https://youtu.be/Wxj-mVMcUrY?si=SFGTUyrgs7lRGaYl&t=1592 حکایتِ مسیح الزماںؑ محبت کی نظر اور عداوت کی نظر کا فرق حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’سلطان محمود سے ایک بزرگ نے کہا کہ جو کوئی مجھ کو ایک دفعہ دیکھ لیوے اس پر دوزخ کی آگ حرام ہو جاتی ہے۔محمود نے کہا یہ کلام تمہارا پیعمبرِِخدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ہے۔ان کو کفار ابولہب، ابوجہل وغیرہ نے دیکھا تھا ان پر دوزخ کی آگ کیوں حرام نہ ہوئی؟ اس بزرگ نے کہا کہ اے بادشاہ کیا آپ کو علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ وَھُمْ لَایُبْصِرُوْنَ (الاعراف 199) اگر دیکھا اور جھوٹا کاذب سمجھا تو کہاں دیکھا ؟ …. دیکھنے والا اگر محبت اور اعتقاد کی نظر سے دیکھتا ہے تو ضرور اثر ہو جاتا ہے اور جو عداوت اور دشمنی کی نظر سے دیکھتا ہے تو اسے ایمان حاصل نہیں ہواکرتا‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ214 ایڈیشن 2022ء) ٭… ٭… ٭… ٭… ٭ محمود اور ایاز کی دوسری کہانی حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒمجلس اطفال الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کے افتتاحی خطاب فرمودہ 16؍اکتوبر 1982ء میں فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بادشاہ کے دربار میں ایک بہت ہی شاندار گرما پیش کیا گیا۔ آپ جانتے ہیں گرما ایک پھل ہے۔اس کی قاشیں کاٹ کر کھایا جاتا ہے۔بہت میٹھا ہوتا ہے۔لیکن بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر خشک سالی ہو یا کوئی بیماری پڑ جائے تو بعض گرمے انتہائی کڑوے ہوجاتے ہیں۔اتنے کہ بعض دفعہ ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں۔بہرحال گرما تھا۔کسی نے بڑی محبت سے بادشاہ کو پیش کیا۔اس نے قاش کاٹی اور پہلی قاش ایاز کو دے دی۔ایاز نے اس مزے مزے سے وہ کھائی کہ درباری بھی بڑی بیقراری سے انتظار کرنے لگے کہ ہماری بھی باری آئے تو ہم بھی کھائیں۔ان کے منہ میں بھی پانی آنے لگ گیا۔بادشاہ بیٹھا دیکھتا رہا اور مزے اٹھاتا رہا ایاز کے لطف کے۔اس کے بعد اس نے بڑے تحمل سے دوسری قاش کاٹی اور اپنے وزیر اعلیٰ کو دی۔اس نے ایک لقمہ ہی کھایا تھا کہ وہیں تھوک دیا۔اس سے برداشت نہیں ہوا۔اس کے چہرے کا رنگ بگڑ گیا۔اس قدر بُری حالت ہوئی۔بادشاہ نے کہا تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ اس نے کہا: بادشاہ سلامت! یہ اتنا کڑوا۔اتنا بدمزہ ہے کہ گستاخی ہو گئی مجھ سے۔یہ بھی نہیں ہو سکا کہ باہر جا کر تھوکوں۔برداشت ہی نہیں ہو سکا۔ابھی منہ سے باہر نکل گیا۔بادشاہ نے کہا۔اب سمجھے ہو ایاز کس کو کہتے ہیں؟ ساری قاش اس نے کھائی ہے میری محبت میں۔ایک ایک کڑوا گھونٹ بھرا ہے میرے پیار میں۔یہ جانتا تھا کہ میں اس پر احسان کرتا ہوں۔اس کو میٹھی چیزیں بھی ملتی ہیں تو کڑوی بھی اس نے اسی محبت سے قبول کرلی اور ماتھے پر ذرا بل نہیں آیا۔بلکہ یوں معلوم ہو رہا تھا کہ اتنی مزیدار چیز اس کو عطا ہوئی ہے کہ اس سے زیادہ مزیدار چیز دنیا میں ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ فرق ہوا کرتا ہے ایک محبت کے عام دعویدار میں اورایک حقیقی ایاز یعنی ایک سچے عاشق میں۔اس لئے جب دعا کا مضمون آپ کو بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دعا قبول فرماتا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بچوں پر بھی رحمت فرماتا ہے۔لیکن وہ مالک ہے جب چاہے عطا فرماتا ہے، جب چاہے نہیں دیتا۔کسی دوسری آزمائش میں مبتلا کرتا ہے زیادہ انعامات کی خاطر۔یہ نکتہ بھی سمجھنا چاہیے کہ دوسری آزمائش محض دنیا کی کوئی آزمائش نہیں ہے۔بلکہ اس کے نتیجہ میں انعام نازل ہوتے ہیں جس طرح مال کی آزمائش کے نتیجہ میں انعام ملتے ہیں۔ (روزنامہ الفضل ربوہ16؍جولائی 1983ءبحوالہ مشعل راہ جلدسوم صفحہ61-62) ٭… ٭… ٭… ٭… ٭ خلافت کے امیں ہم ہیں خلافت کے امیں ہم ہیں، امانت ہم سنبھالیں گےجو نعمت چِھن چکی پہلے وہ نعمت ہم سنبھالیں گے خلیفہ کے لبوں سے جو گل و جوہر بکھرتے ہیںبڑے انمول موتی ہیں، یہ دولت ہم سنبھالیں گے اسی کی رہبری میں یہ فلک تک جو رسائی ہےقسم مولا کی کھاتے ہیں یہ قامت ہم سنبھالیں گے مرے رہبر! مرے مُرشد ! ترے خدّام کہتے ہیںتمہیں چھاؤں میں رکھیں گے، تمازَت ہم سنبھالیں گے ہے تن من دھن فدا اپنا خلافت کی حفاظت میںعدو نے جو بھی ڈھانی ہو قیامت ہم سنبھالیں گے (ا۔ح۔فراز، ماہنامہ خالد نومبر 2010ء)