https://youtu.be/Uym7HgfDlno (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍جولائی ۲۰۲۴ء) حضرت جویریہؓ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آنے کا بھی واقعہ لکھا ہے جیسا کہ پہلے میں نے بیان کیا۔ ’’قبیلہ بنو مصطلق کے جو قیدی گرفتار ہوئے تھے ان میں اس قبیلہ کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی بَرَّہ بھی تھی‘‘ جن کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کر کے جُوَیْرِیَہ رکھ دیا تھا ’’جومُسَافِعْ بن صَفْوَان کے عقد میں تھی جو غزوہ مُرَیسیع میں مارا گیا تھا۔ ان قیدیوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسب دستور مسلمان سپاہیوں میں تقسیم فرما دیا تھا اور اس تقسیم کی رو سے بَرَّہ بنتِ حَارِث ایک انصاری صحابی ثابت بن قیسؓ کی سپردگی میں دی گئی تھی۔ بَرَّہ نے آزادی حاصل کرنے کے لئے ثابت بن قیسؓ کے ساتھ مکاتبت کے طریق پر یہ سمجھوتہ کیا۔‘‘ مکاتبت کہتے ہیں کہ کوئی غلام یا لونڈی اپنے مالک سے یہ معاہدہ کر لے کہ وہ ایک مقررہ رقم ادا کر کے آزاد ہو جائے گی۔ بہرحال انہوں نے سمجھوتہ کیا ’’کہ وہ اگر اسے اس قدر رقم‘‘جو رقم مقرر تھی وہ 9 اوقیہ سونا تھا جو تین سو ساٹھ درہم بنتے ہیں۔ ’’فدیہ کے طور پر ادا کردے تو آزاد سمجھی جاوے۔ اس سمجھوتہ کے بعد بَرَّہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارے حالات سنائے۔ اور یہ جتلا کر کہ میں بنومصطلق کے سردار کی لڑکی ہوں فدیہ کی رقم کی ادائیگی میں آپ کی اعانت چاہی۔اس کی کہانی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت متاثر ہوئے اور غالباً یہ خیال کرکے کہ چونکہ وہ ایک مشہور قبیلہ کے سردار کی لڑکی ہے شاید اس کے تعلق سے اس قبیلہ میں تبلیغی آسانیاں پیدا ہو جائیں آپؐ نے ارادہ فرمایا کہ اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی فرما لیں۔ چنانچہ آپؐ نے اسے خود اپنی طرف سے پیغام دیا اور اس کی طرف سے رضامندی کا اظہار ہونے پر آپؐ نے اپنے پاس سے اس کے فدیہ کی رقم ادا فرما کر اس کے ساتھ شادی کر لی۔ صحابہؓ نے جب یہ دیکھا کہ ان کے آقاؐ نے بنومصطلق کی رئیس زادی کو شرف ازدواجی عطا فرمایا ہے توانہوں نے اس بات کو خلاف شانِ نبویؐ سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سسرال والوں کواپنے ہاتھ میں قید رکھیں اور اس طرح ایک سوگھرانے یعنی سینکڑوں قیدی بلافدیہ یک لخت آزاد کردئے گئے۔ اسی وجہ سے حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ جویریہؓ …اپنی قوم کے لئے نہایت مبارک وجود ثابت ہوئی ہے۔ اس رشتہ اور اس احسان کا یہ نتیجہ ہوا کہ بنو مصطلق کے لوگ بہت جلد اسلام کی تعلیم سے متاثر ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو گئے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 570-571) ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت جویریہؓ کے والد حضرت حارثؓ اپنی بیٹی کا فدیہ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فدیہ دے کر حضرت جویریہؓ کو آزاد کروانے کے بعد وہ خود بھی اسلام لے آئے اور پھر اس کی شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی۔سیرت ابن ہشام میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بنو مصطلق سے مدینہ واپس آئے تو حضرت جویریہؓ کا باپ حارث بن ابی ضرار اپنی بیٹی کا فدیہ دینے کے لیے آپؐ کے پاس آیا۔ جب وہ وادی عقیق میں پہنچا تو اس نے وہ اونٹ جو اپنی بیٹی کے فدیہ میں دینے کے لیے اپنے ساتھ لایا تھا ان میں سے دو اونٹ اسے بہت پسند آئےتھے۔ اس نے انہیں وادی عقیق کی ایک گھاٹی میں چھپا دیا۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس نے کہا اے محمد!(صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے میری بیٹی کو گرفتار کر لیا ہے ۔