جیسا کہ حدیث میں آیا کہ جہاں مزاج کے مطابق بات نہ ہو۔ اس مجلس سے اٹھ جانا چاہئے۔ جہاں صرف شور شرابا اور ’ہُوہا ‘ہورہا ہے۔ بلا وجہ غل غپاڑا مچایا جارہاہے۔ یہاں نوجوانوں میں اکثر بلا وجہ شور مچانے کی عادت ہے۔ پھر غلط قسم کی لڑکوں اور لڑکیوں کی دوستیاں ہیں تو ان سے ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ بچیں ان لوگوں میں تو یہ عادت اس وجہ سے بھی ہے کہ ان کو دین کا پتہ کچھ نہیں، ان کادین کا خانہ خالی ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مزے کا نہیں پتہ، اس لئے وہ اپنی باتوں میں، اس شور شرابے میں، سکون اور سرور تلاش کررہے ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے نوجوانوں کو ہمارے لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ سے ملنے کے راستے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانے میں سکھاد یئے ہیں۔ اس لئے ہمیشہ ایسی مجلسیں جو لہو و لعب کی مجلسیں ہوں، فضول قسم کی مجلسیں ہوں اور تاش اور ناچ گانے وغیرہ کی مجلسیں ہوں، شراب وغیرہ کی مجلسیں ہوں، ان سے بچتے رہنا چاہئے۔ …ایسی مجلسوں سے ہمیشہ بچنا چاہئے جو دین سے دور لے جانے والی ہوں، جو صرف کھیل کود میں مبتلا کرنے والی ہوں۔ ایسی مجلسیں جواللہ تعالیٰ سے دُور لے جانے والی مجلسیں ہیں وہ یہی نہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ سے دور لے جاتی ہیں بلکہ بعض دفعہ مکمل طور پر، بعض دفعہ کیا یقینی طور پر انسان کی ہلاکت کا سامان پیدا کردیتی ہیں۔ اس لئے ہمیشہ ایسی مجالس کی تلاش رہنی چاہئے جہاں سے امن و سکون اور سلامتی ملتی ہو۔ تو سلامتی والی مجالس کیسی ہیں۔ اس بارے میں ایک روایت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کسی نے حضورﷺ سے پوچھا کہ ہم نشیں کیسے ہوں۔ کن لوگوں کی مجلس میں ہم بیٹھیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا ’’مَنْ ذَکَّرَکُمُ اللّٰہَ رُؤْیَتُہٗ وَزَادَ فِیْ عِلْمِکُمْ مَنْطِقُہٗ وَذَکَّرَ کُمْ بِالْآخِرَۃِ عَمَلُہٗ‘‘یعنی ان لوگوں کی مجلس میں بیٹھو جن کو دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے اور جن کی گفتگو سے تمہارا دینی علم بڑھے اور جن کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔ (ترغیب) تو ایسی مجالس سے ہی سلامتی ملتی ہے جہاں ایسے لوگ ہوں جہاں خدا کا ذکر ہورہا ہو، اس کے دین کی عظمت کی باتیں ہورہی ہوں۔ ایسے مسائل پیش کئے جارہے ہوں اور ایسی دلیلیں دی جارہی ہوں جن سے انسان کا اپنا دینی علم بھی بڑھے اور دعوت الی اللہ کے لئے دلائل بھی میسر آئیں۔ اور قرآن کریم کا عرفان بھی حاصل ہورہا ہو۔ اور ایسی باتیں ہوں جن سے صرف اس دنیا کی چکا چوند ہی نہ دکھائی دے بلکہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس دنیا کو چھوڑ کر بھی جانا ہے۔ اس لئے ایسے عمل ہونے چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہوں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب کوئی قوم مسجد میں کتاب اللہ کی تلاوت اور باہم درس وتدریس کے لئے بیٹھی ہو تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے۔ رحمت باری ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے جلو میں لے لیتے ہیں۔ (سنن الترمذی کتاب القراءت باب ما جاء ان القرآن انزل علی سبعۃ أحرف) تو ایسی نیک مجالس ہیں جو سلامتی کی مجلسیں ہیں۔ ان میں عام گھریلو مجالس، اجتماعات، اور جلسے بھی ہوسکتے ہیں۔ جماعت احمدیہ خوش قسمت ہے کہ اس میں ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کی وجہ سے اس قسم کے مواقع میسر آتے رہتے ہیں۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍جولائی ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍جولائی ۲۰۰۴ء) مزید پڑھیں: کیا کسی چیز کو تبرک کروانا شرک ہے؟