https://youtu.be/_fS7iswAsBw امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کیا کرو(النساء:۵۹) اللہ تعالیٰ کی مخلوق، دنیا کا نظام چلانے کے لیے مختلف قسم کے نظامِ حکومت دنیا میں چلارہی ہے۔ اُ ن میں زیادہ مشہور معروف نظام بادشاہت یا جمہوریت کا نظام ہے۔بادشاہت کے نظام میں ووٹ کی کوئی قدرواہمیت نہیں اور نہ ہی ووٹرکو ووٹ کے لیے پرچی کو ڈبے میں ڈ النے کی زحمت دی جاتی ہے اور نہ ہی اہلیت والوں کی کوئی قدر و منزلت ہوتی ہے۔ اس نظام میں ورثا ہی لیاقت، قابلیت اور اہلیت کے وارث سمجھے جاتے ہیں اور اقتدار کی طاقت ان کے ہاں ہی گردش کرتی رہتی ہے۔ لیکن جمہوریت کا نظام عوام کے ووٹ کی طاقت پر چلتا ہے اوراس میں تبدیلی بھی ووٹ کے ذریعہ ہی لائی جاتی ہے اورعنانِ اِقتِدارووٹ کا ہی مرہون منت سمجھا جاتا ہے۔لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ووٹ کی اہمیت ختم ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔کبھی تو یہ ہوتا ہے کہ Votingسے پہلے ہی Voting box بھرلیے جاتے ہیں اور اپنے من پسند امیدوار کو اقتدار سونپ دیا جاتاہے۔ جس کے ذریعہ سے ملکوں کا نظام نااہل اورنالائق لوگوں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ جس سے بے چینی اور بے سکونی معاشرے میں پیدا ہو جاتی ہے اورنظام عدل کو شدید دھچکا لگتا ہے۔ آجکل کے جمہوریت کے نظام کے ذریعہ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ہوس اِقتدارمیں پھر امیدواران کی منڈیاں لگتی ہیں، ووٹ بکتے ہیں اور طاقت کے زور پرووٹ حاصل کرلیے جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے ووٹ لاوارث و یتیم ہو جاتا ہے۔یوں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی مثال صادق آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔یہ نظارہ بھی چشم فلک نے دیکھا کہ ووٹ کی اس قدر تذلیل کر دی جاتی ہے کہ عدل کے فرسودہ نظام اور طاقت کے زورپر ایک ٹھوکر سے پوری کی پوری منتخب اسمبلی کو dismiss اور برخاست کرکے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ ان دو نظاموں کے علاوہ ایک اَور نظام بھی اس کرۂ ارض پر چھا رہا ہے۔اور پوری دنیا میں ایک جیسا اور ایک ہی طرح کام کرتا ہے۔ یہ نظام نبی کریمﷺ کی پیشگوئی کے مطابق خلافت علیٰ منہاج نبوت کے تابع اوراُن ہی کے ارشادات کی روشنی میں رواں دواں ہے۔اس نظام کے تحت بھی ووٹ کا اختیار اس نظام میں شامل افراد کو دیا جاتا ہے لیکن فرق صرف یہ ہے کہ عہدیداران کی آخری منظوری اس نظام کے روحانی لیڈریا اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ جو کہ حاکم بالا اور سب بادشاہوں سے بڑا بادشاہ اور حاکموں سے بڑا حاکم ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے:فَالۡحُکۡمُ لِلّٰہِ الۡعَلِیِّ الۡکَبِیۡرِ۔(المومن : ۱۳) یعنی سب حکومت عالی شان، وسیع مملکت والے اللہ ہی کی ہے۔ اُس نے دنیا کا نظام چلانے کے لیے لوگوں کو بھی اپنے حاکم یاعہدیدار چننے کا اختیار تو دیا ہےلیکن چند ایک شرائط کے ساتھ۔ اُن میں سب سے پہلی اور بڑی شرط یہ ہے کہ جس کو ووٹ کے ذریعہ امین یا عہدیدار بنا یا جا رہاہے وہ اس عہدے کا اہل ہو۔جیسا کہ فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا (النساء: ۵۹) یقیناً اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کیا کرو۔اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے امانت کا لفظ استعمال کیا ہے اور ووٹ بھی ایک امانت ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے دوسرے حصّے میں عہدیداران کو بھی ان الفاظ میں نصیحت فرمائی ہے:وَاِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِؕاِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ بِہٖ۔ (النساء: ۵۹) یعنی (اے عہدیدارو ) جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔ یقیناً بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آیت میں ووٹر اورعہدیدارکو ایک ایسی نصیحت کردی جو کہ سب نصائح کی کلید ہے۔یعنی ووٹر کو حکم دیا کہ وہ اہلیت کی بنا پراپنا ووٹ دےاور حاکم،امیریا عہدیدار کو یہ نصیحت کی کہ وہ ہمیشہ عدل و انصاف کے ترازو کابول بالا رکھے۔بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے اور بھی ہدایات قرآن پاک کے ذریعہ ووٹرز اور عہدیداران کی راہنمائی کے لیے بیان فرمائی ہیں۔اسی طرح آنحضرتﷺ نے بھی مختلف اوقات میں اپنے صحابہ کرام کو دنیا کا نظام احسن رنگ میں چلانے کے لیے نصائح کیں۔ اسی طرح اس زمانے کے امام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفائے کرام نے دنیا والوں کو عام طورپراور اپنی جماعت کو خاص طورپرجماعتی یا دوسرے عام انتخابات میں حصہ لینے والوں اور عہدیداروں کے لیے مختلف النو ع نصائح سے نوازا۔ان نصائح میں سےکچھ یہاں درج کی جارہی ہیں۔ ووٹ دہندہ اور ووٹ کنندہ کو رسول خداﷺ کی نصائح ایک بڑی نصیحت رسول خداﷺ نے ان الفاظ میں کی کہ الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ۔یعنی جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین بن کر مشورہ دے۔ یعنی سوچ سمجھ کرووٹ کا حق استعمال کرے۔یہ بھی ضروری ہے کہ اُس کو ووٹ دے جو اُس کی قابلیت رکھتا ہےاوراُس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال نہ کرے جو ووٹ کے ذریعہ کوئی عہدہ لینے کا خواہش مند ہو۔جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: لَنْ أَوْ لَا نَسْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ۔(صحيح البخاري، كِتَاباسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ…) یعنی ہم اُس کو کوئی عہدہ نہیں دیتے جو اُ س عہدے کا خواہشمند ہو۔اور ایک جگہ آپؐ نے عبدالرحمٰن بن سمرہ کواس طرح نصیحت فرمائی: اے عبدالرحمٰن !کبھی کسی امارت (یا عہدہ) کی خواہش نہ کرنا۔ہاں ! اگر تمہیں بغیر مانگے مل جائے تو تمہاری مدد کی جائے گی(یعنی اللہ تعالیٰ کی معاونت ساتھ ہوگی) اور اگر تمہارے کہنے پر تمہیں کوئی عہدہ دے دیا گیاتو اس کے کام کا سارا بوجھ تمہارےکاندھوں پر ڈال دیا جائے گا۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال نہیں ہو گی)۔(صحيح البخاري، كِتَاب كَفَّارَاتِ الْأَيْمَانِ…)اسی طرح ہمارے پیارے رسول کریمﷺ نے انذار کرتے ہوئے ان الفاظ میں ڈرایا:إِنَّكُمْ سَتَحْرِصُوْنَ عَلَى الْإِمَارَةِ، وَإِنَّهَا سَتَكُوْنُ نَدَامَةً وَحَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔(سنن نسائي، كتاب آداب القضاة،: النَّهْىِ عَنْ مَسْأَلَةِ الإِمَارَةِ)عنقریب تم لوگ امارت کی تمنا کرو گے لیکن وہ امارت تمہارے لیے قیامت کے دن شرمندگی اور افسوس کا موجب ہوگئی۔