حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو ہر احمدی کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ یہ ہماری اصلاح کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہی ہر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوتا ہے۔ یہی چیز ہے جو ہمیں دوسرے مسلمانوں سے بھی اور غیروں سے بھی ممتاز کرتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد کیا تھاجیسا کہ آپؑ نے کئی جگہ ذکر فرمایا ہے کہ وہ مقصد بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنا ہے۔ وہ راستے دکھانا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے راستے ہیں۔ بندے کے تقویٰ کے معیار کو ان بلندیوں پر لے جانا ہے جس سے وہ خداتعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو اور یہی باتیں ہیں جو ہمیں اس تاریک کنویں میں گرنے سے بچائے رکھیں گی جس سے ہم یا ہمارے باپ دادا نکلے تھے۔ جو باتیں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتائیں وہ کوئی نئی باتیں نہیں ہیں۔ دراصل تو یہ باتیں اس تعلیم کی وضاحت ہیں جو خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں دی ہیں۔ … پس ایک مومن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر یہ تجدید عہد کہ وقت کی دُوری نے جس عظیم تعلیم اور جس عظیم اُسوہ کو ہمارے ذہنوں سے بھلا دیا تھا اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر یہ تجدید عہد کرتے ہیں کہ ہم ان نیکیوں پر کار بند ہونے کی پوری کوشش کریں گے اور اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی ایک کتاب میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا مَیں حِلم اور خُلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں‘‘۔ (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد15صفحہ143) پس یہ ہے وہ کام جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ اللہ تعالیٰ کی پاک ہدایتوں پر قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ان ہدایتوں کی طرف کھینچوں۔ یعنی جس گند میں ایک انسان ڈوبا ہوا ہے اس سے کوشش سے نکالوں۔ جس کنویں میں گرا ہوا ہے اس میں سے کھینچ کر نکالوں۔ کھینچنا ایک کوشش چاہتا ہے۔ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر دوسرے کو انسان کھینچ کر اس تکلیف سے باہر نکالتا ہے جس میں دوسرا پڑا ہوتا ہے یا جس مشکل میں کوئی گرفتار ہوتا ہے۔ پس یہ ہدایتوں کی طرف کھینچنا مدد کرنے والے سے ایک تکلیف کا مطالبہ کرتا ہے اس لئے اس تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے آپؑ نے ایک جگہ یوں بھی فرمایا کہ مَیں کس دَف سے مُنادی کروں تا لوگ ہدایت کے چشمہ کی طرف آئیں۔ … پس یہ ایک مسلسل کوشش ہے ہدایت دینے والے کے لئے بھی اور ہدایت پانے والے کے لئے بھی۔ جس کے اس زمانے میں اعلیٰ ترین نمونے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے قائم فرمائے۔ اس لئے کہ ہم اس روشن راستے پر ہمیشہ سفر کرتے چلے جائیں اور نہ صرف خود ان روشن راستوں پر چلنے والے ہوں بلکہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہونے کی وجہ سے دوسروں کو بھی اس راستے پر چلانے کی کوشش کریں۔ (خطبہ جمعہ ۴؍ اپریل ۲۰۰۸ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۵؍اپریل ۲۰۰۸ء) مزید پڑھیں: مومن کی بنیادی شرط جھوٹ سے بچنا ہے