https://youtu.be/hYcWiT_U-7M سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے داماد، حضرت سید میر محمداسحٰق صاحبؓ کے بیٹے اور حضرت اماں جانؓ کے بھتیجے، خانوادۂ حضرت میر دردؒ کے عظیم سپوت، سابق مبلغ سلسلہ برطانیہ، امریکہ و سپین۔ سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ، محقق، مفکر، محدث اور مترجم۔ انچارج ریسرچ سیل ربوہمحترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپردِ خاک کر دیا گیا احباب جماعت کو نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے داماد، حضرت سید میر محمداسحٰق صاحب ؓ کے بیٹے، حضرت اماں اجان ؓ کے بھتیجے اور جماعت ا حمدیہ کے دیرینہ خادم،سابق مبلغ سلسلہ برطانیہ، امریکہ، سپین۔ سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ،مصنّف، محقّق، مفکّر، محدّث،مترجم، ماہر موازنہ مذاہب اور متبحر عالمِ دین، انچارج ریسرچ سیل ربوہ محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب مورخہ ۱۱؍ مئی ۲۰۲۵ء کو صبح کے وقت طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں بعمر ۹۶؍ سال وفات پاگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون اہل ربوہ اور دیگر کئی شہروں سے تشریف لانے والے احباب نے آپ کا آخری دیدار صبح دس بجے سے نمازعصرسے قبل تک ان کی قیام گاہ میں کیا۔ آپ کی نماز جنازہ اس دن بعد نماز عصر مسجد مبارک میں ادا کی گئی۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے(وصیت نمبر: ۱۲۸۰۰)۔ جنازہ بہشتی مقبرہ دارالفضل لے جایا گیا جہاں آپ کی تدفین اندرونی چار دیواری میں آپ کی اہلیہ محترمہ صاحبزادی امۃالمتین بیگم صاحبہ کی قبر کے سامنے جنوب کی طرف موجود خالی جگہ پر ہوئی۔قبر تیار ہونے پر اجتماعی دعا کرائی گئی۔ طوفانِ بادو باراں اور خراب موسم کے باوجو نماز جنازہ اور تدفین کے موقع پر ربوہ اور گردونواح کے علاقوں اور قریبی شہروں سے احبا ب جماعت کی بہت کثیر تعداد نے شرکت کی جن میں ایک بڑی تعداد آپ کے شاگردوں کی بھی تھی اور جماعت احمدیہ کے اس مخلص، فدائی اور دیرینہ خادم کو سپردِ خاک کیا۔ مسجد مبارک کے اندرونی ہالز کے علاوہ وسیع صحن بھی نمازیوں سے بھر گیا، بعض احباب کو اس سے بھی باہر جگہ ملی۔جامعہ احمدیہ کے طلبہ اور خدامِ ربوہ نے مستعدی کے ساتھ مختلف ڈیوٹیاں سر انجام دیں اورجملہ انتظامات اور نظم وضبط کو یقینی بنایا۔ آپ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے ہاں قادیان میں مورخہ ۱۵؍ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو پیدا ہوئے۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کے کان میں اذان دی۔ ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی۔ مورخہ ۱۷ ؍مارچ ۱۹۴۴ء کو آپ نے ساتویں جماعت پاس کرنے کے بعد وقف کیا اور جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ ۱۹۴۵ء میں درجہ اولیٰ میں اوّل آئے۔ قیام پاکستان کے بعد جامعہ کی تعلیم آپ نے احمد نگر سے مکمل کی، اس دوران بی اے پاس کیا۔ بعدہٗ مولوی فاضل اور شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ انگلینڈ میں سکول آف اوریئنٹل سٹڈیز (لنڈن یونیورسٹی)میں بھی تعلیم حاصل کی۔ آپ کا عرصہ خدمت (۱۵؍ نومبر۱۹۵۴ء تا وفات) قریباً ۷۱؍سال بنتا ہے۔ ۱۵؍نومبر۱۹۵۵ء کو برطانیہ کے لیے بطور مبلغ تقرر ہوا اور ۱۹۵۷ء میں واپسی ہوئی۔ اس زمانہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ) بھی برطانیہ بغرض تعلیم تشریف لے گئے تھے۔ محترم میر صاحب ۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۸ء بطور پروفیسر جامعہ خدمات بجا لاتے رہے جس کے بعد ۱۹۷۸ء تا ۱۹۸۲ء امریکہ میں بطور مبلغ انچارج تقرر ہوا۔۱۹۸۲ءمیں خلافت رابعہ کے دور میں سپین بطور مبلغ بھجوائے گئے جہاں آپ ۱۹۸۶ء تک خدمات بجا لاتے رہے۔ آپ نے ۱۹۸۶ء سے ۱۹۸۹ء تک بطور وکیل التصنیف بھی خدمات سرانجام دیں۔ آپ کو بطور وکیل التعلیم دسمبر ۱۹۹۴ء سے ۲۰۰۱ء تک خدمات انجام دینے کی توفیق حاصل ہوئی۔ مزید برآں ۲۰۰۳ء تا دمِ آخر ممبر تحریکِ جدید بھی رہے۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ کے طور پر آپ کا تقرر دسمبر ۱۹۸۶ءمیں ہوا۔ اس عہدہ جلیلہ پر آپ نے ۶ فروری ۲۰۱۰ء تک خدمات سر انجام دیں۔ اس سے قبل آپ جامعہ احمدیہ میں موازنہ مذاہب اور اشتراکیت کے پروفیسر بھی رہے۔ ان مضامین میں آپ نے خاص ریسرچ کی۔ آپ نے زندگی کے تقریباًآخری پانچ سال گھر پر ہی جماعتی علمی کاموں کو جاری رکھا۔ متعلقہ شعبہ جات کے رفقاء کو گھر پر ہی بلا لیتے اور کام سمجھاتے اور ان کے ساتھ مل کر کام کرتے۔ اگر کوئی علمی نکتہ حل طلب ہوتا تو اگلے دن بتاتے کہ رات کو روحانی خزائن کی فلاں کتاب یا تذکرہ دیکھ رہا تھا کہ یہ مسئلہ حل ہوگیا۔ اور اس نکتہ میں اس کے مطابق اضافہ کردیا جائے۔ مورخہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۵۵ء کو جلسہ سالانہ کے افتتاح سے قبل حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ نے سید میر محمود احمد صاحب کا نکاح صاحبزادی امۃالمتین صاحبہ کے ساتھ اور صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کا نکاح صاحبزادی امۃالوحید بیگم صاحبہ کے ساتھ پڑھا۔ اس موقع پر مزید پانچ نکاحوں کا اعلان بھی فرمایا۔حضور ؓنے خطبہ نکاح میں فرمایا: ‘‘…امۃالمتین، مریم صدیقہ سے میری لڑکی ہے، ان کا نکاح ایک ہزارر وپیہ مہر پر سید محموداحمد صاحب ابن میر محمد اسحٰق صاحب مرحوم سے قرار پایا ہے۔ محمود احمد اس وقت بی اے میں لند ن میں پڑھ رہے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ نے خیریت رکھی تو ارادہ ہے کہ اگلے سال مئی میں وہ واپس آجائیں…’’(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں، خطبات محمود جلد سوم (خطباتِ نکاح) صفحہ نمبر ۶۷۲تا ۶۷۵) آپ کو ذیلی تنظیموں میں بھی خدمت کا موقع ملا۔