یہ اس کا فدیہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: وہ دو اونٹ کہاں ہیں جو تم نے عقیق کی فلاں فلاں گھاٹی میں چھپائے تھے؟ وہ اس بات سے متاثر ہوا حارث نے کہا :میں گواہی دیتا ہوں، کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپؐ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ کہنے لگا کہ اللہ کی قسم! اللہ ہی ہے جس نے آپ کو اس سے آگاہ کیا ہے کیونکہ اس وقت ان اونٹوں کےپاس سوائے حارث کے اَور کوئی بھی نہ تھا۔ پھر حارث نے اسلام قبول کر لیا اور اس کے ساتھ ہی ان کے دو بیٹوں نے اور ان کی قوم کے کچھ لوگوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ ۶۷۴،۶۷۳ دار الکتب العلمیہ بیروت) ایک روایت میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حضرت جویریہؓ کے بھائی عبداللہ بن حارث اپنی قوم بنو مصطلق کے قیدیوں کا فدیہ لے کر آئے تھے مگر راستہ میں انہوں نے اونٹوں اور حبشہ کی ایک باندی کو ایک مقام پر چھپا دیا۔ اس کے بعد عبداللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر قیدیوں کے فدیہ کے متعلق بات کی۔ آپؐ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے مگر تم فدیہ کے لیے کیا لے کر آئے ہو۔ اس نے کہا میں تو کچھ بھی نہیں لایا۔ آپؐ نے فرمایا تو وہ جوان اونٹ اور سیاہ فام باندی کہاں ہے جن کوتم نے فلاں فلاں جگہ چھپادیا ہے؟ یہ سنتے ہی عبداللہ نے کہا: مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور کہا کہ اس وقت میرے ساتھ کوئی نہیں تھا جبکہ میں نے فدیہ کے اس مال کو چھپایا تھا اور نہ ہی اس واقعہ کے بعد مجھ سے پہلے آپ تک کوئی دوسرا شخص پہنچا ہے۔ غرض اس کے بعد وہ مسلمان ہو گیا۔(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 3 صفحہ20 دار الکتب العلمیہ بیروت) اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں بھی لکھا ہے کہ ’’حضرت جویریہ کی شادی کے متعلق ایک روایت یہ بھی آتی ہے کہ جب ان کے والد انہیں چھڑانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ کے فیض صحبت سے مسلمان ہو گئے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے پیغام ملنے پر‘‘یعنی رشتہ کا جو پیغام بھیجا تھا ’’انہوں نے خود برضا ورغبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی لڑکی کی شادی کردی۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 571) حضرت جویریہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے تین روز پہلے میں نے خواب میں دیکھا یعنی جب وہ وہاں بنو مصطلق کی طرف گئے تھے۔ کہتی ہیںمَیں نے خواب میں دیکھا کہ چاند یثرب سے چلا ہے اور میری آغوش میں آ گرا ہے۔ میں نے ناپسند کیا کہ کسی کو اپنا خواب بیان کروں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ جب ہمیں قیدی بنا لیا گیا تو مجھے اس خواب کے پورا ہونے کی امید ہوئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آزاد کیا اور مجھ سے نکاح کر لیا تو بخدا! میں نے آپؐ سے اپنی قوم کے بارے میں بات نہ کی تھی۔ میں نے قوم کی رہائی کے بارے میں کوئی سفارش نہیں کی۔ حتٰی کہ مسلمانوں نے خود ہی انہیں آزاد کر دیا۔ مجھے علم نہ ہوا یہاں تک کہ میری ایک پھوپھو زاد بہن نے مجھے بتایا تو اس پر میں نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی۔(سبل الہدیٰ والرشاد جلد4صفحہ 347 دار الکتب العلمیہ بیروت) ابن ہشام نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہؓ کا حق مہر چار سو درہم مقرر کیا۔(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ674 دار الکتب العلمیہ بیروت) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضرت عبد اللہ بن طارق ظَفَرِیؓ اورحضرت عاقل بن بُکَیرؓ کا ذکر خیر