قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عملِ صالح بھی رکھا ہے عملِ صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرّہ بھر فساد نہ ہو۔یاد رکھو کہ انسان کے عمل پر ہمیشہ چور پڑا کرتے ہیں وہ کیا ہیں۔ریا کاری (کہ جب انسان دکھاوے کے لئے ایک عمل کرتا ہے) عُجب (کہ وہ عمل کرکے اپنے نفس میں خوش ہوتا ہے) اور قسم قسم کی بدکاریاں اور گناہ جو اس سے صادر ہوتے ہیں۔ان سے اعمال باطل ہو جاتے ہیں۔عملِ صالحہ وہ ہے جس میں ظلم، عُجب، ریا، تکبر اور حقوق انسانی کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو جیسے آخرت میں عملِ صالحہ سے بچتا ہے ویسے ہی دنیا میں بھی بچتا ہے اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عملِ صالحہ والا ہو تو سب گھر بچا رہتا ہے۔سمجھ لو کہ جب تک تم میں عملِ صالحہ نہ ہو صرف ماننا فائدہ نہیں کرتا۔ایک طبیب نسخہ لکھ کر دیتا ہے تو اس سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ لے کر پیوے اگر وہ ان دوائوں کو استعمال نہ کرے اور نسخہ لے کر رکھ چھوڑے تو اسے کیا فائدہ ہوگا۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۴۳۹ و ۴۴۰، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) قرآن شریف نے جہاں بہشت کا تذکرہ فرمایا ہے وہاں پہلے ایمان کا تذکرہ کیا ہے اور پھر اعمال صالحہ کا، اورایمان اور اعمال صالحہ کی جزا جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ( البقرۃ :۲۶) کہا ہے یعنی ایمان کی جزا جنّت اور اس جنّت کو ہمیشہ سر سبز رکھنے کے لئے چونکہ نہروں کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے وہ نہریں اعمال صالحہ کا نتیجہ ہیں اور اصل حقیقت یہی ہے کہ وہی اعمال صالحہ اس دوسرے جہان میں انہار جاریہ کے رنگ میں متمثل ہو جائیں گے۔ دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر انسان اعمال صالحہ میں ترقی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچتا اور سر کشی اور حدود اللہ سے اعتدا کرنے کو چھوڑتا ہے اسی قدر ایمان اس کا بڑھتا ہے اور ہر جدید عمل صالح پر اس کے ایمان میں ایک رسوخ اور دل میں ایک قوت آتی جاتی ہے۔خدا کی معرفت میں اسے ایک لذّت آنے لگتی ہے اور پھر یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ مومن کے دل میں ایک ایسی کیفیت محبت الٰہی اور عشق خدا وندی کی اللہ تعالیٰ ہی کی موہبت اور فیض سے پیدا ہو جاتی ہے کہ اس کا سارا وجود اس کی محبت اور سرور سے جو اس کا نتیجہ ہوتا ہے لبالب پیالہ کی طرح بھر جاتا ہے اور انوارِ الٰہی اس کے دل پر بکلّی احاطہ کر لیتے ہیں اور ہر قسم کی ظلمت اور تنگی اور قبض دور کر دیتے ہیں۔اس حالت میں تمام مصائب اور مشکلات بھی جو خدا تعالیٰ کی راہ میں ان کے لئے آتے ہیں وہ انہیں ایک لحظہ کے لئے پرا گندہ دل اور منقبض خاطر نہیں کر سکتے بلکہ وہ بجائے خود محسوس اللذّات ہوتے ہیں۔یہ ایما ن کا آخری درجہ ہوتا ہے۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۳۳۹،۳۳۸، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: مومن اپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت رکھتے ہیں