https://youtu.be/g161h7PugsU ٭… کیا یہ کہنا درست ہے کہ Transgenderism صرف ایک Mental illness ہے جس کیے لیے کسی آپریشن یا طبی مداخلت کی بجائے عمدہ قسم کی Psychological Therapyکی ضرورت ہوتی ہے۔ آنحضورﷺکے زمانے میں ایسے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا تھا، اور اسلامی معاشرہ میں ان کی کیا حیثیت تھی؟ ٭… اگر کوئی معافی مانگے تو اسے معاف کرنا چاہیے کہ نہیں؟ کسی کو پیسے لے کر کام پر لگواناٹھیک ہے؟ مرد زنا کرے، عورت پر ہاتھ اٹھائے، اس کے ماں باپ کی عزت نہ کرے،عورت کو طعنے دے اس کو کوئی گناہ نہیں اور اسے معافی مل جائے گی لیکن عورت ہر حال میں چپ رہے کچھ نہ کہے کیونکہ وہ اپنی زبان کی وجہ سے ہر حال میں جہنم میں جائے گی۔ بیوی کا ہمبستری کا دل ہو شوہر ہر بار تھکنے کا بہانہ کرے شوہر پر کوئی گناہ نہیں لیکن اگر عورت منع کرے تو اس پر گناہ ہے اور عورت پر فرشتے لعنت کرتے ہیں مرد پر نہیں۔ گویا ہر لحاظ سے عورت ہی بری ہے اور مرد ہر لحاظ سے صحیح ہے۔ سوال: یوکے سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ کیا یہ کہنا درست ہے کہ Transgenderism صرف ایک Mental illness ہے جس کے لیے کسی آپریشن یا طبی مداخلت کی بجائے عمدہ قسم کی Psychological Therapyکی ضرورت ہوتی ہے۔ آنحضورﷺکے زمانہ میں ایسے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا تھا، اور اسلامی معاشرہ میں ان کی کیا حیثیت تھی۔ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ام سلمیٰؓ کی اسی طرح کی ایک ملازمہ تھی جس پر حضور ﷺنے لعنت بھیجی کیونکہ اس نے ایک خاتون کے جسم پر تبصرہ کیا تو حضور کو معلوم ہوا کہ وہ ایک Transgenderہے اور عورتوں کے جسم کی طرف راغب ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۳؍ستمبر۲۰۲۳ء میں ان سوالات کے بارہ میں درج ذیل تفصیلی ہدایات عطافرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا: جواب:تخلیق آدم سے لےکر قیامت تک شیطان نے آدم کی اولاد کو بہکانے اور اسے خدا تعالیٰ کے راستہ سے برگشتہ کرنے کا جو بیڑا اٹھا رکھا ہے، اس کے تحت شیطان مختلف طریقوں سے انسانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان شیطانی حملوں سے باخبر رکھنے کے لیے ان الفاظ میں انذار فرمایا ہے: لَعَنَہُ اللّٰہُ وَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنۡ عِبَادِکَ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا۔ۙ وَّلَاُضِلَّنَّہُمۡ وَلَاُمَنِّیَنَّہُمۡ وَلَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الۡاَنۡعَامِ وَلَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰہِ ؕ وَمَنۡ یَّتَّخِذِ الشَّیۡطٰنَ وَلِیًّا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَقَدۡ خَسِرَ خُسۡرَانًا مُّبِیۡنًا۔ یَعِدُہُمۡ وَیُمَنِّیۡہِمۡ ؕ وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا۔ اُولٰٓئِکَ مَاۡوٰٮہُمۡ جَہَنَّمُ ۫ وَلَا یَجِدُوۡنَ عَنۡہَا مَحِیۡصًا۔(سورۃ النساء: ۱۱۹تا۱۲۲) یعنی (اس شیطان کو) جسے اللہ نے (اپنی جناب سے) دور کر دیا ہے اور (جس نے یہ) کہا تھا کہ میں تیرے بندوں سے ضرور ہی ایک مقررہ حصہ لوں گا۔اور انہیں لازماًگمراہ کروں گا اور یقیناً (بڑی بڑی) امیدیں بھی دلاؤں گا اور ان سے باصرار یہ خواہش کروں گا کہ وہ چوپایوں کے کان کاٹیں۔ اسی طرح خواہش کروں گا کہ وہ مخلوق خدا میں تبدیلی کریں اور جو اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے، تو (سمجھو کہ) وہ (کھلے) کھلے نقصان میں پڑ گیا۔ وہ (شیطان) انہیں وعدے دیتا ہے اور انہیں امیدیں دلاتا ہے اور شیطان ان سے بجز ظاہر فریب باتوں کے (کسی امر کا) وعدہ نہیں کرتا۔ ان لوگوں کا ٹھکانا تو جہنم ہے اور وہ اس سے بھاگنے کی جگہ کہیں نہیں پائیں گے۔ اس آخری زمانے میں خاص طور پر شیطان نے دجالی قوتوں کا روپ دھار کر انسانوں کو گمراہ کرنے کا طریق اختیار کیا ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جس سے ہر نبی نے اپنے متبعین کو ڈرایا اور آنحضورﷺ نے اس کے بارہ میں بہت زیادہ انذار فرمایا۔(صحیح بخاری کتاب الفتن بَاب ذِكْرِ الدَّجَّالِ) اور ان شیطانی اور دجالی طاقتوں کے مقابلہ کے لیے اپنے روحانی فرزند اور غلام صادق مسیح موعود و مہدی معہود کی بعثت کی خوشخبری عطا فرمائی۔ (صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن باب قَوْلُهُ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ)جس نے اپنی خداداد تائید و نصرت کے ذریعہ دلائل و براہین کے ساتھ ان دجالی قوتوں کا مقابلہ کر کے اسے ان شاء اللہ ناکام و نامراد کرنا ہے۔ پس آنحضورﷺکے عشق اور آپ کی کامل اتباع کے نتیجہ میں مسیح محمدی کے مقام پر فائز ہونے والے اس جری اللہ فی حلل الانبیاء نے شیطانی اوردجالی طاقتوں کے مقابلہ کے لیے ہمیں جو دعا اور قلمی جہاد کے ہتھیار عطا فرمائے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو ان ہتھیاروں سے پوری طرح لیس کر کے ان شیطانی اور دجالی قوتوں کا مقابلہ کر کے خود کو اور اپنی آئندہ نسل کو ان کے حملوں سے محفوظ کریں۔ لیکن اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم آپؑ کی دی ہوئی تعلیمات کو حرز جان بنا کر ان پر عمل پیرا ہوں۔ باقی جہاں تک Transgenderکا معاملہ ہے تو عموماً یہ لفظ پیدائشی جنسی بیماری میں مبتلا افراد کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور ایسے شخص کے لیے بھی بولا جاتا ہے جو اپنی پیدائشی جنس کے برعکس جنس والے جذبات یا کسی اور قسم کی جنس کے جذبات اپنے ذہن میں محسوس کرتا ہو۔ یہ دوسری قسم کی بیماری اگر معاشرتی بے راہ رویوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی سوچ اور دماغی خرابی کے نتیجہ میں انسان کے ذہن میں آتی ہےتو یہ بھی غلط ہے اور پھر ایسی سوچ والا شخص جب عملاً اپنی جنس تبدیل کرنا چاہتا ہے تو یہ سب امور اسی انذار کے تحت آئیں گے، جس کا اوپر قرآن کریم کے حوالہ سے ذکرکیا گیا ہے۔ لہٰذا اس قسم کی سوچ اور اس کے نتیجہ میں ایسا عمل مخلوق خدا میں تبدیلی کے مترادف ہے جس کی اسلام نے ہرگز اجازت نہیں دی۔ Transgender کی وہ قسم جس میں کوئی انسان پیدائشی طور پر مبتلا ہواگر اس کا علاج آپریشن وغیرہ سے ممکن ہو تو ضرور کروانا چاہیے، کیونکہ بیماریوں کا علاج بھی اللہ تعالیٰ نے ہی انسان کو اپنی رحمت کے طور پر عطا فرمایا ہے۔ لیکن اس کی وہ قسم جس میں انسان جسمانی طور پر تو ٹھیک ہو لیکن معاشرتی بے راہ رویوں کا شکار ہونے کی وجہ سے صرف ذہنی طور پر اس میں مبتلا ہو جائے تو چونکہ یہ صرف ایک ذہنی جنسی بیماری ہے ، لہٰذا اس کا آپریشن وغیرہ کے ذریعہ ظاہری علاج تو ممکن نہیں، اس لیے اس کا کوئی نفسیاتی علاج یا Psychological Therapy وغیرہ جو بھی فائدہ مند ہوکو اختیار کرنے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ ایسے لوگوں کو ہم اس طرح بُرا نہیں سمجھتے کہ انہیں اپنے سے دُور کرنے کے لیے دھتکار دیں، اور ان سے نفرت کریں، اسلام نے ہمیں ہر گز ایسی تعلیم نہیں دی۔ بلکہ ایک انسان ہونے کی حیثیت سےہر معاشرہ اور حکومت کا یہ فرض ہے کہ ایسے لوگوں کی جائز ضروریات کو پورا کرے، اگر ان کا علاج ہو سکتا ہو تو انہیں علاج کی سہولت بہم پہنچائے۔ اس بیماری کی وجہ سے انہیں ہر اس بُرائی میں مبتلا ہونے سے بچانے کی کوشش کرے، جس میں اس بیماری کے شکار افراد کا شیطان کے بہکاوے میں آکر مبتلا ہونے کا امکان ہو۔ اور ان کی اصلاح کے لیے مناسب اقدامات کرے ۔ ایسے لوگ اگر کسی ایسی بُرائی میں مبتلا ہوتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے بُرا کہا ہےتو ہمارے نزدیک بھی ان لوگوں کا یہ فعل بہرحال بُرا ہی ہو گا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس بُرائی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو سزابھی دی تھی۔لہٰذا یہ تو نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے آج سے کئی ہزار سال پہلے ایک قوم کو اس بُرائی کی وجہ سے سزا دی ہو لیکن آجکل لوگ وہی برائی کریں تو اللہ تعالیٰ انہیں سزا نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے مختلف طریقے ہیں۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس معاملہ میں سزا بھی دی تھی۔ اب بھی اللہ تعالیٰ خود ہی فیصلہ کرے گا کہ ایسے لوگوں کا کیا کرنا ہے۔ لیکن ہماری ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کوان بُرے کاموں میں پڑنے سے بچائیں کیونکہ ہم مذہبی لحاظ سے اس چیز کو بُرا سمجھتے ہیں۔ باقی آپ نے حدیث کے حوالہ سے جو باتیں لکھی ہیں وہ پوری طرح درست نہیں ہیں۔اصل حدیث یہ ہے کہ نبی کریمﷺاپنی زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ ؓ کے ہاں تشریف لائے تو وہاں ایک مخنث کو حضرت ام سلمہؓ کے بھائی حضرت عبداللہ بن ابی امیہؓ سے کہتے ہوئے سنا کہ اگر اللہ نے کل طائف کو فتح کرا دیا تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی دکھاؤں گا، جو سامنے سے آتی ہے تو اس کےپیٹ کے چار شکن پڑتے ہیں اور جب پیٹھ موڑ کر جاتی ہے تو آٹھ شکن پڑتے ہیں۔ (گویا یہ مخنث ایک دوسری عورت کی جسمانی بناوٹ کا ذکر ایک غیر مرد سے کر کے اس کے جذبات ابھارنے کی کوشش کر رہا تھا) مخنث کی یہ بات سن کر حضورﷺنے اپنے گھر والوں کو نصیحت فرمائی کہ تم ایسے لوگوں کو اپنے پاس نہ آنے دیا کرو۔ (بخاری کتاب النکاح بَاب مَا يُنْهَى مِنْ دُخُولِ الْمُتَشَبِّهِينَ بِالنِّسَاءِ عَلَى الْمَرْأَةِ) اس روایت کے مطابق حضورﷺنے اس مخنث پر کوئی لعنت نہیں ڈالی۔ بلکہ چونکہ وہ دوسرے گھروں کی خواتین کی اندرونی اور ان کی جسمانی بناوٹ کی باتوں کی مردوں میں تشہیر کر رہا تھا، جواسلامی پردہ کی روح کے خلاف ہے اس لیے حضورﷺنے اس قسم کی بُری عادتیں رکھنے والے لوگوں کو اپنے گھروں میں آنے سے منع فرما دیا۔ اور اس میں حرج کی کوئی بات نہیں کیونکہ قرآن نے جہاں پردہ کا حکم دیا تھا وہاں عورتوں کو ایسی عورتوں سے بھی پردہ کا حکم دیا ہے، جو گھر کی عورتوں میں کوئی بُرائی پیدا کرنے والی ہوں ۔(النور:۲۴)چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ النور کی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: أَوْ نِسَائِهِنَّسے پتہ لگتا ہے کہ بعض عورتوں سے بھی پردہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہر ملک میں یہ رواج ہے، اور ہمارے ملک میں بھی تھا گو اب کم ہو گیا ہے کہ بدچلن لوگوں نے آوارہ عورتیں رکھی ہوئی ہوتی ہیں جو گھروں میں جا کر آہستہ آہستہ عورتوں کو ورغلاتی اور انہیں نکال کر لے جاتی ہیں۔ اس قسم کی عورتوں کو روکنے کے لیے شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ ہر عورت کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے بلکہ وہی عورتیں آئیں جن کے متعلق اس قسم کا کوئی خطرہ نہ ہو۔ اور ان کے حالات سے پوری واقفیت ہو۔(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۳۰۱، مطبوعہ قادیان ۲۰۰۴ء) پس حضورﷺنے اس قرآنی حکم کے تحت اسی قسم کی احتیاط کی بنا پر اپنی ازواج مطہرات کو ہدایت فرمائی کہ جو مخنث عورتوں کی اندرونی باتوں کو باہر مردوں میں بیان کرنے کی عادت رکھتا ہواسے بھی اپنے گھروں میں داخل نہ ہونے دیا کریں۔ حضورﷺکا یہ حکم اس مخنث میں پائے جانے والے جسمانی نقص کی بنا پر ہر گز نہیں تھا بلکہ اس کی ذہنی بُرائی کی وجہ سے تھا جس کی بنا پر وہ عورتوں کی اندرونی باتوں کو باہر مردوں میں پھیلانے کی عادت رکھتا تھا۔ علاوہ ازیں مخنث کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک کا جذباتی رجحان مردوں سے مشابہ ہوتا ہے اور دوسری قسم کارجحان عورتوں سے زیادہ مشابہ ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا روایت سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ اس مخنث کا جذباتی رجحان مردوں سے مشابہ تھا اسی لیے اس نے ایک عورت کی جسمانی بناوٹ کو بڑی گہرائی سے دیکھا اور اسے بیان کیا، جس پر حضورﷺنے اس کی اس بات سےیہ نتیجہ اخذ فرمایا کہ چونکہ اس مخنث کا جذباتی رجحان مردوں سے مشابہ ہے اس لیے اپنی زوجہ مطہرہ کو اسے اپنے گھر داخل ہونے سے منع فرما دیا۔ لیکن اس کے جسمانی نقص کی وجہ سے اس سے کسی بھی قسم کی نفرت کا اظہار حضورﷺ نے ہرگز نہیں فرمایا۔ سوال: آسٹریلیا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اگر کوئی معافی مانگے تو اسے معاف کرنا چاہیے کہ نہیں؟ کسی کو پیسے لے کر کام پر لگواناٹھیک ہے؟ مرد زنا کرے، عورت پر ہاتھ اٹھائے، اس کے ماں باپ کی عزت نہ کرے،عورت کو طعنے دے اس کو کوئی گناہ نہیں اور اسے معافی مل جائے گی لیکن عورت ہر حال میں چپ رہے کچھ نہ کہے کیونکہ وہ اپنی زبان کی وجہ سے ہر حال میں جہنم میں جائے گی۔ بیوی کا ہمبستری کو دل ہو شوہر ہر بار تھکنے کا بہانہ کرے شوہر پر کوئی گناہ نہیں لیکن اگر عورت منع کرے تو اس پر گناہ ہے اور عورت پر فرشتے لعنت کرتے ہیں مرد پر نہیں۔ گویا ہر لحاظ سے عورت ہی بری ہے اور مرد ہر لحاظ سے صحیح ہے۔ اس بارہ میں راہنمائی کی درخواست ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۵؍ستمبر ۲۰۲۳ء میں ان مسائل کے بارہ میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: کسی کی غلطی پر اسے معاف کر دینا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺکو بہت پسند ہے اور قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺاس مضمون سے بھرے پڑے ہیں۔البتہ قرآن کریم نے معافی کے ساتھ صرف ایک شرط لگائی ہے کہ جسے معاف کیا جا رہے اس معافی سے اس کی اصلاح ہورہی ہو۔ چنانچہ فرمایا وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ۔(الشوریٰ:۴۱)یعنی بدی کا بدلہ اتنی ہی بدی ہوتی ہے اور جو معاف کرے اور اصلاح کو مدنظر رکھے تو اس کو بدلہ دینا اللہ کے ذمے ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خواہ نخواہ اور ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیا جائے اور شریروں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائے بلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ وہ محل اور موقع گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کاہے۔ پس مجرم کے حق میں اور نیز عامہ خلائق کے حق میں جو کچھ فی الواقع بہتر ہو وہی صورت اختیار کی جائے۔ بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے توبہ کرتا ہے اور بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے اور بھی دلیر ہو جاتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اندھوں کی طرح صرف گناہ بخشنے کی عادت مت ڈالو بلکہ غور سے دیکھ لیا کرو کہ حقیقی نیکی کس بات میں ہےآیا بخشنے میں یا سزا دینے میں۔ پس جو امر محل اور موقع کے مناسب ہو وہی کرو۔’’(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد۱۰ صفحہ۲۵۲،۲۵۱) آپ کے دوسرے سوال کا جواب ہے کہ کسی سے ناجائز طور پر پیسے لے کر اسے کام دلوانا تو ہر گز درست نہیں ، یہ تو رشوت ہی کے زمرہ میں آتا ہے۔ لیکن اگر کسی نے دیانت داری کے ساتھ کسی دوسرے بھائی کو کوئی کام دلوانے کے لیے کوشش کی ہے اور اس کوشش میں اس کا کچھ خرچ بھی ہوا ہے تو اس خرچ کے مطابق اپنی رقم وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اگر کسی کا یہ کاروبار ہو کہ وہAdministrative charges یا کمیشن کے نام پر کچھ فیس وغیرہ لے کر ملازمت کا انتظام کرواتا ہو اور ملازمت لینے والے شخص کو پہلے سے یہ تمام باتیں معلوم ہوں اور پھر وہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے اس شخص کے ذریعہ ملازمت حاصل کرتا ہے تو چونکہ یہ دوسرے شخص کا کاروبارہے اس لیے اس قسم کی فیس وغیرہ حاصل کرنے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ عورت اور مرد کے فرق کے بارہ میں آپ کے سوال کے جواب میں تحریر ہے کہ اسلام نے گناہ اور ثواب کے معاملہ میں مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں رکھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےمَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ۔ (المومن:۴۱)یعنی جو بُرا عمل کرے گا۔ اس کو اسی کے مطابق نتیجہ ملے گا اور جو کوئی ایمان کے مطابق عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ ایمان میں سچا ہو وہ اور اس کے ہم مشرب لوگ جنّت میں داخل ہوں گے اور ان کو اس میں بغیر حساب کے انعام دیا جائے گا۔ پس آپ کی یہ بات درست نہیں کہ مرد کوئی غلطی کرے تو اسے معافی مل جاتی ہے اور عورت غلطی کرے تو اسے معافی نہیں ملتی۔ جزا اور سزا کے معاملہ میں مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن اگر کوئی خاوند یا بیوی اس دنیا میں اپنے ساتھی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور اسے ناجائز تکلیف پہنچاتا ہے اور اس کی کسی وجہ سے اس دنیا میں پکڑ نہیں ہوتی تو زیادتی کرنے والا فریق قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے ہاں بہرحال جوابدہ ہو گا۔ باقی میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات کی بابت آپ نے جو بات لکھی ہے اس کا ذکر حدیث میں بھی آیا ہے کہ جب خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور بیوی کسی ناراضگی کی وجہ سے انکار کر دے تو فرشتے اس پر ساری رات لعنت بھیجتے ہیں۔(صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَاب ذِكْرِ الْمَلَائِكَةِ) لیکن یاد رہے کہ اس حدیث کا اطلاق صرف بیوی پر نہیں ہوتا بلکہ برعکس صورت میں خاوند پر بھی اس حدیث کا اطلاق ہوگا۔ دراصل اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺنے بظاہر مرد کی جنسی خواہش کے لیے بے صبری کی وجہ سے بیوی کو کسی جائز عذر کے بغیر انکار کرنے پر تنبیہ فرمائی ہے ۔ ورنہ جس طرح بیوی پر لازم ہے کہ وہ خاوند کے دیگر حقوق کے ساتھ اس کی جنسی ضرورت کو بھی پورا کرے اسی طرح خاوند کا بھی فرض ہے کہ وہ بیوی کی دیگر ضروریات کے ساتھ اس کے جنسی حقوق بھی ادا کرے۔لہٰذا اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کی خواہش پر بغیر کسی مجبوری کے اس کے جنسی حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی طرح قابل گرفت ہو گا جس طرح ایک بیوی بغیر کسی جائز عذر کے اپنے خاوند کی جنسی خواہش کی تکمیل سے انکار کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی مستوجب ہو تی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عثمان بن مظعونؓ کی بیوی حضور ﷺکی ازواج کے پاس آئی۔ازواج مطہرات نے اس کی بُری حالت دیکھ کر اس سے دریافت کیا کہ اسے کیا ہوا ہے کیونکہ قریش میں اس کے خاوند سے زیادہ امیر آدمی اَور کوئی نہیں ہے۔ اس پر اس نے کہا کہ ہمیں تو اس سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میرے خاوند کا دن روزہ سے اور رات نماز پڑھتے گزرتی ہے۔ پھر جب حضورﷺاپنی ازواج کے پاس تشریف لائے تو ازواج مطہرات نے اس بات کا ذکر حضورﷺسے کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضورﷺحضرت عثمان بن مظعونؓ سے ملے اور ان سے (ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے) فرمایا کہ کیا تمہارے لیے میری ذات اسوہ نہیں ہے؟ اس پر حضرت عثمان بن مظعونؓ نے عرض کی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں بات کیا ہے؟ حضور ﷺنے فرمایا کہ تم رات نماز پڑھتے ہوئے اور دن روزہ رکھ کر گزار دیتے ہو، جبکہ تمہارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے اور تیرے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔لہٰذا نماز پڑھا کرو لیکن سویا بھی کرو اور کبھی روزہ رکھو اور کبھی چھوڑ دیا کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد یہی عورت دوبارہ ازواج مطہرات کے پاس آئی تو اس نے خوب خوشبو لگائی ہوئی تھی اور دلہن کی طرح سجی سنوری ہوئی تھی۔ ازواج مطہرات نے اسے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واہ کیا بات ہے! جس پر اس نے بتایا کہ اب ہمیں بھی وہ سب میسر ہے جو باقی لوگوں کے پاس ہے۔(مجمع الزوائد کتاب النکاح باب حق المرأة على الزوج) پھر مذکورہ بالا زیر نظر حدیث کے حوالہ سے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جائز عذر یا مجبوری کی بنا پر اس فعل سے انکار کی صورت میں کوئی فریق اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد نہیں بنتا۔جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضورﷺجب غزوہ تبوک پر تشریف لے گئے تو ایک صحابی جو سفر پر گئے ہوئے تھے، اور حضورﷺکے غزوہ کے لیے کوچ کر جانے کے بعد مدینہ واپس آئے ۔ اور اپنی بیوی کی طرف پیار کرنے کے لیے بڑھے، تو بیوی نے یہ کہتے ہوئے انہیں پیچھے دھکیل دیا کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ حضورﷺتو اس قدر گرمی میں دشمن سے جنگ کے لیے تشریف لے گئے ہیں اور تمہیں پیار کرنے کی اور میرے پاس آنے کی پڑی ہوئی ہے۔ (بحوالہ دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ ۳۴۴،۳۴۳ مطبوعہ ۱۹۴۸ء) پس اگر کوئی فریق کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے انکار کرتا ہے تو وہ کسی سزا کا مستوجب نہیں ہو گا۔ لیکن اگر کوئی خاوند یا بیوی دوسرے فریق کے قریب آ کر اس کے جذبات بھڑکانے کے بعد اسے تنگ کرنے کی غرض سے اس سے دُور ہو جاتا ہے تو یقیناً ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد ہو گا۔ مزید پڑھیں: بنیادی مسائل کے جوابات(قسط۹۶)