میرے دشمن نہ ڈر ہم سے محبت نام ہے اپنا ہمیں کچھ اور آتا ہی نہیں ہے فقط یہ کام ہے اپنا محبت نام ہے اپنا ہمارا ایک مرشد پیر ہے جس نے کڑے کوسوں کی دوری سے ہمیں اک ڈور میں باندھا ہوا ہے کبھی جو موجِ خوں سر سے گزر جائے اسے پوچھیں کہ کیوں نہ ہم بھی ہر حد سے گزر جائیں وہ کہتا ہے کہ آدھی رات کو اٹھ کر خدا کے سامنے رونے میں ہر حد سے گزر جاؤ کبھی پو چھیں کہ ہم سو سال سے عہدِ ستم میں جیتے جیتے تھک گئے ہیں تو اب کیوں نہ اٹھائیں ہاتھ اور دستِ ستم پیشہ جھٹک ڈالیں وہ کہتا ہے اٹھاؤ ہاتھ اور حرف دعا کہہ لو مگر اللہ کی خاطر ہر اک جور و جفا سہہ لو سو اے دشمن محبت نام ہے اپنا ہمیں کچھ اور آتا ہی نہیں ہے نہ ڈر ہم سے مگر اللہ سے، اللہ سے، اللہ سے (مبشر احمد محمود) مزید پڑھیں: دیے لہو کے جلاتے چلے گئے عشّاق