰہ الا اللّٰہ غلام احمد نبی اللّٰہ۔ نماز کس دین کے مطابق پڑھتے ہیں۔ منہ کس قبلے کی طرف کرتے ہیں۔ حلال حرام وغیرہ احکام میں کس کتاب کے پابند ہیں۔ اپنے الہامات و کرامات سے کیا نتیجہ نکالتے ہیں۔ اُن سے اپنی نبوت ثابت کرتے ہیں یا آنحضرت کی نبوّت عام لوگوں کو (جن میں بڑے بڑے پادری پنڈت برہمو آریہ راجگان و سردارانِ غیر مذہب داخل ہیں) جو بڑے مبارزانہ و بہادرانہ تحدی سے دعوت کرتے ہیں تو کس مذہب کی دعوت کرتے ہیں مذہب اسلام کی یا اپنے مذہب احمدی یا میرزائی کی۔ اِن تصریحات و دلائل سے کس و ناکس کو بشرطیکہ اس کا دل تعصب و نفسانیت سے سیاہ نہ ہو گیا ہو یقین ہو گا کہ ان کو اپنی نبوت کا ہر گز ہرگز دعویٰ نہیں ان کے ہر ایک دعویٰ و کارروائی کا اصل اصول اثبات نبوّت محمدیہؐ ہے وبس۔ اِس صریح منطوق کے مقابلے میں بعض الہامات و کلمات کے مفہوم کا (اگر وہ اِن کلمات کا مفہوم ہے اور اِس سے بزعم مخالف دعویٰ نبوت نکلتا ہے) کیا اعتبار ہے و بناء علیہ ایک مسلمان فخر اسلام کی تکفیر کیونکر جائز ہے۔ خصوصاً ایسی حالت میں کہ اِن الہامات و کلمات کے صحیح معنی بھی (جو جواب اوّل میں بہ تفصیل بیان ہو چکے ہیں اور اُن سے مؤلف کا دعویٰ نبوت مفہوم نہیں ہوتا و بناء علیہ اِس کا اسلام باقی رہتا ہے) ہوسکتے ہیں اور فقہاء متکلمین کتب فقہ و کلام میں صاف تصریح کر چکے ہیں کہ و نقل صاحب المضمرات عن الذخیرۃ ان فی المسئلۃ اذا کان وجوہ یوجب التکفیر و وجہ واحد یمنع التکفیر فعلی المفتی ان یمیل الی الذی یمنع التکفیر تحسینًا للظن بالمسلم (شرح فقہ اکبر ملا علی قاری حنفی) جب تک کسی کلام کے معنی موافق اسلام ہو سکیں اس کے قائل کی تکفیر بعض معانی کفریہ کی نظر سے جائز نہیں۔ حتیٰ کہ بعض کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر ایک کلام کے ننانوے وجوہ کفر ہوں اور ایک وجہ اسلام توبہ نظر اُس وجہ اسلام کے اس کے قائل کو مسلمان کہنا لازم ہے۔ بہ نظر ان وجوہ کفر کے کافر بنانا جائز نہیں۔ وجہ استدلال فریق دوم کاجواب دوم بھی تمام ہوا۔ اب دونوں فریق کے مشترک اعتراضات کا جواب دیا جاتا ہے۔ وباللّٰہ التوفیق۔(باقی آئندہ) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: سبط نبی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