اسلام نے جہاں اولاد کو والدین کی اطاعت اور اُن سے حسن سلوک کی تعلیم دی ہے وہیں والدین پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی مناسب تعلیم وتربیت کے ذریعہ اُنہیں اچھا انسان بننے میں مدد دیں تاکہ وہ بڑے ہوکردین و دنیا کے لیے مفید وجود ثابت ہوں۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے:مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدَاً مِنْ نَحْلٍ اَفْضَلَ مِنْ اَدَبٍ حَسَنٍ (الجامع الکبیر للترمذی ابواب البروالصلۃ باب مَا جَاءَ فِی أدَبِ الْوَلَدِ حدیث:۱۹۵۲) اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے انسان پر جو اَن گنت احسانات ہیں اُن میں ایک بہت بڑا احسان انبیاء کے وجود میں عطا ہوا ہے۔جب اُس نے چاہا اُس کے یہ فرستادے اُس کے بندوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے مبعوث ہوتے رہے تاکہ اپنے خالق کے ساتھ تعلق مضبوط بنانے میں اُن کی مدد کریں۔ پس اللہ تعالیٰ کے یہ فرستادے انسانوں کومحبوبِ ازلی و ابدی کا پیارا چہرہ دکھانے اور اپنے متبعین کے دلوں میں محبت الٰہیکی کھیتیاں اُ گانے کے لیے انتھک محنت اور کوشش کرتے رہے۔قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ انبیاء کے بعد خلافت کا نظام جاری کیا جا تا ہے تاکہ خلفاء کے ذریعہ انوارِ نبوت ہر سُو پھیلیں اور مستعد دل اُن سے مستفیض ہوں۔ اس لیے خلفاء کے ساتھ اخلاص ووفا کا تعلق رکھنا انجام کار انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دیتا ہے۔ جماعت مومنین کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف خود خلیفۂ وقت سے اپنا تعلق مضبوط کریں بلکہ اپنی اولاد کو بھی اس تعلق کی اہمیت سے آ گاہ کرتے رہا کریں تاکہ یہ فیض نسل در نسل منتقل ہوتا رہے۔اللہ تعالیٰ نے مومنوں کویہ حکم دیا ہے :یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاقُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا (التحریم :۷) اے لوگو جو ایمان لائےہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:”خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لیے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہوجاؤ اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لیے سعی اور دعا کرو۔ جس قدر کوشش تم ان کے لیے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو…وہ کام کرو جو اولاد کے لیے بہترین نمونہ اور سبق ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے اوّل خود اپنی اصلاح کرو۔ اگر تم اعلیٰ درجہ کے متقی اور پرہیز گار بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کو راضی کرلو گے تو یقین کیا جا تاہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا۔“ (ملفوظات جلد ۴،صفحہ ۴۴۴-۴۴۵، ایڈیشن ۲۰۰۳ء) اللہ تعالیٰ نےقرآن شریف میں اپنے بندوں کو یہ نصیحت فرمائی ہے: یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْااتَّقُوااللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (التوبہ:۱۱۹) اے وہ لوگو جو ایمان لائےہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہوجاؤ۔پس خلافت کے ساتھ کامل اخلاص ووفا سے چمٹ جانے میں ہی سب برکتیں اور ہر کامیابی کا راز پنہاں ہیں۔ امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے۲۰۰۹ء میں لجنہ اماء اللہ پاکستان کی مجلس شوریٰ کے موقع پر اپنے پیغام میں تحریر فرمایا:’’آج دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس کو خلافت کا بابرکت نظام عطا ہوا ہے۔ پس اس کی برکات سے دائمی حصہ پانےکےلیے، اپنی آئندہ نسلوں کو محفوظ رکھنےکےلیے خلافت کے ساتھ چمٹے رہیں۔ یہی دین ہے۔ یہی توحید ہے۔ یہی مرکزیت ہے اور اس کے ساتھ وابستگی میں خدا تعالیٰ کی رضا ہے۔ اس لیے اس نعمت کی قدر کریں۔ خدا کا شکر بجالائیں اور خلیفۂ وقت کے ساتھ ادب، احترام، اطاعت اور وفا اور اخلاص کا تعلق مضبوط تر کرتی چلی جائیں۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل۲۲ تا ۲۸؍جنوری ۲۰۱۰ء،صفحہ۲)۲۷؍اکتوبر ۱۹۵۹ء کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اٹھارھویں سالانہ اجتماع کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خدام سے ایک تاریخ ساز عہد لیا تھا۔اس عہدکا ایک حصہ درج ذیل ہے۔’’ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لیے آخر دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے۔