خدائےرحمان ومنان نےبنی نوع انسان کی اصلاح اور راہنمائی کاسلسلہ قدیم سےشروع کررکھاہے۔انبیاء ومرسلین اوران پرنازل ہونےوالی تعلیمات اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید، فرقان حمیدجیسی شریعت کاملہ کو رسول اللہ ﷺپرنازل کرکےاتمام دین کردیا۔ یہ آسمانی صحیفہ خدائے بزرگ وبرترکامخلوق خدا پرایک خاص انعام واکرام ہے۔اس نعمت ربانی کااحاطہ کرنا ہرفردِبشرکےبس کاروگ نہیں تاہم اس جواہرات کی تھیلی سےعاشقِ قرآن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تفسیراورآپؑ کی کتب جوعین قرآن عظیم کی تفسیرہیں،کےمطالعہ سےاپنےسینۂ ودل کو منورکیاجاسکتاہے۔اس کتابِ ہدایت کےاحکامات خداتعالیٰ تک رسائی کاذریعہ اورہدایت وبرکات کاسرچشمہ ہیں۔یہی وہ آبِ حیات ہےجس میں روحانی مریضوں کاعلاج،بےچین روحوں کی دوااور سینوں میں چھپی بیماریوں کی شفاہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ فرما تاہے:یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَہُدًی وَّرَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ (یونس:۵۸)اے انسانو! یقیناً تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت کی بات آچکی ہے اِسی طرح جو (بیماری) سینوں میں ہے اس کی شفا بھی۔ اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت بھی۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتےہیں:” یاد رکھو، قرآن شریف حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے۔ یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن شریف پر عمل نہیں کرتے۔ عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خداتعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے یہ لوگ توبہت دور پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے۔ ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں۔ پس ایسے آدمی جو خداتعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لاپروا ہیں، ان کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفّٰی اور شیریں اور خنک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفا ہے، یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے۔“ (ملفوظات جلد۴،صفحہ۱۴۰،جدید ایڈیشن ۱۹۸۸ء)ہمیں اپنی صبحوں کاآغازقرآن کریم کی تلاوت سےکرناچاہیے،اس کےالفاظ پرغوروتدبرکرناچاہیےتاکہ جہاں اس کلام اللہ سے ہماراسینہ ودل منورہووہاں ہمارےگھرکےدرودیواربھی اس سےمعطرہوں۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتےہیں :”اللہ تعالیٰ کی قسم وہ ایک لاثانی موتی ہے۔ اس کا ظاہر بھی نور ہے اور اس کا باطن بھی نور ہے۔ اس کے اوپر بھی نور ہے اور اس کے نیچے بھی نور ہے اور اس کے ہرہر لفظ میں نور ہے۔ وہ ایک روحانی باغ ہے جس کے خوشے نہایت قریب ہیں جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ ہر ثمر سعادت اس میں پایا جاتا ہے…اللہ کی قسم اگر قرآن نہ ہوتا تو میری زندگی بےلطف ہوتی۔ میں تو اس کے حُسن کو ہزاروں یوسفوں کے حُسن سے بڑھ کر دیکھتا ہوں۔ پس میں شدید طور پر اس کی طرف مائل ہوگیا ہوں۔ اور اس کی محبت میرے دل میں انتہائی طور پر بھر گئی ہے۔“ (ترجمہ ازعربی عبارت۔آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد۵،صفحہ۵۴۵)قرآن شریف کو کس طرح پڑھنا چاہیے؟حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓاس طرف ہماری راہنمائی کرتےہوئےفرماتےہیں:’’یاد رکھو کہ قرآن شریف پڑھو اِس لیے کہ اس پر عمل ہو۔ ایسی صورت میں اگر تم قرآن شریف کھول کر اس کا عام ترجمہ پڑھتے جاؤ اور شروع سے اخیر تک دیکھتے جاؤ کہ تم کس گروہ میں ہو کیا منعَم علیہم ہو یا مغضوب ہو یا ضالین ہو اور کیا بننا چاہیے۔ منعَم علیہم بننے کے لیے سچی خواہش اپنے اندر پیدا کرو پھر اس کے لیے دعائیں کرو۔ جو طریق اللہ تعالیٰ نے انعامِ الٰہی کے حصول کے رکھے ہیں ان پر چلو اور محض خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے واسطے چلو۔ اس طریق پر اگر صرف سُورۃ فاتحہ ہی کو پڑھ لو تو میں یقیناً کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے نزول کی حقیقت کو تم نے سمجھ لیا اور پھر قرآن شریف کے مطالب و معانی پر تمہیں اطلاع دینا اور اس کے حقائق ومعارف سےبہرہ ور کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور یہ ایک صورت ہے مجاہدہ صحیحہ کی۔‘‘ (حقائق الفرقان،جلد اوّل،صفحہ۴)حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اورآپؑ کے خلفائےکرام نےاحباب جماعت میں قرآن کریم کی محبت جاگزیں کرنےکی نہ صرف کوشش کی بلکہ حضرت محمد مصطفٰے احمد مجتبیٰ ﷺ کےاس مبارک فرمان کی روشنی میں کہخَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُراٰنَ وَ عَلَّمَہٗ تم میں سےبہترین انسان وہ ہے جوخود قرآن سیکھتااوردوسروں کوسکھاتاہے (صحیح البخاری، کتاب فَضَائِلِ الْقُرآن بَاب خَیْرکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہُ حدیث:۵۰۲۷) افراد جماعت کوبارہااس طرف توجہ دلائی کہ وہ وقفِ عارضی کرکےبڑوں،بچوں،بوڑھوں اورعورتوں کوقرآن کریم پڑھائیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نےتمام ذیلی تنظیموں کویہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ اس بات کی نگرانی کریں کہ جماعت کےتمام افرادناظرہ قرآن کریم جانتےہوں۔اس سلسلہ میں آپ رحمہ اللہ فرماتےہیں:لجنہ اماءاللہ کا فرض ’’ لجنہ اماءاللہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کرے کہ ہر جگہ لجنہ اماءاللہ کی ممبرات اور ناصرات الاحمدیہ ان لوگوں کی نگرانی میں جن کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے قرآن کریم پڑھ رہی ہیں یا نہیں۔ میں لجنہ اماءاللہ پر یہ ذمہ داری عائد نہیں کررہا کہ وہ سب کو قرآن کریم پڑھائیں کیونکہ اس سے تو باہم تصادم ہوجائے گا کیونکہ مَیں نے کہا ہے کہ ہر ایک موصی دو اور افراد کو قرآن کریم پڑھائے۔اگر مثلاً اس کی بیوی قرآن کریم پڑھنا نہیں جانتی تو وہ پہلے اپنی بیوی کو ہی پڑھائے گا یا مَیں نے یہ ہدایت دی ہے کہ ہر رکن انصاراللہ اس ماحول میں جس ماحول کا وہ راعی ہے قرآن کریم کی تعلیم کو جاری کرے۔ لیکن مَیں یہ کہتا ہوں کہ آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ جن پر قرآن کریم پڑھانے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے (جہاں تک مستورات اور ناصرات کا تعلق ہے) وہ اپنی ذمہ داری کو نباہ رہے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری کو نباہ نہیں رہے تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اس ذمہ داری کو نبھائیں اور مستورات اور ناصرات کو پڑھانا شروع کردیں اور اس کی اطلاع مرکز میں ہونی چاہیےکیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ہم پوری طاقت کے ساتھ، پوری ہمت کے ساتھ اور انتہائی کوشش کے ساتھ تعلیم القرآن کے اس دوسرے دَور میں داخل ہوں اور خدا کرے کہ کامیابی کے ساتھ (جہاں تک موجودہ احمدیوں کا تعلق ہے) اس سے باہر نکلیں۔ ویسے یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ نئے بچے، نئے افراد، نئی جماعتیں اور نئی قومیں اسلام میں داخل ہوں گی اور اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا تو ساری دنیا کا معلم بننے کی تربیت آپ ہی کو حاصل کرنی چاہیے۔ خدا جانے کہ آپ میں سے کس کو یہ توفیق ملے کہ وہ ساری دنیا میں تعلیم القرآن کی کلاسیں کھولنے کاکام کرےلیکن اگر ہم آج تیاری نہ کریں تو اس وقت اس ذمہ داری کو جو اس وقت کی ذمہ داری ہوگی ہم نباہ نہیں سکیں گے۔ غرض موصیوں کی تنظیم بھی اور انصاراللہ کی تنظیم بھی اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم بھی اور لجنہ اماءاللہ اورناصرات الاحمدیہ کی تنظیم بھی اس طرف پورے اخلاص اور جوش اور ہمت کے ساتھ متوجہ ہوجائیں اور کوشش کریں کہ جلدسےجلد ہم اپنے ابتدائی کام کو پورا کرلیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے تفسیرالقرآن تو نہ ختم ہونے والا کام ہے وہ تو جاری رہے گا۔ اس سلسلہ میں مَیں سمجھتا ہوں کہ جن دوستوں کے پاس تفسیر صغیر نہیں ہے انہیں تفسیرصغیر خرید لینی چاہیے کیونکہ وہ ترجمہ بھی ہے اور مختصر تفسیری نوٹ بھی اس میں ہیں۔ عام سمجھ کا آدمی بھی بہت سی جگہوں میں صحیح حل تلاش کرلیتا ہے جو اس کے بغیر اس کے لیے مبہم رہیں۔ جماعتی تنظیم کا یہ کام ہے کہ وہ تعلیم القرآن کے کام کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے نیز وہ یہ دیکھے کہ انصاراللہ، موصیان، خدام، لجنہ اور ناصرات کے سپرد جو کام کیا گیا ہے وہ ادا کررہے ہیں یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۴؍اپریل ۱۹۶۹ء،خطبات ِ ناصر،جلد دوم صفحہ ۵۶۵-۵۶۶ایڈیشن۲۰۰۶ء)’’جماعت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ احمدیت کی ترقی اور اسلام کاغلبہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم خود کو بھی اور اپنے ماحول کو بھی قرآن کریم کے انوار سے منور کریں اور منوررکھیں۔“(خطبہ جمعہ ۳۰/جون ۱۹۶۷ء،خطباتِ ناصرجلداوّل صفحہ ۷۶۶،ایڈیشن ۲۰۰۵ء)حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزوالدین کوقرآن کریم پڑھنےاوراپنےبچوں کوسکھانےکی اہمیت کی طرف توجہ دلاتےہوئےفرماتےہیں:’’اس زمانے میں جب مختلف قسم کی دلچسپیوں کے سامان ہیں،مختلف قسم کی دلچسپی کی کتابیں موجود ہیں،مختلف قسم کے علوم ظاہر ہو رہے ہیں،اس دَور میں قرآن ِکریم پڑھنےکی اہمیت اور زیادہ ہوجاتی ہےاورہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔پس اس کو پڑھنے کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔بچوں میں قرآن کریم کی محبت اُس وقت پیدا ہو گی جب والدین قرآن کریم کی تلاوت اور اُس پر غور اور تدبر کی عادت بھی ڈالنے والے ہوں گے۔اُ س کے پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ دیں گے…تو وہ گھر قرآن کریم کی وجہ سے برکتوں سے بھر جائے گااوربچوں کو بھی اس طرف توجہ رہے گی۔بچے بھی اُن نیکیوں پر چلنے والے ہوں گےجو ایک مومن میں ہونی چاہئیں۔اور جوں جوں بڑے ہوتے جائیں گے قرآن کریم کی عظمت اور محبت بھی دلوں میں بڑھتی جائے گی۔اور پھر ہم میں سے ہر ایک مشاہدہ کرے گاکہ اگر ہم غور کر تے ہوئے باقاعدہ قرآن کریم پڑھ رہے ہوں گے تو جہاں گھروں میں میاں بیوی میں خداتعالیٰ کی خاطر محبت اور پیار کے نظارے نظر آرہے ہوں گے،وہاں بچے بھی جماعت کا ایک مفید وجود بن رہے ہوں گے۔اُن کی تربیت بھی اعلیٰ رنگ میں ہو رہی ہوگی۔ اور یہی چیزہے جو ایک احمدی کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کےلیے پوری توجہ اور کوشش سےکرنی چاہیے۔“ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍دسمبر۲۰۱۱ء،الفضل انٹرنیشنل ۰۶؍جنوری۲۰۱۲ء،صفحہ۵)ہم میں سے جن جن بہنوں کوقرآن کریم صحت اورترجمہ کےساتھ پڑھناآتاہےاُن سب کافرض ہےکہ وہ ہفتہ دو ہفتہ کی وقفِ عارضی کرتےہوئے اُن بہنوں اوربچوں کوپڑھائیں جواس پاک کلام کوپڑھنااوراس کاترجمہ سیکھناچاہتے ہیں۔اللہ کرےکہ ہم قرآن کےحسن وجمال سےاپنی آنکھوں کونُوراوردلوں کوسرور دینےوالےہوں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کوساری زندگی یہ زندہ اورزندگی بخش کلام سمجھ کرپڑھنےاوراس پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین۔ حضرت ابوسعیدؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالیٰ فرما تا ہے کہ جس شخص کو قرآن مجید (پڑھنے) پڑھانے اور اس میں غور و تدبر کرنے کی مصروفیت کی وجہ سے میرا ذکر کرنے اور مجھ سے دعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی مَیں اس کو سب دعائیں مانگنے والوں سے زیادہ عطا کرتا ہوں اور اللہ کے کلام کو دوسرے سب کلاموں پر ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسی کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی تمام مخلوق پر فضیلت حاصل ہے۔(جَامِع ترمذی اَبْوَابُ فَضَائِلِ الْقُراٰنِ بَابُ مَاجَاءَ کَیْفَ کَانَتْ قِرَاءَۃُ النَّبِیِّ ﷺ)حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نےکیاہی برحق فرمایاہے۔؎ قرآں خدانماہے خداکاکلام ہےبےاس کےمعرفت کاچمن ناتمام ہے مزید پڑھیں:جماعت احمدیہ کی خدمت و اشاعتِ قرآن میں غیر معمولی برکت