دسویں شرط یہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض لِلّٰہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تاوقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو‘‘۔ اس شرط میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ہم سے اس بات کا عہد لے رہے ہیں کہ گوکہ اس نظام میں شامل ہوکر ایک بھائی چارے کا رشتہ مجھ سے قائم کر رہے ہو کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے لیکن یہاں جو محبت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم ہو رہا ہے یہ اس سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہاں برابری کا تعلق اوررشتہ قائم نہیں ہو رہابلکہ تم اقرار کررہے ہوکہ آنے والے مسیح کو ماننے کا خدا اور رسول کا حکم ہے۔ اس لئے یہ تعلق اللہ تعالیٰ کی خاطر قائم کررہاہوں ۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی اور اسلام کو اکناف عالم میں پہنچانے کےلئے، پھیلانے کے لئے رشتہ جوڑ رہے ہیں ۔ اس لئے یہ تعلق اس اقرار کے ساتھ کامیاب اور پائیدار ہوسکتاہے جب معروف باتوں میں اطاعت کا عہد بھی کرو اور پھراس عہد کو مرتے دم تک نبھاؤ۔ اور پھر یہ خیال بھی رکھو کہ یہ تعلق یہیں ٹھہر نہ جائے بلکہ اس میں ہر روز پہلے سے بڑھ کر مضبوطی آنی چاہئے اور اس میں اس قدر مضبوطی ہو اور اس کے معیار اتنے اعلیٰ ہوں کہ ا س کے مقابل پر تمام دنیاوی رشتے،تعلق، دوستیاں ہیچ ثابت ہوں ۔ ایسا بے مثال اور مضبوط تعلق ہوکہ اس کے مقابل پر تمام تعلق اور رشتے بے مقصد نظر آئیں ۔ پھر فرمایاکہ : یہ خیال دل میں پیدا ہو سکتاہے کہ رشتہ داریوں میں کبھی کچھ لو اور کچھ دو، کبھی مانو اورکبھی منواؤکا ا صول بھی چل جاتاہے۔ تو یہاں یہ واضح ہو کہ تمہارا یہ تعلق غلامانہ اور خادمانہ تعلق بھی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہونا چاہئے۔تم نے یہ اطاعت بغیر چون وچرا کئے کرنی ہے۔کبھی تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ یہ کہنے لگ جاؤ کہ یہ کام ابھی نہیں ہو سکتا، یا ابھی نہیں کرسکتا۔ جب تم بیعت میں شامل ہو گئے ہو اور حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی جماعت کے نظام میں شامل ہو گئے ہوتو پھر تم نے اپنا سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیا اور اب تمہیں صرف ان کے احکامات کی پیروی کرنی ہے،ان کی تعلیم کی پیروی کرنی ہے۔ اور آپ کے بعد چونکہ نظام خلافت قائم ہے اس لئے خلیفۂ وقت کے احکامات کی، ہدایات کی پیروی کرنا تمہارا کام ہے۔ لیکن یہاں یہ خیال نہ رہے کہ خادم اور نوکر کاکام تو مجبوری ہے، خدمت کرنا ہی ہے۔خادم کبھی کبھی بڑبڑا بھی لیتے ہیں ۔ اس لئے ہمیشہ ذہن میں رکھو کہ خادمانہ حالت ہی ہے لیکن ا س سے بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ کی خاطر اخوت کا رشتہ بھی ہے اوراللہ کی خاطر اطاعت کا اقرار بھی ہے اور اس وجہ سے قربانی کا عہد بھی ہے۔توقربانی کاثواب بھی اس وقت ملتاہے جب انسان خوشی سے قربانی کر رہا ہوتاہے۔تو یہ ایک ایسی شرط ہے جس پر آپ جتنا غور کرتے جائیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت میں ڈوبتے چلے جائیں گے اور نظام جماعت کا پابند ہوتا ہوا اپنے آپ کو پائیں گے۔ بعض دفعہ بعض لوگ معروف فیصلہ یا معروف احکامات کی اطاعت کے چکر میں پڑ کر خود بھی نظام سے ہٹ گئے ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی خراب کر رہے ہوتے ہیں اورماحول میں بعض قباحتیں بھی پیدا کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان پر واضح ہو کہ خود بخودمعروف اور غیر معروف فیصلوں کی تعریف میں نہ پڑیں ۔غیرمعروف وہ ہے جوواضح طورپر اللہ تعالیٰ کے احکامات اور شریعت کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔ (خطبہ جمعہ ۱۰؍ستمبر ۲۰۰۳ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍نومبر ۲۰۰۳ء) مزید پڑھیں: صرف آنحضرتﷺ کے ساتھﷺ کیوں آتا ہے؟