آپ نےمجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں بطور مہتمم تربیت ۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۵ء (تین سال )،مہتمم عمومی ۱۹۶۷ء۔ ۱۹۶۸ء (ایک سال) اور نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ۱۹۶۶ء تا ۱۹۶۹ء (تین سال) خدمات انجام دیں۔حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ جب ۱۹۶۶ء میں نائب صدر سے صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ منتخب ہوئے تو محترم میر صاحب نے ان کی جگہ نائب صدر کا قلم دان سنبھالا۔ اسی طرح مجلس انصاراللہ پاکستان میں آپ کو ۲۰۱۱ء تا ۲۰۱۵ء اور ۲۰۱۷ء تا وفات (عرصہ تیرہ سال سے زائد) رکن خصوصی مقرر کیا گیا۔ دیگر خدمات میں چیدہ چیدہ درج ذیل ہیں۔ ٭…مجلس افتاء کے ممبر خلافت ثانیہ سے چلے آرہے تھے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے آپ کو ۳؍جون ۱۹۶۲ءکو مجلس افتاء کا ممبر مقرر فرمایا تھا۔ آپ ۳۰؍نومبر ۱۹۷۲ء تک اس مجلس کے ممبر رہے۔اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۸؍دسمبر ۱۹۸۹ء کو دوبارہ مجلس افتاء کا ممبر مقرر فرمایا، جس کے بعد آپ اس اہم مجلس کے تاحیات ممبر رہے۔ ٭…۱۹۸۷ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تدوین فقہ کمیٹی کا ممبرمقرر فرمایا، اس کمیٹی کے آپ تاحیات ممبر رہے۔ ٭…خلافت لائبریری کمیٹی کے۱۹۸۹ء سے تاحیات ممبر کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ ٭…حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ترجمہ قرآن پر نظر ثانی کمیٹی کے ممبررہے۔ ٭…نائب افسر جلسہ سالانہ کے طور پر آپ ۱۹۸۶ء تا ۲۰۲۴ء خدمات بجا لاتے رہے۔ ٭…جلسہ سالانہ ربوہ کے موضوعات تجویز کرنے والی کمیٹی کے ممبررہے۔ ٭…کفالت یکصد یتامیٰ کمیٹی کے ممبر رہے۔ ٭…مجلس ارشاد کے تحت مسجد مبارک میں ہونے والے جلسوں میں دیگر علماء کے ساتھ آپ بھی خطاب کیا کرتے تھے۔ ٭…فضل عمر درس القرآن کلاس میں پڑھاتے رہے۔ ٭…سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مارچ ۲۰۰۵ء میں نور فاؤنڈیشن کا قیام فرمایا۔ آپ آغاز سےصدر مقرر کیے گئے۔آپ اس بورڈکے تحت وفات سے چند دن قبل تک علمی امور سرانجام دیتے رہے۔آ پ نے اس فاؤنڈیشن میں صحاح ستہ، مسند احمد بن حنبل اورشمائل ترمذی کے اردو تراجم کرنے کا اہم کام انجام دیا۔جس میں قرآن کریم، آنحضرت ﷺ اورصحابہ کرام ؓکی شان کے مطابق، حضرت مسیح موعودؑکے ملفوظات اور خلفاء سلسلہ کے ارشادات کو مدنظر رکھ کر ترجمہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ آپ نے اس فاؤنڈیشن کے رفقائے کار کے ساتھ صحیح مسلم کی کئی جلدوں پر مشتمل شرح پر کام مکمل کیا جو اَب نظر ثانی کے مرحلہ میں ہے۔۹۶؍سال کی عمر میں بھی صبح حسبِ صحت علمی کاموں کا آغاز فرماتے جو شام تک جاری رہتا، خود چھٹی نہ کرتے اور اپنے رفقاء کی بھی زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے۔ اور یہ عظیم کام آپ کی نگرانی میں مکمل ہوا۔ حضرت میر محمداسحٰق صاحبؓ نے اپنی تقاریر اور درسوں میں چہل احادیث کی شرح بیان کرنا شروع کر رکھی تھی۔ان کی وفات سے جو کام نامکمل تھا وہ آپ نے وہیں سے شروع کیا۔ ٭…اٹالین ترجمہ قرآن پر نظر ثانی کمیٹی کے ممبرکے طور پر بھی اہم خدمات کی توفیق ملی۔ آپ کو دنیا کے متعدد علوم پر دسترس حاصل تھی، اسی طرح چھ سے زائد زبانوں کے بھی ماہر تھے۔ آپ کی نابغہ روزگار بزرگ شخصیت میں متعدد خصوصیات اور خوبیاں پوشیدہ تھیں۔ آپ مفکر، مصنف، محدث اور مترجم کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے اور ان شعبہ جات میں ایک زمانہ آپ کے گُن گاتا تھا۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے تحریر و تقریر کی قوتیں عطا فرمائی تھیں، جو آپ نے خدمت اسلام کے لیے وقف کر رکھی تھیں۔الفضل اور موازنہ مذاہب رسالہ کے علاوہ جماعت کے دیگر رسالوں میں آپ کے تحقیقی اور علمی مضامین سلسلہ کے لٹریچر میں ایک مفید اور اہم مقام رکھتے ہیں۔بڑے زندہ دل اور بڑے حاضر جواب تھے،حسِّ مزاح اور ظرافت کی خوبی آپ کی گفتگو میں اکثر نظر آتی تھی، خود داری،سادگی،عاجزی،قناعت پسندی، حق گوئی اور بے تکلفی آپ کا طرّہ امتیاز تھا۔ ہائیکنگ کا بہت شوق رکھتے تھے، آپ کی فصیح اللسان تقریر، درس القرآن اور درس الحدیث کو سماعت کے ذریعہ دل میں اتارنے کے لیے احباب جماعت دُور دُور سے تشریف لاتے تھے۔ جب آپ تقریر کرنے یا درس دینے کے لیے سٹیج پر آتے تو گویا آپ کی زبان سے علم و معارف کے دریا بہتے جاتے تھے، ہر لفظ برموقع اور بر محل ہوتا۔ زبان میں اتنی روانی اور سلاست ہوتی تھی کہ سامعین کرام ہمہ تن گوش ہوتے اور اس میں اتنا کھو جاتے کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتے۔ آپ کی تقاریر اور درس سُن کر سننے والوں کوآپ کے والد گرامی حضرت سید میرمحمد اسحٰق صاحبؓ کی یاد آجاتی تھی۔ آپ کو ۱۹۶۷ء تا ۱۹۷۷ء جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر تقاریر کرنے کی سعادت ملی،(صرف برطانیہ میں تقرری کے دوران وقفہ ہوا)رمضان المبارک میں درس القرآن اور درس الحدیث دینے کی سالہاسال تک توفیق حاصل ہوئی۔ایم ٹی اے انٹرنیشنل پر متعدد پروگرامز، تقاریر،دروس اور انٹرویوز وغیرہ نشر ہوتے رہے۔مسجد مبارک میں آپ نے سینکڑوں درس الحدیث دیے جو ایم ٹی اے نے ریکارڈ کیے اور پھر ٹیلی کاسٹ بھی کیے، آپ کا درس حدیث دینے کااپنا منفرد انداز تھا، بہت نپے تُلے الفاظ کا چناؤ، سلیس اور قابل فہم زبان کا استعمال،بے ساختہ پن اور مشکل سے مشکل احادیث اور علوم کو اس انداز سے بیان فرماتے کہ سننے والا کسی بھی ذہنی سطح کا ہو آسانی سے سمجھ جاتا تھا۔ جلسہ سالانہ برطانیہ اور جلسہ سالانہ جرمنی میں بھی خطاب کرنے کا موقع ملا۔