(نفیس احمد عتیق، مربی سلسلہ، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل،جرمنی) جمعہ پڑھانے کے لیے جاتے ہوئے آٹو بانA.3. (موٹروے) پر سسکاٹون،کینیڈا سے خاکسار کی سب سے بڑی ہمشیرہ اہلیہ شیخ لطیف محمود صاحب کی کال آئی۔ کینیڈا کے وقت کے حساب سے اس وقت کال کا آنا غیر معمولی تھا اور وہی ہوا جس کا دھڑکا کب سے لگا ہوا تھا۔ باجی بولیں۔نفیس۔محمود کی شہادت ہو گئی ہے!!! میں نے صرف اتنا ہی کہا۔ انا للہ و انا لیہ راجعون۔ پھر خاموشی اور خاموشی اور خاموشی۔ حضرت شہزادہ عبد الطیف صاحب شہیدؓ، صاحبزادہ مرزا غلام قادر شہید،۲۸؍ مئی لاہور کے شہداء، ماسٹر عبد القدوس شہید، سید طالع شہید۔ ایک ایک کر کے شہداء کے بابرکت چمکتے دمکتے چہرے آنکھوں کے سامنے آنے لگے۔ گاڑی چلتی رہی لیکن وقت جیسے رک سا گیا۔میں نے جذبات کو سنبھالا۔ ایسے محسوس ہوا کہ ڈاکٹر صاحب گاڑی کی ساتھ کی سیٹ پر آ بیٹھے ہوں اور کہتے ہوں کہ آپ کے ساتھ جتنا وقت گزرا۔اچھا گزرا۔ اب میں اپنے خالق حقیقی کی طرف جا رہا ہوں۔ کسی کی کیا مجال کہ رہ مولیٰ میں قربان ہو نے والے کو جانے سے روک سکے۔ اپنے دکھ پر بس حافظ کی اتنی بات یاد آئی۔ دلا بسوز کہ سوز تو کارہا بکند نیاز نیم شبی دفع صد بلا بکند خاکسار راقم الحروف کے حصہ یہ سعادت آئی کہ ڈاکٹر شیخ محمد محمود شہید خاکسار کے تایا جان شیخ مبشر احمد دہلوی صاحب کے بیٹے تھے۔ ہمارےتایا جان جن کی گاڑی میں حضرت المصلح الموعودؓ کی یہ نظم لگی ہوتی تھی۔ دشمن کو ظلم کی برچھی سے تم سینہ و دل بَر مانے دو یہ درد رہے گا بن کے دوا تم صبر کرو وقت آنے دو یہ عشق ووفا کے کھیت کبھی خوں سینچے بغیر نہ پنپیں گے اس راہ میں جان کی کیا پروا جاتی ہے اگر تو جانے دو (اخبار الفضل جلد ۲۳۔۱۴/جولائی ۱۹۳۵ء) حضرت نظام الدین اولیاء کی بستی۔دہلی۔ہمارے خاندان میں احمدیت ہمارے پڑدادا کے بھائی سید حکیم محمد حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آف بلب گڑھ، دہلی کے ذریعہ آئی۔ سید حکیم محمد حسین صاحبؓ کے بعد ان کے دونوں بھائی شیخ اعجاز حسین صاحب، اور شیخ الطاف حسین صاحب اور ان کے والد شیخ سرفراز حسین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بذریعہ خط بیعت ہوئے۔ پارٹیشن سے پہلے ڈاکٹر محمود صاحب کے پڑ دادا شیخ اعجاز حسین صاحب اور دادا بابو نذیر احمد صاحب کو یکے بعد دیگرے امیر جماعت دہلی ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔بابو نذیر احمد صاحب شہید کو بطور امیر جماعت دہلی جلسہ مصلح موعود دہلی کے انتظامات کی سعادت نصیب ہوئی۔ہمارے خاندان میں پہلی شہادت ہمارے دادا بابو نذیر احمد صاحب کی ۱۹۴۷ء میں امیر جماعت دہلی کے فرائض کی ادائیگی کے دوران ہوئی۔ جبکہ دوسری شہادت ہمارے چچا زاد بھائی جواد احمد قریشی، ٹاؤن شپ لاہور کی ہوئی۔ اس شہید کی والدہ خاکسار کی چچی سید حکیم محمد حسین صاحبؓ کی پوتی تھیں۔ دہلی میں بابو صاحب کی حویلی واقع بلی ماراں دہلی کو کئی مرتبہ حرم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام،حضرت اماں جان ؓ کی قدم بوسی کی عظیم سعادت نصیب ہوئی۔حضرت اماں جان ؓ نے ہماری دادی جان لیاقت زمانی صاحبہ کو شادی کے بعد پہلی مرتبہ دیکھنے پر ‘‘ست پوتی “ہونے کی دعا دی۔ اس مقبول دعا کی برکت سے ہماری دادی جان کو اللہ تعالیٰ نے 7 بیٹوں سے نوازا اور اس دعا کی برکت کے طفیل پارٹیشن کے انتہائی نا مساعد حالات میں ہجرت کے دوران بھی اللہ تعالیٰ نے ساتوں بیٹوں کی حفاظت فرمائی اور ہماری دادی جان تا حیات ‘‘ ست پوتی’’ ہی رہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے والد شیخ مبشر احمد دہلوی صاحب آف لاہور نے خاکسار سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت اماں جان ؓ دہلی میں ہمارے گھر رونق افروز تھیں اور دہلی کی روایت کے مطابق سلیم شاہی چپل بنانے والا گھر بلایا گیا تھا۔ پردہ کی رعایت کی وجہ سے ہم بچے حضرت اماں جانؓ کو دوسرے کمرہ سے سلیم شاہی چپلیں لا لا کر پسند کروا نے کی سعادت حاصل کر رہے تھےکہ اس آنے جانے میں مَیں چوکھٹ سے ٹھوکر لگ کر گر پڑا۔ حضرت اماں جان ؓ نے مجھے پیار سے اپنے ساتھ لگایا اور میرا ماتھا سہلایا۔ڈاکٹر صاحب کے والد شیخ مبشر صاحب اس بات کو بیان کرکے کہا کرتے تھے کہ آج میری زندگی میں جو بھی کامیابیاں ہیں وہ حضرت اماں جانؓ کے اس شفقت اور پیار سے مجھے چھونے کی برکت ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے والد کو عین جوانی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے علم انعامی لینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ کو لمبا عرصہ سیکرٹری تعلیم ضلع لاہور اور نگران دارالحمد کے فرائض ادا کرنے کی توفیق ملی۔ آپ کو انچارج ایم ٹی اے۔ لاہور۔ نائب امیر لاہور، لنگر خانہ روٹی پلانٹ میں خدمت کی توفیق کے علاوہ لوائے احمدیت کی حفاظت کے لیے بغیر کیمیکل کے ہاتھ سے کاغذ بنانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ڈاکٹر شیخ محمد محمود صاحب۱۵؍ جولائی۱۹۶۶ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی۔ ایف۔ ایس۔ سی۔ پری میڈیکل کے بعد آپ نے میڈیکل کی تعلیم ایم بی بی ایس۔ راولپنڈی میڈیکل کالج سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے انگلینڈ سے ایم آرسی پی کی اعلیٰ سند حاصل کی۔ آپ انتہائی ذہین اور حلیم طبع شخصیت کے مالک تھے۔ حب الوطنی کا جذبہ انتہا کا تھا یہی وجہ تھی کہ انگلینڈ سے طب میں اعلیٰ تعلیمی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹ کر آپ نے لاہور کی بجائے ہندو سادھو کے نام پر آباد شہر سرگودھا میں غریب انسانیت کی خدمت کی دھونی رما کر جوگ اور سنیاس کو ایک نئے رنگ سے نوازا۔ یاد رہےکہ سرگودھا شہر بر صغیر کی چار مشہور داستانوں میں سے سوہنی ماہیوال کے مزار کی وجہ سے اور شاہینوں کا شہر ہونے کے حوالہ سے بہادروں کا شہر مشہور ہے۔ اس شہر کو زیب نہ تھا کہ کوئی اس کی زمین پر کسی طبیبِ حاذق کی پیٹھ میں گولیاں مار تا۔ یقیناً ڈاکٹر صاحب کے لہو کی چھینٹے سادھو کے کنوے پر بنائی گئی گول مسجد المعروف سفید مسجد پر بھی پڑےہوں گے۔ دیدہ گر بینا بود ہر روز، روز محشر است۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کوئی معمولی زندگی نہ تھی۔ آپ اپنے مریضوں کے لیے ایک ڈاکٹر سے زیادہ ایک طبیبِ حاذق بلکہ ایک مسیحا کا رنگ اختیار کر چکے تھے جس کا ا ظہار آپ کی وفات پر اپنوں اور پرایوں سب نے کیا۔ ڈاکٹر نور الہدیٰ اسسٹنٹ کمشنر نے ڈاکٹر صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ڈاکٹر محمود سرگودھا اور اس کےگرد و نواح کے غریب لوگوں کے لیے ایک مسیحا سے کم نہ تھے۔ وہ غریب مریضوں کا علاج مفت کرتے تھے۔ ان کی معائنہ فیس صرف اور صرف۳۰۰؍ روپے ہوتی تھی۔ آپ نادار مریضوں کے بڑے مہنگے مہنگے معائنہ اور میڈیکل پروسیجرز مفت کر دیا کرتے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آپ اپنی آمد کا نصف غریبوں کو عطیہ کر دیتے تھے۔ آپ عرصہ 35 سال سے اتوار کو فری میڈیکل کیمپ لگایا کرتے تھے۔ ان لوگوں سے محبت کرتے تھے جن کے کپڑے گندے اور جن کے پاس سے پسینے کی بو آتی تھی۔ لندن چھوڑ کر ایسے لوگوں کی خدمت کرکے خوش تھے جو اپنے بول براز لیبارٹری میں جمع کروانے کی بجائے، شاپر میں ڈال کر ڈاکٹر کے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر نورالہدیٰ نے کہا کہ سرگودھااور اس سے ملحق گاؤں خاص کر سلانوالی،شاہ پور، کوٹ مومن، مڈھ رانجھا کا شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس کے کسی مکین کی جان ڈاکٹر صاحب نے نہ بچائی ہو۔ وہ کہتی ہیں خود میرے گھر کے کئی لوگوں کی شدید بیماری کے وقت ڈاکٹر محمود کام آئے۔ ڈاکٹر ہدیٰ نے کہا کہ میں آج پہلی دفعہ کسی ایسے انسان کے جانے پر آنسوؤں سے روئی ہوں جس کے ساتھ میرا کوئی ذاتی رشتہ نہ تھا۔ بہت احسان کیے ہیں اس شخص نے اللہ کے بندوں پر۔ اپنے وطن کے غریب لوگوں سے ڈاکٹر شیخ محمود کو کتنا پیار تھا اس کا اظہار ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے ایک محترم عزیز چودھری ناصر احمد صاحب آف کوٹ عبد الما لک کے اس سوال پر کہ آپ کو اگر دھمکیاں اور تھریٹس ہیں تو آپ سرگودھاچھوڑ کر ربوہ کیوں نہیں آ جاتے کے جواب میں کہا کہ میں سرگودھا میں ہوں تو سرگودھا کے غریب لوگوں کا علاج کر پاتا ہوں۔ ربوہ میں کئی علاج معالجہ کی سہولتیں ہیں اور اگر ان کو ضرورت ہو تو یہ سرگودھا بھی آ جاتے ہیں لیکن اگر میں ربوہ آ گیا تو شاید سرگودھا کے غریب باسی ربوہ نہ آ سکیں اور علاج سے محروم رہ جائیں۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا خلاصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ عظیم الشان شعر ہے ؛ مرا مقصود و مطلوب و تمنّا خدمت خلق است ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم آپ اپنی عام پرائیویٹ زندگی میں بھی انتہائی پاکیزہ اخلاق کے مالک تھے۔ آپ کبھی بھی اخلاق سے ہٹا ہوا مذاق نہ کرتے اور نہ ہی پسند کرتے تھے۔ کسی بھی مجلس میں آپ کے موجود ہونے کی وجہ سے شاملین کو اس بات کا بہت خیال رکھنا ہوتا تھا کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جو ڈاکٹر صاحب کی پاکیزہ طبیعت کے مناسب حال نہ ہو۔ یہ بات آپ کے اعلیٰ اخلاق کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ سلسلہ کی خدمت کا جذبہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے والد اور دادا سے ملا تھا اور آپ خود بھی اس کی اعلیٰ ترین مثال تھے۔ سلسلہ کی خدمت کے لیے آپ نہ دن دیکھتے تھے نہ رات۔ ہاؤس جاب کے دوران ایک مرتبہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی صحت کی خرابی کی وجہ سے آپ کو صاحبزادہ صاحب کے ساتھ لاہور سے ربوہ جانے کا حکم ہوا۔ ڈاکٹر صاحب رات کی ڈیوٹی کرنے کے باوجود بخوشی اس ڈیوٹی پر روانہ ہو گئے اور واپس آکر اپنی اگلی ڈیوٹی پر چلے گئےاور اس سعادت کو ہمیشہ بڑی خوشی کے ساتھ یاد کرتے تھے۔ اسی طرح بزرگان سلسلہ اور واقفین سلسلہ کی خدمت بہت خوشی سے کرتے تھےسرگودھا منتقل ہونے کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا عبد الحق صاحب کی خدمت اور چیک اپ کے لیے ان کے گھر جاتے اور اس پر بڑا فخر محسوس کرتے تھے۔ اسی طرح ربوہ میں بھی ہسپتال کی ڈیوٹی کے بعد چیک اپ کے لیے کئی مرتبہ بزرگان کے گھر بھی چلے جاتے تھے۔ خاکسار عمر میں ڈاکٹر صاحب سےتقریباً گیارہ سال چھوٹا ہے۔ زندگی وقف کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب خاکسار سے ایک خاص محبت کے تعلق کے ساتھ پیش آتے۔ خاکسار جب اس پر شرمسار ہوتا تو کہتے کہ ہمارے خاندان میں آپ پہلے مربی سلسلہ ہو۔خاکسار پر پریس مقدمات کے دوران ڈاکٹر صاحب کی یہ محبت پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی۔ یہ محض ان کی سلسلہ کے واقفین سے محبت تھی۔ورنہ من آنم کہ من دانم۔ جب سرگودھامیں ڈاکٹر صاحب کی مخالفت بہت بڑھ گئی تو عزیز رشتہ داروں نے ڈاکٹر صاحب کو ملک سے باہر آنے کا مشورہ دیا۔ خاکسار نے بھی ڈاکٹر صاحب کو یہی مشورہ دیا جس پر ڈاکٹر صاحب نے خاکسار سے ایک ہی بات کہی کہ یہاں رہ کر فضل عمر ہسپتال میں خدمت کا موقع مل رہا ہے باہر جا کر شاید جماعت کی خدمت کا یہ موقع اس طرح نہ مل سکے۔ اولاد کی تربیت اولاد کی تربیت کا بڑا اچھا انداز تھا۔ ایک مرتبہ شدید گرمیوں کے موسم میں ایک عزیز کے آرام کی خاطر، جنہیں ڈاکٹر صاحب ان کے آپریشن کے بعد خدمت کی خاطر اپنے گھر لے آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے بیٹے بصیر محمودکو کہا کہ آپ قربانی کرو اور ٹھنڈے کمرہ کی بجائے باہر سو جاؤ اور اگر گرمی لگے تو اسیرانِ راہ مولیٰ کو یاد کر لینا کہ وہ جماعت کی خاطر کتنی گرمی برداشت کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی والدہ ریحانہ مبشر صاحبہ نے اپنے بیٹے کو یاد کرتے ہوئے بتایا؛ میرا یہ بیٹا سب سے الگ تھا۔ ذہانت میں، متانت میں، حوصلہ میں، ادب میں اور رشتوں کو نبھانے میں۔ اس نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا نہ کبھی کسی کو تنگ کیا۔ یہ سب کا مان رکھنے والا بیٹا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کی قربانی کو قبول فرمائے اور اس کی بیوی اور بچوں کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔ ڈاکٹر صاحب کی بیٹی صائمہ صنوبر صاحبہ اہلیہ محمود الحسن خان نے اپنے والد کے لیے ان جذبات کا اظہار کیا؛ یادیں تو اتنی ہیں کہ بیان نہیں کر سکتی۔ بہت ہی شفیق باپ تھے، پیار کرنے والے، لاڈ کرنے والے، ایک دوست، ایک راہنما اور بہت با کمال انسان۔ ہم بہن بھائیوں کی بہت فکر کرتے تھے کہ دنیا کے ساتھ ساتھ دین سے بھی جُڑے رہیں۔ ہر وقت نماز، قرآن، خلیفہ وقت کے خطبات اور مطالعہ کتب کرنے پر زور دیتے تھے۔ سادہ زندگی گزارتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ ہم بھی سادہ زندگی گزاریں۔ ہم سب بہن بھائیوں کی شادیاں بھی انتہائی سادگی سے کیں تاکہ آنے والے بھی بہت متاثر ہوں کہ اسی طرح ہر شخص کو کرنا چاہیے۔ ضرورت مندوں کا خاص خیال کرتے چاہے وہ مریض ہوں یا گھر کا کوئی ملازم، ان کی ہر ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ہم مخالفت سے اکثر ڈرتے تھے لیکن وہ بہت نڈر، اللہ پر توکل کرنے والے شخص تھے جن کا مقصد صرف انسانیت کی خدمت کرنا تھا۔ رشتہ داروں سے بہت حسن سلوک کرتے تھے اور تعلق قائم کرتے تھے۔ ہر ملنے والے کو لگتا تھا گویا سب سےگہرا تعلق انہی کا ہے۔ بہت مالی قربانی بھی کیا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ ہم سب کو بھی تلقین کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے اکثر جماعت کی مختلف تنظیمات جیسے تحریکِ جدید، وقفِ جدید، بلال فنڈ وغیرہ کے بارے میں بتایا کرتے تھے کہ ان سب کا مقصد اور اہمیت کیا ہے۔ دوسروں کی تکلیف میں خود پریشان ہوتے تھے چاہے وہ اپنے ہوں یا غیر۔ اپنے مریضوں کے لیے دیر رات اٹھ کر جاتے تھے۔ میرے والد ایک ایسی ہستی تھے جن کے جانے سے ایک خلا سا رہ گیا ہے لیکن وہ اللہ کی نظر میں سرخرو ہو گئے ہیں۔ اللہ نے انہیں شہادت جیسے بلند مرتبے سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ بہت محبت کا سلوک کرے، ہمیں ان جیسا بنائے اور ہم سب پر ہمیشہ فضل فرمائے۔ آمین۔ ڈاکٹر صاحب کے بیٹے ڈاکٹر بصیر محمود نے اپنے والد کے لیے ان جذبات کا اظہار کیا؛ میرے والد ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ پیسے کے پیچھے نہ جانا بس انسانیت کی خدمت کو مقدم رکھنا۔ ڈاکٹر صاحب کی چھوٹی بیٹی نائمہ نز ہت کہتی ہیں؛ میرے والد صاحب کی دینی اور مالی قربانیاں بہت ہیں اور لوگ اس بات کی تعریفیں بھی کرتے ہیں لیکن بابا نے یہ سب کبھی بھی دکھاوے کے لیے نہیں کیا۔ بابا یہ سب اس لیے کرتے تھے کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور خلافت کی اطاعت کی وجہ سے۔ یہ قربانیاں بابا کی فطرت ثانیہ بن چکی تھیں۔ اس کے لیے انکو الگ سے کوشش نہیں کرنی پڑتی تھی۔ بابا کام پیسہ کمانے کے لیے نہیں کرتے تھے بلکہ ان کو مریضوں کی خدمت میں مزا آتا تھا۔ ا ن کو مریضوں سے ایک لگاؤ تھا۔ جب کوئی ان کو بلاتا تھا تو وہ کہتے تھے اگر میں نہیں جاؤں گا تو کون جائے گا۔ بابا گھر میں دین کی اہمیت پر بہت زور دیتے تھے۔ ہر رمضان میں ایک سورت کا درس تفسیر کبیر سے کرواتے تھے اور ہم بچوں سے پڑھواتے تھے تاکہ ہمیں اس کا شوق ہو۔ ہمیشہ محنت کرنے کی تلقین کرتے اور بڑوں کی انتہائی عزت کرتے تھے۔ والدین کی ہر بات آنکھیں بند کرکے مان جاتے تھے۔ بیٹیوں کے بہت لاڈ اٹھاتے تھے۔ کبھی بھی سخت لہجے میں نہیں ڈانٹا۔ ہمیشہ پیار سے سمجھایا اور ہماری بات اور رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ شیخ لطیف محمود صاحب سسکاٹون، کینیڈا نے اپنے بھائی کی اعلیٰ طبیعت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ابی کی وفات کے بعد جو ذمہ داریاں مجھے اٹھانی چاہیے تھیں وہ بھی محمود نے ہی اٹھا لیں اور کمال حق ادا کیا۔ چھوٹے ہوتے ہوئے بڑے بھائی کا کردار ادا کر گیا۔ سب خاندان کو جوڑ کر رکھا اور ہر ایک کی مدد کی۔ ہر ایک سے پیار کیا اور ہر ایک کو اپنا بنا کر رکھا۔ ڈاکٹر صاحب کی ہمشیرہ امۃ العلیم صاحبہ نے اپنے بھائی کی محبتوں کا تذکرہ یوں کیا؛ میں اور بھائی جان اوپر تلے کے بہن بھائی تھے اس لیے ہماراتعلق بھی ایسا ہی مضبوط تھا۔ بچپن میں کھیلتے ہوئے ایک بار بھائی جان نے مجھے تنگ کیا تو میں نے والد صاحب کو شکایت لگا دی جس پر والد صاحب نے بھائی میاں کو ڈانٹا۔ اس کے بعد سے آج تک بھائی میاں نے کبھی مجھے تنگ نہ کیا۔ مَیں لاہور میں الگ گھر میں رہتی تھی دوسری دونوں بہنوں کے گھر آتے اور مجھے کہتے کہ تم بھی وہیں آ جاؤ۔ مَیں انہیں کہتی کہ نہیں مجھے میرا بھائی میرے گھر میں چاہیے ہے تو وہ کتنے بھی مصروف ہوں میرے گھر آ جاتے اور کبھی بھی اس بات کا برا نہ مناتے۔ بہت زیادہ خیال رکھنے والے تھے۔ امی ابو پھوپھی جان جو ہمیشہ ان کے گھر میں رہیں اور باقی سب خاندان کو بہت ساتھ لےکر چلے۔ ہر ایک کا بہت خیال رکھا۔ ہر ذمہ داری کو احسن طریق سے اور بھرپور طور پر پورا کیا۔ اس میں ہماری بھابھی جان کا بہت بڑا کردار ہے انہوں نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا۔ ہمارے آنے جانے پر ہمیشہ بہت پیار سے ویلکم کیا۔ کبھی بھی یہ احساس نہ ہونے دیا کہ آئے دن کوئی نہ کوئی ان کے گھر آ جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ہمشیرہ امۃ الشکو ر صاحبہ نے اپنے بھائی کی محبتوں کا تذکرہ یوں کیا؛ ہم بہن بھائی بچپن میں ایک دوسرے کو ناموں سے پکارتے تھے۔ ہمارے ابا نے اس سے منع کیا چنانچہ بڑے بھائی کو ہم نے بھائی جان اور ڈاکٹر صاحب کو بھائی میاں کہنا شروع کیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ادب سے پکارنے کی وجہ سے اندر بھی ادب کے جذبات بڑھتے گئے جو ڈاکٹر صاحب کی شہادت پر اب انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بچپن سے شدید ذہین اور مطالعہ کے شوقین تھے اور تعلیم اور علم کو انجوائے کرتے تھے۔ کبھی کوئی ریسرچ کبھی کوئی ریسرچ پڑھتے رہتے یا پھر جماعتی کتب کا مطالعہ کرتے۔ حتیٰ کہ اب کی مصروف زندگی میں بھی کچھ نہ کچھ مطالعہ جاری رہتا تھا۔ میرے گھر کبھی خالی ہاتھ نہ آتے تھے۔ میری بیٹی صالحہ جو ان کی بہو ہے اس نے بتایا کہ ماموں گھر میں بھی انتہائی نفیس شخص ہیں۔سب کی چھوٹی چھوٹی بات کا خیال رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی چھوٹی ہمشیرہ امۃ القدوس صاحبہ نے ڈاکٹر صاحب کے خصائل حمیدہ سے متعلق بتایا؛ بھائی میاں، سادہ ترین انسان تھے۔ میری ہر پریشانی میں ساتھ کھڑے ہوئے۔ ہم ان کے گھر ایسے جاتے تھے۔ جیسے اپنے ابی کے گھر جاتے تھے۔ ہر پریشانی ہر دکھ سکھ میں ساتھ کھڑے رہے۔ میری بیٹی کو اپنی بہوبنایا لیکن کبھی سسرالی رشتہ محسوس نہیں کروایا۔ ہمیں بھی بیٹی دیتے کبھی بھی فکر نہیں ہوئی۔ کبھی خالی ہاتھ نہیں آتے تھے۔ بہنوں کی خبر گیری کرتے تھے اور کرتے چلے جاتے تھے۔ نہ رکنے والی محبت تھی۔ نہ رکنے والا پیار تھا۔ ڈاکٹر عمران احمد خان صاحب ابن مسعود احمد دہلوی صاحب جو رشتہ میں ڈاکٹر صاحب کے ہم زلف بھی ہیں نے ڈاکٹر صاحب کے اخلاق اور سیرت سے متعلق ہمیں Ottawa, Canada سے لکھا ؛ ہمدرد اور نیک فطرت ڈاکٹر شیخ محمد محمود احمد کی جدائی پر دل بہت رنجیدہ ہے۔ایسی با مقصد زندگی پائی جس کا ہر لمحہ خدا کی رضا اور خدمت خلق کےلیے وقف تھا۔ان کے والد شیخ مبشر احمد دہلوی لاہور سے ربوہ شفٹ ہوئے اور لنگر خانے کی روٹی پلانٹ کی مشینوں کی تنصیب پر مامور ہوئے۔ہر ہفتہ ڈاکٹر صاحب سرگودھا سے ان سے ملنے آتے۔ان دنوں سڑک زیر تعمیر تھی اور مختلف چکوک سے ہوکر سرگودھا جانا پڑتا اور بہت زیادہ وقت صرف ہوتا۔بچے پیر کی صبح یونیفارم میں، بیگ سمیت اپنے سکولوں کو پہنچتے لیکن انہوں نے اس روٹین میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔اپنے والد کے کسی مشورے اور نصیحت سے روگردانی نہیں کی۔ہر رشتے کو نبھایا اور اپنوں اور غیروں کے حقوق ادا کرنے کی ممکنہ انسانی حد تک کوشش کی۔میرے والد مسعود احمد دہلوی جب تک حیات تھے،گھر آنے پر ڈاکٹر صاحب سیدھے ان کے کمرے میں جاتے اور زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزارنے کی کوشش کرتے۔بزرگوں کے ایمان افروز واقعات ان سے سنتے۔میری والدہ ایک بار بیمار ہوئیں،ان کےلیےآکسیجن سلنڈر اپنی گاڑی میں رکھ کر سرگودھا سے لائے۔اگر کسی عزیز رشتہ دار کے پاس سواری کا انتظام نہ ہوتا تو اپنی گاڑی ڈرائیور سمیت انہیں سرگودھا لانے لےجانے کےلیے بھیجتے۔16/ مئی۲۰۲۵ء کوخدا کا یہ عبد، نفس مطمئنہ لیےاس کی رضا کی جنتوں میں لوٹ گیا جس کے ہم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بہنوئی نے کہا کہ یہ صرف ہمارا نقصان نہیں ہوا یہ ملک کا نقصان ہوا ہے۔ معاشرے اور سوسائٹی کا نقصان ہوا ہے۔ محمود صرف ہمارا نہیں تھا وہ تو ایک قومی سرمایہ تھا۔ یہ ایک قومی سانحہ ہے جس کا جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اخلاق اور سیرت سے متعلق عرفان احمد خان صاحب ابن مسعود احمد دہلوی صاحب جرمنی نے ہمیں بتایا ؛ ۱۶؍ مئی کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے ابھی گھر سے روانہ نہ ہوا تھا کہ موبائل فون کی گھنٹی بجی - فون سنا اور سکتہ میں آگیا۔ ڈاکٹر محمد محمود جس کو سارا خاندان منو کے نام سے پکارتا تھا مجھ سے پندرہ سال چھوٹا تھا۔ جب چچا جان مبشر ۴۹؍ ایف ماڈ ل ٹاؤن لاہور میں رہائش پذیر تھے میں کئی بار بچوں کو کنڈر گارٹن چھوڑنے گیا جن میں منو بھی شامل ہوتا تھا۔ گویا لڑکپن سے لے کر سینئر سیٹیزن کے ماحول میں داخل ہونے کا ساتھ ایک بے رحم اور سنگلاخ انسان کے ہاتھوں سے چلنے والی گولی نے ختم کر کے رکھ دیا۔ اس عرصہ میں لاتعداد لوگ ایسے ملے جو ڈاکٹر محمود کے اعلیٰ اخلاق،شرف انسانیت اور اس کی عاجزی کے قصے بیان کرتے۔ مجھے جب بھی اس کے کلینک میں جانے کا موقع ملا مریضوں کو جھولی پھیلا کر دعائیں دیتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تشخیص کا خاص ملکہ عطا کیا تھا۔ شفایاب ہونے والے ڈاکٹر محمود کا گھر تحفوں سے بھر دیتے جو ملنے والوں میں تقسیم ہو جاتے۔ ڈاکٹر محمود ایسی منفرد اور نایاب شخصیت تھے جو دشمن کے دل میں گھر بنانا جانتے تھے۔ آپ کی عادت تھی کہ جب بھی کوئی غریب مریض کسی فلاحی ادارہ کا تعارفی خط لے کر آتا اس کے علاج پر خصوصی توجہ دیتے اور اس ادارہ کو مریض کی صورت حال سے آگاہ کرتے۔ مجھے خود انہوں نے بتایا کہ جماعت اسلامی کی فلاحی تنظیم الخدمت سرگودھا کی سالانہ تقریب میں نہ صرف ان کو مدعو کیا گیا بلکہ سٹیج پر بٹھایا گیا۔ جب بعض افراد کی طرف سے سوال اٹھایا گیا تو الخدمت کے چیئرمین نے سٹیج سے وضاحت دی کہ سرگودھا ڈاکٹروں کا شہر ہے۔ ارد گرد کے دیہات سے غریب غرباء ہمارے پاس علاج کے لیے مدد کے طالب رہتے ہیں۔ ڈاکٹر محمود واحد ڈاکٹر ہیں جو ہماری تعارفی سلپ والے کا مفت علاج کرتے ہیں اور ہمیں مریض کی صورت حال سے آگاہ بھی کرتے ہیں۔ اس مسیحا کا حق ہے کہ اس کو سٹیج پر بٹھایا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی ایسی ہی مثالوں سے عبارت تھی۔ وہ کسی کانفرنس میں ہالینڈ تشریف لائے ہوئےتھے۔ حضور انور ان دنوں فرینکفرٹ میں تھے۔ آپ کے دل میں حضور سے ملنے کی شدید خواہش تھی۔ آپ بذریعہ ٹرین فرینکفرٹ پہنچے اور ملاقات سے فیضیاب ہونے کےبعد فوری واپس بذریعہ ٹرین کانفرنس میں ہالینڈ تشریف لے گئے۔ جلسہ سالانہ کی مصروفیات کے باوجود حضور نے ڈاکٹر صاحب کو معمول سے زیادہ وقت دیا۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ اس نافع الناس وجود کی نیکیوں کو قبول فرمائے۔ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کے صاحبزادے ڈاکٹر بصیر محمود کو والد کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ جماعت کو بیٹے کی صورت میں نعم البدل عطا ہو۔ خاکسار کی والدہ محترمہ سلیمہ رفیق صاحبہ اہلیہ رفیق احمد دہلوی صاحب مرحوم کینیڈا جو ڈاکٹر صاحب کی چچی ہیں انہوں نے بتایا کہ جب ہمارے والد یعنی ڈاکٹر صاحب کے چچا بیمار ہوئے اور ایک سرجری کے بعد شوگر کی وجہ سے زخم خراب ہو نے لگا تو محمود نے اپنے چچا کو لاہور لانے کو کہا اور لاہور میں خود رفیق صاحب کی دیکھ بھال کرتااور پٹی بدلتا رہا اور تب تک ہمیں راولپنڈی واپس نہ جانے دیا جب تک تمہارے ابو بالکل تند رست نہ ہو گئے۔ خاکسار کی چھوٹی ہمشیرہ نے ایم اے سائیکالوجی لاہور سے کیا۔ اس دوران وہ ہمارے تایا کے گھر رہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ محمود بھائی پڑھائی یا جاب سے رات کو دیر سے آتے تو مَیں پڑھ رہی ہوتی تھی۔ میرے کئی مرتبہ اصرار کے باوجود بھی کھانا گرم نہ کرنے دیتے اور نہ ہی نوشی باجی( اہلیہ ڈاکٹر صاحب ) کو اٹھاتے۔ کہتے وہ سارا دن گھر کے کاموں اور بچوں کی تھکی سوئی ہے۔ کھانا ایسے بھی بہت مزیدار ہے۔ خاکسار کی اہلیہ سیمی نسرین چغتائی صاحبہ کو 12 سال ربوہ رہنے کی توفیق ملی۔ وہ لکھتی ہیں کہ سرگودھا شہر ربوہ سے قریب ہونے کی وجہ سے اور ڈاکٹر صاحب کے ہر پندرہ دن بعد ربوہ آنے کی وجہ سے ہمارا ڈاکٹر صاحب سے رابطہ بہت زیادہ رہا اور اس کی ایک بنیادی وجہ ان کی محبت کرنے والی بے لوث شخصیت تھی۔ آپ محبت کا مینار تھے۔ آپ نے عمر کے انتہائی فرق کے باوجود مجھے ہمیشہ عزت اور پیار سے بلایا۔ وہ واقفین کی بہت زیادہ عزت کرتے تھے۔ ہر عید پر ہم ان کے گھر عید کرتے تھے۔ وہ اپنی سگی بہنوں سے بھی پہلے مجھے عیدی دیتے تھے۔ یہ احساس اس قدر حوصلہ افزاتھا کہ میں کبھی اس کو بھلا نہیں سکتی۔ میری جرمن زبان کی ایک غیر از جماعت اسٹوڈنٹ جو سرگودھا میں ڈاکٹر صاحب کی پڑوسن بھی ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے والد کی بیماری میں ڈاکٹر صاحب کو اگر رات 3 بجے بھی ہم نے فون کیا تو ڈاکٹر صاحب آ جاتے تھے۔ اور ماتھے پر ذرا شکن نہیں ہوتی تھی۔ جب اس کو جرمنی میں ڈاکٹر صاحب کی شہادت کی اطلاع ملی تو اس نے کہا۔ ڈاکٹر صاحب کو مارنے والا انسان نہیں کوئی درندہ ہی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے چچا کے بیٹے یاسر صاحب آف اسلام آباد نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب انتہائی مصروف ہونے کے باوجود ہمیشہ میسج کا جواب بھی کال سے دیتے تھے۔کبھی نہیں ہوا کہ کسی کام سے میسج کیا ہو اور اگر اس وقت نہیں تو بعد میں ڈاکٹر صاحب کی کال نہ آ ئی ہو اور کبھی اس بات کا برا نہیں مناتے تھے۔ یاسر صاحب نے بتایا کہ شہادت سے ایک گھنٹہ پہلے بھی میں نے ان سے کسی کے لیے دوائی کا پوچھا۔ جبکہ جمعہ کا وقت قریب تھا پھر بھی ڈاکٹر صاحب نے فوری تشخیص کی اور وقت دیا۔ ایمی صاحبہ اہلیہ سعید سعود صاحب نےلاس اینجلس، امریکہ سے لکھا کہ میرے لیے یہ دل ہلا دینے والی خبر ہے۔ یہ ایسا سانحہ ہے کہ میرے پاس افسوس کے لیے الفاظ ہی نہیں ہیں۔ایسے پیار کرنے والے اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے والے مسیحا کو قتل کر دینا کہاں کی انسانیت ہے! ایک اور عزیز وحید الدین صاحب کوئٹہ نے بتایا۔ میں ہمیشہ ہر کسی کی بیماری کے لیے ڈاکٹر شیخ محمود کو ہی کال کرتا تھا اور ڈاکٹر صاحب پورے اطمینان سے بات سنتے اور دوا تجویز کرتے یا معائنہ کا وقت دیتے تھے یہ ایک یا دو دفعہ کی بات نہیں ہے یہ بیسیوں مرتبہ کی بات ہے اور ڈاکٹر صاحب کبھی اس سے تنگ نہ ہوتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے ایک دیرینہ دوست ڈاکٹر سرفراز آف امریکہ نے ڈاکٹر صاحب کی اوائل جوانی کی یادیں اور آپ کے اعلیٰ اخلاق کے بارہ میں لکھا ؛ محمود اور میں 1985ء میں پہلی بار ملے تھے۔ راولپنڈی میڈیکل کالج کے فرسٹ ایئر میں اکٹھے داخل ہوئے۔ ہم دونوں ریل کار سے لاہور سے راولپنڈی آتے جاتے تھے۔ اتنا فرق تھا کہ محمود ہمیشہ سیٹ پر بیٹھتا تھا کیونکہ وہ راولپنڈی پر اُتر کر پہلے سیٹ بُک کرواتا تھا اور ہم آخر میں ٹکٹ خریدتے تھے اس لیے عموماًکھڑے ہو کر جاتے۔ پانچ سال ساتھ رہے۔ زندگی کے پہلے اور اہم ترین اسباق میں سے ایک محمود سے ہی سیکھا۔ وہ کرکٹ میں ہمارا کیپٹن ہوتا تھا اور ایسا کیپٹن جس کو ہم سب پسند کرتے تھے۔ خوشگوار، نرم مزاج اور نستعلیق مذاق کرنے والا۔ ہم پیتھالوجی کے پریکٹیکل کے دن کرکٹ کھیلتے تھے۔ ایک دن کرکٹ کھیلتے ہوئے انتہائی دیسی طریقے سے ٹیم کے ساتھی بانٹ رہے تھے اور کہیں غلطی سے سارے پھسڈی کھلاڑی ایک ٹیم میں اکٹھے ہو گئے۔ میں بوکھلایا ہوا کیپٹن صاحب کے پاس پہنچا۔ محمود نے اپنے مخصوص انداز میں تسلی دی اور کہا کہ کوئی بات نہیں۔ آؤ کھیلیں۔بمعنی آؤ اپنی جان لڑائیں۔ میچ ہم جیت گئے اور زندگی کا ایک بڑا سبق سیکھ لیا کہ میچ ٹیم ورک سے جیتا جاتا ہے۔ ٹیم ورک ہی جیت کی کنجی ہے۔ اس کے بعد ساری عمر ٹیم ورک پر توجہ دی۔ ہم سب نے میڈیکل کالج ختم کیا اور اپنی زندگی کی راہ پرچل دئیے۔ میں اور محمود دونوں لاہور آ گئے۔ میں نے پوزیشن لی لیکن والدین کی خواہش کے مطابق راولپنڈی چھوڑ کر لاہور جنرل ہسپتال میں ہاؤس جاب شروع کی۔ ایک دن محمود سے ملاقات ہوئی اور وہ کچھ آزردہ لگا۔ پوچھنے پر کہنے لگا کہ سروسز ہسپتال میں ہاؤس جاب تو مل گئی ہے لیکن بغیر تنخواہ کے ہے اور سیکھنے کو بہت کچھ نہیں ہے۔ میڈیکل یونٹ ون کے پروفیسر بلال اصغر مجھے بہت پسند کرتے تھے۔ میں اُن کے پاس جا پہنچا اور پوچھا کہ کیا وہ ایک ہاؤس آفیسر لے سکتے ہیں۔ بلال صاحب بہت نرم دل استاد تھے۔ خفیف سی مسکراہٹ سے کہنے لگے کہ اگر آپ جیسا ہے تو لے آئیے۔ وہ دن گیا اورآج کادن ہم دونوں کا دن رات کا ہی ساتھ رہا۔ آتے جاتے ہوئے، مریض دیکھتے ہوئے، کھانا اکٹھے کھاتے ہوئے، بیٹھ کر گپ شپ لگاتے ہوئے اور ہاں پیسے ادھار لیتے ہوئے، گزرتے دن ایک ایسے رشتے کی بنیاد رکھتے گئے جسے آج کسی ناآشنا شخص کے پستول کی چند سفاک گولیاں توڑ گئیں۔ میری ہاؤس جاب پہلے ختم ہوئی اور میں سرجیکل یونٹ ون میں چلا گیا۔ محمود کی میڈیسن کی ہاؤس جاب میرے بعد ختم ہوئی اور اس نے بھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ہم دونوں دوبارہ اکٹھے کام کرنے لگے۔ ہم دونوں کو ایک ہی دن ایک needle stick ایشوہوئی اور دونوں ہی مریض کا ہیپاٹائیٹس بی کا ٹیسٹ کروانے جا پہنچے جو نیگیٹیو نکلا۔ چند دنوں بعد ہم دونوں نے اکٹھے پڑھائی کی ٹھانی اور اکٹھے تیاری شروع کی اور اگلے دو سال کم و بیش ہر روز ہم صبح ساڑھے نو سے رات آٹھ بجے تک میرے گھر پڑھائی کرتےاس کے سارے امتحان اور میرے سارے امتحان بس انہی دنوں کی یادگار ہیں۔ اس کی شادی ہوئی اور سوائے دو یا تین دن کے اس نے چھٹی کرنی مناسب نہیں سمجھی۔ اس کی شادی پر حلوہ میری ہی خواہش پر بنا تھا۔ میں اور پاپا شادی پر آئے لیکن اماں مرحومہ کی طبیعت ناساز تھی اور ہمیں جلد ہی واپس جانا تھا۔ انکل ہماری بے چینی بھانپ گئے اور شادی کا کھانا اندازے سے ذرا پہلے ہی شروع ہوا۔ چند ہفتوں بعد میری شادی تھی اور بالکل ایک بھائی کی طرح اس نے خیال کیا بلکہ شادی کی فوٹو گرافی محمود کے بھائی جان نے کی۔ تایا جان کی بیماری کی خبر آئی اور پاپا بیمار تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ میں تایا جان کو دیکھنے جاؤں لیکن یہ وہی دن تھے جب پاپا کی اینجیوگرام کی تاریخ تھی۔ مجھے کراچی بھیج کر پاپا کو میو ہسپتال لے کر گیا اور میری واپسی پر پاپا مرحوم کہنے لگے کہ مجھے بالکل نہیں پتاچلا کہ سرفراز میرے ساتھ نہیں ہے۔ ذہین اتنا کہ ایم آر سی پی کر لیا۔ پاکستان میں رہنا چاہتا تھا اور ملک کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ اس مرتبہ ایک آرام دہ ہوٹل کی لابی میں بیٹھے ہوئے آخری پھلوں کا رس جو ہم نے پیا وہ سُرخ تازہ اناروں کا تھا۔ ویسا ہی تازہ اور سُرخ جیسے آج اُس کے جسم سے سُرخا سُرخ لہو بہتا دیکھا۔ اس کے جسم سے بہتے خون کی رفتار اور زندگی کے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے امریکہ میں میرے آنسوؤں کی رفتار بھی شاید کچھ ایک سی ہی ہو۔ بہتے ہوئے انسانی خون کی حد جو ایک زندگی ختم ہونے کا نوحہ لکھ رہی ہے۔ وہ شناسائی جو چالیس سال پہلے شروع ہوئی، بہت سی اونچ نیچ پر پوری اُتری، کھرے کھوٹے کی کسوٹی پر کامیاب رہی بس چند گولیوں کی مار ہی نہ سہ پائی۔ سُرخ لہو کے چند قطرے ایک ایسے رشتے کو بہا کر اپنے ساتھ لے گئے جسے ہزاروں میل کی دوری بھی نہ توڑ سکی تھی۔ ایک اور رشتہ اختتام پذیر ہوا اور مٹی کی نذر ہو گیا۔ وہی مٹی جو ہمارا آغاز اور اختتام ہے۔ تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیئے اے ارض وطن جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کریں کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گل زار کریں صفدرعلی وڑائچ سابق قائد ضلع سرگودھا نیویارک امریکہ سے لکھتے ہیں؛ آج مکرم ومحترم ڈاکٹر محمد محمود شیخ صاحب آف سرگودھا کی شہادت کی اطلاع ملی تو برستی آنکھوں کے ساتھ چند یادیں قلم بند کرنے کی کوشش کررہاہوں شیخ صاحب جب سرگودھا پریکٹس کے لیے آئے تو کچھ عرصہ بعد ان کے والد مکرم مبشر احمد دہلوی صاحب مرحوم سرگودھا آئے تودوران ملاقات مجھے فرمایا کہ آپ قائد خدام الاحمدیہ ہیں میرے بیٹے سے خدمت خلق کے کام لیا کریں شیخ صاحب کی خدام الاحمدیہ کے دور میں ہی داڑھی سفید تھی میں نے کہا آپ تو انصاراللہ میں ہوں گے توکہنےلگے کہ ابھی تو میں انصار سے پانچ سال چھوٹا ہوں چنانچہ یہ ان سےپہلی ملاقات تھی۔ نہایت مخلص شیدائی احمدی۔خلافت احمدیہ کے باوفا ساتھی۔ نہایت خاموش طبع،خادم دین،اخلاص واخلاق ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا پایا۔خدمت انسانیت کو اپنی زندگی کاشیوا بنا رکھا تھاجب بھی میں فری میڈیکل کیمپ لگانےکی درخواست کرتاخدام / انصاراللہ کے دور میں تو کبھی بھی معذرت نہیں کرتے تھے۔ شیخ صاحب کو اس وقت بھی تھریٹ مل رہےہوتے تھے۔ بہت کم ہی وہ اس بارے میں کسی کوبتاتے تھے بڑے دلیراور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے والے انسان تھے۔ حضرت مرزا عبدالحق صاحب کےمعالج تھےان کی ۲۶؍اگست۲۰۰۶ء کو وفات ہوئی تو مجھے فون کیا کہ آجائیں امیر صاحب کی وفات ہوگئی ہےمیں فورا پہنچا تو میرے پوچھنے پر کہنے لگے کہ بیماری تو کوئی نہیں صرف بڑھاپالے گیا ہے۔ سرگودھا کےہر احمدی کے معالج تھے ہر کوئی یہی سمجھتا تھاکہ شیخ صاحب میرے ہی ہیں اس طرح کے ان کے تعلقات غیر احمدی دوستوں سے بھی تھے۔ میرے غیر احمدی دوست مجھے بتایا کرتےتھے جواکثر مجھ سے ہی سفارش کروا کر نمبر حاصل کرتے تھے۔بڑے بڑے آفیسر بھی میرے ذریعے جایا کرتےتو ان سب کا دل جیت لیا کرتے ایک دفعہ میں ان کےپاس بیٹھا ہوا تھاکہ ایک ہچکی کا مریض اپنے لواحقین کے ساتھ آگیا تو میں نےشیخ صاحب کو بتایا کہ جب میں زخمی ہوا تھا مجھے آپریشن کے بعد ہچکی لگ گئی تھی جو کئی دنوں سے جاری تھی تو مجھے غنودگی کے دوران تین دفعہ آواز آئی کہ مٹھے کاجوس پیئو تو شیخ صاحب کہنے لگے وہ نسخہ تو اللہ نے آپ کے لیے بھجوا یا تھا تاہم 2 ہفتہ بعد مجھے فون کیا کہ ڈرائیور بھجوارہا ہوں اس کےساتھ میرے پاس آ جائیں کیونکہ آپ کے مہمان میرے پاس بیٹھےہوئے ہیں چنانچہ میں آگیا تو وہاں وہی مریض مع لواحقین آیا ہواتھا کیونکہ ڈاکٹر صاحب نےاپنے نسخہ کے نیچے 3 دفعہ لکھا ہوا تھا کہ مٹھے کا جوس پیئو۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے انداز میں انہیں بتایاکہ یہ نسخہ انہیں اس طرح ملا تھا وہ مریض ساری دوائیں شیخ صاحب کو دے کر کہنے لگا یہ کسی اور مریض کومیری طرف سے دیےدیں۔ ڈاکٹر صاحب نےسٹور والوں سے اس کی رقم۱۵۰۰؍روپے واپس کروا دی تو ڈاکٹر صاحب مزاحیہ انداز میں مجھے کہنے لگے کہ اب آپ کےگھر کی سڑک پر سائن بورڈ لگواتے ہیں کہ ہچکی کے مریضوں کا علاج یہاں ہوتا ہے۔ جب میں پاکستان چھوڑ کر آ رہاتھا تو بڑے اداس تھے میں اپنی ساس صاحبہ کوچیک کروانے کےلیے ان کو اپنے ساتھ لے کر گیا تو ان کی وفات تک ہمارے بعد بھی اپنی ماں کی طرح دیکھ بھال کرتےرہے۔ کہتے تھے یہ میری بھی ماں ہیں۔ فضل عمر/ طاہر ہارٹ میں خود نگرانی کرکے ہمیں روزانہ رپورٹ دیتےتھےمیرے دفتر کےبڑے بڑے آفیسرز اور عام اہل کار ڈاکٹر صاحب سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ حتی کہ کئی MNA اور MPA بھی اس میں شامل تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے وسیم محمود صاحب نے لکھا ؛ ڈاکٹر محمود ایک فرشتہ صفت انسان تھے میرا نہیں خیال انہوں نے کبھی کسی سے سخت لہجے میں بات کی ہو۔ چہرے پر ہروقت مسکراہٹ رہتی تھی میرا ان سے تعارف بطور ڈاکٹر دودہائیوں پہلے ہوا جب میری ساس صاحبہ کو معدے اور دل کا مسئلہ تھا ان کا کلینک گلبرگ میں تھا انہوں نے اتنی اچھی طرح معائنہ کیا کہ وہ بہت خوش ہوئیں کہ اتنی توجہ سے دیکھا ہے پھر دل کے معائنہ کے لیے انہوں نے اپنے دوست کے پاس بھیجا اور انہیں فون کر کے بتایا کہ یہ میری قریبی عزیز ہیں ان کو دیکھ لیں حالانکہ اس وقت میرا ان کے ساتھ اتنی جان پہچان نہ تھی ان کے بھائی لطیف محمود نے جو میرے ساتھ شیزان فیکٹری میں کام کرتے تھے مجھے ان کے پاس بھیجا تھا پھر علاج کے لیے ان سے رابطہ رہا اور یہ تعلق دوستی میں بدل گیا۔میرے پاکستان سے باہر آنے سے پہلے تک ان سے ملاقات رہتی تھی اور اکثر وہ direct threats اور indirect threats جو ان کے ہسپتال کے مالکان کے ذریعہ ملتے تھے۔ تبادلہ خیال کرتے تھے۔ شاید اللہ تعالیٰ نے اس جہان اور اگلے جہان دونوں میں ان کا بلند مقام لکھا تھا جو ایسی شہادت نصیب ہوئی۔ ان کی شہادت کے بعد احمدی تو چھوڑیں غیر احمدیوں نے بھی جتنے دکھ اور تکلیف کا اظہار کیا اس سے لگتا ہے کہ وہ واقعی فرشتہ صفت تھے- جنازہ میں شاملین کی ویڈیو دیکھ کر لگتا تھا کہ کتنے لوگوں کے دلوں میں بستے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اہل خانہ کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے گا۔ ڈاکٹر صاحب کے لیے جتنا لکھا جائے اتنا کم ہے کیونکہ وہ اعلیٰ اوصاف کے حامل انسان تھے۔ بلکہ انسان سے زیادہ ایک ہمدرد مسیحا تھے۔ خاکسار بس اس دعا کیساتھ ختم کرتا ہے۔ ''اے خدا، بَر تُربَتِ اُو ابرِ رحمت ہا ببار'' آنکہ بود از جان و دل قربان رُوئے دِلبرے جَنّتُ الفِردوس میں اعلیٰ مدارج ہوں نصیب حق تعالیٰ اُن سے خوش ہو، مَغفِرت اُن کی کرے ٭…٭…٭