اسی طرح قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی آنحضرت ﷺ نے یہ بھی بیان فرمائی کہ جب نا اہل حکمران بنائے جائیں گے جیسا کہ فرمایا: جب امانتیں ضائع ہونی شروع جائیں تو اُس وقت قیامت کے منتظر رہنا۔آپﷺ سے پوچھا گیاکہ اے اللہ کے رسولؐ!امانتیں کیسے ضائع کی جائیں گی؟ تو آپؐ نے جواباً فرمایا : جب نااہل لوگوں کو معاملات سپرد کر دیے جائیں گے۔(یعنی نا لائق حکمران ہوں گے) تو اُ س وقت قیامت کا انتظار کرنا۔(بخاری۔کتاب الرقاق) بشارتوں والے نبی پاکﷺنےایسے عہدیدار کے لیے فرشتوں کے ذریعہ مدد کی بشارت بھی دی۔جس کو عہدہ بن مانگے مل جائے اور وہ اُس کا حق ادا کرے۔ جیسا کہ فرمایا: مَنْ سَأَلَ الْقَضَاءَ وُكِلَ إِلَى نَفْسِهِ وَمَنْ جُبِرَ عَلَيْهِ نَزَلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَسَدَّدَهُ۔(سنن ابن ماجه كتاب الأحكام)یعنی جس نےقضاء کا عہدہ مانگا،تو وہ اس کے نفس کے (خواہش کے مطابق) سپرد کر دیا جائے گا۔ لیکن (جس کو بغیر خواہش کے)یعنی مجبور کرکے دیا گیا تو فرشتہ کے ذریعہ اُ س کی راہنمائی کی جائی گی۔ عہدیدار یا امیر کے لیے نبی کریم ﷺ کی نصائح اورانذار نبی کریمﷺ نے امیریا عہدیدار کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ، فَالْاَمِیْرُ الَّذِی عَلَی النَّاسِ رَاعٍ عَلَیْھِمْ وَ ھُوَ مَسْؤُوْلٌ عَنْھُمْ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الخراج والامارۃ والفیٔ، باب مایلزالامام من حق الراعیۃَ) تم میں سے ہر ایک راعی یعنی نگران ہےاور اُس سےاس کی رعیت (جس کی نگرانی اس کے سپرد ہے) کے بارے پوچھا جائے گا۔اور جس کو لوگوں کا امیر بنا دیا جائے وہ ا ن پر نگران ہے اوراس سے ان کی نگرانی کے بارے پوچھا جائے گا۔ مزید برآں نبی کریمﷺ نےایک حدیث میں یہ بھی فرمایا:مَا مِنْ أَمِيْرٍ يَلِی أَمْرَ الْمُسْلِمِيْنَ، ثُمَّ لَا يَجْهَدُ لَهُمْ وَيَنْصَحُ، إِلَّا لَمْ يَدْخُلْ مَعَهُمُ الْجَنَّةَ (صحیح مسلم، کتاب الامارہ)یعنی جس شخص کو مسلمانوں کا نگران بنا یاجائے اوروہ اپنے فرائض کو نبھانے کے لیے نہ تو پوری کوشش کرے اورنہ ہی( لوگوں کو) نصائح کرے، تو ایسا شخص ان لوگوں (یعنی جنتیوں) کےساتھ جنّت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عوف بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تمہارے بہترین سردار وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں۔ تم ان کے لیے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں۔ تمہارے بد ترین سردار وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں۔ تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں۔ راوی کہتا ہے کہ اس پر ہم نے آنحضرتﷺ سے عرض کیا کہ ہم ایسے سرداروں کو ان سے جنگ کر کے ہٹا کیوں نہ دیں۔ آپؐ نے فرمایا :نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے ہیں اس وقت تک کوئی ایسی بات نہیں کرنی۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب الانکار علی الامراء فیما یخالف الشرع) ایک حدیث میں آنحضرت ﷺقیامت سے قبل حکمرانوں یاعہدیداروں کا نقشہ کھینچتے ہوئے تنبیہ فرماتے ہیں:قَبْلَ السَّاعَةِ سِنُوْنَ خَدَّاعَةٌ، يُكَذَّبُ فِيْهَا الصَّادِقُ، وَيُصَدَّقُ فِيْهَا الْكَاذِبُ، وَيُخَوَّنُ فِيْهَا الْأَمِيْنُ، وَيُؤْتَمَنُ فِيْهَا الْخَائِنُ۔