(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۱۴؍ستمبر۱۹۳۴ء بمقام قادیان) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۱۹۳۴ء میں یہ معرکہ آرا خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپؓ نے لوگوں میں کام کرنے کی عادت ڈالنے نیز کسی کام کو عار نہ سمجھنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) مانگنا ایک لعنت ہے جس سے بچنا چاہیے۔ جس قوم میں سوال کی عادت آجائےوہ کبھی ترقی نہیں کرسکتی پھر وہ سوال ہی کرتی رہتی ہے، حکومت نہیں کر سکتی تشهد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: خطبہ شروع کرنے سے پہلے میں اختصار کے ساتھ مساجد کے ذمہ دار لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اخلاقی ترقی اور ہمت و استقلال کی بلندی کے لیے آواز کی بلندی بھی ضروری چیز ہوتی ہے۔ اونچی آواز کے ساتھ انسان کا حوصلہ بھی بڑھتا ہے اور ارادہ بھی ترقی کرتا ہے اسی لئے متواتر آٹھ دس سال سے جب بھی مدارس میں کوئی دعوت کی تقریب ہوتی ہے میں مدرّسین اور ہیڈ ماسٹروں کو توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ طلباء کی آواز بلند کرنے کی کوشش کیا کریں لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس نہایت اہم معاملہ کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی۔ اس کے دو ہی سبب ہوسکتے ہیں یا تو یہ کہ آواز کی بلندی کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا جاتا اور یا یہ کہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جس کی آواز پست ہو وہ بلند نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے کہ آواز کی بلندی کا انسان کی ترقی اور اس کے ارادوں کی بلندی میں کوئی دخل نہیں تو وہ غلطی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب بھی کوئی نبی مبعوث کیا ہے اسے سلاست زبان، تقریر کا ملکہ اور قوت گویائی بھی عطا کی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے جو دعا مانگی اس میں بھی ذکر ہے کہ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِسَانِی(طٰهٰ : ۲۸)یعنی میری زبان میں جس قسم کی بھی گر ہیں ہوں ان کو دُور کردے اور زبان کی گرہ میں لُکنت، آواز کی پستی، الفاظ کی پستی سب چیزیں شامل ہیں۔ پس اس دعا کے معنے یہ ہیں کہ اے خدا! مجھے بلندیٔ آواز عطا فرما اور میرے الفاظ میں طاقت اور شوکت اور اثر پیدا فرما۔ چنانچہ فرعون کے ساتھ آپؑ کے جو مباحثات ہوئے ان سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ چھوٹے چھوٹے اور مختصر جواب دیتے۔ مگر درباریوں پر ایسی ہیبت طاری ہوگئی کہ ان سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔اور آخر وہ مارنے اور ظلم کرنے پر اتر آئے۔ رسول کریم ﷺکو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہزارہا کے مجمع کو آپؐ ایسی عمدگی کے ساتھ اپنی باتیں سنا دیتے تھے کہ دُور بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی آواز پہنچتی تھی۔ آپؐ مسجد میں تقریر فرماتے تو گلی کوچوں میں آپؐ کی آواز پہنچتی۔ آپؐ فرماتے بیٹھ جاؤ تو گلی میں چلنے والوں میں سے بعض آپؐ کی آواز سن کر بیٹھ جاتے ۔ (اسد الغابة فى معرفة الصحابة المجلد الثالث صفحہ ۱۵۷ مطبوعہ ۱۲۸۶ھ) غرض وہ نشان والا معجزہ جو سب انبیاء کو دیا گیا۔ اور جس سے کوئی نبی مستثنٰی نہیں، نہ حضرت موسیٰؑ، نہ حضرت عیسیٰؑ، نہ رسول کریمﷺ اور نہ اس زمانہ کا مامور، وہ کوئی معمولی بات نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام لاہور میں جب تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو لاہور کا سب سے وسیع ہال آدمیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اور اس قدر اژدہام تھا کہ دروازے کھول دیئے گئے بلکہ باہر قناتیں لگائی گئیں اور وہ بھی سامعین سے بھر گئیں۔ شروع میں تو جیسا کہ عام قاعدہ ہے آپؑ کی آواز ذرا مدھم تھی اور بعض لوگوں نے کچھ شور بھی کیا مگر بعد میں جب آپؑ بول رہے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آسمان سے کوئی بگل بجایا جا رہا ہے اور لوگ مبہوت بنے بیٹھے تھے۔ تو آواز کی بلندی دینی خدمات کے اہم حالات میں سے ہے۔ پھر معلوم نہیں ہمارے دوست اس طرف کیوں توجہ نہیں کرتے۔ یہ خیال کہ آواز بڑھ نہیں سکتی، غلط ہے۔ جو لوگ گانے کی مشق کرتے ہیں ان کی آواز بلند ہو جاتی ہے۔ گویّوں کے ماسٹر ان کی آواز کو بلند کرنے اور گلوں کی حفاظت کرنے کے متعلق خاص احتیاطیں کرتے ہیں۔ کبھی گرم کپڑے باندھتے ہیں اور کبھی ٹھنڈے اور پھر ایک آدمی چھڑی لے کر کھڑا ہوجاتا ہے اور اگر آواز مدھم نکلے تو وہ سزا دیتا ہے۔ پھر جب گلا بیٹھ جاتا ہے تو اس پر برف وغیرہ باندھتے ہیں اور اس طرح آواز کو بلند کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی اس کی مثال موجود ہے۔ عبد الغفار خان صاحب افغان جو میاں عبداللہ خان صاحب افغان کے والد تھے اور مولوی عبدالستار صاحب مرحوم کے بھائی تھے وہ بڑے قدآور جوان تھے مگر اذان کے لیے ایک دن کھڑے ہوئے تو ان کی آواز نہ نکلی۔ اس پر بعض لوگوں نے تمسخر کیا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے باقاعدہ اذان دینا شروع کردی اور آہستہ آہستہ ان کی آواز اس قدر بلند ہوگئی کہ جب وہ اذان دیتے تو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ الفاظ نکل رہے ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ توپ کے گولے چل رہے ہیں۔ پس آواز میں بلندی پیدا کی جاسکتی ہے اگر طالب علموں کو کہا جائے کہ آواز بلند کرو ورنہ سزا دی جائے گی اور اس کا مقابلہ کرایا جائے۔ ایک آدمی کو دُور کھڑا کر دیا جائے اور طلباء سے اسے آواز دلوائی جائے اور پھر فاصلہ آہستہ آہستہ زیادہ کیا جائے تو آواز دُگنی تِگنی ہو سکتی ہے۔ یہاں کے ایک مؤذن بھی ایسی ہی کمزور آواز والے ہیں اور جب وہ اذان دیتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی بچہ کے منہ پر کسی نے تھپڑ مارا ہے اور وہ رو رہا ہے۔ اگر کوئی قرآن کریم کی قراءت اس طرح کرے تو لوگ شور مچادیں لیکن اذان کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی حالانکہ اس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ میں نے دیکھا ہے عام طور پر مؤذن مُحَمَّد یا مُحَمَّدٌ کہتے ہیں۔ اسطرح اَنْ لَّآ اِ لٰہ اِلَّا اللّٰہُ کہتے ہیں حالانکہ نون نہیں بولتا اور پھر انہیں کوئی سمجھاتا بھی نہیں حالانکہ یہ چھوٹی سی چیز ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اسے درست نہ کیا جائے۔ کل میں نے بعض نوجوانوں کو کھڑا کر کے اذان دلوانی شروع کی تو وہی مثل صادق آئی کہ ‘‘بڑے میاں سو بڑے میاں چھوٹے میاں سُبْحَانَ اللّٰه’’- چھوٹی پود کی تو یہ حالت ہے آئندہ لوگوں کو شاید ان کے ہونٹوں کے ساتھ کان لگا کر آواز سننی پڑے گی۔ ہم نے ۲۵؍سال گلے سے کام لیا ہے مگر آواز اب بھی خدا کے فضل سے ان سے بلند ہے۔ میں نے مہتمم اطفال کو ہدایت کی ہے کہ روزانہ تین لڑکے چن لیں اور ان سے اذان دلوایا کریں تاکہ ان کی آواز بلند ہو۔ ہم تو اس کے اتنے شوقین تھے کہ عصر کی اذان کے وقت دُور سے بھاگتے تھے اور کئی کئی اذانیں دے دیتے تھے۔ پہلے میں آیا میں نے اذان دی، پھر میرا کوئی ساتھی آگیا تو اس نے بھی دے دی پھر تیسرا آیا اس نے بھی دے دی۔ اس پر حضرت مولوی عبدالکریمؓ صاحب نے ہمیں تو کیا کہنا تھا مگر بڑوں کو ڈانٹا کہ کیا ایک اذان کافی نہیں؟ لیکن سکھانے کے لیے زیادہ اذانوں میں بھی کوئی حرج نہیں۔ پس روزانہ آواز کی مشق کراؤ۔ ایک شخص کو فاصلے پر کھڑا کر دو اور تین لڑکوں سے اذان دلواؤ۔ پھر اسے روزانہ پرے کرتے جاؤ اور دیکھو کہ آواز کتنی بڑھی ہے۔ دو تین ماہ اسی طرح مشق کراؤ پھر دیکھو۔ اول تو اس دن کے بعد ہی لڑکوں کو اس قدر شوق ہو جائے گا کہ گلی کوچوں میں اذانیں دیتے پھریں گے۔ اگر ایک دن کوئی مبلغ آجائے تو بچے کئی روز تک نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے رہتے ہیں۔ اذان ایک گرج ہے، ایک چیلنج ہے دنیا کو کہ ہمت ہے تو ہمارے مقابلہ میں آؤ مگر کیا کوئی چیلنج بھی مُردہ آواز میں دیا کرتا ہے۔ یہ تو ایک گرج ہے کہ تم کن خداؤں کو پیش کرتے ہو ہمارا خدا سب سے بڑا ہے لیکن ان الفاظ کو ادا کرتے ہوئے اگر آواز ایسی ہو جیسے مار کھا کر رور ہے ہو تو یہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ اذان اونچی اور صحیح ہونی چاہیے اس کے اندر ایسی کشش ہے کہ حضرت خلیفہ اولؓ سنایا کرتے تھے کہ ایک سکھ رئیس کے گھر کے پاس مسجد تھی جس میں ایک بہت بلند آواز اور خوش گلو مؤذن تھا۔ اس سکھ کی جوان لڑکی تھی وہ ایک دن اپنے والد سے کہنے لگی کہ میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔ اس نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگی بس میرا دل چاہتا ہے۔ اس نے پوچھا آخر اس کی کوئی وجہ بھی ہے۔ کہنے لگی یہ میں نہیں جانتی۔ بس میرا دل اسلام کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔ وہ سمجھدار آدمی تھا اور امیر بھی۔ اس نے اس مؤذّن کو کچھ دے دلا کر وہاں سے بھجوا دیا اور کسی منحنی آواز والے کو مؤذن مقرر کروا دیا اور پھر چند روز کے بعد کہا کہ اچھا بیٹی! تیری مرضی ہے تو مسلمان ہو جا۔ وہ کہنے لگی اب تو خیال بدل گیا ہے۔ تو اذان میں ایک شوکت اور شان ہے اگر آواز بھی الفاظ کے مطابق ہو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل خود بخود لَو ٹتا چلا جا رہا ہے لیکن جہاں مؤذن بھدّ ی آواز والا ہو وہاں نمازی بھی سست ہوتے ہیں۔ پس میں تمام محلوں کے پریذیڈنٹوں اور مربیان اطفال کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس طرف توجہ کریں۔ پچھلے خطبہ میں میں نے کہا تھا کہ محلہ والوں کا فرض ہے کہ دیکھیں ان کا کوئی ہمسایہ بھوکا نہ رہے اور ننگا نہ ہو مگر اس ذمہ داری کے ساتھ ایک اَور امر بھی ہے جس کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے۔ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو یہ دیکھ کر کہ کھانے اور کپڑوں کی ذمہ داری دوسروں پر ہےسست ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ محنت اُس وقت کرتے ہیں جب دیکھیں کہ ذمہ داری ہم پر ہے اس لئے جب یہ اہتمام کیا جائے کہ سب کے کھانے پینے کی ذمہ داری محلہ والوں پر ہو وہاں ان کا یہ بھی فرض ہو گا کہ دیکھیں ایسے لوگ سُست نہ ہوں۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ کام نہیں ملتا اور اس کی تشریح کرائی جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کے حسب منشاء کام نہیں ملتا حالانکہ سائل ہونے سے بہتر ہے کہ جو کام بھی ملے کر لیا جائے۔ مثلاً ایک وکیل کو اگر وکالت کا کام نہ ملے اور وہ ٹوکری ڈھونے لگ جائے تو یہ اس کی شرافت کی دلیل ہوگی اور اس میں کوئی ذلّت نہیں۔ نکمّے بیٹھنے کی بجائے اگر وہ حلال روزی ٹوکری ڈھو کر کمائے گا تو اس کے محلہ والوں میں سے ہی کئی اسے اس سے اچھی نوکری دینے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ پہلے تو لوگ شرم کی وجہ سے نہیں کہتے کہ آپ یہ معمولی نوکری کرلیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں دوسرا اسے ہتک نہ سمجھے۔ جیسے بعض خاندان بڑے سمجھے جاتے ہیں ان کی لڑکیوں کے رشتے کے لیے کوئی اس خوف سے پوچھتا ہی نہیں کہ ایسا نہ ہو ناراض ہو جائیں۔ اسی طرح ایک وکیل کو کوئی شخص یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ آپ میری دکان پر پندرہ روپے کی نوکری کرلیں لیکن اگر وہ مزدوری کرنے لگ جائے تو دوسرا شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ یہ کام کیوں کرتے ہیں میرے پاس پندرہ روپے کی جگہ ہے۔ پھر ممکن ہے دوسرا پچیس روپیہ ماہوار پیش کردے کہ میری دکان پر آجاؤ، تیسرا اس سے بھی زیادہ دینے پر تیار ہو جائے اور اس طرح ممکن ہے کہ وہ سو ڈیڑھ سو روپیہ تک جاپہنچے۔ جو شخص گھر میں بھوکا پڑا رہے وہ جسمانی موت کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور جو دستِ سوال دراز کرے وہ اخلاقی موت مرتا ہے لیکن جب دونوں صورتیں نہ ہوں تو دنیا ایسے شخص کو عزت دیتی ہے۔ میرے پاس کئی ایسے لوگ آتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کام کیوں نہیں کرتے؟ وہ کہتے ہیں ملتا نہیں اور اگر بتایا جائے کہ فلاں کام ہے تو کہیں گے کہ اس میں تو پندرہ روپے ملتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ پندرہ روپے صفر سے تو بہر حال زیادہ ہیں۔ وہ گریجوایٹ ہوں گے، مولوی فاضل ہوں گے، اچھے پڑھے لکھے اور عالم ہوں گے مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی کہ صفر سے پندرہ بہتر ہیں۔ حالانکہ اگر ایک خالی ہاتھ ہو اور دوسرے شخص کے ہاتھ میں گنڈیری ہو تو ایک نادان بچہ بھی فرق محسوس کرتا ہے لیکن یہ لوگ ایسے احمق ہوتے ہیں کہ دس یا پندرہ یا صفر میں فرق نہیں کرتے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ایک روپیہ بھی صفر سے بہتر ہے۔ مجھے سینکڑوں رقعے ایسے آتے رہتے ہیں کہ تنخواہ تھوڑی ہے عیالدار آدمی ہوں کچھ سلسلہ کی طرف سے امداد مل جائے یا وظیفہ ہی مل جائے۔ ان کے خیال میں سلسلہ نام ہے چند جادو گروں کا جو کیمیا بناتے ہیں۔ یا اپنے احمدی ہونے کو اللہ تعالیٰ پر احسان سمجھتے ہیں کہ تُو نے نبی بھیجا تو خزانہ بھی دیا ہوگا۔ ایسے لوگ ایمان کو تجارت سمجھتے ہیں۔ پھر بعض لوگ کام کرنا بے عزتی سمجھتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ سنایا کرتے تھے کہ ایک امیر ہندو اپنے لڑکے کو چھ پیسے سے تجارت شروع کرائے گا لیکنمسلمان نوجوان کو تجارت کے لیے کہا جائے تو وہ کہے گا لاؤ چار پانچ ہزار روپیہ۔ حالانکہ ہم نے بچپن میں خود دیکھا ہے کہ ایک شخص پہلے چھ پیسے یا دو آنے کے دہی بھلے بیچا کرتا تھا لیکن بعد میں وہ بڑا حلوائی بن گیا۔ اسی طرح ایک شخص جس کا معاملہ اب زیادہ دیانتدارانہ نہیں رہا، پہلے صرف عرق کشید کیا کرتا تھا مگر بعد میں اس کی تجارت بڑھ گئی۔ تو جہاں محلہ والوں پر ذمہ داری ہے وہاں ایسے لوگوں پر بھی ذمہ داری ہے کہ کام کریں۔ بیسیوں عورتیں ہیں جن کے پاس اخراجات کا کوئی سامان نہیں اور ایسے کئی خاندان ہیں جو نوکر رکھنے کے عادی ہیں۔ پھر کئی ایسے ہیں جو نوکر رکھنے کے عادی نہیں لیکن ان کے گھر میں بیماری ہوتی ہے اور انہیں عارضی طور پر نوکر کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ ایسی عورتیں ہمارے گھر میں آتی ہیں اور اپنی تکالیف بیان کرتی ہیں لیکن جب میں ان سے کہتا ہوں کہ تمہیں امور عامہ کی معرفت کسی کے ہاں نوکر کرا دیا جائے تو کہہ دیتی ہیں کہ نہیں یہ تو بڑی ذلّت کی بات ہے۔ حالانکہ کام کرنے میں کوئی ذلّت نہیں۔ حضرت علی ؓ کے متعلق آتا ہے کہ آپ گھاس کاٹ کر بیچا کرتے تھے۔ہم لوگ چاہے کسی کی نسل سے ہوں مگر حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارے اصل باپ دادے وہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم عطا کیا۔ رسول کریم ﷺ کا قرب عطا کیا اور پھر آپ کی دامادی کا شرف اور پھر خلافت کے مقام پر فائز کیا۔ تصوف والوں کا آپؐ کو باپ دادا بنایا مگر انہیں جنگل سے گھاس کاٹ کر لانے میں بھی کوئی عار نہ تھی۔ پھر اگر ہم میں سے کوئی اس میں شرم محسوس کرے تو کتنی بڑی غلطی ہے اس لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ اہل محلہ سب کو کھلانے پلانے کا ذمہ اٹھائیں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ہر شخص سے کام لیا جائے اور جب ہم انہیں کوئی کام نہ دے سکیں تو پھر بےشک مدد کے طور پر انہیں کچھ دے دیں لیکن اگر وہ کام نہیں کریں گے تو ہم انہیں کچھ نہیں دیں گے۔ اسی ضمن میں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جن عورتوں یا بچوں کو محلہ کے عہدیدار ملازم کرائیں۔ ان کے متعلق یہ دیکھتے رہیں کہ ان کے ساتھ سختی نہ کی جائے۔ بعض لوگ پہلے نوکر رکھ لیتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ سختی کرتے ہیں اور جب وہ جانا چاہیں تو انہیں مجبور کرتے ہیں کہ تمہیں رہنا ہوگا۔ اس کے لیے بھی قواعد بنانے چاہئیں جو نو کر جانا چاہے وہ پندرہ دن کا نوٹس دے دے اور محلہ کے صدر کو جاکر کہہ دے کہ میں پندرہ دن کے بعد فلاں شخص کی ملازمت چھوڑ دوں گا۔ اس کے بعد اسے روکنے کا کسی کو حق نہ ہوگا اور جو اس کے بغیر چلا جائے اسے کوئی دوسرا شخص اپنے پاس ملازم نہ رکھے ہاں نوٹس کی میعاد گزرنے کے بعد جو شخص پروپیگنڈا کرے کہ فلاں کو نوکر نہ رکھا جائے اسے سزا دی جائے کہ وہ دوسرے کو بھوکا مارنا چاہتا ہے۔ بہر حالمانگنا ایک لعنت ہے جس سے بچنا چاہیے۔جس قوم میں سوال کی عادت آجائے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتیپھر وہ سوال ہی کرتی رہتی ہے، حکومت نہیں کر سکتی۔ رسول کریمﷺ اسے سخت ناپسند کرتے تھے۔ آپؐ سے ایک دفعہ ایک شخص نے سوال کیا اور آپ نے اسے کچھ دے دیا۔ اس نے پھر سوال کیا اور آپؐ نے اسے کچھ دیا۔ پھر سوال کیا اور آپؐ نے پھر دیا مگر ساتھ ہی فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی بات بتاؤں جو سوال سے بہت اچھی ہے۔ پھر آپؐ نے اسے نصیحت کی کہ سوال نہ کیا کرو۔ (بخاری کتاب الزكوة باب الاستعفاف عن المسئلة)اس پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ ایک جنگ میں ایک دستۂ فوج کا وہ افسر تھا اس کا کوڑا گر گیا یہ حالت ایسی خطرناک ہوتی ہے کہ ذراسی غفلت سے سر اُڑ جانے کا خطرہ ہوتا ہے ایک شخص نے کہا آپ نہ اُتریں خطرہ ہے میں کوڑا پکڑا دیتا ہوں مگر اس نے کہا خدا کی قسم! کوڑے کو ہاتھ نہ لگانا مجھے رسول کریم ﷺ نے سوال سے منع کیا ہوا ہے۔ (مسنداحمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۲۷۷ ( مفهوماً)) گویا صحابہؓ ایسی حالت میں بھی دوسرے کا دست نگر ہونا گوارا نہ کرتے تھے جب جان کا خطرہ ہوتا تھا۔ یاد رکھو جس قوم میں سوال کی عادت ہو وہ کبھی ترقی نہیں کرتی۔ سوال کی عادت در حقیقت ایک وبا کی طرح ہوتی ہے اور جب یہ شروع ہو جائے تو پھیلتی چلی جاتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کوئی بات پوچھتا ہے تو دوسرا کہتا ہے میرا بھی ایک سوال ہے، تیسرا کہتا ہے میرا بھی ایک سوال ہے اور اس طرح سوالات کی ایک رَو چل جاتی ہے۔ پس قومی اخلاق کے لیے سوال کی عادت کو مٹانا ضروری ہے۔ محلوں کے ذمہ دار افراد کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف ہر شخص کے لیے روٹی کپڑا مہیا کریں بلکہ یہ بھی دیکھتے رہا کریں کہ کوئی شخص نکمّا نہ رہے سوائے ان معذوروں کے جو کام کر ہی نہیں سکتے یا طالب علموں کے جو اگر کام کریں تو پھر پڑھ نہیں سکتے۔ (الفضل۲؍مارچ۱۹۶۰ء) مزید پڑھیں: قرآن گزشتہ انبیاء اور الہامی کتب کی تصدیق کرتا ہے