(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۲؍اگست ۲۰۰۳ء) نظام کی کامیابی کا اورترقی کاانحصار اس نظام سے منسلک لوگوں اور اس نظام کے قواعد و ضوابط کی مکمل پابندی کرنے پر ہوتاہے۔ چنانچہ دیکھ لیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی پابندی کی شرح تیسری دنیا یا ترقی پذیر ممالک سے بہت زیادہ ہے اوران ممالک کی ترقی کی ایک بہت بڑی وجہ یہی ہے کہ عموماً چاہے بڑا آدمی ہو یا ا فسر ہو اگر ایک دفعہ اس کی غلطی باہر نکل گئی تو پھر اتنا شور پڑتاہے کہ اس کو اس غلطی کے نتائج بہرحال بھگتنے پڑتے ہیں اور اپنی اس غلطی کی جو بھی سزا ہے اس کو برداشت کرنی پڑتی ہے۔ جبکہ غریب ممالک میں یا آ ج کل جو ٹرم (Term) ہے تیسری دنیا کے ممالک میں آپ دیکھیں گے کہ اگر کوئی غلط بات ہے تو اس پر اس حد تک پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ احساس ندامت اور شرمندگی بھی ختم ہو جاتاہے اور نتیجۃً ایسی باتیں ہی پھر ملکی ترقی میں روک بنتی ہیں ۔تو اگر دنیاوی نظام میں قانون کی پابندی کی اس حد تک، اس شدت سے ضرورت ہے تو روحانی نظام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترا ہوا نظام ہے اس میں کس حد تک اس پابندی کی ضرورت ہوگی اورکس حد تک اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہوگی۔یاد رکھیں کہ دینی اور روحانی نظام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں کے ذریعہ اس دنیا میں قائم ہوتے ہیں اس لئے بہر حال انہی اصولوں کے مطابق چلنا ہوگا جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں اور نبی کے ذریعہ، انبیاء کے ذریعہ پہنچے اور اسلام میں آنحضرتﷺ کے ذریعہ یہ نظام ہم تک پہنچا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے احمدیوں پر کہ نہ صرف ہادیٔ کاملﷺکی امت میں شامل ہونے کی توفیق ملی بلکہ اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی اس نے عطا فرمائی جس میں ایک نظام قائم ہے، ایک نظام خلافت قائم ہے، ایک مضبوط کڑا آپ کے ہاتھ میں ہے جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں ۔لیکن یاد رکھیں کہ یہ کڑا تو ٹوٹنے والا نہیں لیکن اگر آپ نے اپنے ہاتھ اگر ذرا ڈھیلے کئے تو آپ کے ٹوٹنے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے بچائے۔ اس لئے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور نظام جماعت سے ہمیشہ چمٹے رہو۔ کیونکہ اب اس کے بغیر آپ کی بقا نہیں ۔ یادرکھیں شیطان راستہ میں بیٹھا ہے۔ ہمیشہ آپ کو ورغلاتا رہے گا لیکن اس آیت کو ہمیشہ مدنظر رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ (البقرہ :۲۰۹) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!تم سب کے سب اطاعت (کے دائرہ) میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو۔ یقیناً وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓاس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’اے مومنو! تم سارے کے سارے پورے طور پر اسلام میں داخل ہوجاؤ اور اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر کامل طور پر رکھ لو۔ یا اے مسلمانو! تم اطاعت اور فرمانبرداری کی ساری راہیں اختیار کرو اور کوئی بھی حکم ترک نہ کرو۔ اس آیت میں کَآفَّۃً، اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کا بھی حال ہو سکتا ہے اور اَلسِّلْم کا بھی۔ پہلی صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم سب کے سب اسلام میں داخل ہو جاؤ۔ یعنی تمہارا کوئی فرد بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جو اطاعت اور فرمانبرداری کے مقام پر کھڑا نہ ہو۔ یا جس میں بغاوت اور نشوز کے آثار پائے جاتے ہوں ۔ دوسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم پورے کا پورا اسلام قبول کرو۔ یعنی اس کا کوئی حکم ایسا نہ ہو جس پر تمہارا عمل نہ ہو۔ یہ قربانی ہے جو اللہ تعالیٰ ہر مومن سے چاہتا ہے کہ انسان اپنی تمام آرزوؤں تمام خواہشوں اور تمام امنگوں کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر دے اور ایسا نہ کرے کہ جو اپنی مرضی ہو وہ تو کرے اور جو نہ ہو وہ نہ کرے۔ یعنی اگر شریعت اس کو حق دلاتی ہو تو کہے میں شریعت پر چلتا ہوں اور اسی کے ماتحت فیصلہ ہونا چاہئے۔ لیکن اگر شریعت اس سے کچھ دلوائے اور ملکی قانون نہ دلوائے تو کہے کہ ملکی قانون کی رو سے فیصلہ ہونا چاہئے۔ یہ طریق حقیقی ایمان کے بالکل منافی ہے۔ چونکہ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ مسلمانوں میں بعض ایسے کمزور لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو قومی ترقی اور رفاہیت کے دور میں فتنہ و فساد پر اتر آتے ہیں۔ اور وہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری پہلی حالت کیا تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں کیا کچھ عطا کر دیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت فرماتا ہے کہ بے شک تم مومن کہلاتے ہو مگر تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ صرف مونہہ سے اپنے آپ کو مومن کہنا تمہیں نجات کا مستحق نہیں بنا سکتا۔ تم اگر نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ اول ہر قسم کی منافقت اور بے ایمانی کو اپنے اندر سے دور کرنے کی کوشش کرو۔ اور قوم کے ہر فرد کو ایمان اور اطاعت کی مضبوط چٹان پر قائم کرو۔ دوم صرف چند احکام پر عمل کر کے خوش نہ ہو جاؤ۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل بجا لاؤ۔ اور صفات الٰہیہ کا کامل مظہر بننے کی کوشش کرو۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۲صفحہ ۴۵۶۔۴۵۷) یہاں ان ممالک میں جہاں اسلامی قوانین لاگو نہیں ، یہ بات دیکھنے میں آتی ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ یہ نہ ہو کہ تمہارے مدنظر صرف اور صرف اپنا ذاتی مفاد ہو۔ لڑائی جھگڑے کی صورت میں جہاں دیکھتے ہیں کہ شریعت بہتر حق دلا سکتی ہے تو فوراً جماعت میں درخواست دیتے ہیں کہ ہمارا فیصلہ جماعت کرے۔ اور جہاں ملکی قانون کے تحت فائدہ نظر آتا ہو تو بغیر جماعت سے پوچھے ملکی عدالتوں میں چلے جاتے ہیں اور جماعت کی بات کسی طرح ماننے پر راضی نہیں ہوتے کیونکہ اس وقت ان کے سر پر شیطان سوار ہوتاہے اور اگر ملکی قانون ان کے خلاف فیصلہ دے دے تو پھرواپس نظام جماعت کے پاس دوڑے آتے ہیں کہ ہم غلط فہمی کی وجہ سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کروانے کے لئے ملکی عدالت میں چلے گئے تھے، ہمیں معاف کر دیا جائے۔ اب جو نظام کہے گا ہمیں قابل قبول ہوگا۔تو یاد رکھیں اب واپس آنے کا مقصد نظام جماعت کی اطاعت اورمحبت نہیں ہے بلکہ یہ کوشش ہے کہ شاید ہمارا داؤ چل جائے اور صدر یاامیر یا قاضی کو کسی طرح ہم قائل کر لیں اور اپنے حق میں فیصلہ کروا لیں ۔ مزید پڑھیں: مہمان نوازی کا خلق