https://youtu.be/HxKrilMq5n0 (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۳؍جولائی ۲۰۰۴ء) قرآن کریم نے ہمیں یہ سنہری اصول بتا دیا کہ یہ مہمان نوازی، خدمت کا جذبہ اور جوش اس وقت پیدا ہوگا جب تم دلوں میں محبت پیدا کرو گے۔ اور جب یہ محبت تمہارے دلوں میں پیدا ہو جائے گی تو پھر تم اپنے آرام پر، اپنی ضروریات پر، اپنی خواہشات پر، ان دور سے آنے والوں کی ضروریات کو مقدم کرو گے اور ان کو فوقیت دو گے۔ اور اگر اس جذبے کے تحت خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم فلاح پا گئے، تم کامیاب ہو گئے۔ اور خاص طور پر ان مہمانوں کے لئے اپنے ان اعلیٰ جذبات کا اظہار کرو گے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں تو پھر تم یقیناً اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مستحق ٹھہرو گے۔ مہمان نوازی تو نبیوں اور نبیوں کے ماننے والوں کا ایک خاص شیوہ ہے۔ دیکھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی مہمان نوازی کو دیکھتے ہوئے فوراً اس وقت آنے والوں سے یہ نہیں پوچھا کہ تم کھانا کھاؤ گے کہ نہیں، ایک بچھڑا ذبح کر دیا اور حضرت خدیجہ ؓ نے بھی پہلی وحی کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گھبراہٹ ہوئی تواور بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی حضرت خدیجہ ؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عرض کیا کہ فکر نہ کریں خداتعالیٰ آپؐ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپؐ میں مہمان نوازی کا وصف بھی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں آپؐ کے اس اعلیٰ خلق کو اختیار کریں اور آپؐ کے عاشق صادق کے مہمانوں کی خدمت میں جلسے کے ان دنوں میں خاص طور پر کمر بستہ ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے وارث بنیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایمان کی یہ نشانی بتائی ہے کہ سچا مومن وہی ہے جو اپنے مہمان کی مہمان نوازی کا حق ادا کرتا ہے۔ ایک روایت میں ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت ہے کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار) تو اعلیٰ اخلاق بھی ایمان کی نشانی ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کی قسم کھائی ہے۔ ہم جو آپؐ کی امت میں شمار ہوتے ہیں ہم نے بھی انہیں قدموں کی پیروی کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا بڑا واضح حکم ہے کہ تم اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم، جو میرا پیارا رسول ہے، اس کے اُسوۂ حسنہ پر چلو۔ اور آپؐ نے ہمیں فرمایا کہ اگر میری پیروی کرنے والے شمار ہونا ہے تو ہمیشہ تمہارے منہ سے عزیزوں، رشتہ داروں، قریبیوں، تعلق داروں اور ہر ایک کے بارے میں خیر کے کلمات نکلنے چاہئیں۔ پھر پڑوسی کے ساتھ بھی عزت اور احترام کا سلوک ہے۔ صحابہ ؓ کہتے ہیں کہ بعض دفعہ ہمیں شک پڑتا تھا کہ جس طرح پڑوسی کے حقوق کے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کہیں وہ ہمارے وارث ہی نہ ٹھہر جائیں، وراثت میں بھی ان کا حصہ نہ ہو۔ پھر اس میں مہمان کا احترام کرنا بھی بتایا ہے اور پھر جو مہمان ہیں وہ تو تمہارے قریب آ کر جب ساتھ رہنے لگ گئے تو ہمسائے بھی بن گئے اس لئے مہمان کا تو دوہرا حق ہو گیا کہ ایک مہمان اور دوسرے جب تک یہاں ہیں تمہارے ہمسائے بھی ہیں۔ اور ان کے بارے میں تمہارے منہ سے کوئی بھی ایسی بات نہیں نکلنی چاہئے جو ان لوگوں کی دل آزاری کا باعث بنے، کسی تکلیف کا باعث بنے۔ ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو وفود آتے تھے آپؐ ان کی مہمان نوازی کا فرض صحابہ ؓ کے سپرد کر دیتے۔ ایک مرتبہ قبیلہ عبدالقیس کے مسلمانوں کا وفد حاضر ہوا تو آپؐ نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ انصار ان لوگوں کو لے گئے۔ صبح کے وقت وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپؐ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے میز بانوں نے تمہاری مدارات کیسی کی۔ انہوں نے کہایا رسول اللہ! بڑے اچھے لوگ ہیں ہمارے لئے نرم بستر بچھائے، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ 431) الحمدللہ کہ ہمارے ہاں جماعت میں بھی یہ نظارے دیکھنے میں آتے ہیں اور یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی وجہ سے یہ اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ …حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپؐ نے گھر کہلا بھیجا کہ مہمان کے لئے کھانا بھجواؤ۔ جواب آیا کہ پانی کے سوا آج گھر میں کچھ نہیں۔ اس پر حضورؐ نے صحابہ ؓ سے فرمایا اس مہمان کے کھانے کا بندوبست کون کرے گا۔ ایک انصاری نے عرض کیا: حضور! میں انتظام کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ گھر گیا او ربیوی سے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر مدارات کا اہتمام کرو۔ بیوی نے جواباً:کہا۔ آج گھر میں تو صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے۔ انصاری نے کہا اچھا تو کھانا تیار کرو اور چراغ جلاؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو تھپتھپا کر اور بہلا کر سلا دو۔ چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا، چراغ جلایا، بچوں کو بھوکا سلا دیا۔ پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اور جا کر چراغ بجھا دیا۔ اور پھر دونوں مہمانوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔ بظاہر کھانا کھانے کی آوازیں نکالتے رہے تاکہ مہمان سمجھے کہ میزبان بھی ہمارے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں۔ اس طرح مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور وہ خود بھوکے سوگئے۔ صبح جب وہ انصاری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہواتو آپؐ نے ہنس کر فرمایا: تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالیٰ بھی ہنسا اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ’’یہ پاک باطن ایثار پیشہ مخلص مومن اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جبکہ وہ خود ضرورتمند اور بھوکے ہوتے ہیں۔ اور جو نفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں ‘‘۔ (بخاری کتاب المناقب باب یؤثرون علی انفسہم و لو کان بھم خصاصۃ)(اس کا ترجمہ میں نے پڑھ دیا ہے۔ ) اس حدیث میں جو ہم میں سے بہت دفعہ بہت سے سن بھی چکے ہوں گے، پڑھ بھی چکے ہوں گے لیکن ہر دفعہ جب اس کو پڑھو اس کا عجیب لطف اور مزا ہے اور خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش!اس صحابی کی جگہ ہم ہوتے کیونکہ یہ مہمان نوازی تو ایسی اعلیٰ پائے کی مہمان نوازی ہے کہ جب تک یہ دنیا قائم ہے اللہ تعالیٰ نے اس مہمان نوازی کی مثال کو محفوظ کر لیا ہے اور ہمیشہ کے لئے یہ حوالہ بن چکی ہے اور ریکارڈ میں رہے گی۔ کیونکہ یہ ایسی مہمان نوازی ہے جس پر خوشنودی کا سرٹیفیکیٹ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے خود دیا ہے۔ یہ مثالیں قصے کہانیوں کے طور پر نہیں دی جاتیں۔ آج بھی اگر چاہو تو ایسی مہمان نوازی کی مثال قائم کرسکتے ہو۔ ہر ایک کی اپنی اپنی استعدادیں ہوتی ہیں، توفیق ہوتی ہے۔ اس کے مطابق جتنی زیادہ مہمان نوازی کی جا سکے کرنی چاہئے اور مہمان نوازی کے اعلیٰ معیار حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ اعزاز بہرحال اس انصاری کا قائم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ لیکن ساتھ یہ بھی ہے کہ اگر نیک نیتی کے ساتھ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کی خوشنودی کی خاطر قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے مہمان نوازی کریں گے اور اس لئے مہمان نوازی کریں گے کہ یہ خدا کے پیارے مسیح کے مہمان ہیں، محض للہ یہاں یہ اکٹھے ہوئے ہیں۔ اور ان کی خدمت ہم نے کرنی ہے تو چاہے ہمیں پتہ چلے یا نہ چلے یہ مہمان نوازیاں بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں ریکارڈ ہو جائیں گی۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی خاطر کئے گئے کسی فعل کو بغیر اجر کے نہیں چھوڑتا۔ تو چاہے اس جہان میں اجر دے، چاہے اگلے جہان میں رکھے، جو نیکیاں ہیں ان کا تو دونوں جہانوں میں اجر ملتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے زندگی میں ہی ایسے سلوک ہو جاتے ہیں جو فوری طور پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ اور اس کے فضل نظر آ رہے ہوتے ہیں جس سے احساس ہوتا ہے کہ شاید یہ فضل فلاں وجہ سے ہوا ہے۔ اور جب کبھی ایسا موقعہ ہو تو ایسے موقعوں پر اللہ تعالیٰ کے حضور اور جھکنا چاہئے۔ کسی قسم کی بڑائی دل میں نہیں آنی چاہئے بلکہ عاجزی میں ترقی ہونی چاہئے۔ مزید پڑھیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کے چند نمونے