وفا کے پتلے تھے معصوم اور عدو چالاکدیے لہو کے جلاتے چلے گئے عشّاق خوشی بھی چند دنوں کی ہے ظالموں کے لیےحساب ان کا بھی ہوگا تو ایک دن بےباق جو جان دیتے ہیں زندہ ہمیشہ رہتے ہیںخدا کرے کہ کبھی ان کو، یہ بھی ہو ادراک شہید ہو کے سکھایا ہے زیست کا رستہعمل سے زندگی پانے کے دے گئے اسباق زمین جن کے لہو سے نہا کے ہے رنگیںگواہ ان کی شہادت پہ ہو گئے افلاک ہے مرنے والا تو رب کی رضا کی جنّت میںپڑے گی مارنے والو ! تمہارے منہ میں خاک جو دل کے پاک ہیں، سچے خدا کے ہیں بندےوہ جانتے ہیں ارادے تمہارے ہیں ناپاک ہمیں یقین ہے طارقؔ، کبھی نہ چھوڑے گاخدا کرے گا گریبان، دشمنان کے چاک (ڈاکٹر طارقؔ انور باجوہ۔ لندن) مزید پڑھیں: وہ میرا آقا وہ میرا مرشد