‘‘ (روزنامہ الفضل ربوہ، ۲۸؍اکتوبر۱۹۵۹ء)حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نئی نسل کے لیے خلیفہ وقت کے خطبات کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آپ سے میں توقع رکھتا ہوں کہ آپ اپنی نئی نسلوں کو خطبات باقاعدہ سنوایا کریں یا پڑھایا کریں یا سمجھایا کریں کہ خلیفہ وقت کے یہ خطبات جو اس دَور میں دیئے جارہے ہیں یہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والی نئی ایجادات کے سہارے بیک وقت ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں اور ساری دنیا کی جماعتیں ان کو براہ راست سنتی اور فائدہ اٹھاتی اور ایک قوم بن رہی ہیں اور امت واحدہ بنانے کے سامان پیدا ہورہے ہیں اس لیےخواہ وہ فجی کےاحمدی ہوں یاسرینام کےاحمدی ہوں۔ماریشس کےاحمدی ہوں یاچین جاپان کےہوں۔روس کےہوں یاامریکہ کے،سب اگرخلیفہ وقت کی نصیحتوں کوبراہ راست سنیں گےتوسب کی تربیت ایک رنگ میں ہوگی۔وہ سارےایک قوم بن جائیں گےخواہ ظاہری طور پر ان کی قوموں کا فرق ہی کیوں نہ ہو۔ ان کےرنگ چہروں کےلحاظ سےجلدوں کےلحاظ سےالگ الگ ہوں گےمگردل کاایک ہی رنگ ہوگا۔ان کےحلیےاپنےناک نقشےکےلحاظ سےتوالگ الگ ہوں لیکن روح کاحلیہ ایک ہی ہوگا۔وہ ایسے روحانی وجود بنیں گے جو خدا کی نگاہ میں مقبول ٹھہریں گے کیونکہ وہ قرآن کریم کی روشنی میں تربیت پارہے ہوں گے۔ قرآن کریم کے نور سے حصہ لے رہے ہوں گے۔اپنی اولاد کو خطبات سنانے کا انتظام کریں اورانہی الفاظ میں سنائیں،خلاصوں پرراضی نہ ہوں …اپنی اولادوں کو ہمیشہ خطبات سے جوڑدیں، اگر آپ یہ کریں گے تو ان پر بہت بڑا احسان کریں گے۔ اپنی آئندہ نسلوں کے ایمان کی حفاظت کرنے والے ہوں گے ان کو غیروں کے حملے سے بچانے والے ہوں گے۔ ان کے اخلاق کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔“(روزنامہ الفضل ربوہ، ۳۰ ؍اگست ۲۰۰۸ء، صفحہ۲)خلفائے راشدین کا تعلق عالم روحانی سے ہوتا ہے اس لیے ان کی باتیں اور ان کی نصائح انسانی روح پر اثر کرتی ہیں جس کے نتیجہ میں انسان کے اندرپاک روحانی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔اس لیے بڑے عزم اور استقلال کے ساتھ اپنی اولادوں کو خلافت سے وابستہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک پیغام میں والدین کومخاطب کرتے ہوئے فرمایاہے”:اسلام احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کے لیے آخر دم تک جدو جہد کرنی ہے اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا ہے اور اپنی اولاد کو ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہنا ہے اور ان کے دلوں میں خلیفۂ وقت سے محبت پیدا کرنی ہے۔ اتنا بڑا اور عظیم الشان نصب العین ہے کہ اس عہد پر پورا اترنا اور اس کے تقاضوں کو نبھانا ایک عزم اور دیوانگی چاہتا ہے۔‘‘ (سہ ماہی الناصر جرمنی۔ جون تا ستمبر ۲۰۰۳ء صفحہ اوّل)حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ تربیت اولاد کا ایک نہایت اہم گُر بیانکرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ سب سے بڑی دولت اولاد کی دولت ہے۔ اگر ساری عمر کی کمائی آپ ایک ہی دن گنوا بیٹھیں تو کتنا دکھ محسوس کرتے ہیں لیکن یاد رکھیں اولاد کی دولت سے بڑھ کر دنیا کی کوئی دولت نہیں ہے۔ اگر اولاد ہاتھ سے نکل جائے تو گویا ساری عمر کی کمائی ہاتھ سے گئی۔ پس اس کی فکر کریں اور اس ضمن میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر آپ باقاعدگی کے ساتھ خطبات کو خود بھی سنیں اور اپنے بچوں کو بھی سمجھائیں تو چونکہ ان میں قرآن کریم کا ذکر چلتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے اخلاق حسنہ کا ذکر چلتا ہے اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام سے نصیحتیں پیش کی جاتی ہیں اس لیے تربیت کا ایک بہت ہی اچھا ذریعہ ہے اور آپ کی نئی نسل کو قرآن اور دین اور محمد رسول اللہ ﷺ اور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ان خطبات کے وسیلے سے ان شاء اللہ ایک گہرا ذاتی تعلق پیدا ہوجائے گا اور جب خدا سے تعلق پیدا ہوجائے تو پھر دنیا والے اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ کیسا ہی گندا معاشرہ ہو لیکن جس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوجائے وہ محفوظ ہوجاتاہے۔ پس اس سے فائدہ اٹھائیں۔“ (خطبہ جمعہ ۳۱/مئی ۱۹۹۱ء۔ خطبات طاہر جلد ۱۰صفحہ ۴۷۱-۴۷۲)خلاصہ کلام یہ کہ اپنی اولاد کو خطبات سنانا اور سمجھاناوقت کی اہم ضرورت ہے۔ خلافت عافیت کا حصار ہے جس کے سائے تلے رہنے میں ہی ہماری عافیت ہے۔ اس لیےوالدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو نرمی، پیاراور محبت کے ساتھ خطبات سننےکی طرف توجہ دلاتے رہا کریں تاکہ اُن کے دلوں میں خلافت کی محبت جاگزیں ہوجائے اور اس ذریعہ سے وہ اخلاص و وفا اور ایمان میں ترقی کریں۔ مزید پڑھیں:اپنے بچوں کو خطبات سنوانا اور سمجھانا وقت کی اہم ضرورت