https://youtu.be/e4e5VhDQTjo ٭…وقف کے وعدے کو ایسا نبھایا کہ اِس کی مثالیں کم ملتی ہیں ٭… خلافت کے ایک عظیم معاون اور مددگار تھے، جاںنثار تھے، حرف حرف پر عمل کرنے والے تھے، باوفا تھے، ایسے سلطانِ نصیر تھے جو کم کم ہی ملتے ہیں، عالِم باعمل تھے۔ مجھے تو کم از کم اِن جیسی کوئی مثال ابھی نظر نہیں آتی ٭… جماعت کے ایک بزرگ اور جیّد عالِم ، خلافت کے فدائی، دین کے بے مثل خادممحترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب ابن حضرت میر محمد اسحاق صاحب ؓنیز ڈاکٹر طاہر محمود صاحب شہید آف کراچی کا ذکر خیر ٭… اسیری کی صعوبتیں برداشت کیں، مار کھائی، عدالت کے سامنے مار کھائی اور یہ ساری وجوہات اور شواہد ایسے ہیں کہ اِس لحاظ سے ان کو شہادت کا مقام ہی ملتا ہے اور یہ شہیدوں کے زمرے میں بھی آئیں گے خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۶؍مئی ۲۰۲۵ء بمطابق ۱۶؍ہجرت ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامسايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۱۶؍مئی۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: آج بھی مَیں سرایا کا ذکر کروں گا۔ جو میرے پاس مواد ہے، اِس میں سےفتح مکّہ سے پہلے، اِن سرایا کا بھی ذکر ملتا ہے۔ مختصر سا ذکر ہے، اِس کے بعد دوسرا مضمون بیان کروں گا۔ سریّہ ابوقتادہ انصاری رضی الله عنہ کا ذکر ملتا ہے، جو بطرف خضرہ تھا، یہ سریّہ شعبان ۸؍ہجری میں ہوا۔ اِس سریّہ کے امیر ابوقتادہؓ تھے۔ خضرہ مدینہ منورہ کے شمال مشرق میں بنو محارب کی سر زمین میں شمار کیا جاتا تھا، یہ تہامہ کا علاقہ بھی تسلیم کیا جاتا تھا، جو کہ نجد میں شامل ہے۔ یہاں بنو غطفان کی ایک شاخ رہائش پذیر تھی۔ بنو غطفان اسلام دشمنی پر مسلسل مائل تھے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ نجد کے علاقے خضرہ میں رہائش پذیر بنو غطفان ریاستِ مدینہ کے خلاف شرانگیزی پھیلانے میں مصروف تھے۔ ایک روایت کے مطابق صحابہؓ اِس مہم میں پندرہ راتیں باہر رہے اور دو سو اونٹ، ایک ہزار بکریاں اور بہت سے قیدی لائے، خُمس الگ کیا گیا اور ہر ایک کے حصّے میں بارہ اونٹ آئے، ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دیا گیا۔ پھر ایک ذکر سریّہ حضرت ابو قتادہ رضی الله عنہ بطرف وادیٔ اضم کا ہے۔ یہ رمضان ۸؍ہجری بمطابق جنوری۶۳۰ء میں ہوا۔ اِضم مدینہ سے چھتیس میل کے فاصلے پر مشرق کی طرف نجد کے علاقے میں ایک وادی ہے۔ یہاں غطفان کی ایک شاخ بنو اشجع آباد تھے۔ اِس سریّے کا سبب یہ ہے کہ جب رسول اللهؐ نے فتح مکّہ کے لیے مکّہ کی طرف جانے کا اِرادہ فرمایا ، تو آپؐ نے حضرت ابو قتادہؓ کو وادیٔ اِضم کی طرف روانہ فرمایا، جو مدینہ سے مشرق کی طرف ہے جبکہ مکّہ جنوبی جانب ہے ۔ تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ آنحضرتؐ کی روانگی مکّے کی طرف نہیں بلکہ اِضم کی جانب ہو گی۔ ایک روایت کے مطابق اِس سریّے کے امیر حضرت عبدالله بن ابی حدردؓ تھے۔ حضرت عبدالله بن ابی حدردؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم وادیٔ اِضم پہنچے تو وہاں عامر بن اضبط اشجعی ہمارے پاس سے گزرا۔ اُس نے اُن کے پاس آ کر اُنہیں اسلامی طریق کے مطابق سلام کیا۔اس پر مسلمانوں نے اُس شخص پر ہاتھ اُٹھانے سے گریز کیا مگر حضرت محلّمؓ کا اس شخص کے ساتھ پہلے سے کوئی جھگڑا تھا، اس لیے انہوں نے عامر بن اضبط پر حملہ کر کےاُسے قتل کر دیا اور اِس کا سامان اور اونٹ اپنے قبضے میں لے لیا۔اس کے علاوہ کسی جتھے سے صحابہؓ کا سامنا نہ ہوا، چونکہ اُنہیں صرف مشرکین کی توجہ بٹانے کے لیے بھیجا گیا تھا، اس لیے صحابہؓ وہاں سے واپس ہو لیے۔ اِسی دوران میں اُنہیں خبر ملی کہ رسول اللهؐ مکّے کےلیے روانہ ہو گئے ہیں، لہٰذا یہ بھی اِسی طرف مُڑ گئے، یہاں تک کہ راستے میں آنحضرتؐ سے جاملے۔ جب یہ رسول اللهؐ کے پاس آئے تو اِس قتل کا سارا واقعہ آپؐ کو بتایا تو یہ آیت نازل ہوئی کہ یعنی ا َے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم اللہ کی راہ میں سفر کر رہے ہو تو اچھی طرح چھان بین کر لیا کرو اور جو تم پر سلام بھیجے اِس سے یہ نہ کہا کرو کہ تُو مومن نہیں ہے۔ تم دنیاوی زندگی کے اموال چاہتے ہو تو اللہ کے پاس غنیمت کے کثیر سامان ہیں۔ اِس سے پہلے تم اِسی طرح ہوا کرتے تھے پھر اللہ نے تم پر فضل کیا۔ پس خوب چھان بین کرلیا کرو۔ یقیناً اللہ اس سے جو تم کرتے ہو بہت باخبر ہے۔ حضورِ انور نے تصریح فرمائی کہ یعنی اس سے منع کیا گیا ہے کہ جو سلام کرے اُس سے کوئی تعرض نہیں کرنا، اُس سے کوئی سختی نہیں کرنی، اُس کو قتل نہیں کرنا یا سزا نہیں دینی۔ یہ سریّہ ۸؍ہجری میں ہوا ہے ، لیکن یہ آیت سورۃ النساء کی ہے جس کے بارے میں زیادہ اتفاق یہی ہے کہ یہ ہجرت کے تیسرے اور پانچویں سال کے درمیان نازل ہوئی تھی۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اِس واقعہ کا پتا لگنے پر آنحضرتؐ نے یہ آیت پڑھ کر اظہارِ ناپسندیدگی فرمایا ہو۔ بعدازاں حضورِ انور نے فرمایا اب مَیں جماعت کے ایک بزرگ اور جیّد عالِم ، خلافت کے فدائی، دین کے بے مثل خادم کا ذکر کروں گا، جن کی گذشتہ دنوں میں وفات ہوئی ہے۔ اِسی طرح ایک اور فدائی مخلص احمدی کا، جو اِن دنوں اسیر تھے، وہیں اِن کی وفات ہوئی اور جو شواہد ہیں اُن سے پتا لگتا ہے کہ اِن کا اِس لحاظ سے شہادت کا ہی رتبہ ہے۔ بہرحال پہلا ذکر سیّد میر محمود احمد ناصر صاحب کا ہے، جو حضرت سیّد میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے بیٹے تھے، یہ گذشتہ دنوں میں چھیانوے سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔آپ حضرت امّاں جان حضرت نصرت جہاں بیگم رضی الله عنہا کے بھتیجے تھے، حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت مریم صدیقہ صاحبہؓ کے داماد اور آپ کی والدہ کا نام صالح بیگم تھا۔ آپ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے پوتے تھے۔ ابتدائی تعلیم اِنہوں نے قادیان سے حاصل کی، پھر پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا، مارچ ۱۹۴۴ء میں اپنے والد حضرت سیّد میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی وفات والے دن زندگی وقف کی۔ اِن کے بیٹے عزیزم محمد احمد نے بھی مجھے لکھا ہے کہ ۱۷؍مارچ کو یہ بڑا اہمیت کا دن کہا کرتے تھے۔ تو اِنہوں نے اُن سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک یہ اہمیت کا دن کیوں ہے؟ تو کہا کہ اُس دن میرے والد کی وفات ہوئی تھی اور حضرت مصلح موعودؓ نے اُس روز سارا دن ہمارے گھر میں گزارا تھا بلکہ نمازیں بھی وہیں پڑھائی تھیں اور ایک مختصر سی تقریر وہاں کی، جس میں میر صاحبؓ کی دینی خدمات، وقف کی روح اور علمیّت وغیرہ کا ذکر کیا۔ میر محمود احمد صاحب کہتے ہیں کہ یہ سن کر مَیں کھڑا ہوا اَور وہیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو کہا کہ حضور! مَیں وقف کرتا ہوں۔ اِس پر حضرت مصلح موعودؓ کی بڑی جذباتی کیفیت ہو گئی، آپؓ نے اِس کو بڑا سراہا۔اُس وقت سیّد محمود احمد صاحب کی عمر چودہ سال تھی اور پھر اِس وعدے کو ایسا نبھایا کہ اِس کی مثالیں کم ملتی ہیں۔ جماعتی خدمات یوں ہیں: ۱۹۵۴ء تا ۱۹۵۷ء آپ یہاں انگلستان میں تھے، آپ نے بطور مبلغ کام کیا اور اِسی دوران سکول آف اورینٹل افریقن سٹڈیز میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر تعلیم بھی حاصل کی، حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ الله کے ساتھ، اکٹھے یہ دونوں پڑھتے تھے۔ کچھ عرصہ لندن مشن کے سیکرٹری کے فرائض بھی سر انجام دیے۔۱۹۵۷ء سے ۱۹۵۹ء تک وکالتِ دیوان میں بطور ریزرو مبلغ رہے۔ پھر ۱۹۶۰ء میں جامعہ میں بطور استاد مقرر ہوئے، ۱۹۷۸ء تک یہ فرائض انجام دیے، ۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۲ء تک امریکہ میں مبلغ رہے۔۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۶ء تک سپین میں خدمت کی توفیق ملی۔ ۱۹۸۶ء سے ۱۹۸۹ء تک بطور وکیل التصنیف کام کیا۔ ۱۹۸۶ء سے ۲۰۱۰ء تک جامعہ احمدیہ ربوہ کے پرنسپل کے طور پر خدمت کی، اِس دوران ۱۹۹۴ء تا جولائی ۲۰۰۱ء وکیل التعلیم بھی رہے۔ اِسی طرح ریسرچ سیل اور واقعہ صلیب سیل کے انچارج تھے۔ ۲۰۰۵ء میں نور فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا تو اُس کے صدر مقرر ہوئے، آخر تک اِسی خدمت پر مامور تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اِن کو ۳؍ جون ۱۹۶۲ء کو مجلسِ اِفتاء کا ممبر مقرر فرمایا اور نومبر۱۹۷۲ء تک آپ اِس کے ممبر رہے، اِس کے بعد دسمبر ۱۹۸۹ء میں دوبارہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اِن کو اِفتاء کا ممبر مقرر فرمایا اور تا حیات اِس پر قائم رہے۔خدام الاحمدیہ میں بھی اِن کو مختلف حیثیتوں سے بطورمہتمم اور نائب صدر خدمت کی توفیق ملی۔ علمی میدان میں بھی اِن کی خدمات بڑی وسیع ہیں۔ ترجمہ قرآنِ کریم جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ہے، اِس کی تیاری میں بھی اِنہوں نے کافی معاونت کی، جس کا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی ذکر اور اظہارِ تشکر فرمایا ہے۔ صحاح ستّہ کا مکمل اردو ترجمہ کرنےکے بعد مسند احمد بن حنبل کا ترجمہ جاری تھا۔ اسی طرح صحیح مسلم کی شرح بھی جاری تھی، شمائلِ ترمذی کا ترجمہ بھی اِنہوں نے کیا۔ بائبل کے متعلق بیسیوں علمی مقالہ جات تحریر کیے، مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے، بائبل میں سے اِستثناء اور اناجیل میں سے تین کی تفسیر لکھی۔اِسی طرح کفنِ مسیح، مرہمِ عیسیٰ اور حضرت مسیحؑ کی ہجرت کے متعلق بہت اعلیٰ پائے کےتحقیقی کام کیے۔ اِن کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کُتب اور مواد اِس وقت یہ ہیں: سیرت النبیؐ کَانَ خُلُقُهُ الْقُرْاٰن اِس کےتین حصّے ہیں، ایک ہمارے پیارے نبی ؐکی پیاری باتیں، پھر اِسی طرح نماز کے بعد روزانہ درس کے انتخاب کے لیےایک چھوٹا سا کتابچہ ۳۶۵ دن ہے، پھر ایک ہے فلسطین سے کشمیر تک، حضرت مسیحِ موعودؑ کی تحریرات کی رُو سے سیرت النبیؐ کا اِنہوں نے مواد اکٹھا کیا جو کہ ابھی غیر مطبوعہ ہے۔ صحیح بخاری سے بعض تربیتی عناوین کا انتخاب کیا ہے۔اسی طرح پرانے پوپ نے جب ایک غلط سوال کیا تھا تو اُس کا بھی انہوں نے ردکیا۔ مسجد بشارت سپین کے سنگِ بنیاد کے موقعے پر جس بنیادی پتھر پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے دعا کروائی تھی، وہ پتھر بھی محترم میر صاحب نے اُٹھایا ہوا تھا۔اسی مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے موقع پر بھی ان کو اور ان کی اہلیہ کو خدمت کا موقع ملا، جس کا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ذکر بھی فرمایا تھا۔ ۱۹۵۵ء میں جلسہ سالانہ کے افتتاح کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ نے آٹھ نکاحوں کا اعلان فرمایا تھا، اِن میں میر محمود احمد صاحب کا نکاح بھی تھا، جو آپؓ نے اپنی بیٹی امۃ المتین صاحبہ کے ساتھ پڑھا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ۱۹۸۲ء میں اِن کے سب سے بڑے بیٹے کا نکاح پڑھایا، اُس میں سیّد میر محمود احمد صاحب کا ذکر حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی اولاد کے ضمن میں کرتے ہوئے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے اُن (یعنی حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ ) کی دعاؤں کو سنا اور اپنے ساتھ اِن کے پیار کو دیکھ کر اُن کے تینوں بچوں کو وقف کرنے کی توفیق عطا کی۔ لیکن یہ چیز اِن ساروں میں کامن (common)ہے کہ خوشی سے رہنا کہ جو جماعت دے اُس کوقبول کرنا اور کسی قسم کا مطالبہ نہ کرنا۔ اِن کے باپ کا یہ ورثہ پوری نسل میں آگے چلا ہے۔ ۱۹۹۰ء میں آپ پر ایک مقدمہ قائم ہوا جو مجلسِ شوریٰ میں اظہارِ رائے پر تھا، مقدمہ ۲۹۸سی کا تھا۔ لیکن جج نے آپ کو کہا کہ آپ نے تقریر میں آنحضورؐ اور صحابہؓ کی توہین کی ہے۔ اِس پر آپ نے بڑی سختی سے اِس کا جج کے سامنے ردکیا اور بتاتے تھے کہ مجھے اِس بات کی بڑی تکلیف تھی۔ جج نے آپ کو کہا کہ میر محمود احمد نے بحث کے دوران نبی کریمؐ اور صحابہؓ کے متعلق توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اِس پر آپ نے کہا کہ یہ مجھ پر الزام ہے، یہ سراسر جھوٹ ہے، جھوٹ ہے، جھوٹ ہے۔ مَیں نبی کریمؐ اور صحابہؓ کی دل سے تعظیم کرتا ہوں اور اُن کی رسالت پر پختہ ایمان رکھتا ہوں۔ پھر کہا کہ مَیں سیّد ہوں اور اُن کی آل سے ہوں اور جھوٹ بولنے والے پر لعنت بھیجتا ہوں۔ یہ جج کے سامنے بڑی جرأت سے اُنہوں نے بیان دیا۔ دینی علوم جن میں اسلام کے علاوہ یہودیت، عیسائیت وغیرہ کا بھی مطالعہ تھا، اِس پر بہت دسترس تھی، موازنہ مذاہب میں آپ کو خاص مہارت تھی۔ روایتی فقہ سے نالاں تھے۔ ہمیشہ اِس بات کی نصیحت کرتے تھے کہ قرآنِ کریم، سنّتِ رسولؐ ، صحیح احادیث اور حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کے خلفاء کے علم الکلام سے راہنمائی حاصل کرو۔ مبشر ایاز صاحب لکھتے ہیں کہ میر صاحب نے ایک نہایت معصومانہ اور پاکباز زندگی بسر کی۔ انتہائی نفیس لیکن عاجز اور منکسر المزاج قناعت و توکّل کی ایک اعلیٰ مثال بن کر رہے، علم و عرفان کا ایک سمندر تھے، بہت بڑے عالِم تھے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ باتیں سب ٹھیک ہیں۔مفسّر بھی تھے، محدّث بھی تھے، جماعتِ احمدیہ کی تاریخ کے یہ پہلے خوش نصیب عالم ہیں جنہیں قرآنِ کریم کا ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ پوری صحاح ستّہ کا اردو ترجمہ کرنے کی توفیق ملی۔ میر صاحب کی زندگی عبارت تھی اِس بات سے کہ کام ، کام اور بس کام! چھٹی کا لفظ میر صاحب کی لغت میں نہ تھا۔ میر صاحب بلاشبہ خلافت نما وجود تھے، جنہوں نے خلافت سے اطاعت اور خلافت سے محبّت کر کے ہمیں دکھایا اور سمجھایا۔ تفصیلی ذکر خیر کرنے کے بعد آخر پر حضورِ انور نے فرمایا کہ اِن کے بے شمار واقعات لوگوں نے لکھے ہیں، اور بھی ہیں، متفرق احباب کی طرف سے جو بیان کرنامشکل ہیں۔ایک چیز ہے جو ہر مربی یا بہت ساروں نے کی جو کہ کامن ہے کہ ایک لفظ پکڑ لو قبر! اُس پر عمل کرو۔ اور اُس قبر کے معنی یہ بتاتے تھے کہ ق سے قرآن، ب سے بخاری حدیث کی کتاب اور ر سے روحانی خزائن ۔ یہ کہا کرتے تھے کہ اگر اِن کے تم ماہر بن جاؤ ، اِس کو حاصل کر لو، اِس پر عمل کرنے کی کوشش کرو ، اِس سے صحیح علم سیکھنے کی کوشش کرو ، اِس سے روحانیت سیکھنے کی کوشش کرو تو تم اپنے مقصد کو پا نےمیں کامیاب ہو جاؤ گے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ ویسے بھی قبر کا خود لفظ بھی ایسا ہے کہ اگر انسان کو یاد رہے تو خدا تعالیٰ یاد رہتا ہے اور جب خدا تعالیٰ یاد رہے تو پھر انسان تقویٰ پر چلنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ بہرحال خلافت کے ایک عظیم معاون اور مددگار تھے، جاںنثار تھے، حرف حرف پر عمل کرنے والے تھے، باوفا تھے، ایسے سلطانِ نصیر تھے جو کم کم ہی ملتے ہیں، عالِم باعمل تھے۔مجھے تو کم از کم اِن جیسی کوئی مثال ابھی نظر نہیں آتی ۔ الله کے خزانے میں تو کوئی کمی نہیں ہے۔ الله تعالیٰ کرے کہ ایسی مثالیں اَور بھی پیدا ہو جائیں اور ایسے باوفا اور مخلص اور تقویٰ پر چلنے والے مددگار الله تعالیٰ خلافتِ احمدیہ کو عطا فرماتا رہے۔ اور ان کی اولاد کو بھی اِن کے باپ کی دعاؤں کا حصّہ دار بنائے اور اُن کے عمل پر، اُن کی نصیحتوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دوسرا ذکر جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ایک احمدی کا ہے ، جن کی گذشتہ دنوں میں اسیری میں وفات ہوئی، ڈاکٹر طاہر محمود صاحب ابن غلام رسول صاحب کراچی کے تھے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔تفصیلات کے مطابق مرحوم طاہر محمود صاحب صدر حلقہ ملیر کالونی کراچی اور دیگر دو احباب اعجاز حسین صاحب اور ایاز حسین صاحب کو ملیر کالونی کراچی میں احمدیہ مسجد کی طرزِ تعمیر اور وہاں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کو جواز بنا کر ، پولیس نے اِن کے خلاف چارج کیا اور گرفتاری عمل میں لائی۔پہلے قبل از گرفتاری ضمانت کروائی گئی تھی، لیکن بعد میں اِن کی ضمانت منسوخ ہو گئی اور ان کو گرفتار کر لیا گیا اور اِس دوران میں جب ضمانت کے لیے عدالت میں تھے، مخالفین کے ہجوم نے اور مخالف وکلاء نے اِن پر حملہ کیا، اِن کو تشدد کا نشانہ بنایا ، خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں بلکہ یہاں تک کہ پولیس کے ایک اہلکار نے ہجوم کو کہا کہ اِن کو گولی مار دو۔پولیس سٹیشن میں بھی اِن پر تشدد کیا گیا، حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور خلفاء کے خلاف بد زبانی کرنے پر مجبور کیا گیا، لیکن یہ ڈٹے رہے، استقامت دکھائی، اِس کے بعد اِن کو جوڈیشل کر کے جیل میں منتقل کیا گیا۔ جیل میں یہ دو ماہ رہے۔ وفات سے چند دن قبل اِن کے گُردوں میں انفیکشن کی وجہ سے جیل میں طبیعت خراب ہوئی ، پھر وہاں سے اِن کو ہسپتال بھیجا گیا، لیکن چند دنوں بعد یہ وفات پا گئے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔وفات کے وقت ہسپتال میں بھی اِن کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ ان کی وفات ہو سکتا ہے کہ تشدد کی وجہ سے ان کو اندرونی چوٹیں بھی آئی ہوں ۔ہو سکتا ہے یہی سبب بنی ہوں۔ اسیری کی صعوبتیں برداشت کیں، مار کھائی، عدالت کے سامنے مار کھائی اور یہ ساری وجوہات اور شواہد ایسے ہیں کہ اِس لحاظ سے ان کو شہادت کا مقام ہی ملتا ہے اور یہ شہیدوں کے زمرے میں بھی آئیں گے۔ نظامِ وصیّت میں شامل تھے اور بطورِ صدر ، سیکرٹری دعوتِ الی الله اور بہت ساری دوسری ذیلی تنظیموں کی خدمات کا موقع بھی اِن کو ملا۔ پسماندگان میں اِن کی اہلیہ محترمہ کے علاوہ ایک بیٹی اور تین بیٹے شامل ہیں۔ بیٹے مربی سلسلہ ہیں اور پاکستان میں ہی ہیں۔ الله تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے ، درجات بلند فرمائے اور اِن کی اولاد کو بھی اِن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ خطبہ ثانیہ سے قبل حضورِ انور نے فرمایا کہ نماز کے بعد نمازِ جنازہ غائب ہو گا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ02؍ مئی 2025ء