محترم میر صاحب جب جامعہ احمدیہ ربوہ کے پرنسپل تھے اس وقت ایک دفعہ کچھ عرصہ کے لیے رخصت پر امریکہ گئے جہاں سے انہوں نے جامعہ کے لیے اسد اللہ خان غالب کا یہ شعر لکھ کر بھیجا ؎گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگارلیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہاجامعہ سے میر صاحب کو جو تعلقِ خاطر تھایہ شعر اس کی خوب ترجمانی کرتا ہے۔ اس کے جواب میں جامعہ کی طرف سے خاکسار نے ایک نظم لکھ کر میر صاحب کو بھجوائی جس کے دو شعر یہ تھے:تجھ بن وجودِ جامعہ کامل نہیں رہایا یوں کہیں کہ آدمی میں دل نہیں رہامحوِ سفر بہ منزلِ جاناں ہے کارواںلیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہاآج میر صاحب کی وفات کا سن کر دل بہت پُر ملال ہے۔ وہی نظم کچھ تصرف اور کچھ اضافے کے ساتھ پیش ہے۔تجھ بن وجودِ گلستاں کامل نہیں رہایا یوں کہیں کہ آدمی میں دل نہیں رہا روشن یہاں چراغ بھی اور روشنی بھی ہےلیکن وہ ایک رونقِ محفل نہیں رہا کب ہم نے ایسی بزم سجائی کسی پہرجس میں کہ تیرا ذکر بھی شامل نہیں رہا محوِ سفر بہ منزلِ جاناں ہے کارواں‘لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا’ وہ زخم مجھ کو تیری جدائی نے دیا تھاجو مرہمِ زمان سے بھی سل نہیں رہا دوڑا رہا ہوں رخشِ نظر ہر طرف مگرجس شخص کی تلاش ہے وہ مِل نہیں رہا آواز دے رہا ہوں میں پیاسوں کو بار بارلیکن وہ بےحسی ہے کوئی ہِل نہیں رہا خوشبو سے جس کی سارا زمانہ مہک اٹھےگلشن میں ایسا پھول کہیں کھل نہیں رہا (میر انجم پرویز، مربی سلسلہ عربک ڈیسک) مزید پڑھیں: میری دھرتی بچا، ظالموں کو مٹا