نوٹ: اعلانات صدر؍ امیر صاحب حلقہ؍جماعت کی تصدیق کے ساتھ آنا ضروری ہیں درخواست دعا نویدالرحمٰن صاحب نمائندہ الفضل انٹرنیشنل بنگلہ دیش تحریر کرتے ہیں کہ عزیزہ ملیحہ مائشہ بنت شاہد حسین صاحب آف جماعت چٹاگنگ، بنگلہ دیش(عمر ۱۲؍سال) کا ٹانسلز کا آپریشن مورخہ ۱۲؍مئی کو ہوا ہے۔ احبابِ جماعت سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے عزیزہ کو شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور ہر قسم کی پیچیدگی سے محفوظ رکھے۔ آمین سانحہ ہائے ارتحال ٭… عطا ءالرب چیمہ صاحب نمائندہ الفضل انٹرنیشنل تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار کے چچا وسیم احمد چیمہ صاحب مورخہ ۲۳؍اپریل ۲۰۲۵ء کو چند دن بیمار رہنے کے بعد وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون مورخہ ۳۰؍اپریل کو مسجد بیت السبوح، فرینکفرٹ میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ آپ کی عمر بہتّر سال تھی۔ آپ بہت سی خوبیوں اور اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ آپ کے داداحضرت گل حسن چیمہ صاحبؓ کو ۱۸۹۱ء اور ۱۸۹۴ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت حاصل ہوئی۔آپ کے والد ڈاکٹر احمد حسن چیمہ صاحب گجرات کے انتہائی کامیاب داعی الیٰ اللہ بزرگ تھے جنہیں سینکڑوں کی تعداد میں بیعتیں کروانے کی توفیق ملی۔مرحوم نے دو شادیاں کی تھیں، پہلی اہلیہ جرمن تھیں اور ان سے ایک بیٹا جبکہ دوسری شادی سے تین بچے ہیں۔٭… نوید الرحمٰن صاحب نمائندہ الفضل انٹرنیشنل تحریر کرتے ہیں کہ حسن آراء بیگم صاحبہ اہلیہ مرحوم عبدالعزیز صادق صاحب مربی سلسلہ بنگلہ دیش مورخہ ۸؍اپریل کو حرکتِ قلب بند ہونے کے باعث وفات پا گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون مرحومہ کی پہلی نماز جنازہ ۸؍ اپریل کو عصر کے بعد جماعت احمدیہ بنگلہ دیش کے ہیڈ کوارٹر بخشی بازار، ڈھاکہ میں ادا کی گئی جو مکرم عبدالاوّل خان چودھری صاحب نیشنل امیر و مبلغ انچارج نے پڑھائی۔ بعد ازاں ۱۱؍اپریل کو احمد نگر میں مرحومہ کی نمازِ جنازہ مکرم محمد صلاح الدین صاحب مربی سلسلہ احمدنگر نے پڑھائی جس کے بعد تدفین عمل میں آئی۔ مرحومہ پیدائشی احمدی تھیں۔ آپ کے والد کا نام ڈاکٹر امیر حسین صاحب تھا۔ آپ نظام وصیت میں شامل تھیں۔ نہایت باعمل، دعا گو، صوم و صلوٰۃ کی پابند، محنتی، قناعت پسند اور بےحد عاجز خاتون تھیں۔ اپنے مرحوم شوہر کے ساتھ وقف کی حقیقی روح کو قائم رکھتے ہوئے زندگی بسر کی اور ہر حال میں شکرگزار رہیں۔ ۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۹ء آپ نے تقریباً ایک دہائی ربوہ میں قیام کیا جہاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی والدہ ماجدہ کے بشمول خاندان کی دیگر خواتین کے ساتھ گہرا تعلق رہا۔ مرحومہ طویل عرصے تک لجنہ اماءاللہ بنگلہ دیش کی نیشنل عاملہ کی رکن بھی رہیں۔ ٭… وقارا حمد اٹھوال صاحب مربی سلسلہ تحریر کرتے ہیں کہ ۲۳؍اپریل ۲۰۲۵ء کو خاکسار کے والد مکرم نصیراحمد اٹھوال صاحب کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ نصیرآباد میں تدفین ہوئی۔ آپ نے ستتر سال زندگی پائی۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ۱۹۱۳ء میں ہوا جب خلافت اولیٰ کے دور میں اٹھوال گاؤں نے ایک ہی دن میں قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ آپ ایک غازی کے بیٹے، شہید کے بھتیجے، ایک اسیر راہ مولیٰ اور ایک واقف زندگی کے والد تھے۔ والد صاحب کو فرقان فورس میں خدمت بجالانے کا موقع ملا۔ آپ کے تایا نیامت احمد صاحب کو انڈیا سے پاکستان کی طرف ہجرت کے دوران مجلس خدام الاحمدیہ کے تحت ڈیوٹیز دیتے ہوئے شہادت نصیب ہوئی۔ آپ کے بڑے بیٹے مکرم اعجاز احمد صاحب کو ۲۰۱۰ء میں اسیر راہ مولیٰ رہنے کی توفیق ملی۔ دوسرے بیٹے مکرم شیراز احمد صاحب کو بطور کارکن خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ اسی طرح خاکسار کو ۲۰۱۱ء سے بطور مربی سلسلہ خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ ۲۰۱۲ء میں آپ جرمنی چلے گئے۔ جرمنی میں بھی مرحوم کو بطور قائد مجلس اور پھر چھ سال بطور صدر جماعت خدمت کی توفیق ملی۔ اسی طرح آپ کے چھوٹے بھائی منیر احمد انجم صاحب کو بطور نیشنل سیکرٹری وقف نو بیلجیم خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ مرحوم نے اپنے بچوں کی پرورش بڑے احسن انداز میں کی۔ کبھی سختی سے پیش نہیں آئے۔ آپ کا تعلق ۲۸۷ ج۔ ب۔ پلا ثور، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تھا۔ آپ نے اپنے پیچھےاہلیہ، تین بیٹے، دو بھائی اور دو بہنیں سوگوار چھوڑی ہیں۔ ٭… سیدفہیم احمد صاحب مربی سلسلہ معاون ناظر ایڈیشنل نظارت دعوت الیٰ اللہ جنوبی ہند تحریر کرتے ہیں کہ نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ شیخ عبداللطیف صاحب مبلغ سلسلہ مورخہ یکم مئی ۲۰۲۵ء بروزجمعرات بعدنمازفجر بمقام سورو (ضلع بالاسور، اڈیشہ) بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون شیخ عبداللطیف صاحب ابن مکرم شیخ ہدایت اللہ صاحب مرحوم کی پیدائش ۱۹۸۲ءمیں ہوئی۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کےبعد ۲۰۰۰ءمیں حصولِ تعلیم کےلیے جامعہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوئے۔ سنہ۲۰۰۷ء میں جامعہ احمدیہ قادیان سے فارغ التحصیل ہونےکےبعد مرکزکی طرف سے مختلف صوبہ جات میں خدماتِ سلسلہ کی توفیق پائی جن میں صوبہ آندھرا پردیش، تلنگانہ، کرناٹک، یوپی، سکّم اور اڈیشہ شامل ہیں۔ آپ کا عرصہ خدمت ۱۸؍ سال ہے۔ اس عرصہ میں موصوف جہاں بھی متعین رہے جماعتی خدمات بڑی محنت، لگن اوروقف کی روح کو سمجھتے ہوئے ہرممکن انجام دینے کی کوشش کی۔ آپ کا دائرہ احباب بہت وسیع تھا۔ جہاں بھی سلسلہ کی طرف سے ڈیوٹی لگائی جاتی جماعت کی تعلیم وتربیت پر باقاعدگی کے ساتھ بہت زوردیتےرہے۔ پابندی نماز کاہمیشہ فکر رہتا تھا۔ نماز پڑھاتےہوئے رقت طاری ہوجاتی تھی۔ بہت ہردل عزیز تھے۔ عاجزی، انکساری اور خودداری کے پیکر تھے۔ قناعت پسند، سلسلہ کی طرف سے ملنے والے مشاہرہ پرباوقار گزارا کرتےتھے۔مرکزی نمائندگان کا بہت عزت واحترام کرتے، حسب استطاعت ان کی مہمان نوازی کرتے۔ صبر وشکر کے ساتھ خداکی رضا پر راضی رہتےہوئے آپ نے دن گزارے۔ مرحوم نے اپنے پیچھےسوگواران میں بیوہ صبیحہ بابر صاحبہ، ایک بیٹی عزیزہ مفلحہ لطیف (بعمر۸؍سال) ایک بیٹا عزیز عادل احمد (بعمر۴؍سال) اور معمروالدہ صاحبہ کوچھوڑاہے۔ ایک چھوٹا بھائی شیخ عبدالعزیزقائد مجلس خدام الاحمدیہ سورو، اڈیشہ ہیں۔ مرحوم خودمربی سلسلہ تھے بہنوں کی شادی بھی مربیان سلسلہ سے ہی کروائی جس سے ان کے اندر مربیان کے لیے قدر،عزت واحترام کا اندازہ ہوتاہے۔ موصوف جہاں بھی خدمت بجالاتے وہاں نہایت اطاعت و فرمانبرداری اور وقف کے جذبہ کے ساتھ خدماتِ سلسلہ بجالاتے رہے۔ موصوف کوگردوں کی تکلیف تھی اور ڈائیلیسز چل رہے تھے۔ اس کے باوجود جب بھی جماعتی خدمت کا موقع ملتا بڑی لگن سے کرتے۔ وفات سے دو دن قبل بھی جماعتی تربیتی جلسہ میں شامل تھے اوروفات سے ایک دن قبل تبلیغی دورہ میں شامل ہوکر لیف لیٹس تقسیم کیے۔ گویاآخری دم تک سلسلہ کی خدمت میں مصروف رہے۔ موصوف خاکسار کے برادرِ نسبتی تھے۔ نہایت سنجیدہ، شریف النفس، خاموش طبع اور تقویٰ شعار، خلافت کے شیدائی، صابروشاکرانسان تھے۔ حق گوئی اوربےباکی آپ کی فطرت میں پائی جاتی تھی۔ موصوف ۷/۱ حصہ کے موصی تھے۔اُن کی شدید خواہش تھی کہ بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہو۔ مرحوم کی خواہش کو دیکھتےہوئے اُن کی میت کو بذریعہ ہوائی جہاز ہنگامی طورپر قادیان پہنچایاگیا۔ مورخہ ۲؍مئی کوبعدنمازعشاء جنازہ گاہ میں نمازِ جنازہ اداکرنےکے بعد بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین عمل میں آئی۔ احبابِ جماعت سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کے درجات بلند فرمائے، ان سے مغفرت و رحمت کا سلوک فرماتے ہوئے اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ نیز ان کے پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔ آمین