https://youtu.be/VVwSqhK8SiY جو کچھ اس شخص مقدس میں انوار الٰہیہ پیدا اور ہویدا ہیں۔ اُس کے اس ظل میں بھی نمایاں اور ظاہر ہوتے ہیں۔ اور سایہ میں اس تمام وضع اور انداز کا ظاہر ہونا کہ جو اُس کی اصل میں ہے ایک ایسا امر ہے جو کسی پر پوشیدہ نہیں۔ ہاں سایہ اپنی ذات میں قائم نہیں اور حقیقی طور پر کوئی فضیلت اس میں موجود نہیں بلکہ جو کچھ اس میں موجود ہے وہ اس کے شخص اصلی کی ایک تصویر ہے جو اس میں نمودار اور نمایاں ہے براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میںابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویومذہبی نکتہ چینی کی جواب کا بقیہ (جس میں فریق دوم یعنی لدھیانہ کے مکفرین کا جواب ہے) اور اگر بر سبیل تنزل اور بطور فرض ان آیات ملہمہ کا مثل قرآن ہونا ہی مان لیں تو بھی قرآن کا بے مثل ہونا باطل نہیں ہوتا اور نہ اس کا دعویٰ اعجاز و تحدی ٹوٹتا ہے۔ یہاں اگر (بقول معترض) قرآن کی مثل پائی گئی ہے تو وہ خود خدائےتعالیٰ کی طرف سے ہے نہ کسی مخلوق (جن و انس) کی طرف سے۔ اور جس مثل قرآن کی خدائے تعالیٰ نے نفی کی ہے اور بناء علیہ قرآن معجز و بے مثل کہلاتا ہے اور منکرین سے تحدی (طلب معارضہ و مقابلہ بالمثل) کرتا ہے۔ اِس سے مخلوق کی بنائی ہوئی مثل مراد ہے نہ وہ مثل جس کو خود خدا نازل کرے خدائے تعالیٰ نے جہاں مثل کا مطالبہ کیا ہے وہاں منکرین قرآن (جن و انسان) کو مخاطب کیا ہے۔ چنانچہ مشرکین مکّہ کو فرمایا ہے کہ وَ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ (بقرہ ع 3)تم کو قرآن کی منجانب اللہ نازل ہونے میں شک ہے تو تم کوئی سورت مثل قرآن بنا لاؤ ۔ دوسری آیت میں یوں فرمایا ہے کہ قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَ لَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا۔ (بنی اسرائیل ع 10)اگر آدمی اور جن مل کر اِس بات پر اتفاق کریں کہ اِس قرآن کی مثل بنا لائیں تو نہ لا سکیں گے اگرچہ ایک دوسرے کا مددگار ہو جائے۔ ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی مثل مخلوق سے نہیں بنائی جاتی نہ یہ کہ خدائے تعالیٰ بھی اِس کی مثل بنانے پر قادر نہیں۔ بناء علیہ اگر آیات ملہمہ کو (جو خدا کی طرف سے مؤلف براہین احمدیہ پر نازل ہوئی مانی جاتی ہیں) مثل قرآن بھی مان لیا جائے تو اِس سے قرآن کا وہ دعویٰ کہ اِس کی مثل بنانے پر جن و انس قادر نہیں ہیں اور وہ جن و انس کی بنائی ہوئی مثل نہیں رکھتا کہاں باطل ہوتا ہے۔ اِس مقام میں مجھے پھر معترض کے فہم پر افسوس کرنے کا موقع ملا ہے اور زیادہ اُن لوگوں پر افسوس کرنے کا جو اہل علم کہلا کر معترض کی ایسی باتوں میں اس کی تقلید کرتے ہیں اور بے سوچے بن سمجھے ان باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور اتنا نہیں سوچتے کہ بہ شق فرض نزول آیات قرآن غیر نبی پر ان آیات کا نزول خدا کی طرف سے ہے۔ پھر اگر وہ مثل قرآن ہوں بھی تو اِس سے قرآن کا کیا نقصان ہے اور ایسی مثل قرآن کے نفی و محال ہونے پر عقلی یا نقلی کون سی دلیل قائم ہے۔ استدلال فریق دوم کا ایک جواب تمام ہوا کہ مؤلف کو ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ آیات قرآن کا مورد نزول و مخاطب میں ہوں اور نہ یہ دعویٰ ہے کہ جو کمالات انبیاء میں پائے جاتے ہیں وہ مجھ میں متحقق ہیں اور جن الہامات و کلمات مؤلف سے فریق دوم نے یہ دعاوی نکالے ہیں۔ اِن سے یہ دعاوی ہرگز نہیں نکلتے۔ پھر اِن کی نسبت فریق دوم کا یہ گمان بد وظن فاسد کہ اِن کو در پردہ پیغمبری کا دعویٰ ہے بہتان و افتراء نہیں تو کیا ہے؟ دوسرا جواب ہم نے بطور تنزل و فرض محال یہ بھی مان لیا کہ جن باتوں کی ہم نے جواب اول میں نفی کی ہے وہ مؤلف کی کلام سے ضرور نکلتی ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کے کلام کی تصحیح و تشریح میں کہا ہے وہ سب غلط ہے پھر بھی جو کچھ اُن کے ذمے لگایا جاتا ہے اِن کے کلام کا مفہوم و لازم ہو گا اِس کو صریح منطوق کلام مؤلف تو کوئی نہ کہہ سکے گا کیونکہ مؤلف نے صریح کہیں نہیں کہا کہ قرآن مجھ پر نازل ہوا ہے اور نہ کہیں صریح پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے اور نہ یہ صریح کہا ہے کہ جو کمالات انبیاء میں پائے جاتے ہیں وہ مجھ میں پائے جاتے ہیں یہ باتیں فریق دوم کو ان کی کلام سے مفہوم ہوئی ہیں اور بزعم فریق دوم مؤلف کے دعاوی سے لازم آئی ہیں اور ظاہر ہے کہ لازم مذہب عین مذہب نہیں ہوتا اور نہ مفہوم کلام بمقابلہ منطوق لائق اعتبار سمجھا جاتا ہے۔ یہ باتیں کتب اسلام میں بطور اصول تسلیم کی گئی ہیں۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے حجۃ اللہ البالغہ میں اور امام شعرانی نے یواقیت و الجواہر میں فرمایا ہے کہ لازم المذہب لیس بمذھب (حجۃ اللہ البالغہ) قال الکمال و الصحیح ان لازم المذھب لیس بمذھب(یواقیت و الجواھر)فرمایا ہے کہ لازم مذہب عین مذہب نہیں ہوتا۔ اور عامہ کتب اصول میں مرقوم ہے کہ مفہوم بمقابلہ منطوق حجت نہیں ہوتا۔ پس جس حالت میں مؤلف کی صریح کلام میں یہ باتیں کہ ’’وہ ادنیٰ امتی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور جو کچھ مؤلف کو عطا ہوا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کا طفیل ہے اور اصل کمالات و برکات آنحضرت میں ہیں۔ مؤلف میں صرف ان کا ظل (سایہ) ہے۔‘‘پائی جاتی ہیں تو اس منطوق کلام مؤلف کے مقابلے میں اُس مفہوم کلام مؤلف کا (جو صرف فریق دوم کے خیال میں آیا ہے) کیا اعتبار ہے۔ اور ان کے قول کا لازم (بزعم فریق دوم) عین ان کا قول و مذہب کیونکر ہو سکتا ہے؟ فریق دوم اور جو ان کا ہم خیال فریق (حاشیہ: سرگروہ فریق اوّل سے تو امید نہیں کہ وہ مفہوم و لازم قول مؤلف کو قول مؤلف قرار دیں و بناء علیہ ان کی تکفیر کرتے ہوں کیونکہ وہ اِس اصل کو کہ ’’لازم مذہب عین مذہب نہیں ہوتا‘‘ مانتے ہیں۔ ایک دن ازراہ فرط کرم مجھ سے مخاطب ہو کر فرماتے تھے کہ ’’یہ قاعدہ ہم نے تم سے اخذ کیا ہے‘‘ شاید اِن کے شاگردوں میں سے جو بن پڑھے مجتہد ہیں اِس مفہوم و لازم قول کو عین قول قرار دیں اور بعید نہیں کہ حضرت اعلیٰ بھی اپنی اِس تسلیم کو بھول بیٹھے ہوں۔ ایسا ہو تو وہ بھی اِس بات میں غور کریں اگر کسی وقت ہو سکے۔) اول سے ہو ہم کو اِس بات کا جواب دیں اور ان اصول اہل اسلام کو جو ہمارے جواب کا مدار ہیں غور سے سوچیں۔ اب ہم کو یہ دکھانا باقی رہا کہ مؤلف کی صریح کلام میں وہ باتیں کہاں پائی جاتی ہیں جو ہم نے اِس مفہوم کے مخالف اِن سے نقل کی ہیں۔ اِس کے ثبوت میں ہم اصل کلام مؤلف ان کی کتاب سے نقل کرتے ہیں۔ آپ بصفحہ ۲۴۲کتاب براہین احمدیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۱ میں چند الہامات جن میں آپ کو بشارتیں دی گئی ہیں اور آپ کی بہت تعریف پائی جاتی ہے۔ نقل کر کے فرماتے ہیں ’’اس جگہ یہ وسوسہ دل میں نہیں لانا چاہئے کہ کیونکر ایک ادنیٰ امتی (اپنے آپ کو کہتے ہیں) ان رسول مقبول کے اسماء یا صفات یا محامد میں شریک ہوسکے۔ بلاشُبہ یہ سچ بات ہے کہ حقیقی طور پر کوئی نبی بھی آنحضرت کے کمالاتِ قدسیہ سے شریک مساوی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ تمام ملائکہ کو بھی اس جگہ برابری کے دم مارنے کی جگہ نہیں۔ (اِن الفاظ کو ناظرین غور سے پڑھیں) چہ جائیکہ کسی اور کو آنحضرت کے کمالات سے کچھ نسبت ہو۔ مگر اے طالبِ حق! ارشدک اللّٰہ تم مُتوجّہ ہوکر اس بات کو سنو کہ خداوند کریم نے اس غرض سے کہ تا ہمیشہ اس رسول مقبولؐ کی برکتیں ظاہر ہوں اور تاہمیشہ اس کے نور اور اس کی قبولیت کی کامل شعاعیں مخالفین کو ملزم اور لاجواب کرتی رہیں۔ اس طرح پر اپنے کمال حکمت اور رحمت سے انتظام کررکھا ہے کہ بعض افراد امت محمدؐیہ کہ جو کمال عاجزی اور تذلل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اختیار کرتے ہیں (یہ الفاظ بھی غور و انصاف ناظرین کے طالب ہیں) اور خاکساری کے آستانے پر پڑکر بالکل اپنے نفس سے گئے گزرے ہوتے ہیں۔ خدا ان کو فانی اور ایک مصفا شیشہ کی طرح پاکر اپنے رسول مقبولؐ کی برکتیں ان کے وجود بےنمود کے ذریعہ سے ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ منجانب اللہ ان کی تعریف کی جاتی ہے یا کچھ آثار اور برکات اور آیات ان سے ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ حقیقت میں مرجع ِ تام ان تمام تعریفوں کا اور مصدر کامل ان تمام تعریفوں کا اور مصدر کامل ان تمام برکات کا رسول کریمؐ ہی ہوتا ہے اور حقیقی اور کامل طور پر وہ تعریفیں اسی کے لائق ہوتی ہیں۔(یہاں بھی نظر انصاف ہو) اور وہی ان کا مصداق اَتَم ہوتا ہے۔ مگر چونکہ متبع سنن آں سرور کائنات کا اپنے غایت اتباع کی جہت سے اس شخص نورانی کے لئے کہ جو وجود باجود نبوی ہے مثل ظل کی ٹھہر جاتا ہے۔ (یہاں بھی غور ہو) اس لئے جو کچھ اس شخص مقدس میں انوار الٰہیہ پیدا اور ہویدا ہیں۔ اُس کے اس ظل میں بھی نمایاں اور ظاہر ہوتے ہیں۔ اور سایہ میں اس تمام وضع اور انداز کا ظاہر ہونا کہ جو اُس کی اصل میں ہے ایک ایسا امر ہے جو کسی پر پوشیدہ نہیں۔ ہاں سایہ اپنی ذات میں قائم نہیں اور حقیقی طور پر کوئی فضیلت اس میں موجود نہیں بلکہ جو کچھ اس میں موجود ہے وہ اس کے شخص اصلی کی ایک تصویر ہے جو اس میں نمودار اور نمایاں ہے۔ پس لازم ہے کہ آپ یا کوئی دوسرے صاحب اس بات کو حالت نقصان نہ خیال کریں کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار باطنی ان کی امت کے کامل متبعین کو پہنچ جاتے ہیں اور سمجھنا چاہئے کہ اس انعکاس انوار سے کہ جو بطریق افاضہ دائمی نفوس صافیہ امت محمدؐیہ پر ہوتا ہے۔ دو بزرگ امر پیدا ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بدرجہ غایت کمالیت ظاہر ہوتی ہے (یہ بھی لائق غور ہے) کیونکہ جس چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوسکتا ہے وہ ایسے چراغ سے بہتر ہے جس سے دوسرا چراغ روشن نہ ہوسکے۔ دوسرے اس امت کی کمالیت اور دوسری امتوں پر اس کی فضیلت اس افاضہ دائمی سے ثابت ہوتی ہے (یہ بھی طالب توجہ ناظرین ہے) اور حقیت دین اسلام کا ثبوت ہمیشہ تروتازہ ہوتا رہتا ہے۔ صرف یہی بات نہیں ہوتی کہ گذشتہ زمانے پر حوالہ (حاشیہ: یہ حوالہ زمانہ گزشتہ کا اقوام غیر میں بھی موجود ہے۔ وہ اپنے بزرگوں اور پیشواؤں کی کرامات و خرق عادات اس قدر بیان کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بزرگوں کے معجزات و کرامات سے کم نہیں اور اگر ہم بقواعد نقل اِن کو جھوٹا ٹھہرا ویں تو وہ ہم کو جھوٹا ٹھہراتے ہیں ہم میں ان میں تمیز اور ہمارا غلبہ و صدق ایسے عام فہم دلائل سے نہیں ہو سکتا جس کو کم عقل و کم فہم اور عام لوگ بلااشتباہ سمجھ سکیں۔ اخیر تجربہ ومشاہدہ دم نقد کرا دینے ہی سے (جس کا مؤلف کو دعویٰ ہے) اُن کا منہ بند ہوتا ہے۔ ایڈیٹر) دیا جائے۔ اور یہ ایک ایسا امر ہے کہ جس سے قرآن شریف کی حقانیت کے انوار آفتاب کی طرح ظاہر ہوجاتے ہیں اور دین اسلام کے مخالفوں پر حجت اسلام پوری ہوتی ہے اور معاندین اسلام کی ذلّت اور رُسوائی اور رُوسیاہی کامل طور پر کھل جاتی ہے کیونکہ وہ اسلام میں وہ برکتیں اور وہ نور دیکھتے ہیں جن کی نظیر کو وہ اپنی قوم کے پادریوں اور پنڈتوں وغیرہ میں ثابت نہیں کرسکتے۔ فتدبر ایّھا الصادق فی الطلب ایدک اللّٰہ فی طلبک۔ اس جگہ بعض خادموں کے دلوں میں یہ وہم بھی گزرتاہے کہ اس مندرجہ بالا الہامی عبارت میں کیوں ایک مسلمان کی تعریفیں لکھی ہیں۔ سو سمجھنا چاہئے کہ ان تعریفوں سے دو بزرگ فائدے متصور ہیں جن کو حکیم مطلق نے خلق اللہ کی بھلائی کے لئے مدنظر رکھ کر ان تعریفوں کو بیان فرمایا ہے۔ ایک یہ کہ تا نبی متبوع کی متابعت کی تاثیریں معلوم ہوں اور تاعامہ خلائق پر واضح ہو کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر شان بزرگ ہے۔ (یہ بھی غور سے ملاحظہ طلب ہے) اور اس آفتاب صداقت کی کیسے اعلیٰ درجے پر روشن تاثیریں ہیں۔ جس کا اتباع کسی کو مومن کامل بناتا ہے۔ کسی کو عارف کے درجے تک پہنچاتا ہے۔ کسی کو آیت اللہ اور حجت اللہ کا مرتبہ عنایت فرماتا ہے اور محامد الٰہیہ کا مورد ٹھہراتا ہے۔ (جاری ہے)