دنیا بھر کے مختلف ممالک کے ذاتی دورہ جات کے علاوہ آپ کو جلسہ سالانہ برطانیہ اور جلسہ سالانہ جرمنی پر بطور نمائندہ شریک ہونے کی توفیق ملی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے عربی، انگریزی، سپینش، عبرانی اور اٹالین زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ آپ پرنسپل جامعہ احمدیہ کے دور میں بعض اوقات جامعہ کلاسز میں عبرانی بھی پڑھایا کرتے تھے، جس میں آنحضرتﷺ کی آ مد اور صداقت کی پرانے صحیفوں میں موجودعبرانی پیشگوئیوں کی تشریح کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے آپ قرآن کریم کے اٹالین زبان میں ترجمہ کی نظر ثانی کمیٹی کے ایک اہم رکن تھے۔جلسہ خلافت جوبلی ۱۹۳۹ء سے ایک لمبا عرصہ تک تمام اہم جماعتی تقاریب میں شمولیت کی اور جماعتی حالات کا جائزہ لیتے رہے۔ خلافت ثالثہ، خلافت رابعہ اور خلافت خامسہ انتخاب کمیٹی کے ممبر رہے اور ان کے اجلاسات میں شمولیت کی سعادت حاصل کی۔ فرمایا کرتے تھے کہ بہت دفعہ تذکرہ کھولتا ہوں تو الجَنّۃ الجَنّۃ کے الفاظ سامنے پاتا ہوں۔ آپ نے چار خلفائے سلسلہ کا زمانہ دیکھا اور ہر خلیفۃالمسیح کے ساتھ قریبی تعلق اور ان کی ہدایات، نصائح اور منشاء کے مطابق خدمات جاری رکھیں اور ان کے دستِ راست اور سلطان ِ نصیر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ گویا اس طرح کہنا چاہیے کہ آپ کی ساری زندگی ہی خدمات سلسلہ، علمی و تحقیقی امور اور وقف کے تقاضوں کو پورا کرتے گزری۔ خلافت سے محبت، اپنائیت اور اطاعت کا جذبہ آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔ خلیفۃ المسیح سے محبت و عقیدت آپ کے ہر فقرے اور ہر ادا سے چھلکتی نظر آتی تھی۔ محترم میر صاحب کا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس تعلق کے بارے میں آپ نے ایک مرتبہ امریکہ میں قیام کے دوران انٹرویو دیا جو رسالہ النور نومبر دسمبر۲۰۰۴ء میں شائع ہوا، حضور رحمہ اللہ تعالیٰ سے ابتدائی تعلق کے بارے میں آپ نے بتایا: ‘‘۱۹۳۵ء کی بات ہے اس وقت میری عمر بہت چھوٹی تھی۔ دارالانوار میں ہمارا مکان حضرت اماں جانؓ کی نگرانی میں زیر تعمیر تھا۔ اس وقت ہماری رہائش ایک مکان میں تھی جو الصفہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اپنے مکان کی تکمیل ِ تعمیر سے قبل ہی ہم حضرت مصلح موعود ؓ کے مکان کے اس حصہ کی نچلی منزل میں جس میں حضرت اُمّ طاہر کی رہائش تھی، چھ ماہ تک مقیم رہے۔ یہاں حضرت مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) سے ملنا ہوا اور بہت اچھا وقت گزرا۔ اس عمر میں ہم گھُل مِل کر رہے، کھیلے مگر ایک دفعہ بھی کسی قسم کی تلخی، لڑائی جو بچوں میں ہوجاتی ہے نہیں ہوئی۔ آپ کی عمر مجھ سے صرف ایک سال زیادہ تھی۔ چھ ماہ بعد ہم دارالانوار منتقل ہوگئے۔ پھر وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی تھی۔میر صاحب نے بتایا، آپ کی جوانی کے بارے میں میرے دو تاثرات ہیں جو آخری عمر تک قائم رہے۔ آپ کی نماز باجماعت کی پابندی اور آپ کی غیر معمولی ذہانت۔ربوہ ہجر ت کے بعد ملاقات کا سلسلہ جاری رہا اورمجلس خدام الاحمدیہ کے اجتماعات میں ہم دونوں تقریر ی مقابلہ جات میں بھی شامل ہوتے تھے۔ پھر جامعۃ المبشرین ربوہ میں کچھ عرصہ اکٹھے رہے اور سابقہ دو تاثرات کے علاوہ آپ کی غیر معمولی طور پر active زندگی کا تاثر ابھی بھی ہے۔ مجلس خدام الاحمدیہ کی سرگرمیوں میں ذوق و شوق سے حصہ لیتے تھے۔ حضرت مصلح موعود ؓ بیماری کے علاج کے لیے ۱۹۵۵ءمیں لندن تشریف لائے، خاکسار ۱۹۵۴ء کے آخر میں لند ن آچکا تھا، حضور ؓ کے ارشاد پر صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب لندن ٹھہر گئے اور ہم دونوں کو لندن یونیورسٹی میں داخل ہونے کا ارشاد تھا۔ ہم دونوں ایک ہی کلاس اٹینڈ کرتے۔ آ پ کی ذہانت، شرافت و شفقت، نماز باجماعت کی پابندی، حُسنِ خطابت (انگریزی میں بھی) کے علاوہ آپ کی پاکیزہ اور دل کو خوش کردینے والی ظرافت کا گہرا اثر ہے۔ لندن میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی زندگی مومنانہ زندگی تھی۔دن رات کی محنت اور حُسنِ عمل کے ساتھ خوش طبعی برقرار تھی۔ مغربی تہذیب کے بدپہلو کبھی آپ کی نیک و سعید فطرت پر اثر انداز نہ ہوسکے۔ لندن میں آپ نے صحیح انگریزی تلفظ سیکھنے کی طرف توجہ فرمائی اور ہاشم خان وغیرہ سے سکواش کی کھیل کھیلی…خلافت سے قبل وقف جدید کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے آپ کی ہمہ وقت مصروفیت اور محنت کا ایک پہلو یہ تھا کہ اب پشاور میں ہیں تو کل کراچی میں اور اگلے روز راولپنڈی میں…آپ کے مسند خلافت پر متمکن ہونے سے صرف دو ماہ پہلے میں امریکہ سے پاکستان گیا تھا اور آپ کو ہمہ وقت خدمت دین میں مصروف پایا۔ نمازوں کی پابندی بھی اسی طرح تھی اس کے باوجود خوش طبعی اور ظرافت بھی قائم تھی۔ خلافت کے بعد مصروفیت اور بھی بڑھ گئی۔ میر صاحب نے بتایا کہ گو خاکسار چند دن کے بعد ہی سپین آگیا تھا اس لیے ربوہ میں ان دنوں کی باتیں میرا عینی مشاہدہ نہیں۔ ابھی میں سپین میں ہی تھا کہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ ہجر ت کر کے لندن تشریف لے آئے اور میں کچھ عرصہ سپین رہ کر ربوہ چلا گیا۔ خلافت کے بعد لازماً میرے محبت کے تعلق میں اضافہ ہوا مگر اس تعلق نے احترام اور عقیدت کا جامہ بھی اوڑھ لیا۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی پاکستان سے روانگی کے وقت خاکسار پاکستان میں نہیں تھا۔ لند ن میں کئی ملاقاتیں ہوئیں اور حضوررحمہ اللہ تعالیٰ سے آخری ملاقات ۲۰۰۰ء میں ہوئی۔’’ مورخہ ۱۸؍دسمبر ۱۹۸۹ء کو دیگر بزرگان کے ساتھ آپ کے خلاف دفعہ ۲۹۸ج کی ایف آئی آر نمبر ۳۷۲ تھانہ ربوہ میں درج ہوئی، جس کی وجہ سے آپ کو ایک رات کےلیے اسیر راہِ مولیٰ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ محتر م سید میر محمود احمد ناصر صاحب دینی و دنیاوی علوم کے ایک متبحر عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر لسانیات بھی تھے۔ آپ کی علمی زندگی کا خاص مرکز مسیحیت کے حوالے سے تحقیق کرنا اور اناجیل کے عہد نامہ جدید اور عہد نامہ عتیق کے حوالہ جات کے ذریعےعیسائیت کا ردّ اور دین حق کی صداقت کو آشکار کرنا تھا۔ موازنہ مذاہب کے شعبہ کے تحت آپ تحقیق و تدقیق کرتے رہتے تھے اسی لیے آپ کی زندگی کے تقریباً آخری پانچ سال گھر پرجماعتی علمی کامو ں کے علاوہ مسیحیت کے حوالے سے تحقیق میں گزرے۔ دسمبر۲۰۰۴ء سے آپ کی نگرانی میں شعبہ واقعہ صلیب سیل کا آغاز ہوا۔ اس شعبہ کا بنیادی مقصد مسیحیت اور ہجر ت مسیح ؑ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے علم کلام میں موجود تحقیقی کام کو یکجا کرنا اور اس پر مزید تحقیق کرنا تھا، اس سیل کے تحت حضور ؑ کی دیگر کتب کے ساتھ ساتھ ‘‘مسیح ہندوستان میں ’’کے ابواب پر تفصیل سے کام کیا گیا۔ اس ضمن میں اس شعبہ نے محترم میر صاحب کی نگرانی میں ہجرت مسیح کے حوالے سے خاص کام کیا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے علم کلام میں آنے والے حوالہ جات کی تخریج کی اور ان پر ہونے والے اعتراضات کے جواب تیار کیے گئے۔ اس کے علاوہ اس شعبہ کے تحت مرہم عیسیٰ اور Shroud of Turinپر بننے والے عکس پر تفصیلی کام ہوا، جس کو بعض غیر ملکی ماہرین نے بھی سراہا۔ میر صاحب کی زیر نگرانی اس شعبہ کے تحت Dead Sea Scrollsپر تحقیقی کام کیا گیا۔مصر سے قبطی زبان کے چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی کے مسیحی لٹریچر پر تحقیقی کام کیا گیا۔ عراق سے دریافت ہونے والی سریانی زبان کی ابتدائی مسیحی صدیوں کی نظموں پر کام کیا گیا۔ بنی اسرائیل کے مشرقی علاقوں میں ہجرت پر کام کیا گیا۔ حضرت مسیح ؑ کے مختلف مشرقی مقامات پر آنے کے شواہد پر کام کیا گیا۔ یوزآصف کے صحائف اور قبر کے حوالے سے کام ہوا۔ محترم میر صاحب جیسی عظیم علمی شخصیات اور نیک دل عالم دین روز روز پیدا نہیں ہوتے، جن کے دل میں ہمہ وقت علم حاصل کرنے کی جستجو اور وقت ضائع کیے بغیر معلومات کا ذخیرہ اپنے دامن میں بھر لینے کی خواہش ہوتی تھی۔ آپ حضرت مسیح موعود ؑکے الہام انت شیخ المسیح الذی لایُضَاع وقتُہ کی عملی تصویر تھے۔ صبح سے شام، رات تک اور پھر صبح سویرے ہی کام کام اور بس کام کا ایک نشہ تھا جو آپ کی زندگی کا محور تھا۔ آپ نے اتنا لکھا کہ سینکڑوں ہزاروں کاغذ بھر دیے۔ اور اس دور کے سلطان القلم ؑکے غلام ہونے کا حق ادا کردیا۔ آپ کا علمی مزاج کثرت سے مطالعہ کتب کا مرہونِ منت ہے۔ کتب بینی کی عادت اس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ ہمہ وقت ہاتھ میں کتاب دیکھ جاتی تھی۔ جماعتی یا کسی شادی کی تقریب میں ہوتے تو فارغ وقت میں کرسیوں کی کسی رو میں کتاب کھولے دکھائی دیتے۔ جامعہ دور میں جمعۃ المبارک کی رخصت کے دن صبح نماز فجر کے بعد تلاوت قرآن مجید، صحیح بخاری یا کوئی حدیث کی کتاب، روحانی خزائن اور اخبار الفضل کا مطالعہ کرنا آپ کا معمول ہوتا تھا یہاں تک کہ نماز جمعہ کاوقت ہوجاتا اور آپ تیار ہو کے جمعہ کی ادائیگی کے لیے تشریف لے جاتے۔ اپنے شاگردوں میں جب بیٹھتے تو بے تکلف تربیتی گفتگو کے علاوہ بعض اہم باتیں بھی کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے ایسی ہی ایک مجلس میں فرمایا:‘‘ میرا دل کرتا ہے کہ میرے ہاتھ میں کتاب ہو اور میں کسی پُر فضا مقام پر کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر مطالعہ کروں۔’’ آپ جماعتی اموال اور املاک کو بہت احتیاط سے اور ایک امانت سمجھتے ہوئے رکھتے تھے۔ جماعتی اموال کا ایک روپیہ بھی اپنی ذات پر خرچ کرنے کے روادار نہیں ہوتے تھے۔ دفتر میں قلمی امور انجام دینے کے لیے دفتری سٹیشنری اور گھر پر تحریری کاموں کے لیے ذاتی قلم ہوتے تھے۔ جماعتی بجٹ کا استعمال بہت پھونک پھونک کر کرتے تھے۔ آپ کی عادات اور رہن سہن بہت سادہ تھا اگر آپ کو سادگی کا پیکر کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ جامعہ آنےجانے کے لیے سائیکل رکھا ہوا تھا، اس کے علاوہ کہیں بھی جانا ہوتا تو اسی سواری پر آتے جاتے تھے۔اسی میں اپنی آسانی اور خوشی سمجھتے تھے۔ جامعہ کے طلبہ کے لیے آپ کے دل میں بہت محبت اور شفقت ہوتی تھی۔اگرکسی طالبعلم کو انتظامی لحاظ سے ڈانٹ دیا، یا سزا دی تو اگلے ہی لمحے اس کے لیے محبت کے دریا بہتے چلے جاتے تھےاور اس کے لیے دلداری کے سامان بھی کرتے۔ اس کے ساتھ وقت کی پابندی اور ڈسپلن قائم کرنے میں بہت سخت تھے۔ جامعہ کے تدریسی اوقات میں کلاسز میں نظم وضبط کی خاطر جامعہ کے برآمدوں میں اکثر چکر لگاتے رہتے تھے۔ موسم سرما میں دھوپ سے لطف اندوز ہونے کے لیے آپ کا دفتر جامعہ کوریڈور کے بالکل سامنے منتقل ہوجاتا تھا۔ اس کا ایک زائد فائدہ یہ ہوتا تھا کہ طلبہ اور اساتذہ کی آمدو رفت سے آگاہی رہتی تھی، اسی جگہ نور فاؤنڈیشن کی میٹنگ بھی ہوتی تھی۔ سردیوں میں اسی جگہ دفتر کا قیام آج بھی ہوتا ہے جو محترم میر صاحب کی یاد دلاتا ہے۔ آپ کے پسماندگان میں چار بیٹے اور ایک بیٹی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ ٭…محترم سید شعیب احمد صاحب، امریکہ ٭…محترم ڈاکٹر سید ابراہیم منیب احمدصاحب، کینیڈا ٭…محترم سید محمد احمد صاحب(واقف زندگی)اسلام آباد ٹلفورڈ۔ یوکے ٭…محترم ڈاکٹر سید غلام احمد فرخ صاحب(واقف زندگی) ٭…محترمہ عائشہ نصرت جہاں صاحبہ اہلیہ محترم صاحبزادہ مرزا فخر احمد صاحب، ہالینڈ اللہ تعالیٰ محترم میر صاحب کی مغفرت فرمائے، اپنے پیار اور رضا کی جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین اللہم آمین ادارہ روزنامہ الفضل انٹر نیشنل اس بزرگ عالم دین اور جماعت احمدیہ کے دیرینہ خادم کی وفات پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، محترم میر صاحب کے پسماندگان بشمول ان کے اعزہ و اقرباء و دنیا بھر میں بسنے والے ان کے تلامذہ نیز جملہ افراد خاندان حضرت اقدس مسیح موعود ؑسے دلی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ (رپورٹ: ابوسدید) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ایک ہم بھی ہیں کلہ داروں کے بیچ۔ میر صاحب کے پرستاروں کے بیچ