https://youtu.be/0jylfjuGXOc ماہ نومبر ۲۰۲۴ء بھلیر۔ضلع قصور: ۲۱،۲۰؍نومبرکی درمیانی شب مسلح افراد نے بھلیر ضلع قصور کے رہائشی احمدیوں کے گھروں پر فائرنگ کی۔ یہ حملہ اندازاً تیس منٹ تک جاری رہا۔ گو کہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن ایک نوجوان کی آنکھ میں ایک چھرا لگا جس سے وہ زخمی ہو گیا۔ یہ پندرہ حملہ آور اس گاؤں کے رہائشی نہیں تھے۔ اس واقعہ کی اطلاع جب پولیس کو ملی تو موقع واردات پر پہنچ کر انہوں نے ۱۰۰ کے قریب گولیوں کے خول اکٹھے کیے۔ ایس ایچ او نے گرد ونواح کا جائزہ لیا۔ انہیںایسے افراد کے نام بتائے گئے جو اسی طرح کے پُر تشدد واقعات میں ملوث رہ چکے ہیں۔ لیکن ایس ایچ او نے کہا کہ یہ افراد اس وقت لاہور میں موجود ہیں اور ان کے نام مقدمے میں شامل کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے برعکس پولیس نے یہ خیال ظاہر کیا کہ یہ کام احمدیوں نے خود ہی کیا ہے۔ بعد ازاں ڈی پی او آفس سے بھی ایک ٹیم وہاں پہنچی اور جائے وقوعہ کا جائزہ لینے کے بعد ایس ایچ او کی بات کو ہی درست قرار دیا اور ان لوگوں کے نام شامل کرنے سے انکار کر دیا جن کے متعلق احمدیوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا۔ آخر کا ر نامعلوم افراد کے خلاف ایک مقدمہ درج کر دیا گیا۔ شاہ فیصل کالونی۔ کراچی: ۳۰؍نومبر ۲۰۲۴ء کو شاہ فیصل کالونی میں تحفظ ختمِ نبوّت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب نماز عشاء کے بعد شروع ہوئی اور رات گئے تک جاری رہی۔ تقریب کے دوران احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزی اور نفرت پر مبنی گفتگو کی گئی۔ مقررین نے احمدیوں کو واجب القتل قرار دیا اور الزام لگایا کہ احمدی پاکستان کے قانون کو نہیں مانتے۔ اس تقریب میں مقامی آبادی کے لوگ شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق اسی طرح کی اور تقریبات کراچی کے مختلف علاقوں میں بھی منعقد کی گئیں۔ ماہ دسمبر۲۰۲۴ء ضلع وہاڑی:۲؍دسمبر کو ای بی تین سو تریسٹھ کے رہائشی احمدی کو نامعلوم افرادنے فائرنگ کر کے زخمی کردیا۔ یہ واقعہ صبح کے وقت پیش آیا جب وہ اپنے بچوں کو سکول چھوڑ کر واپس آرہےتھے۔ راستے میں دو موٹر سائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کی جس کے باعث ایک گولی ان کی ٹانگ میں لگی۔ زخمی ہونے کے باوجود وہ وہاں سے بچ نکلنے اور اپنے گاؤں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ حملہ آور ان کا پیچھا کرتے رہے اور مسلسل ان پر فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔ موصوف کو تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں لے جایا گیا جہاں ان کی مرہم پٹی کی گئی۔ حالت سنبھلنے کے بعد ان کو گھر لایا گیا اوراس واقعے کی ایف آئی آر بھی درج کروا دی گئی۔ ہجکہ۔ ضلع سرگودھا: ۱۰؍دسمبر کو باضابطہ طور پر انتظامیہ کو ایک درخواست دی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ احمدیہ مسجد اور قبرستان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے اور ان مقامات سےاسلامی الفاظ کو ہٹایا جائے۔ گو کہ ابتدائی طور پر پولیس نے اس معاملے میں کسی کارروائی سے گریز کیا لیکن اس دن پچھلے پہر صورت حال کافی سنگین ہو گئی۔ کارروائی نہ کرنے کی صورت میں تحریک لبیک کے ایک راہنما سمیت لوگوں کے ایک مجمع نے ۱۳؍ دسمبر تک کی مہلت دی۔ اس مہلت کے پیش نظر انتظامیہ نے اس مسجد کے باہر ایک بورڈ آویزاں کر دیا جس پر درج تھا کہ ’’یہ مسلمانوں کی مسجد نہیں ہے۔ یہ قادیانی عبادت گاہ ہے‘‘۔ اس کے بعد اسسٹنٹ کمشنر بھیرہ کے دفتر کے باہر ایک مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے کے بعد اسسٹنٹ کمشنر،تحریک لبیک اور بار کونسل کےنمائندوں کی ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ میں فیصلہ کیا گیاکہ مذہبی راہنماؤں اور علاقے کے نامور لوگوں پر مبنی ایک پندرہ رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور وہ کمیٹی سارے معاملات کی تحقیقات کر کے پندرہ روز میں اپنی رپورٹ جمع کروائے گی۔ چنانچہ مولوی ابرار احمد بگوئی کی زیرصدارت ایک آٹھ رکنی کمیٹی بنائی گئی جس کا خاص مقصد مسجد کی دیواروں، میناروں اور قبرستان پر لکھے ہوئے اسلامی الفاظ کے متعلق تحقیق کرنا تھا۔ جماعت احمدیہ نے بھی اپنا موقف انتظامیہ کے سامنے پیش کیا جس میں انہوں نے ان الفاظ کے حوالے سے اپنے حقوق کے متعلق عدالتی مثالیں بھی پیش کیں اور قانون کے مطابق ا س مسئلے کے حل کا تقاضا بھی کیا۔ جماعت احمدیہ کے ممبران مسلسل انتظامیہ سے رابطے میں ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں کہ احمدی احباب محفوظ رہیں اور صورتحال مزید خرابی کی طرف نہ جائے۔ بھاگووال۔ ضلع سیالکوٹ:بھاگووال ضلع سیالکوٹ میں مقامی غیر احمدیوں کی جانب سے احمدیہ قبرستان پر لکھے ہوئے اسلامی الفاظ کے متعلق ایک درخواست ایس ایچ او کو دی گئی جس پر اس نے مقامی جماعت احمدیہ کے صدر کو تھانے بلوا کر انہیں کہا کہ وہ قبروں سے اسلامی الفاظ کو ہٹادیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ جماعت کی جانب سے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا کیونکہ اسلامی الفاظ کے استعمال پر کوئی بھی قانونی روک نہیں ہے۔ اس کے باوجود ۱۸؍دسمبر کو تین پولیس اہلکار قبرستان آئے اور گرائنڈر سے قبروں پر لکھے اسلامی الفاظ کو مٹا دیا۔ قبرستان میں سنتالیس قبریں ہیں جن میں سے تئیس پر کتبے موجود ہیں۔ ان میں سے پندرہ قبروں کو نشانہ بنایا گیا اور کتبوں کو مسمار کیا گیا۔ احمدیوں پر ظلم وستم کے متعلق بعض آراآزاد اداروں کی جانب سے کی گئی تحقیقاتاور ان کی رپورٹ اکتوبر ۲۰۲۴ء میں حکومت برطانیہ نے ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا ’’جنوبی ایشیا میں مذہبی اقلیتوں کے مذہبی حقوق کا تحفظ‘‘۔رپورٹ میں بھارت،پاکستان اور بنگلہ دیش کے علاقوں میں مذہبی آزادی کو درپیش مسائل کو عیاں کیا گیا۔اس رپورٹ میں بین الاقوامی طور پر ایسی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا جس سے ان اقلیتوں کا تحفظ اور ان کے حقوق کی پامالی کی روک تھام ہو سکے۔ رپورٹ میں احمدیوں کی شدید مخالفت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا کہ کیسے وہ منظم امتیازی سلوک سے دوچار ہیں۔ احمدیوں کو قانونی طور پر ان کی مذہبی شناخت سے محروم کیا گیا ہے اور انہیں ان کے مذہب پر عمل کرنے میں کیسی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ میں احمدی افراد، احمدیہ مساجد اور احمدیوں کی قبروں پر حملوں کا ذکر بھی کیا گیا۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ کیسے نہ صرف حکومت پاکستان احمدیوں کےحقوق کے تحفظ میں ناکام رہی ہے بلکہ منظم طور پر قانونی لحاظ سے ان پر ظلم وستم کو جائز بنا دیا ہے اور متنازعہ قوانین کے تحت احمدیوں کے خلاف جرم کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ سفارتی سطح پر ان مسائل کے حل کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور جب بھی ان ممالک سے بات چیت ہو تو مذہبی آزادی کے حوالے سے بہتری،شدت پسندوں کو مالی امداد کی فراہمی کرنے والوں اور ایسے افراد جو ان حقوق کی پامالیوں میں شامل ہیں ان کے خلاف پابندیاں لگائی جائیں اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بھی احمدیوں اور دیگر اقلیتوں کےساتھ روا رکھے جانے والے مذہبی امتیاز کے متعلق مسائل کے حل اور ساتھ ہی بین الاقوامی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے پر زور دیا۔ مزید پڑھیں: احمدیہ ہال کراچی کے باہر مشتعل ہجوم کے بہیمانہ تشدد سےایک احمدی لئیق احمد چیمہ جاں بحق