میر محمود احمد ناصر صاحب جیسی عظیم شخصیت پر کچھ لکھنا چھوٹا منہ بڑی بات والا معاملہ ہے۔ آج صبح وفات پانے والے یہ بہت پیارے اور بہت محترم بزرگ زندہ ہوتے تو مجھے سختی سے روک دیتے۔ جیسے بہت سے کاموں سے روکا۔ مثلاً جب بھی ان سے ایم ٹی اے کے لیے کسی پروگرام میں تشریف لانے کی درخواست کی تو جملہ ابھی میرے منہ میں ہوتا کہ اپنے مخصوص انداز میں، جس میں محبت کی حلاوت اور بزرگانہ شفقت کی چاشنی ہوتی، فوراً کہنے لگ جاتے ’’نہیں نہیں۔ میں نے نہیں آنا۔ کسی اور کوبلا لو۔ جو مرضی کر لو۔ میں نے نہیں کرنا تمہارا پروگرام‘‘۔ پھر میں حضرت صاحب سے اجازت لیتا اور انہیں اطلاع دیتا کہ حضرت صاحب نے اجازت مرحمت فرمائی ہے کہ آپ اس پروگرام میں تشریف لائیں، تو دوسری بات نہ کرتے۔ مجھے ہلکا ہلکا جھڑکتے جاتے مگر ان جملوں کے بیچ بیچ میں: ’’کہاں ہے پروگرام؟ کب ہے؟ کتنی دیر کا ہے؟‘‘ وغیرہ۔ اور جھڑکی بھی کیا ہوتی۔ یہی کہ ’’تم نے اب انکار کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی!‘‘ بات ایم ٹی اے کے پروگراموں ہی کی نہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح کے منہ سے نکلی کسی بھی بات کی تھی۔ میر صاحب کے علم میں آئی نہیں اور پوری تندہی سے تعمیل شروع۔ مگر میر صاحب کی شخصیت کے یہ پہلو تو بہت بعد میں دیکھے۔ ان سے تعارف مجھے اپنی نوجوانی کے زمانہ میں ہی حاصل ہوگیا تھا۔ مگر اس تعارف کا آغاز بھی میر صاحب کے ایک انکار ہی سے ہوا تھا۔ اور وہ یوں کہ میں کراچی سے میٹرک کرکے وہیں ایک کالج میں داخل ہوگیا مگر پھر ربوہ منتقل ہونا پڑا۔ برادرم محترم مظفر چودھری صاحب، میرے پھوپھی زاد بھائی ان دنوں جامعہ میں زیر تعلیم تھے۔ ان کے ساتھ اور ان کے جامعہ کے دوستوں کے ساتھ جامعہ میں اٹھنا بیٹھنا ہوا۔ جامعہ کا ماحول بہت بھلا لگا اور جامعہ میں داخلہ کا شوق ہوا۔ میر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا شوق ظاہر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ داخلے تو بند ہو چکے ہیں اور اب داخلے کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا داخلہ نہیں ہوسکتا۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ کالج میں دو سال لگا کے ایف اے کے بعد آجانا مگر اس طرح آنے والے کم ہی چلا کرتے ہیں۔ ہاں میرے دو یا تین شاگرد ایسے ہیں جو کالج سے ہو کر آئے مگر جامعہ میں بہت اچھے اور کامیاب رہے۔ یہاں انہوں نے عطا ءالمجیب راشد صاحب، راجہ منیر احمد خان صاحب اور فرید احمد نوید صاحب کا نام لیا۔ فرید صاحب جو اب جامعہ غانا کے پرنسپل ہیں تب درجہ رابعہ میں زیر تعلیم تھے۔ ناصر ہاسٹل کے زعیم بھی تھے۔ راجہ منیر صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ ہوئے اور پھر جامعہ احمدیہ ربوہ جونیئر سیکشن کے پرنسپل۔ اور عطاءالمجیب راشد صاحب تو تعارف کے محتاج نہیں۔ جامعہ میں آنا جانا رہا۔ بلکہ بڑھتا گیا۔ نئے دوست بھی بنے۔ تشحیذ الاذہان میں خدمت کا موقع ملا تو فضیل عیاض صاحب کے پاس آنا جانا رہتا جو جامعہ کے احاطہ ہی میں ایک کوارٹر میں مقیم تھے۔ یوں صبح کالج۔ کالج سے نکل کر (بلکہ بھاگ کر) خلافت لائبریری۔ وہاں سے ربوہ کی چلچلاتی دوپہر گھر پر اور شام ہوتے ہی جامعہ احمدیہ کے احاطے میں۔ جامعہ میں اکثر میر صاحب سے آمنا سامنا ہوجاتا۔ میر صاحب بہت محبت سے پیش آتے۔ مجھے ان کا جامعہ میں داخلے سےانکار کبھی بھی برا نہ لگا تھا کہ اس کے ساتھ جو وجہ تھی وہ بہت جائز تھی۔ الٹا یہ ہوا تھا کہ میر صاحب بہت ہی اچھے لگے تھے۔ اور ہمیشہ اچھے ہی لگتے رہے۔ ایسے مواقع پر جب ان سے ملاقات ہو جاتی، یا اگر وہ سائیکل پر پاس ہی سے گزر جاتے، تو کوئی نہ کوئی محبت بھرا جملہ ضرور اپنے نرم قہقہوں کے ساتھ ضرور فرما دیتے۔ ’’آج کس کے ساتھ چائے پینے آئے ہو؟‘‘ ’’تمہارا دوست تو ابھی باہر جا رہا تھا!‘‘ سردیوں کی صبح میں میر صاحب جامعہ کی خوبصورت عمارت کے سامنے دھوپ میں گرم کوٹ، گرم ٹوپی اور دستانے پہنے بیٹھے ہوتے اور کچھ پڑھ رہے ہوتے۔ میں جاکر ان کے سامنے سائیکل روکتا اور اتر کر ان سے سلام کر کے، دعا کے لیے کہہ کے اور ان کا ایک آدھا محبت بھرا جملہ یا دعا سن کے جامعہ کی کینٹین پر جا بیٹھتا۔ انہوں نے مجھے کبھی نہ روکا۔ میں شاید جامعہ کے باہر سے واحد آدمی تھاجو جامعہ میں آزادانہ گھومتا پھرتا تھا (بلکہ دندناتا پھرتا زیادہ مناسب ہے)۔اور نہ صرف یہ کہ میر صاحب نے مجھے کبھی نہ روکا نہ ٹوکا بلکہ میں نے خود بھی کبھی ان سے چھپنے کی کوشش نہیں کی۔ انہیں ضرور ملتا اور سلام عرض کرتا۔ وہ بڑی محبت کا سلوک کرتے۔ شاید انہیں اپنے انکار کا خیال رہتا اور ایک نوجوان کے جذبات کا۔ اور اس نوجوان کا اس انکار پر برا منانے کی بجائے تعلق کو قائم رکھنے کی کوشش میں بڑھتے جانا۔ مگر نوجوان تو کوئی نیکی نہیں کررہا تھا۔ وہ ان کی شخصیت کے سحر میں مبتلا تھا اور اپنی غرض کے لیے ان سے مل کر اپنے دل کی تسکین کرتا تھا۔ جامعہ میں یونہی آنا جانا رہا۔ میر صاحب کی محبت اور شفقت جاری رہی۔ اور دو سال کے عرصے میں مَیں نے کالج کی تعلیم مکمل کر لی۔ مگر اس سب میں یہ ہوا کہ رجحانات بدل گئے۔ نہ میں میر صاحب کے پاس داخلہ لینے گیا۔ نہ میر صاحب نے یہ پوچھا کہ ہاں بھئی! داخلہ لینے نہیں آئے۔ کہاں گئے وہ جوش جذبے؟ مگر میر صاحب نے یہ محبت کا تعلق برقرار رکھنے کی گویا اجازت دی۔ اور یہاں تعلق سے مراد وہی گھڑی دو گھڑی کی سرِ راہ ہونے والی ملاقاتیں ہیں جن میں یہ بزرگ ہستی رک کر ایک بےکار نوجوان کو توجہ دے کر ذرہ نوازی کا سلوک فرماتی تھی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی کا زمانہ آیا اور لاہور نے مجھے اپنے دام میں اچھی طرح الجھا لیا۔ ہفتہ وار تعطیل پر ہفتہ کی رات ربوہ پہنچتا۔ اتوار کا دن کچھ سستا کر اور کچھ یہاں وہاں بسر کرکے پیر کو علی الصبح واپس لاہور کے لیے روانہ ہو جاتا۔ جامعہ کبھی کبھار جانا ہوتا اور اس کبھی کبھار میں سے بھی کبھی کبھار میر صاحب سے اسی طرح کی مختصر سی ملاقات کا شرف مل جایا کرتا۔ تعلیم کا احوال پوچھتے۔ میں دعا کے لیے عرض کرتا جس پر میر صاحب ہمیشہ شہادت کی انگلی کسی بھی سمت میں اٹھا کر کہہ دیتے کہ دعا کے لیے تو وہاں لکھا کرو۔ انگلی لہراتے ہوئے میر صاحب مشرق و مغرب کا حساب تو نہ رکھتے۔ مگر سب کو معلوم تھا کہ میر صاحب کے دل کے قطب نما کی سوئی ہمیشہ دربارِ خلافت کی طرف رخ کیے رکھتی تھی۔ پھر انگلستان آنا ہوا اور میرصاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ موقوف ہوگیا۔ دو سال بعد مجھے وقفِ زندگی کا عہد کرنے کی توفیق ملی اور ایم ٹی اے میں ڈیوٹی لگی۔ جلسہ سالانہ کی آمد آمد تھی کہ حضرت صاحب کا ارشاد موصول ہوا کہ ملاقات کے لیے حاضر ہوں۔ حاضر ہوا تو ارشاد ہوا کہ اس جلسہ پر جو بزرگ ربوہ سے تشریف لا رہے ہیں وہ سب جلسہ کی تاریخ سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ سالہاسال تک جلسہ سالانہ کی انتظامیہ کا حصہ رہے ہیں اور جلسے کے کارخانے کے ہر کَل پرزے سے واقف ہیں۔ چودھری حمید اللہ صاحب۔ مرزا خورشید احمد صاحب۔ صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب اور میر محمود احمد ناصر صاحب۔ ابھی یہ نام لکھ رہا ہوں تو یہ افسردہ کردینے والااحساس جاگا ہے کہ سب اس دنیاسے رخصت ہوچکے تھے۔ آخری نام آج صبح رخصت ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان سب بزرگوں کو اطلاع کی۔ سب نے حامی بھری۔ میر صاحب نے صاف انکار کیا۔ کہ باقی سب کو پوچھ لو ان کو سب باتیں پتا ہیں۔ میں نے بھلا کیا بتانا ہے۔ وہ سب جانتے ہیں۔ صرف اتنا عرض کیا کہ میر صاحب! حضرت صاحب نے خود آپ کا نام ارشاد فرمایا ہے۔ لمحے بھر کو خاموشی چھا گئی۔ پھر آواز آئی۔ اچھا؟ حضرت صاحب نے فرمایا ہے تو پھر بتاؤ جلسہ گاہ میں سٹوڈیو کہاں ہے۔ کب پہنچنا ہے۔ کتنی دیر کی مصروفیت ہوگی؟وغیرہ۔ یہ پہلا پروگرام تھا جس میں مجھے میر صاحب کے پاس بیٹھنے اور ان سے سوالات پوچھنے کا شرف حاصل ہوا۔ نمودو نمائش کی خواہش سے پاک اس شخصیت نے پروگرام کے اختتامی الفاظ ختم ہونے کا انتظار بھی نہ کیا۔ میں ابھی ناظرین سے اختتامی سلام دعا کر ہی رہا تھا کہ میر صاحب نے مائیکروفون اتارا اور انجانے میں لائیو کیمرے کے سامنے سے گزر کر رخصت ہوگئے۔ تعمیل ارشاد ہو چکی تھی۔ اس تعمیلِ ارشاد کے بعد انہیں کیمرے کے سامنے بیٹھنا گوارا نہ ہوا اور میر صاحب سٹوڈیو سے تشریف لے گئے۔ اس جلسے کے اور اس کے بعد کے ایام میں میر صاحب جہاں بھی ملتے، اپنے ساتھ چلتے اپنے پرستاروں کو بتاتے کہ یہ مجھے باندھ کے پروگرام میں لے جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والے کئی سال میں جب بھی انہیں پروگرام میں مدعو کیا، اور انہیں بتایا کہ حضرت صاحب نے منظوری عطا فرمائی ہے، تو ہر بار ہنستے بھی جاتے اور ساتھ یہ بات دہراتے جاتےکہ تم مجھے باندھ کے لے جاتے ہو۔ میر صاحب ہمیشہ پروگرام کی تفصیل دریافت فرمایا کرتے۔ کئی سال مسجد فضل کے سامنے ایک گیسٹ ہاؤس سے ملحقہ suite میں قیام پذیر ہوا کرتے۔ وہیں حاضر ہو کر پروگراموں کی تفاصیل بتانے کا متعدد مرتبہ موقع ملا۔ میر صاحب کے بستر کے ساتھ ایک پڑھنے کا میز، ساتھ ایک کرسی اور ایک پڑھنے کا لیمپ پڑا ہوتا۔ اور میز پر میر صاحب کی کتابیں بہت سلیقے سے سجی ہوتیں۔ اجازت ملنے پر اندر داخل ہوتا اور میر صاحب لیمپ کی روشنی میں کچھ پڑھ یا لکھ رہے ہوتے۔ کبھی بتابھی دیا کرتے کہ کیا پڑھ رہے تھے۔ اورجناب ان موضوعات میں کیا ہی تنوع ہوتا۔ زیادہ تر عیسائیت اور بائبل کے ماہر کے طور پر جانے جانے والے میر صاحب تو علم کے حصول کا کوئی موقع نہ چھوڑتے۔ قرآن، حدیث اور تحریرات حضرت اقدس مسیح موعودؑ تو گویا اوڑھنا بچھونا تھے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ سائنس سے لے کر حالاتِ حاضرہ تک، اور عالمی سیاسیات سے لے کر ماحولیات تک۔ کوئی مضمون میر صاحب کے دائرۂ اشتیاق سے باہر نہ تھا۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میر صاحب نے علمیت کا رعب جھاڑا ہو۔ کسی مجھ جیسے نے کسی موضوع پر راہنمائی مانگی تو جھکی جھکی نظروں سے اور شرمائی شرمائی سی آواز میں راہنمائی فرمانے کی نیک نیت سے کچھ بیان فرمادیتے۔ یہ وہ درزیں ہوتیں جن سے میر صاحب کی مجلس میں موجود احباب اس تبحرِ علمی کی جھلک دیکھ پاتے۔ ورنہ میر صاحب کو خود تو کبھی یہ لگا ہی نہیں کہ وہ علم کے سمندر سے سیراب ہو چکے ہیں اور اب دوسروں کو سیراب کر سکتے ہیں۔ جو کچھ بھی ہچکچاتے ہوئے فرماتے، دوسروں کی راہنمائی مقصود ہوتی نہ کہ خود نمائی۔ میر صاحب کی تصنیفات طبع شدہ اور زیر طبع مضامین اس قدر ہیں کہ جمع کر کے شائع کی جائیں تو کئی ضخیم جلدیں بن جائیں۔ میر صاحب کے مضامین ٹھوس علمی نوعیت کے ہوتے جو میر صاحب کی گہری تحقیق کا نچوڑ ہوتے۔ میری خوش قسمتی کہ مجھے کبھی میر صاحب کا حکم موصول ہوتا کہ فلاں حوالہ درکار ہے۔ یا یہ کہ یہ حوالہ ہے۔ فلاں مصنف کی کتاب سے ہے جسے فلاں ناشر نے شائع کیا ہے۔ یہ حوالہ اپنے مضمون میں درج کرنا چاہتا ہوں۔ ناشر سے اجازت لے دو۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا تو میں نے حوالہ کی نوعیت اور الفاظ کی تعداد دیکھ کر عرض کی کہ میر صاحب، اس کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں۔ یہ fair use میں آتا ہے اور اس کا ماخذ درج کردینا کافی ہوگا۔ فرمانے لگے کہ ٹھیک ہے، یہی بات مجھے ناشر سے کہلوادو۔ میں جماعتی اشاعت کے لیے کسی مشکل کا باعث نہیں بننا چاہتا۔ میر صاحب کی تسلی کے لیے ناشر سے ٹیلی فون پر بات کر کے انہیں بتایا مگر میر صاحب کی تسلی نہ ہوئی۔ اور یہ تسلی ناشر کی تحریری اجازت سے نیچے کسی صورت حاصل ہونے والی نہیں تھی۔ اور نہیں ہوئی۔ تا وقتیکہ تحریر لے کر میر صاحب کو ارسال نہ کردی گئی۔ اگلی مرتبہ جب میر صاحب کی طرف سے اس سے ملتا جلتا حکم موصول ہوا تو پچھلی بار کے تجربے کو بنیاد بنا کر عرض کی کہ بالکل ویسا ہی اصول اس حوالے پر اطلاق پاتا ہے جو پچھلی مرتبہ تھا۔ مگر میر صاحب کو جماعتی اخبارات و رسائل، جو پہلے ہی قدغنوں اور پابندیوں کی زد میں تھے، کامزید مشکل سے دوچارہونےکا تصور بھی گراں تھا۔ سو میر صاحب نے احتیاط کا معیار بلند کرلیا تھا۔ میر صاحب کے تحقیقی مضامین میں تعصب کا رنگ نہ ہوتا۔ جسے انگریزی میں conformation bias کہتے ہیں۔ یعنی حقائق پیش کیے۔ باحوالہ پیش کیے۔ اور جہاں اپنے ذاتی عقائد کو بیان کرنے کا موقع بنا، وہاں ان کے برمحل ہونے کی پوری احتیاط فرمائی۔ میر صاحب تو چلے گئے۔ مگر میر صاحب کے تحقیقی مضامین ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اور تحقیق و تحریر کی راہوں پر چلنے والوں کے لیے راہ نما بنے رہیں گے۔ بالخصوص تعصب سے اجتناب، برمحل اظہارِ حق اور حوالجات میں احتیاط کی باریکیاں۔ میر صاحب برس ہا برس جامعہ احمدیہ ربوہ کے پرنسپل رہے۔ آپ کے دور میں جامعہ سے فارغ التحصیل طلبہ جو براہِ راست آپ کے شاگرد بھی ہوتے یعنی آپ انہیں اسباق بھی پڑھاتے، سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور دنیا بھر میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے سپرد کلیدی ذمہ داریاں ہیں۔ جتنے دن لندن میں مقیم رہتے، روزانہ حضرت صاحب کی خدمت میں خط لکھ کر خود چل کر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری تشریف لے جاتے اور خط پیش کر کے آتے۔ حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری منیر احمد جاوید صاحب بھی میر صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے۔ جتنی عزت منیر صاحب میر صاحب کی کرتے، میر صاحب اسی قدر عزت سے پیش آیا کرتے۔ جیسے وہ میر صاحب کے استاد رہے ہوں۔ یہ میر صاحب کی منکسرالمزاجی تو تھی ہی، مگر اس سے زیادہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں مدد کرنے والوں کا احترام تھا جو میر صاحب کے دل کو محبت سے لبریز کیے رکھتا۔ پروگرام راہِ ہُدیٰ شروع ہونے کے بعد جو جلسہ آیا، اس پر میر صاحب سے مسجد فضل کے باہر ملاقات ہوئی۔ بہت ہی تپاک سے ملے۔ یعنی خود ہاتھ بڑھا کر مصافحہ کا شرف دیا جو کم کم کسی کو دیتے تھے۔ پھر گویا رازداری مگر ظرافت سے بھرپور لہجے میں فرمایا: ’’دیکھو !اچھا ہوا میں نے تمہیں داخلہ نہیں دیا۔ خدا جانے کہاں بیٹھے ہوتے۔ تمہارے نصیب میں خلیفہ وقت کے پاس آکر وقف کرنا اور خدمت کی توفیق پانا لکھا تھا۔‘‘ مجھے پندرہ سولہ سال پرانا وہ دن یاد آگیا جب میں میر صاحب کی خدمت میں داخلہ لینے حاضر ہوا تھا۔ انکار سن کر مایوس ہو کر نکلا تھا۔ کبھی پلٹ کر شکوہ نہیں کیا تھا۔ شکوے کی گنجائش بھی میر صاحب نے کہاں رہنے دی تھی۔ ہمیشہ بہت محبت سے ملتے رہے۔ بلکہ میرے جامعہ میں بکثرت آنے جانے سے بھی صرف نظر فرماتے رہے۔ اور جو سولہ برس اس انکار کو یاد بھی رکھا، تو اس روز یہ یقین ہوگیا کہ میر صاحب میری وقفِ زندگی کی خواہش کے لیے نیک تمنائیں لیے رہے۔ اور وہ جو شرقاً غرباً ہاتھ کے اشارے سے دعا کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ’’وہاں لکھو‘‘، تو خود بھی شاید کبھی دعا ضرور کی ہوگی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے شعبہ احمدیہ آرکائیو کا قیام فرمایا اور مجھے اس میں خدمت کا موقع عطا فرمایا تو میر صاحب سے رابطے کے زیادہ سلسلے نکل آئے۔ نیا شعبہ تھا۔ جماعتی تاریخ سے متعلق ذمہ داری تھی۔حضرت صاحب نے متعدد مواقع پر فرمایا کہ ’’میر صاحب سے پوچھو‘‘۔ اور میں میر صاحب کو پوچھتا۔ اور میر صاحب ہمیشہ بہت شفقت سے راہنمائی فرماتے۔ اور حضرت صاحب میر صاحب کی رائے کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی تجویز کے مطابق عمل کرنے کا ارشاد فرماتے۔ جو ذمہ داری شعبہ کو سپرد تھی، اس سے متعلق بہت سا مواد ربوہ کے متفرق دفاتر میں تھا۔ ہمارے شعبے کے لیے وہاں ایک کل وقتی کارکن کی ضرورت تھی۔ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی۔ ارشاد ہوا ’’میر صاحب سے کہو کچھ نام تجویز کریں۔ پھر میرے پاس لانا۔‘‘۔ میر صاحب سے پوچھا۔ میر صاحب نے ایک ہی نام تجویز فرمایا۔ ایک ہی نام حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا۔ اورازراہِ شفقت منظور فرمایا گیا۔ اس بات کو آٹھ سال ہونے کو آئے۔ ان آٹھ سال میں ہر روز میر صاحب کے لیے دل سے دعا نکلی اور ان شاءاللہ ہمیشہ نکلتی رہے گی۔ جن کا نام میر صاحب نے تجویز فرمایا وہ بہت ہی تندہی سے کام کرنے والے نکلے۔ کام کو جلدی سیکھ کر باریکی سے عمل درآمد کرنے والے۔ اس میں جو میں نے سیکھا وہ یہ تھا کہ حضرت صاحب کا ارشاد تو تھا کچھ نام تجویز کریں۔ میر صاحب کو ایک ہی نام مناسب لگا۔ میر صاحب نے اسے دیانتداری کا تقاضا سمجھا کہ اسی قدر تجویز کریں جس قدر ان کا دل گواہی دیتا ہو کہ درست ہے۔ بلاوجہ نہیں۔ خلیفۃ المسیح کی خدمت میں وہی ایک نام پیش کیا۔ اور اس منظوری نے آنے والے وقت نے بتایا کہ وہی مناسب تھا جو میر صاحب نے تجویز کیا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کے فیصلے کی لاج تو رکھنی ہی ہوتی ہے۔ الحمدللہ۔ پھر ایک ایسی ہی ذمہ داری کے لیے ربوہ سے ایک اور کارکن کی ضرورت تھی۔ اس مرتبہ انگریزی کی بہت اچھی سمجھ بوجھ ایک اضافی ضرورت تھی۔ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا۔ پھر ارشاد ہوا ’’میر صاحب سے پوچھو‘‘۔ ان دنوں میر صاحب جلسہ سالانہ کے لیے یوکے تشریف لائے ہوئے تھے۔ اور جلسے کے ایام میں حدیقۃ المہدی میں میر صاحب ایک کار میں بیٹھے دکھائی دیے۔ چلتی گاڑی پاس سے گزری تو ہاتھ اٹھا کر سلام عرض کیا۔ میر صاحب نے گاڑی رکوالی۔ دروازہ کھول کر شفقت کا سلوک فرمایا۔ میں نے عرض کی کہ اس طرح حضرت صاحب کا ارشاد ہے۔ جلسے کے بعد لکھ کر بھی عرض کروں گا۔ ان دوست کا نام لے کر فرمانے لگے، ’’ایسے کاموں کے لیے ایک ہی نام تھا جو بتادیا تھا۔ اور انگریزی والا تو اب کم ہی کوئی ہے۔ لیکن دیکھ کے سوچ کے بتاؤں گا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انگریزی میں مہارت رکھنے والے اپنے پرانے شاگردوں کو نام بنام یاد کرنے لگے۔ مستنصر قمر تو اب فلاں شعبے میں ہوتا ہے۔ فلاں یہاں ہے۔ فلاں وہاں ہے۔ اب لڑکے انگریزی پہ توجہ بھی نہیں دیتے۔ ہمارا مسئلہ اس وقت تو فوری حل نہ ہوا۔ مگر جو بات لطف دے گئی، وہ یہ تھی کہ میر صاحب نے اپنے شاگردوں کو کتابیں لاد کر نہیں چھوڑ دیا تھا۔ سب کی قابلیت اور لیاقت مستحضر تھی۔ سب کے گُن معلوم تھے۔ اور یہ یادداشت دھندلائی نہیں تھی۔ یہ تک یاد تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے تجویز دینے کا ارشاد فرمایا ہے تو کِن احتیاطوں کومدِ نظر رکھنا ہے اور یونہی چلتے پھرتے تجویز پیش نہیں کردینی۔ اور بات میر صاحب کی یادداشت کی چل رہی ہے تو یہ ذکر کرنے سے رہ نہیں سکتا کہ میر صاحب کو جماعتی تاریخ گویا زبانی یاد تھی۔ اور وہ جزئیات نہ صرف معلوم تھیں بلکہ یاد تھیں جو تاریخ کی کتب میں درج ہونے سے رہ جاتی ہیں۔ یا مصلحتاً چھوڑ دی جاتی ہیں۔ ایک روز میں ان کے ساتھ سٹوڈیو کی طرف چلا جارہا تھا۔ میر صاحب نگاہیں اکثر نیچی رکھتے۔ ایک نوجوان نے پاس سے گزرتے ہوئے میر صاحب کو سلام کیا۔ وہ جاچکا تو مجھ سے دریافت فرمایا:’’یہ کون تھا؟‘‘ عرض کی کہ ان کا نام یہ ہے۔ پھر دریافت کیا: ’’کس کا لڑکا ہے؟‘‘ چونکہ نوجوان کے والد زمانوں سے انگلستان میں مقیم تھے، میں نے کہا آپ شاید نہ جانتے ہوں مگر اس کے والد کا نام یہ ہے۔ مگر مجھے اپنی ’’میرناشناسی‘‘ کا حیرت ناک اور افسوسناک احساس تب ہوا جب میر صاحب نے اس لڑکے کے والد کے بارے میں، بلکہ ان کے بھی والد کے بارے میں تفصیلات بتاڈالیں جو شاید اس نوجوان کو بھی معلوم نہ ہوں۔ بہت سی باتیں بتائیں۔ کچھ باتیں اپنی میٹھی سی مسکراہٹ میں دبا کر حذف بھی کرگئے۔ اس نوجوان کے والد کے بارے میں جو واقعات میر صاحب نے بتائے، وہ زیادہ تر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے زمانے سے متعلق تھے۔ اور میر صاحب کو اپنے ’’میاں طاری‘‘ کی کون سی بات تھی جو یاد نہ تھی۔ میر صاحب خلافت کے سچے عاشقوں میں سے تھے۔ انہوں نے چار خلفاء کا زمانہ پایا اور ان چاروں کے عشق میں مخمور رہتے۔ چونکہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ساتھ ہم عمر ہونے کے باعث بچپن بھی گزرا۔ نوجوانی کے مرحلے بھی۔ لندن میں حصول تعلیم کے لیے بھی ساتھ رہے۔ تو ان سے ایک ایسا تعلق تھا جو ان کی خلافت سے پہلے بے تکلفی کا تھا۔ اور یہ جو نجی مجلس میں کبھی زبان سے ’’میاں طاری‘‘ نکل جاتا، یہ احترام کی کمی نہیں بلکہ اس محبت کے باعث تھا جو احترام کی حدوں کو پار کرتی عقیدت کی بلندیوں کو چھو چکی تھی۔ ان زمانوں کی یادیں گھٹاؤں کی طرح گھِر گھِرکے آتیں اور میر صاحب مسکرا مسکرا کر انہیں بیان فرماتے رہتے۔ انہیں اپنی کار میں کہیں لے جانے کے لیے مسجد فضل سے نکلا اور گلی کا موڑ مڑتے ہی A3 سڑک پر گاڑی چڑھائی تو میر صاحب نے بتایا کہ اس سڑک پر میں نے اور خلیفہ رابعؒ نے بہت سفر کیا ہے۔ ہر چھٹی پر وہ اپنے فلیٹ سے مسجد آجاتے اور ہم ان کی چھوٹی سی گاڑی میں (بلکہ میر صاحب کے بقول موٹر میں) کبھی کہیں اور کبھی کہیں جایا کرتے اور اکثر یہی سڑک لیا کرتے۔ اور پھر بتایا کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا جنازہ اسی سڑک سے اسلام آباد تدفین کے لیے لے جایا جارہا تھا اور اس کے مناظر ایم ٹی اے پر دکھائے جارہے تھے، تو مجھے وہ زمانے بہت یاد آئے جب ہم دونوں اس سڑک پر ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ اس کا نام تو مرزا طاہر احمد روڈ ہونا چاہیے۔ لندن میں بطور طالبِ علم اپنے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے قیام کے زمانے کو بہت محبت سے یاد کرتے۔ اپنے اساتذہ کے نام بھی یاد تھے۔ ایک استاد کا ذکر کر کے بتانے لگے کہ ہم دونوں نے اسے قرآن کریم کا تحفہ دیا تھا جو اس نے بڑی محبت سے وصول کیا تھا۔ پھر وہ کینیڈا چلا گیا۔ معلوم نہیں اب ہے کہ نہیں۔ میر صاحب کے منہ سے ’’معلوم نہیں‘‘ نامانوس سا لگا۔ میں ان کی صحبت سے جب رخصت ہوا تو یہ ’’معلوم نہیں‘‘ کا بوجھ دل پر لے کر نکلا۔ میر صاحب نے اس استاد کا نام لیا تھا۔ سومیری ساری رات کا بہت سا حصہ اس نام کے ہر باشندے کو کینیڈا کی ڈائریکٹریوں میں تلاش کرتے خرچ ہوگیا۔ اچھا ہوا کہ میر صاحب نے میرے دل میں یہ کسک لندن کی ایک شام کو جگائی تھی۔ اور یوں یہاں کی ساری رات کینیڈا میں دن کا وقت تھا۔ میں نے ہر اس آدمی کو فون ملا ڈالا جو اس نام کا مالک تھا۔ اور بالآخر اس نام کا ایک مالک ایسا نکلا جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور میر صاحب کا استاد تھا۔ تب میر صاحب کوئی ۸۰ برس کے ہوچکے تھے۔ تو استاد کا اندازہ لگا لیں کہ عمر کی کس منزل میں ہوگا۔ میں نے تعارف کا حوالہ بتایا تو وہ دونوں ناموں کو پہچان نہ سکا۔ قرآن کریم کے تحفے کا ذکر کیا تو دونوں جھٹ سے یاد آگئے۔ اور یہ بھی کہ ان میں سے ایک تو بعد میں اپنی کمیونٹی کا سربراہ بھی بنا تھا۔ جماعت کے اس مایہ ناز سربراہ کی وفات کا بتایا اور دوسرے شاگرد کا احوال بھی ذکر کیاکہ بھلے چنگے ہیں اور آپ کو یاد کرتے ہیں۔ وہ استادبھی اپنے ان سرسبز دنوں کی لہلہاتی یادوں میں چلا گیا جن کی پگڈنڈیوں پر میر صاحب اکثر جانکلتے تھے۔ اور ان استاد شاگرد کی بدولت میں جو School of Oriental and African Studies کی لائبریری کا صارف ہوں، اس کی محبت میں مزید مبتلا ہوگیا۔ بات خلفاء سے محبت کی چل رہی ہے تو میر صاحب کا جو تعلق حضرت مصلح موعودؓ سے تھا، وہ بے مثال تھا۔ ان کی دامادی کا شرف بھی حاصل تھا۔ میر صاحب نے بتایا کہ صاحبزادی امۃ المتین صاحبہ سے یہ رشتہ بھی لندن ہی میں طے پایا تھا جب حضرت مصلح موعودؓ علاج کے سلسلہ میں لندن تشریف لائے ہوئے تھے اور ۶۳ میلروز روڈ، ملحقہ مسجد فضل لندن میں مقیم تھے۔میر صاحب بتاتے جاتے اور اس خوبصورت لمحے کی یاد میں مسکراتے جاتے۔ بتایا کہ مجھے کسی نے کہا کہ حضور یاد فرمارہے ہیں۔ میں حضور کی رہائش کے کمرے میں اجازت لے کر داخل ہوا۔ حضور کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے اور باہر دیکھتے رہے۔ اور ساتھ ہی رشتہ تجویز کردیا۔ اور یہ بھی کہ میں نے ساتھ ہی رشتہ قبول کر لیا۔ میر صاحب خلفاء کے معاملے میں الفاظ کے چناؤ میں بہت محتاط تھے اور اس احتیاط میں ماہر بھی۔ ’’رشتہ قبول کرلیا‘‘ کے الفاظ شاید زبان سے پھسل گئے تھے۔ ساتھ ہی بتانے لگے کہ قبول میں نے کیا کرنا تھا۔ میں نے عرض کی کہ حضور سبھی کچھ آپ کا دیا ہوا ہے۔ میری اس سے زیادہ خوش قسمتی کیا ہوگی۔ جب حضرت مصلح موعودؓ کے متعلق ان سے کچھ بھی پوچھا، ہمیشہ بات کا آغاز یوں کرتے کہ ’’میں کیسے بتاؤں۔ یہ بتایا جاسکتا ہی نہیں۔ جس نے مصلح موعودؓ کو نہیں دیکھا، وہ جان ہی نہیں سکتا کہ وہ کیسے حیران کن حد تک پیارا وجود تھے …‘‘اس جملےسے آغاز کرتے اور پھر اس کے بعد تشنہ سائل کی پیاس بجھانے کا کچھ انتظام فرما دیا کرتے۔ مجھے حضرت مصلح موعودؓ کے دورۂ یورپ ۱۹۲۴ء سےہمیشہ خاص دلچسپی رہی۔ اس موقع پر حضرت مصلح موعودؓ جہاں جہاں تشریف لے گئے۔ جہاں قیام فرمایا۔ جہاں خطابات ارشاد فرمائے۔ ان سب مقامات کی نشاندہی کرنے میں اللہ کے فضل سے کامیابی ہوگئی تو میں لگا جلسہ سالانہ کا انتظار کرنے۔ کہ کبھی تو اُس سے ملاقات ہوگی جلسے پہ۔ کبھی تو آئے گا وہ وصل کے مہینوں میں۔ وصل کے مہینے آئے۔ میر صاحب بھی آئے۔ اور جلسے کی مصروفیات کے بعد میں میر صاحب سے درخواست کرکے انہیں ان مقامات پر لے گیا۔ساتھ محترم مبشر ایاز صاحب بھی تھے۔ میر صاحب کی خوشی کا عالم عجیب تھا۔ ہر مقام پر ہم رکتے اور میر صاحب کچھ اس دورہ کے حوالہ سے اہمیت بیان فرماتے۔ ہم ساتھ ریکارڈ کرتے جاتے کہ اس ریکارڈنگ کو اگلے ہی روز ایک پروگرام میں شامل کرنا تھا۔ سب مقامات ہو چکے اور ہم وہاں پہنچے جہاں اس دورہ کی معرکہ آرا تقریر مذاہب کانفرنس میں پیش کی گئی تھی۔ یہ بات بھی سب سے پہلے میر صاحب ہی سے معلوم ہوئی تھی کہ جسے ویمبلے کانفرنس کہا جاتا ہے وہ کانفرنس ویمبلے میں نہیں ہوئی تھی بلکہ Imperial Institute میں ہوئی تھی۔ سو ہم وہاں پہنچے جہاں اب Imperial Institute نہیں تھا۔ بلکہ اس کا ہمنام لندن کا ایک شہرہ آفاق کالج اور ایک عجائب گھر قائم ہے۔ ہم ابھی چشمِ تصور اور چشمِ میر محمود احمد ناصر سے اس عظیم کانفرنس اور اس عظیم مصلح موعود کو دیکھنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ مجھے میرے رفیقِ کار دوست کا فون آیا کہ بیت الفتوح میں آگ لگ گئی ہے۔ میر صاحب کو بتایا تو وہ یادوں کی دنیا سے فوراً پلٹ آئے اور جلد سے جلد واپس چلنے کی تلقین فرمائی۔ سارا راستہ پریشان رہے۔ دعائیں کرتے رہے کہ کوئی نقصان نہ ہو۔ اگلے دن اسی footage کے ساتھ ہمارا پروگرام ریکارڈ ہونا تھا۔ بیت الفتوح ہی کے سٹوڈیو میں۔ مگر چونکہ آگ لگ جانے کے باعث حضرت صاحب کے ارشاد پر تمام پروگراموں کی ریکارڈنگ مسجد فضل کے سٹوڈیو میں کرنے کی تیاری فوری طورپر ہو چکی تھی۔ یہ پروگرام اس آگ کے اگلے روز مسجد فضل کے سٹوڈیو میں ریکارڈ ہوا اور مجھے میر صاحب کے پہلو میں بیٹھنے اور فیض پانے کا ایک اور موقع حاصل ہوا۔اور یہ فیض ایم ٹی اے کے ذریعے لاکھوں ناظرین نے بھی حاصل کیا۔ الحمدللہ۔ میں نے اوپر لکھا کہ میر صاحب تمام خلفاء کے عشق میں مخمور تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کا خاص ذکر کیا کرتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا بھی۔ مگر یہ عرض کرنا اپنا قومی فرض سمجھتا ہوں کہ میر صاحب کسی خلیفہ کے دور میں اٹک کر نہیں رہ گئے تھے۔ میر صاحب اس جوئے رواں، کہ خلافتِ احمدیہ کہیں جسے، سے آبِ تازہ کے جام بھر کر پیتے تھے۔ میری گواہی کیا معنی رکھتی ہے، مگر گواہ ہوں سو گواہی ضرور دوں گا، اور یہ گواہی دینے والے ہزاروں اور گواہ بھی ہوں گے جو اپنی گواہی میں زیادہ جزئیات بیان کریں گے۔ میں صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ میں نے میر صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں ایسا مبتلا دیکھا کہ مجھ جیسے خلافت سے محبت کے دعویدار شرمندہ ہو کر رہ جائیں۔ ایک مرتبہ میں نے پوچھا کہ آپ کو تو حضور کے بچپن کا زمانہ یاد ہوگا۔ فرمایا بچپن کیا۔ جب حضورچالیس سال کے ہوئے اور انصار اللہ میں گئے تو ایک دن مسجد مبارک کی طرف نماز کے لیے جاتے ہوئے ہم اتفاق سے ساتھ ہوگئے۔ میں نے کہا کہ ابھی کل تو آپ پیدا ہوئے تھے۔ آج انصار اللہ میں چلے گئے؟ تو ہم نے انہی میر صاحب سے سیکھا کہ خلیفۂ وقت کے ساتھ تعلق زمانی اور مکانی معیاروں سے نکل جاتا ہے۔ خلیفہ خدا کا انتخاب ہوتا ہے۔ خدا کا محبوب۔ اس کے آگے عمر، تجربہ، علم،سب گھٹ کر اس کے قدموں میں آجاتا ہے۔ عمروں کے اس تفاوت کے باوجود میر صاحب کو جب حضرت صاحب کی صحبت میں دیکھا، طفلِ سادہ کی طرح کھڑے، بلکہ پگھلتے دیکھا۔ اور حضرت صاحب اگر بیٹھ گئے، تو میر صاحب کو حضرت صاحب کے قدموں میں بیٹھے دیکھا۔ایک سے زیادہ مواقع پر دیکھا کہ کوئی گروپ فوٹو ہونے لگا ہے اور میر صاحب لپک کر حضرت صاحب کے قدموں میں جا بیٹھے ہیں۔ یہ آپ کے اس یقین کا اظہار تھا کہ انسان جو کچھ بھی بن جائے، اس کا اصل مقام حضرت خلیفۃ المسیح کے قدموں میں ہے۔ یہ میر صاحب کے اس ایمان اور یقین کا اظہار تو تھا ہی، مگر ہمارے لیے گہراسبق بھی۔ میرصاحب سے جلسہ سالانہ یوکے کے دنوں میں فیض حاصل کرنے کی توفیق ملتی رہی۔ پھر میر صاحب کی صحت کچھ ویسی نہ رہی جیسی کبھی ہوتی تھی۔ ایک اور بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں اور یہ بات ظاہر ہے کہ میر صاحب نے مجھے نہیں بتائی۔ کسی اور نے بتائی اور راوی کا نام بتانا ضروری نہیں۔ ایک روز میر صاحب طبیعت کی خرابی کے باعث سڑک پار کرکے مسجد فضل میں مغر ب و عشا ءکی نماز حضرت صاحب کے پیچھے نہ پڑھ سکے۔ اگلے روز تحریری معذرت کی کہ حضور میں اس قدر قریب رہتے ہوئے بھی کل نماز پر مسجد میں حاضر نہ ہوسکا۔ اور آگے جو لکھا اس کا بیان بھی ضروری نہیں۔ وہ ایک درویش منش، عاشقِ خلافت کے دل کی باتیں تھیں۔ پھر کورونا وائرس جو آیا تو میر صاحب کا جلسے پر آمد کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔ ڈاکٹر غلام احمد فرخ صاحب کا اللہ بھلا کرے کہ میری درخواست پرمیر صاحب سے فون پر بات کروادیا کرتے۔ جس روز حضرت صاحب نے چودھری حمیداللہ صاحب مرحوم کی وفات پر ان کا ذکرِ خیر فرمایا، اس کے اگلے روز میر صاحب سے فون پر بات ہوئی۔ اس روز گفتگو کا اختتام میر صاحب کے جن جذبات پر ہوا اسے الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہے۔ کہنے لگے کہ حضرت صاحب کو بتادینا کہ جو کچھ انہوں نے چودھری صاحب کے بارے میں بتایا، میں ان ساری باتوں کا چشم دید گواہ ہوں۔ وہ سب باتیں درست ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے۔ جب وہ صدر خدام الاحمدیہ بنے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے ان کے بارے میں محبت بھرے جملے ارشاد فرمائے۔ وہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہوا ہے۔ حضور کو کہہ دینا کہ میں ان دنوں کچھ لکھنے کی ہمت نہیں پاتا ورنہ خود لکھ کر بھیجتا۔ کچھ اور الفاظ تھے جو کہا کہ حضرت صاحب کو بتادینا۔ مگر وہ میر صاحب کی امانت تھے جو حضرت صاحب تک پہنچانے تھے۔ سو اس امانت میں خیانت کر کے میر صاحب کو تکلیف دینے کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ مگران الفاظ سےمیرا دل بیٹھ گیا۔ یوں تو میر صاحب کو پچھلے تیس برس سے یہی کہتے سنا کہ میرا وقت اب قریب ہے۔ مگر اس روز پہلی بار میر صاحب نے یہ الفاظ تو نہ کہے، مگر یہ الفاظ بے طرح یاد آکر رہ گئے۔ میرصاحب سے آخری ملاقات۲۰۱۹ء کے جلسہ سالانہ کے دنوں میں ہوئی۔ یہ کورونا وائرس کی وباء پھیلنے سے پہلے کا آخری جلسہ تھا۔ حضرت صاحب اور مرکز کو اسلام آباد منتقل ہوئے کچھ ہی ماہ ہوئے تھے۔ رنگ تھے اُس کے دیکھنے والے۔ جب بہاروں پہ وہ چمن آیا۔ اور میر صاحب پہلی مرتبہ اس چمن کے رنگ دیکھ رہے تھے۔ اور آخری مرتبہ بھی۔ میر صاحب وہیل چیئر پر بیٹھے تھے اورآپ کے صاحبزادے سید محمد احمد صاحب انہیں گھر کی طرف لے جارہے تھے۔ میں نے آگےبڑھ کر سلام کیا۔ اور محمد احمد صاحب سے درخواست کی کہ مجھے وہیل چیئر چلا لینے دیں۔ انہوں نے میر صاحب سے پوچھا تو میر صاحب نے ہمیشہ کی طرح انکار کیا۔ اور ہمیشہ کی طرح مجھ نادان کی ضد سے مجبور ہو کر اجازت دے دی۔جب وہیل چیئر میر صاحب کی رہائش گاہ کے سامنے پہنچ گئی اور میں اس سے آگے نہ جاسکتا تھا تو میر صاحب سے اجازت چاہی۔ میر صاحب نے یہاں ایک بات کی، جو ان سے بالمشافہ آخری بات ثابت ہوئی۔ فرمایا کہ تم وہیل چیئر چلانے پہ اتنا اصرار کررہے تھے۔ تم ایسا کرنا کہ میرے جنازے کو کندھا دینے آجانا! میرے بہت ہی محترم میر صاحب! آپ جس روز صبح اس جہان سے رخصت ہوئے، اسی شام عصر کے بعد آپ سپردِ خاک ہوگئے۔ اتنی دیر میں کون سا جہازمجھے کندھا دینے کے لیے آپ کے پاس لے جاسکتا تھا؟ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: https://www.alfazl.com/2025/05/20/123184/