انسانی معاشرت کی اساس، باہمی تعلقات کے حسن و جمال پر استوار ہے اور یہ تعلقات اِس وقت حقیقی معنوں میں نتیجہ خیز و ثمر بار بنتے ہیں جب اِن کی بنیاد عدل، رحم، ایثار، ہمدردی اور خالص خیر خواہی پر قائم ہو۔ شریعتِ محمدیﷺ نے نہ صرف بندے کے ربّ سے تعلق کو مرکزِ توجّہ بنایا بلکہ اِسی شدّت وتاکید سے حقوق العباد کو بھی دینی و روحانی ارتقاء کا ناگزیر جزو قرار دیا۔ دراصل حقوق العباد وہ آئینہ ہیں۔ جس میں انسان کے اخلاقی وقار، روحانی بالیدگی اور سیرت کی لطافت کا عکس جھلکتا ہے۔ یہ وہ دائرہٴ عمل ہے جہاں نفس کی خود غرضیاں مٹتی ہیں۔اور انسان مخلوقِ خدا کے لیے سراپا رحمت بن کر ابھرتا ہے۔حقوق العباد دراصل وہ کسوٹی ہیں جس پر بندے کی دینداری،تقویٰ اور خداشناسی کو پرکھا جاتا ہے۔ عبادات کی کثرت، وظائف کی پابندی اور شب بیداری کے لمحات بھی اُس وقت بےنوروبے وزن ہوجاتے ہیں جب دل خلقِ خدا کی محبت و خدمت سے خالی ہو۔ قرآنِ کریم کی تعلیمات ہوں یا ارشاداتِ نبویﷺ،ہر مقام پر یہ بات آشکار ہے کہ جس نے بندوں کے حقوق پامال کیے گویا اُس نے اپنے ربّ کی رضا کو خالصتاً نظر انداز کردیا۔ یہی وہ جہت ہے جہاں دین رسمی ظاہریت سے نکل کر علمی اخلاص اور مجسّم ہمدردی کی صورت اختیار کرتا ہے۔یقیناً حقوق العباد کا موضوع دینِ اسلام کی نہایت اہم اور لطیف جہت ہے۔ وہ محض اخلاقی اور سماجی ضابطہ نہیں۔ بلکہ ایک روحانی فرض ہے۔ جس کی ادائیگی ایمان کے کمالات میں داخل ہے۔ قرآنِ کریم بار بار انسان کو اِس حقیقت کی طرف توجہ دلاتاہے کہ بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک، عدل و رحم پر مبنی برتاؤ رضائے باری تعالیٰ کے حصول کاذریعہ ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے:وَاعۡبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنِ وَالۡجَارِذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡجَارِ الۡجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِیۡلِۙ وَمَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا (النسآء : ۳۷ ) اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔یہ جامع آیتِ ربّانی انسان کو توحیداور ایمان کے ساتھ ساتھ والدین، اقرباء، یتیموں، مساکین اور ہمسایوں کے حقوق ادا کرنے کا درس دیتی ہے۔ گویا خدا کی عبادت اُس وقت مکمل رنگ اختیار کرتی ہے۔جب بندہ مخلوقِ خدا کے ساتھ حسنِ سلوک اور ایثار کی روش اپنا تا ہے۔ حدیثِ نبویﷺ میں حقوق العباد کی اہمیت کو نہایت پُرزور انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک حدیثِ قدسی میں فرمایا گیا ہےکہمخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ ہے جو اُس کے کنبے کے لیے سب سے زیادہ نفع رساں ہو۔ ( مشکوٰة المصابیح )یہ حدیث ہمیں ایک عظیم روحانی حقیقت سے روشناس کرواتی ہے کہ خدا کا قرب محض انفرادی ریاضت یا رسمی عبادات سے نہیں بلکہ اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اپنی ذات کو خلقِ خدا کی خدمت اور اِن کے دکھوں کے مداوےکےلیے وقف کردے۔ دراصل یہ وہ نقطہٴ آغاز ہے جہاں دین محض عبادات کا مجموعہ نہیں رہتابلکہ زندہ اخلاق و اعلیٰ کردار کا عملی نمونہ بن جاتا ہے۔جب ہم حقوق العباد کی وسعت و رفعت کا عمیق نظریاتی و عملی جائزہ لیتے ہیں۔ تو یہ حقیقت نہایت جمالیاتی انداز میں منکشف ہوتی ہے۔ کہ یہ صرف چند مخصوص تعلقات یا رشتہ داریوں تک محدود نہیں۔ بلکہ ایک ہمہ گیر دائرہ ہے جو ہر اُس فرد کو محیط کرتا ہے جس سے انسان کسی بھی طرح کے سماجی،اخلاقی یا انسانی تعلق میں ہو۔ قرآنِ مجید اور سنّتِ مطہرہ نے نہایت لطیف مگر پُراثر انداز میں اِن طبقات کی نشان دہی فرمائی ہے۔ جن کے حقوق کی ادائیگی ہر مومن پر فرض ہے۔ یہ حقوق محض ظاہری حسنِ سلوک پر منحصر نہیں۔ بلکہ قلبی اخلاص، نیّت کی پاکیزگی اور عمل کی سچائی سے جڑے ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے شرائطِ بیعت کی نویں شرط میں فرمایا:’’ یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا۔ اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔ ‘‘ ( مجموعہ اشتہارات، جلد اوّل، صفحہ ۲۰۷ ) اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں انسان اشرف المخلوقات ہے۔ پس وہ حقیقی انسان اُس وقت بنتا ہے جب حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجّہ پیدا کرے۔سب سے پہلا اور بنیادی حق ماں باپ کا ہے۔ قرآنِ کریم نے والدین سے حسنِ سلوک بلکہ کامل درجے کے احسان پرزوردیا ہے۔ یعنی اُن کی نافرمانی، اُن پراونچی آواز یا اُن کے دل کو ٹھیس پہنچانا بھی روحانی خسارے کا باعث بن سکتا ہے۔ انہیں ہر وقت اس دعارَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا (بنی اسرائیل: ۲۵ ) میں یاد رکھنا چاہیے۔پھر حقوق العباد میں شریک دوسرا اہم حلقہ زوجین کا ہے۔ جن کے باہمی ربط و رشتہ کو ’’ مِّیۡثَاقًاغَلِیۡظًا ‘‘ ( النسآء: ۲۲ ) یعنی ایک نہایت مضبوط عہد قرار دیا گیا ہے۔ مرد و عورت کے درمیان محبت، وفا، ایثار، پردہ پوشی اور باہمی احترام پر مبنی تعلق ہی دراصل دین کی روح کو مجسّم کرتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’ جب مرد وعورت ایک دوسرے کے رحمی رشتوں سے حسنِ سلوک کر رہے ہونگے۔ اِن کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے تو ظاہر ہے کہ میاں بیوی دونوں میں آپس میں بھی محبت و پیارکا تعلق خود بخود بڑھے گا۔ ‘‘( خطبہ جمعہ ۲۳ /جنوری۲۰۰۴ء، الفضل انٹرنیشنل،۱۳/ فروری۲۰۰۴ء،صفحہ ۱۰ )اسی طرح اولاد کے حقوق محض تعلیم وتربیت یا نان نفقہ تک محدود نہیں۔ بلکہ ان کے لیے ایک ایسا ماحول فراہم کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ جہاں وہ دینی شعور، روحانی فہم اور اخلاقی رفعت کے ساتھ پروان چڑھیں۔حضرت مسیحِ موعودؑ فرماتے ہیں: ’’ پس خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لیے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاوٴ۔اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لیے سعی اور دعا کرو۔ ‘‘( ملفوظات جلد۸، صفحہ ۱۰۹،ایڈیشن ۱۹۸۴ء)اسی کے ساتھ رشتہ داروں، ہمسایوں، یتیموں، مساکین، مزدوروں، ملازمین، اساتذہ، شاگردوں، مریضوں حتّٰی کہ راستے میں چلنے والے اجنبیوں تک،ہر فرد کے لیے مخصوص حقوق واضح ہیں۔ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اُس کی مزدوری ادا کرنے کا حق فخرِ دوجہاں کی عقیدت کو واضح کرتا ہے۔ علاوہ ازیں معاشرے میں موجود کمزور طبقات یتیم، بیوہ، مسکین، معذور، قیدی، مظلوم وغیرہ سب کے حقوق پردین اسلام نےزوردیاہے۔یہ صرف امداد یا خیرات تک محدود نہیں۔ بلکہ اِن کے وقار کی بحالی، اُن کےحقوق کی پاسداری اور اُن کے احساسات کی قدرو منزلت کی طرف بھی خاص توجہ دلائی ہے۔ تاجر کا حق دیانت ہے۔ خریدار کا حق عدل، طالب علم کا حق علم وشفقت، استاد کا حق تعظیم، راہگیر کا حق سکون و سلامتی حتّیٰ کہ جانوروں کا بھی حق شفقت و رحم ہے۔ ہر وہ دل جو دھڑک رہا ہے، ہر وہ آنکھ جو کسی خواب کی متلاشی ہے۔ ہر وہ روح جو معاشرتی ستم کی گرد میں دَب چکی ہے۔ اسلام اُسے ایک محترم وجود قرار دیتا ہے۔ جس کے ساتھ نرمی، محبت اور عدل و رحم سے پیش آنا نہ صرف ہمارے اخلاقی فرائض میں شامل ہے بلکہ ان کےبارےمیں ہم سےبازپرس بھی کی جائے گی۔پس حقوق العباد ایک ہمہ گیر منشورِ حیات ہے جس کی بجاآوری قربِ خداوندی کاباعث بنتی ہے۔ جب حقوق العباد کو نظر انداز کیا جا تا ہے۔ تو معاشرہ افراتفری کاشکارہوجا تاہےاُس کی روحانی اساس، اخلاقی مرکزیت اور باطنی توازن یکسر زائل ہو جاتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں بغض و عناد، حسد و کینہ اور انتقام و نفرت کی آندھیاں چلنے لگتی ہیں۔جب والدین کے حقوق کو پامال کیا جا تا ہے۔ تو نسلِ نو تربیتی خلا کا شکار ہو کر باغی، بد خلق اور نافرمان بن جاتی ہے۔ شوہر و بیوی کے مابین حقوق کی عدم ادائیگی خانگی زندگی کو اجیرن بنا دیتی ہے۔ نتیجۃ ًخاندان جو کہ معاشرے کی اکائی ہے۔ انتشار و شکستگی کی نذر ہو جا تا ہے۔ ہمسایہ، استاد، طالب علم، مزدور، غریب سب اگر اپنے اپنے حقوق سے محروم کیے جائیں تو معاشرہ ایک ایسی بے حس و سنگدل اکثریت میں بدل جاتا ہے۔ جہاں کسی کی فریاد، فریاد نہیں رہتی، بلکہ ایک بوجھ بن جاتی ہے۔آئیے! ہم ایک نئے عزم ایک نئے اخلاص اور ایک نئی روشنی کے ساتھ اپنی زندگیوں کو حقوق العباد کے آئینہ میں پرکھیں۔ اپنے گھروں، محلوں، معاشروں اور اداروں میں عدل، محبت، خدمت، رحم اور احترام کا ایسا چراغ روشن کریں جو تاریکیوں کو نگل جائے اور روشنیوں کی ایک نئی صبح کی بشارت بنے۔ یہی وہ فکری و عملی انقلاب ہے جو ایک فرد کو انسانِ کامل بنا تا ہے۔ اور ایک قوم کو رحمة للعالمینﷺ کی حقیقی اُمّت بننے کا شرف عطا کرتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ خدا ہم سے راضی ہو، ہماری دعائیں سنی جائیں، ہمارے اعمال مقبول ہوں اور ہمارے معاشرے امن، عدل اور اخوّت کے گلزار بن جائیں۔ تو ہمیں اللہ کےبندوں کے حقوق کی ادائیگی کو اپنی اوّلین ترجیح بنانا ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطافرمائے۔آمین مخلوق پہ شفقت ہو، ہراک سے مروّت ہومعمور ہو دل ہر دم خالق کی محبت سے( درِّعدن) مزید پڑھیں:حقوق اللہ کےساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی اہمیت