اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ سیرت حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۷؍فروری ۲۰۱۴ء میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کے تحریرکردہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی سیرت طیبہ کے حوالے سے چند واقعات اخبار الحکم کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہیں۔ ٭…ایک روز آپؓ کی صحبت میں بیٹھنے کی سعادت حاصل تھی۔ کسی تاجر کو آپ نے خط لکھا تھا کہ فلاں کتاب بھیج دو اگر پسند آئی تو قیمت بھیج دوں گا ورنہ دونوں طرف کا ڈاک خرچ ادا کردوں گا۔ اُس نے جواب دیا کہ ایسا نہیں کرسکتے۔ فرمایا: ہم اس جواب سے خوش ہوئے کیونکہ یہ معاملہ کی بات ہے، وہ ہم سے ناواقف ہے اور ہمارے حالات سے بےخبر۔ پھر فرمایا: اصل تو یہ ہے کہ مَیں تو سدا ہی خوش رہتا ہوں کیونکہ مومن لایحزنونکے نیچے ہے۔ کوئی مریض میری تشخیص کو تسلیم نہیں کرتا تو مجھے خوشی ہوتی ہےاس لیے کہ مَیں اُس کی ذمہ داری سے بچ جاتا ہوں۔ کوئی بیرونی مریض رخصت چاہتا ہے تو مَیں فوراً رخصت دیتا ہوں اور خدا کا فضل سمجھتا ہوں کہ اُس نے ذمہ داری سے نجات دی۔ غرض ہر حال میں مجھے خوشی ہی رہتی ہے اور یہ اُس کا فضل ہے۔ ٭… الحکم میں کسی کا خط طبع ہوا جس میں ہمارے سکول کی مثال عیسائیوں کے مدرسے سے دی گئی۔ اس پر آپؓ کی مذہبی حمیت نے خاص رنگ دکھایا اور بڑے جوش سے فرمایا: ہم خدا کے فضل سے بےایمان نہیں، لوگوں کو دھوکا نہیں دیتے، یہی حق ہے جو ہم نے قبول کیا ہے۔ ہم نے دنیا کی ملامتیں، کفرنامے اور قتل کے فتوے اپنے حق میں سنے اور اُن کی پروا نہیں کی۔ ہمیں خدا نے حق دکھایا جو ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اس معاملے میں کسی کی مخالفت کی پروا نہیں کرتے۔ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ ٭…حضورؓ کے واقعاتِ زندگی عجیب قسم کے خوارق کا مجموعہ ہیں۔ جن لوگوں نے ان واقعات کو دیکھا ہے وہ خدا کی قسم کھاکر بیان کرسکتے ہیں۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ کسی شخص کے چودہ روپے مجھے دینے تھے، اُس نے آکر مطالبہ کیا تو مَیں نے گھر میں دریافت کیا تو جواب نفی میں ملا۔ میرے پاس ایک قیمتی چادر تھی، مَیں نے وہ کسی کو دی کہ بازار میں فروخت کردو۔ اُس نے چودہ روپے میں بیچ دی۔ حالانکہ وہ قیمتی چیز تھی۔ اس کے بعد مَیں نے دعا کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے کبھی ایسی ضرورت نہیں آنے دی کہ اس کا سامان ساتھ ہی نہ ہوگیا ہو۔ میرے شاگرد جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح پر میری ضرورتوں کو رفع کرتا ہے۔ بعض وقت سولہ روپے کی ضرورت آنے والی ہے اور مجھے علم نہیں مگر اس سے پہلے کسی نے آکر ایک پاؤنڈ اور ایک روپیہ دے دیا ہے۔ اسی طرح پر وہ میرے ساتھ معاملہ فرماتا ہے، یہ اُس کی نکتہ نوازی ہے۔ ٭… روحانی امراض کے علاج کے لیے ایک نسخہ آپؓ نے یوں بیان فرمایا: میرا یقین ہے، تجربہ ہے، مشاہدہ ہے کہ اگر انسان اپنے مذہبی فرض اور دنیوی فرضوں کو عمدگی سے ادا کرکے گونہ سبکدوشی حاصل کرے تو اللہ تعالیٰ ہرگز ہرگز ایسے انسان کو ضائع نہیں کرتا۔ ………٭………٭………٭……… مکرم چودھری محمد شریف خالد صاحب روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۷؍فروری۲۰۱۴ء میں مکرم عامر احمد صاحب نے اپنے نانا محترم پروفیسر چودھری محمد شریف خالد صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔ محترم چودھری محمد شریف خالد صاحب ۱۹۲۰ء میں گولیکی ضلع گجرات میں محترم میاں شمس الدین صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جنہوں نے ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ محترم چودھری صاحب نے ابتدائی تعلیم گجرات سے حاصل کی اور بی اے کرنے کے بعد اپنی زندگی وقف کرکے قادیان میں مقیم ہوئے اور بطور نائب وکیل الدیوان خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد لاہور میں رہائش اختیار کی اور فرقان فورس میں بھی خدمت انجام دیتے رہے۔ بعدازاں بی ٹی کرنے کے بعد ایم اے، ایل ایل بی کی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔ پھر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں بطور استاد تعینات ہوئے اور ۱۹۵۴ء میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں انگریزی کے لیکچرار مقرر ہوگئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ربوہ کی عدالت میں ایک کچا سا چھپر ڈال کر وکالت شروع کردی۔ ۲۶؍اکتوبر۲۰۰۴ء کو چوراسی سال کی عمر میں وفات پاکر آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔ محترم چودھری صاحب بہت سادہ مزاج اور صاف گو تھے۔ غلط بات کبھی برداشت نہ کرتے خواہ کتنا ہی نقصان برداشت کرنا پڑتا۔ چھوٹوں کو بھی صاحب کہہ کر بلاتے۔ آپ کی دوسری اہلیہ مکرمہ صغریٰ بیگم صاحبہ کے ساتھ رفاقت پچاس سال پر محیط ہے۔ دونوں بیویوں سے نو بیٹیاں اور تین بیٹے ہوئے۔ آپ نہ صرف خود پنجوقتہ نمازی تھے بلکہ اپنے بچوں کی بھی اچھی تربیت کی۔ خلیفہ وقت اور نظام کا بہت احترام کرتے۔ آپ کے بڑے بھائی چودھری غلام رسول صاحب جوانی میں وفات پاگئے تو اُن کی اولاد کا بھی ہمیشہ خیال رکھا۔ وقف زندگی ہونے کے باوجود کبھی اپنی غربت کا اظہار نہ ہونے دیا اور تمام عمر سفیدپوشی کےساتھ گزاری بلکہ حسب استطاعت ضرورتمندوں کی مدد بھی کرتے رہے۔ آپ ایک اچھے قلمکار تھے۔ جماعتی رسائل کی قلمی معاونت ہمیشہ کرتے رہے۔ ’’المنار‘‘اور ’’الفرقان‘‘ کی ادارت میں بھی شامل رہے۔ کئی کتب تحریربھی کیں اور بہت سی کتب کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔ آپ کے شاگرد دنیابھر میں پھیلے ہوئے ہیں جن کے ساتھ بہت شفقت کا تعلق تھا۔ آپ کے ایک شاگرد نے ذکر کیا کہ چودھری شریف صاحب انگریزی بھی دیہاتی لہجے میں پڑھاتے تھے لیکن تشریحی مقامات پر غالب، اقبال، داغ، امرؤالقیس، سعدی اور رومی وغیرہ کے حوالے دیتے تھے۔ عرفِ عام میں چاچاجی کہلاتے تھے جس سے آپ کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مکرم محمود مجیب اصغر صاحب بیان کرتے ہیں کہ پروفیسر صاحب روانی سے انگریزی بولنے والے بڑے ہمدرد قسم کے پروفیسر تھے۔ شعروشاعری سے بھی شغف تھا۔ اردو، انگریزی اور فارسی نامور شعراء کو پڑھا ہوا تھا۔ ایک بار کہنے لگے کہ شیکسپئر نامور شاعر اس لیے ہے کہ انگریزی کو عالمی حیثیت حاصل ہے ورنہ پنجابی کے کئی شاعروں کے کلام میں اُس کے کلام سے زیادہ گہرائی ہے۔ مکرم منیر احمد باجوہ صاحب کہتے ہیں کہ مسجد بیت اللطیف کی ازسرِنَو تعمیر کے دوران محترم شریف خالد صاحب اپنے نوجوان شاگردوں سے کہیں آگے بڑھ کر وقارعمل کرتے تھے۔ محبت کا سمندر تھے اور کبھی بلاوجہ کالج سے ناغہ نہیں کرتے تھے۔ بعد میں وکالت میں بھی یہی خوبی نمایاں رہی۔ غریب پرور اور متوکّل علی اللہ تھے۔ ایک روز عدالت جاتے ہوئے ایک غریب مزدور کو دیکھا جس کی ریڑھی کا ٹائر پھٹ گیا تھا اور اُس کے پاس پنکچر لگوانے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ آپ نے اپنے پاس موجود ساری رقم اُسے تھمادی کہ نیا ٹائر خرید لو۔ پھر عدالت پہنچے تو آپ کا ایک مؤکل منتظر پایا جس نے اپنے کیس کی خاطر اُس سے کہیں زیادہ رقم بطور فیس ادا کی جو آپ فی سبیل اللہ دے آئے تھے۔ اسی طرح ایک بار ایک بوڑھے غریب کو ٹوٹی ہوئی چارپائی پر پڑا ہوا دیکھا تو بےساختہ کچھ رقم نکال کر اُسے دینا چاہی۔ لیکن اُس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا کہ ہم عیسائی لوگ ہیں اور بھیک نہیں مانگتے۔ آپ کی طبیعت پر اس واقعے کا بہت اثر تھا۔ غریب پروری کا یہی سلوک اپنے مزارعین سے کرتے۔ ایک دفعہ سخت گرمی میں آپ کو زمینوں سے اس حالت میں واپس آتے دیکھا کہ سائیکل کی ٹیوب پھٹی ہوئی تھی اور پیدل چلتے آرہے تھے۔ چہرے پر گرمی، تکان اور گردوغبار کے آثار نمایاں تھے۔ یہ دیکھ کر مَیں نے پوچھا کہ آپ کو اس زمیندارہ میں کوئی بچت بھی ہوتی ہے؟ کمال طمانیت سے قہقہہ بلند کیا اور کہا کہ مجھے یہ پھیرے ہی بچتے ہیں جو میں مار آتا ہوں۔ زمیندارہ بچت کے لیے نہیں ہے بلکہ غریب مزارعوں کی روزی کا ایک ذریعہ ہے۔ اس بہانے سے اُن کے دن بھی بسر ہورہے ہیں اور میرے بھی۔ ………٭………٭………٭……… کرکٹ کے چند عظیم آل راؤنڈرز (۲) دنیائے کرکٹ کے چند عظیم آل راؤنڈرز کا تذکرہ مکرم عبدالحلیم سحر صاحب نے روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۲۲؍مارچ ۲۰۱۴ء میں کیا ہے۔ (حصہ اوّل طبع شدہ الفضل ڈائجسٹ ۱۴؍اپریل) ٭…سب سے زیادہ ۵۱؍ ٹیسٹ سینچریاں بنانے کا اعزاز انڈیا کے سچن ٹنڈولکر کے پاس ہے۔ وہ پہلے کھلاڑی ہیں جنہوں نے ٹیسٹ اور وَن ڈے ملاکر سو سینچریاں مکمل کی ہیں اور کُل ۱۵۶۴۵؍رنز بناکر دنیا میں سرفہرست ہیں۔ ٭…عمران خان ۲۵؍نومبر۱۹۵۲ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ پہلا ٹیسٹ ۳؍جون۱۹۷۱ء کو انگلینڈ کے خلاف اور آخری ٹیسٹ ۲؍جنوری۱۹۹۲ء کو سری لنکا کے خلاف کھیلا۔ کُل ۳۸۲ فرسٹ کلاس میچ کھیلے، ۱۷۷۷۱؍رنز بنائے جن میں تیس سینچریاں اور ۹۳؍نصف سینچریاں شامل ہیں۔ ۱۲۸۷؍وکٹیں حاصل کیں۔ ستّر دفعہ ایک میچ میں پانچ اور تیرہ دفعہ دس وکٹیں حاصل کیں۔ ۱۱۷؍کیچ بھی پکڑے۔ کُل ۸۸؍ٹیسٹ میچوں میں ۳۸۰۷؍رنز بنائے جن میں چھ سینچریاں اور اٹھارہ نصف سینچریاں شامل ہیں۔ زیادہ سے زیادہ سکور ۱۳۶؍رہا۔ ۳۶۲؍وکٹیں حاصل کیں۔ ۲۳؍بار ایک اننگ میں پانچ اور ۶؍بار ایک میچ میں دس وکٹیں حاصل کیں۔ عمران خان نے ۱۷۵؍وَن ڈے میچوں میں ۳۷۰۹؍سکور بنائے جن میں ایک سینچری اور ۱۹ نصف سینچریاں شامل ہیں، نیز ۳۶؍کیچ پکڑے اور ۱۸۲؍وکٹیں بھی حاصل کیں۔ آپ کی بہترین باؤلنگ چودہ رنز کے عوض چھ وکٹیں ہیں۔ ۱۹۹۲ء کے ورلڈکپ کی جیت نے عمران خان کا نام پاکستان اور کرکٹ کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے یادگار بنادیا۔ ٭…۱۹۸۳ء میں ورلڈکپ جیتنے والی انڈین ٹیم کے کپتان کپل دیو ۶؍جنوری۱۹۵۹ء کو چندی گڑھ (پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ گذشتہ صدی کے بہترین انڈین کرکٹر کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ پہلا میچ ۱۶؍اکتوبر۱۹۷۸ء کو پاکستان کے خلاف کھیلا اور ۱۹۹۴ء میں ریٹائر ہوئے تو سب سے زیادہ یعنی ۴۳۴؍وکٹیں حاصل کرنے کا عالمی ریکارڈ ان کے پاس تھا۔ ۲۰۰۰ء میں یہ ریکارڈ ویسٹ انڈیز کے کورٹنی واش نے توڑا۔کپل دیو نے ۱۳۱؍ٹیسٹ میچوں میں ۵۲۴۸؍رنز بنائے جن میں آٹھ سینچریاں اور ۲۷؍نصف سینچریاں شامل تھیں۔ زیادہ سے زیادہ سکور ۱۶۳؍تھا۔ ۴۳۴؍وکٹیں بھی حاصل کیں، دو مرتبہ ایک میچ میں دس وکٹیں اور ۲۳؍مرتبہ ایک میچ میں ۵ وکٹیں حاصل کیں۔ ۶۴؍کیچ بھی پکڑے۔ آپ نے ۲۲۵؍وَن ڈے بھی کھیلے جن میں ۳۷۸۳؍سکور کیا جس میں ایک سینچری اور چودہ نصف سینچریاں بنائیں۔ ایک روزہ میچوں میں زیادہ سے زیادہ ۱۷۵؍ناٹ آؤٹ سکور کیا۔ ۲۵۳؍وکٹیں حاصل کیں اور ۷۱؍کیچ پکڑے۔ ٭…پاکستان کے وسیم اکرم ۳؍جون۱۹۶۶ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۹۸۴ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف پہلا وَن ڈے اور ۱۹۸۵ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہی پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔ ۱۹۹۲ء کے ورلڈکپ فائنل میں انگلینڈ میچ جیت رہا تھا جب وسیم اکرم کی مسلسل دو گیندوں پر دو کھلاڑی آؤٹ ہونے سے میچ کا پانسہ پلٹ گیا۔ ۲۰۰۳ء میں انہوں نے سب سے پہلے وَن ڈے میں پانچ سو وکٹیں حاصل کیں۔ وسیم اکرم نے کُل ۱۰۴؍ٹیسٹ میچ کھیلے۔ ۲۸۹۸؍سکور بنائے جن میں تین سینچریاں اور سات نصف سینچریاں شامل تھیں۔ زیادہ سے زیادہ سکور ۲۵۷؍ناٹ آؤٹ تھا۔ ۴۱۴؍ٹیسٹ وکٹیں حاصل کیں اور پچیس بار ایک اننگ میں پانچ وکٹیں گرائیں۔ اسی طرح ۴۴؍کیچ پکڑے۔ وَن ڈے میچز ۳۵۶؍کھیلے جن میں چھ نصف سینچریوں کے ساتھ ۳۷۱۷ سکور بنائے۔ کُل ۵۰۲؍وکٹیں حاصل کیں اور چھ دفعہ ایک اننگ میں پانچ وکٹیں لیں۔ ۸۸؍کیچ بھی پکڑے۔ ………٭………٭………٭……… مزید پڑھیں: ایک ہم بھی ہیں کلہ داروں کے بیچ۔ میر صاحب کے پرستاروں کے بیچ