(مسند احمد،مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ)یعنی قیامت سے قبل لوگوں پر دھوکہ دہی کے سال آئیں گے۔جس میں جھوٹےشخص کو سچا اور سچے کو جھوٹاسمجھا جائے گا۔خیانت کرنے والے کو امین اور امین کوخیانت کرنے والاسمجھا جائے گا۔ عہدہ ایک امانت ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام امانتوں اور عہدوں کی حفاظت کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’مومن وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت رکھتے ہیں یعنی ادائے امانت اور ایفائے عہد کے بارے میں کوئی دقیقہ تقویٰ اور احتیاط کا باقی نہیں چھوڑتے‘‘۔ ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱،صفحہ ۲۳۹-۲۴۰) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:’’عہدہ ایک امانت ہے اس لیے تمہاری نظر میں جو بہترین شخص ہے، اُس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرو۔ ووٹ دینے سے پہلے یہ جائزہ لو کہ آیا یہ اس عہدہ کا اہل بھی ہے کہ نہیں۔ جس کے حق میں تم ووٹ دے رہے ہو یا ووٹ دینا چاہتے ہووہ اس عہدہ کا حق ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے یا نہیں؟…یہ نہیں کہ یہ شخص مجھے پسند ہے تو اُسے ووٹ دیا جائے۔ یا فلاں میرا عزیز ہے تو اُسے ووٹ دیا جائے۔ یا فلاں میرا برادری میں سے ہے، شیخ ہے، جٹ ہے، چوہدری ہے، سیّد ہے، پٹھان ہے، راجپوت ہے، اس لیے اُس کو ووٹ دیا جائے۔ کوئی ذات پات عہدیدار منتخب کرنے کی راہ میں حائل نہیں ہونی چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۳ء،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍مئی ۲۰۱۳ء) پھر فرمایا: ’’صرف اس لیے کسی کو عہدیدار نہ بنائیں کہ وہ آپ کا عزیز ہے یا دوست ہے… عزیز اور دوست ہونے کی وجہ سے اس کو عہدیدار بنانے کی کوشش کی جائے تو یہ ہے امانت کے حقدار کو امانت کو صحیح طرح نہ پہنچانا۔ اس نیت سے جب انتخابات ہوں گے کہ صحیح حقدار کو یہ امانت پہنچائی جائے تو اس میں برکت بھی پڑے گی، انشاء اللہ۔اور اللہ سے مدد مانگنے والے، نہ کہ اپنے اوپر ناز کرنے والے، اپنے آپ کو کسی قابل سمجھنے والے عہدیدار اوپر آئیں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍اگست ۲۰۰۳ء،خطبات مسرورجلد اول صفحہ۲۲۹) عہدیدار کے انتخاب کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا فرمایا:’’اللہ تعالیٰ جواب طلبی صرف عہدیدار کی نہیں کرتا،کہ کیوں تم نے صحیح کام نہیں کیا۔ بلکہ ووٹ دینے والے بھی پوچھے جائیں گےکہ کیوں تم نے رائے دہی کا اپنا حق صحیح طور پر استعمال نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں یہ فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا۔ (النساء: ۵۹) کہ اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے۔یہ ووٹ ڈالنے والوں کے لیے بھی ہے کہ اگر تمہیں کسی کے بارے میں صحیح معلومات نہیں تو خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے خدا! تیری نظر میں جو بہترین ہے، اُسے ووٹ ڈالنے کی مجھے توفیق عطا فرما۔ اور نیک نیتی سے کی گئی اس دعا کو خدا تعالیٰ جو سمیع و بصیر ہے، وہ سنتا ہے…پس مَیں پھر افرادِ جماعت کو، جنہوں نے اپنے عہدیدار منتخب کرنے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے، اُن کے حق میں رائے دیں جو دونوں طرح کی امانتوں اور عہدوں کا حق ادا کرنے والے ہوں‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۳ء،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍مئی ۲۰۱۳ء) ایک اور مقام پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ووٹ دہندہ اور ووٹ کنندہ کو نصیحت کر تے ہوئے فرماتے ہیں:’’ہر عہدیدار انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ سے دعا مانگے کہ وہ اسے ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہر فرد جماعت یہ دعا کرے کہ جو عہدیدار منتخب ہوئے ہیں وہ ہمیشہ اس امانت کے ادا کرنے کے حق کو اس کے مطابق ادا کرتے رہیں۔ اور کبھی کوئی مشکل نہ آئے، کبھی کوئی ابتلاء نہ آئے جو عہدیدار اور افراد جماعت کے لیے کسی بھی قسم کی ٹھوکر کا باعث بنے۔ اگر اللہ تعالیٰ سمجھتا ہے کہ یہ عہدیدار جو انہوں نے منتخب کیا ہے وہ پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا نہیں کر رہا، تواللہ تعالیٰ خود ہی ایسے انتظامات فرمائے کہ اسے بدل دے تاکہ کبھی نظام جماعت پر بھی کوئی حرف نہ آئے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اس طرح دونوں مل کر دعاکرو گے،تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس نیک نیت سے کی گئی دعاؤں کو سنے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کے لیے اور دین کی خدمت کرنے والوں پر بڑی گہر ی نظر ہوتی ہے۔ وہ بڑی گہری نظر رکھتا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے، وہ دلوں کا حال جانتا ہے۔ وہ اس درد کی وجہ سے جو تمہارے دل میں ہے ہمیشہ بہتری کے سامان پیدا فرماتا رہے گا اور ہمیشہ تمہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط رکھے گا‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍دسمبر ۲۰۰۴ء، الفضل انٹرنیشنل ۱۴جنوری ۲۰۰۵ء) عہدوں کا حق ادا کرنے کے لیے صحیح افراد کا انتخاب بھی بہت ضروری ہے فرمایا:’’جماعت کے انتظامی ڈھانچے کو صحیح رنگ میں چلانے کے لیے جہاں یہ انتخابات ضروری ہیں، وہاں اس کام کو احسن رنگ میں آگے بڑھانے کے لئے، عہدوں کا حق ادا کرنے کے لیے صحیح افراد کا انتخاب بھی بہت ضروری ہے۔ اور یہ ایسا اہم امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس امر کی طرف مومنین کو توجہ دلائی ہے اور تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ تمہیں کس قسم کے عہدیداران منتخب کرنے چاہئیں اور عہدیداروں کو توجہ دلائی کہ صرف عہدے لینا کافی نہیں،بلکہ اس کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے اور حق ادا نہ کرنے کی صورت میں تم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بنتے ہو‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۳ء،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍مئی ۲۰۱۳ء) اسی طرح صحیح افرادکے انتخاب کاذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ ا للہ فرماتے ہیں: ’’پہلی بات تو یہ کہ عہدیدار چننے والوں کو فرمایا کہ عہدے اُن کو دو، اُن لوگوں کو منتخب کرو جو اس کے اہل ہوں۔ اس قابل ہوں کہ جس کام کے لیے انہیں منتخب کر رہے ہو وہ اس کو کر سکیں، وقت دے سکیں۔ یہ نہیں کہ چونکہ تمہارے تعلقات ہیں، اس لیے ضرور اس عہدے کے لیے اسی کو منتخب کرنا ہے یا ضرور اسی کو اس عہدے کے لیے ووٹ دینا ہے۔ اس میں ایک بہت بڑی ذمہ داری چناؤ کرنے والوں پر، منتخب کرنے والوں پر ڈالی گئی ہے۔ اس لیے جو ووٹ دینے کے جماعتی قواعد کے تحت حقدار ہیں، ہرممبر تو ووٹ نہیں دیتا۔ جو بھی ووٹ دینے کا حقدار ہے ان کو ہمیشہ دعا کر کے فیصلہ کرنا چاہئے کہ جو بہتر ہو اس کو ووٹ دے سکے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل ۱۴؍جنوری۲۰۰۵ء) عہدیداران کو انصاف پسند ہونا چاہیے فرمایا:’’عدل کی مختلف صورتیں ہیں اور اس بارے میں قرآنِ کریم میں مختلف جگہوں پر تفصیلی احکامات بھی ہیں۔ اس گواہی کو جو قریبیوں کے بارے میں دی جانی ہے، اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ مزید کھول کر بیان فرمایا ہے۔جس میں قریبی ہی نہیں بلکہ خود گواہی دینے والے کو بھی شامل فرمایا ہے۔ اور والدین کو بھی شامل فرمایا ہے۔ سورۃ نساء کی آیت۱۳۶ ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَٓاءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ۔ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْفَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا۔ فَلاَ تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا۔ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا۔(النساء: ۱۳۶) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ، خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے، یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔ خواہ کوئی امیر ہو یا غریب، دونوں کا اللہ ہی بہتر نگہبان ہے۔ پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ یہ نہ ہو کہ عدل سے گریز کرو۔ اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلو تہی کر گئے، تو یقیناً اللہ جو تم کرتے ہو، اُس سے بہت باخبر ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی (الانعام: ۱۵۳)اور جب تم کوئی بات کرو تو انصاف کی بات کرو۔ چاہے وہ شخص کتنا ہی قریبی ہو جس کے متعلق بات کی جا رہی ہے۔( خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍ اگست ۲۰۱۳ء، الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍اگست۲۰۱۳ء) پھرایک اورمقام پرعدل اور انصاف کے بارے میں فرمایا: ’’اگر عدل نہیں ہو گا، انصاف نہیں ہو گا، خویش پروری ہو گی یا قرابت داری کا لحاظ رکھا جائے گا۔یا ایک کارکن سے ضرورت سے زیادہ بازپرس اور دوسرے سے بلا ضرورت صَرفِ نظر ہو گی۔ تو انصاف قائم نہیں رہ سکتا۔ اور جب انصاف قائم نہ ہو تو پھر کام میں برکت نہیں پڑتی، پھر اچھے نتائج کے بجائے بدنتائج نکلتے ہیں۔ اسی طرح صرف کام کرنے والوں کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ ہر فردِ جماعت کے ساتھ انصاف پر مبنی تعلقات ہونے چاہئیں اور فیصلے اُس کے مطابق ہونے چاہئیں۔ یہ نہیں کہ فلاں شخص فلاں کا دوست ہے یا فلاں کا عزیز ہے یا فلاں خاندان کا ہے،تو اُس سے اَور سلوک اور دوسرے سے اَور سلوک۔ اگر یہ باتیں ہوں تو یہ چیزیں پھر جماعت میں بےچینی پیدا کرتی ہیں‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۳ء،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍مئی ۲۰۱۳ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تمام قویٰ کا بادشاہ،انصاف کو قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تمام قویٰ کا بادشاہ انصاف ہے۔ اگر یہ قوت انسان میں مفقود ہے تو پھر سب سے محروم ہونا پڑتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد ۲،صفحہ۳۷۳،۳۷۲، ایڈیشن۲۰۲۲ء) عہدہ بڑائی نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری ہے فرمایا:’’عہدے کوئی بڑائی نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ دعاؤں کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی ضرورت ہے۔…اللہ تعالیٰ جس طرح رائے دینے والے پر، ووٹ دینے والے پر گہری نظر رکھنے والا ہے، اُسی طرح عہدیدار پر بھی اُس کی گہری نظر ہے۔… پس یہ ہر اُس شخص کے لیے بہت خوف کا مقام ہے جس کے سپرد کوئی نہ کوئی خدمت کی جاتی ہے۔ لوگوں کو عہدوں کی بڑی خواہش ہوتی ہے۔ لیکن اگر اُن کو پتہ ہو کہ یہ کتنی بڑی ذمہ داری ہے اور اس کا حق ادا نہ کرنے پر خدا تعالیٰ کی ناراضگی بھی ہو سکتی ہے اور اُس کی گرفت بھی ہو سکتی ہے تو ہر عہدیدار سب سے بڑھ کر، دوسروں سے بڑھ کر دن اور رات استغفار کرنے والا ہو‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍مئی ۲۰۱۳ء صفحہ۶) عہدیدار ان کو متقی بننے کی کوشش کرنی چاہیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’خدا تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں ذکر فرمایا ہے۔وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ۔(المومنون:۹)… وہ حتی الوسع خدا اور اُس کی مخلوق کی تمام امانتوں اور تمام عہدوں کے ہر ایک پہلو کا لحاظ رکھ کر تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنے کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں تک طاقت ہے اُس راہ پر چلتے ہیں۔… لفظ رَاعُوْن جو اس آیت میں آیا ہے جس کے معنی ہیں رعایت رکھنے والے۔ یہ لفظ عرب کے محاورہ کے موافق اُس جگہ بولا جاتا ہے، جہاں کوئی شخص اپنی قوت اور طاقت کے مطابق کسی امر کی باریک راہ پر چلنا اختیار کرتا ہے اور اس امر کے تمام دقائق بجا لانا چاہتا ہےاور کوئی پہلو چھوڑنا نہیں چاہتا‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد ۲۱،صفحہ ۲۰۸،۲۰۷) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ تقویٰ کے مضمون کو یوں بیان فرماتے ہیں: ’’ایسے عہد یدار جو پورے تقویٰ کے ساتھ خدمت سر انجام دیتے ہیں اوردے رہے ہیں ان کے لیے ایک حدیث میں جو میں پڑھتا ہوں، ایک خوشخبری ہے۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مسلمان جو مسلمانوں کے اموال کا نگران مقر ر ہو ا، اگر وہ امین اور دیانتدار ہے اور جو اسے حکم دیا جاتا ہے اسے صحیح صحیح نافذ کرتا ہے اور جسے کچھ دینے کا حکم دیا جاتا ہے اسے پوری بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ اس کا حق سمجھتے ہوئے دیتا ہے۔ تو ایسا شخص بھی عملاً صدقہ دینے والے کی طرح صدقہ دینے والا شمار ہوگا۔(مسلم کتاب الزکٰوۃ، باب اجر الخازن الامین والمرأۃ) تو دیکھیں نیکی سے کس طرح نیکیاں نکلتی چلی جارہی ہیں۔ خدا کی جماعت کی خدمت کا موقع بھی ملا، خدا کی مخلوق کی خدمت کا موقع بھی ملا، حکم کی پابندی کرکے، امانت کی ادائیگی کرکے، صدقے کا ثواب بھی کمالیا۔ بلاؤں سے بھی اپنے آپ کو محفوظ کر لیا، اور اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہو گئی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۸؍اگست۲۰۰۳ء،مطبوعہ خطبات مسرور جلد اول صفحہ ۲۳۲،۲۳۱) عہدیداران جذبات پر قابو رکھنے والے ہوں فرمایا:’’اب یہ صرف طعن ہی تَلْمِزُوْا کا مطلب نہیں ہے۔ اس کے وسیع معنے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض عہدیدار اپنے جذبات پر بھی کنٹرول نہیں رکھتے۔ بعض دفعہ کام کے لیے آنے والوں کو یا اپنے ساتھیوں کو بھی ایسی باتیں سناتے ہیں، جو اُن کو جذباتی ٹھیس پہنچانے والی ہیں۔ اور پھر بعض دفعہ کمزور ایمان والے نہ صرف یہ کہ عہدیدار کے خلاف ہو جاتے ہیں بلکہ نظامِ جماعت سے بھی بددل ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’تَلْمِزُوْا‘‘۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس کے مختلف معنی ہیں۔ مثلاً دھکے دینا، کسی کو مجبور کرنا، مارنا یا کسی پر الزام لگانا، غلط قسم کی تنقید کرنا، کسی کی کمزوریاں اور کمیاں تلاش کرنا۔ غلط قسم کی باتیں کسی کو کہنا، یا کسی سے اس طرح بات کرنا جو اُسے بری لگے۔ پس اگر عہدیدار اِن باتوں کا خیال نہ رکھیں گے تو سوائے اس کے کہ جس شخص سے یہ سلوک کیا جا رہا ہو، اُس کے دل میں اُس عہدے دار اور نظامِ جماعت کے خلاف جذبات پیدا ہوں اور کیا ہو گا‘‘۔ ( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍مئی ۲۰۱۳ء) عہدیداران لغویات سے اپنے آپ کو بچائیں فرمایا:’’جن کے سپرد جماعتی ذمہ داریاں کی جاتی ہیں اُن کا سب سے بڑھ کر یہ کام ہے کہ :لغویات سے پرہیز کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔(المؤمنون: ۴) یعنی مومن وہ ہیں جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ اور مومنین میں سے جو بہترین ہیں اُن کا معیار تو بہت بلند ہونا چاہئے کہ وہ ہر طرح کی لغویات سے اپنے آپ کو بچائیں۔ نہ فضول گفتگو ہو، نہ ایسی مجلسیں ہوں جن میں بیٹھ کر ہنسی ٹھٹھا کیا جا رہا ہو۔ بعض عہدیداران بھی ہوتے ہیں جو آپس میں بیٹھتے ہیں اور دوسروں کے متعلق باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ ہنسی ٹھٹھا کیا جا رہا ہوتا ہے۔ پس ان سے بچنا چاہئے۔ اور نہ ہی ایسی مجلسوں میں عہدیداروں کو شامل ہونا چاہئے جہاں دینی روایات کا خیال نہ رکھا جا رہا ہو‘‘۔ ( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۳ء،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍مئی ۲۰۱۳ء) عہدیداران کو اپنے خلاف شکایت سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے فرمایا:’’پھر عہدیداروں میں جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر اپنے خلاف ہی شکایت ہو تو سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ ہمیشہ سچی بات کہنے سننے کرنے کی عادت ڈالیں۔ چاہے جتنا بھی کوئی عزیز یا قریبی دوست ہو ،اگر اس کی صحیح شکایت پہنچتی ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ اگر یہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے تو بہتر ہے کہ معذرت کر دیں۔ کہ فلاں وجہ سے مَیں اس کام سے معذرت چاہتا ہوں۔ کیونکہ کسی ایک شخص کا کسی خدمت سے محروم ہونا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ پوری جماعت میں یا جماعت کے ایک حصے میں بے چینی پیدا کی جائے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍ دسمبر۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۴جنوری ۲۰۰۵،صفحہ ۷) (باقی ہفتہ ۲۴؍مئی کو ان شاءاللہ) مزید پڑھیں: محترم سید میر محمود احمد صاحب ناصر کی خدماتِ سلسلہ پر ایک طائرانہ نظر