https://youtu.be/BiE-DNO2DEw حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقع پر احباب جماعت کو صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ کے حالاتِ زندگی کو قلم بند کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: جس جس کو کوئی روایت پتا لگے اس کو چاہیےکہ لکھ کر اخباروں میں چھپوائے کتابوں میں چھپوائے (روز نامہ الفضل ۱۶؍فروری ۱۹۵۶ء ) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓنے فرمایا: صحابہ کرامؓ کے حالات جماعت کے لیے روحانی زندگی کا باعث ہیں۔ دوستوں کو چاہیے کہ اس بارہ میں تساہل نہ کریں اور جس کسی کو بھی کسی صحابی کے حالات کا علم ہو وہ ضرور ان حالات کو لکھے، اپنے پاس بھی محفوظ رکھے (اصحاب احمدجلد ۱۲)۔ محترم سید میر داؤد احمد صاحب سابق پرنسپل جا معہ احمدیہ ربوہ نے بھی صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے حالات کو محفوظ کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ ایک قومی سرمایہ اور حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کے نشان ہیں۔ انہیں یکجا اور محفوظ کرنا ہر احمدی کا فرض ہے۔(اصحاب احمدجلد ۱۱) اسی طرح مصنف اصحاب احمد محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے نے فرمایا کہ کسی صحابی کے متعلق خواہ ایک آدھ بات ہی معلوم ہو اس کو محفوظ کیا جائے۔ ایک ایک دو دو باتیں جمع ہو کر معلومات کا مفید مجموعہ تیار ہو جاتا ہے۔ اس زمانے کے گزر جانے پر ایک آدھ بات بھی دستیاب ہونی محال ہو گی۔(اصحاب احمدجلد ۱) ان ارشادات کی روشنی میں خاکسار آج حضرت ملک سلطان علی ذیلدار صاحب ؓصحابی حضرت مسیح موعودؑ (جن کا تعلق گجرات کے ایک مشہور گاؤں کھوکھر غربی سے تھا ) کا ذکرخیر احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہے۔ جماعت احمديہ کے لٹريچر ميں آپؓ کے بارے ميں کچھ معلومات پہلے سے محفوظ ہيں۔(روز نامہ الفضل ۱۳؍نومبر ۲۰۰۸ ء )آپؓ کے پوتے محترم ملک عزیز احمد صاحب ولد ملک محمد سلطان صاحب نے خاکسار سے مندرجہ ذیل کچھ مزید روایات بیان کی ہیں جو اميد ہے کہ احباب جماعت کے لیے دلچسپی کا باعث بنيں گئیں۔ حضرت ملک سلطان علی ذیلدار صاحب ؓایک نیک دعا گو اور تہجد گذار انسان تھے۔خوبصورت شکل و شباہت کے ساتھ دراز قد اور بھاری جسم کے مالک تھے۔ ضلع گجرات کے گاؤں کھوکھر غربی میں آپؓ نے سب سے پہلے احمدیت قبول کی۔ آپؓ کی وجہ سے کھوکھر غربی میں ایک بڑی تعداد میں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔ آپؓ ذیلدار بننے سے قبل نمبردار تھے۔ آپؓ کے ذیلدار بننے کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ کھوکھر غربی کی ایک طرف گجر برادری اور دوسری طرف جاٹ برادری رہا ئش پذیر تھی۔ جاٹ برادری کا جو ذیلدار تھا وہ وفات پا گیا۔ آپؓ نے اس وقت کے ڈی سی ملک ہر دیپ سنگھ صاحب کو کہا کہ ملک صاحب ! میں بھی ذیلداری کے لیے درخواست دے رہا ہوں۔ ڈی سی صاحب نے کہا کہ درخواست تو بے شک دے دیں مگر وکیل قابل لانا ہے۔ آپؓ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ سے کہیں کہ وہ گجرات میں ذیلداری کیس میں میری طرف سے وکالت کریں۔ حضورؓ کے حکم پر حضرت چودھری صاحب ؓنے حضرت ملک سلطان علی صاحبؓ سے فرمایا کہ ٹھیک ہے میں اپنی گاڑی پر آؤں گا۔ آپ سے کوئی فیس نہیں لوں گا۔ صرف آپ میری گاڑی میں پٹرول بھروا دیں۔ حضرت ملک سلطان علی صاحبؓ نے ایسا ہی کیا اورانہیں لےکر عدالت پہنچے۔ دوسری پارٹی چودھری محمد دین صاحب کو (جو کہ پنجاب لیول کے ٹاپ کے وکیل تھے) لے کر آئی ہوئی تھی۔ انہوں نے حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب ؓ کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو بالکل جوان لڑ کا ہے اس نے کیا مقابلہ کرنا ہے۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے کیس کی فائل کا مطالعہ بھی نہیں کیا یہ سوچ کر کہ جب دوسرا وکیل بات کرے گا تو مجھے خود ہی کیس کا پتہ چل جائے گا۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے دوسرے وکیل سے پوچھا کہ آپ نے پہلے دلائل دینے ہیں یا میں نے؟ دوسرے وکیل نے کہا میں نے۔حضرت چودھری صاحب ؓنے پوچھا انگلش میں یا اردو میں؟ اس نے سوچا کہ جوان لڑکا ہے اس کو کہاں انگلش آتی ہوگی؟ اس نے کہا انگلش میں۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے کہا میری بات سن لیں جب آپ اپنے مؤکل چودھری سردار خاں کے بارے میں دلائل دے رہے ہو گے تو میں بالکل مداخلت نہیں کروں گا اور جب میں دلائل دے رہا ہو گا تو آپ نے بالکل مداخلت نہیں کرنی۔ انہوں نے ڈی سی صاحب سے کہا : ڈی سی صاحب یہ بات لکھ لیں۔جب چودھری محمد دین صاحب نے دلائل دے دیے تو سب وکلاء کہنے لگے کہ چودھری سردار خاں صاحب ہی ذیل دار ہوںگے۔ یہ جوان وکیل کس طرح دلائل دے گا۔مگر جب حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ نےانگلش میں دلائل دینا شروع کیے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انگلش آپؓ کی مادری زبان ہے۔ انہوں نے اس قدر اعلیٰ دلائل دیے کہ آخر میں ڈی سی صاحب نے اپنے منہ میں حیرانگی سے قلم ڈال دی اور حضرت چودھری صاحبؓ کو دیکھتا رہا کہ یہ کیسا قابل انسان ہے! اس قدر اعلیٰ انگلش بولنے والا اور اتنے اعلیٰ دلائل دینے والا انسان کہاں سے آ گیا ہے؟ آخر پر حضرت چودھری صاحبؓ نے کہا کہ ڈی سی صاحب میری بات سنیں۔ چودھری سردار خاں صاحب میں تو وہ قابلیت ہی نہیں نظر آتی کہ کس طرح اس ذیل میں داخل ۳۵؍گاؤں کے لوگوں کو صحیح طریقے سے ذیل کر سکیں گے۔ جب حضرت چودھری صاحبؓ دلائل دے چکے تو ڈی سی صاحب نے کہا کہ آپ لوگ باہر ایک گھنٹہ انتظار کریں۔ میں ایک گھنٹے کے بعد آپ کو فیصلہ سناتا ہوں۔ ایک گھنٹہ کے بعد ڈی سی صاحب برآمدے میں آئے اور کہنے لگے کہ میں ملک سلطان علی کو ذیلدار اور چودھری سردار خاں کو سفید پوش بناتا ہوں ( ذیلدار سے نیچے والے عہدے کو سفیدپوش کہتے ہیں)۔ حضرت ملک سلطان علی صاحبؓ اسی وقت سجدہ میں گر گئے۔ ڈی سی صاحب کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے ہیں جس نے انہیں ذیلدار بنایا ہے۔ دوسری پارٹی کو اس فیصلے کا بہت غصہ تھا۔انہوں نےآپؓ سے ا س بات کا بدلہ لینےکے لیے ایک آدمی کو پیسے دے کر آپؓ کو قتل کرنے کی سازش تیار کی۔ ایک روز آپؓ اپنی گھوڑی پرا کیلےسوار کنجاہ گاؤں ( کھوکھر غربی کے ساتھ ایک گاؤں ہے ) سےکھوکھر غربی کی طرف آ رہے تھے۔ وہ آدمی آپؓ کو قتل کرنے کی غرض سے درختوں کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بیٹھ کر آپؓ کو آتا دیکھتا رہا۔ جب آپؓ نہر کے پل کے اوپر سے ہوتے ہوئے راستہ شارٹ کٹ کر کے شیشم کے درختوں کے درمیان سے گزرنے لگے تو وہ آدمی یک دم آپؓ کے سامنے آ کھڑا ہو ا اور گھوڑی کی باگ پکڑ کر کہنے لگا کہ دیکھو ! یہ میرے پاس ٹوکا ہے اور یہ پیسے ہیں جو انہوں نے مجھے آپ کو قتل کرنے کے لیے دیے ہیں۔پھر وہ کہنے لگا لیکن جب میں نے آپ کو پل پر سے آتے دیکھا تو میرے دل میں یہ بات آئی کہ اتنا نوجوان اور خوش شکل انسان جس نے میرا کوئی قصورو نقصان بھی نہیں کیا میں چند ٹکوں کے بدلےاس کو قتل کرنے لگا ہوں۔ یہ سوچ کر میں رک گیا۔ آپ آئندہ اکیلے نہ آیا کریں۔ کسی کو حفاظت کے لیے اپنے ساتھ رکھا کریں۔یوں اللہ تعالیٰ نے دشمن کا منصوبہ نا کام بنایا۔ ذیلدار بننے کے بعد آپؓ پہلے دن کھوکھر غربی کے قریب واقع گاؤں کنجاہ گئے۔ دونوں گاؤں کو ایک ہی تھانہ لگتا تھا۔ آپؓ جو فیصلہ کرتے تھے پولیس والوں کو بھی ماننا پڑتا تھا۔ کنجاہ کا نمبردار سکھ تھا۔ آپؓ نے اسے کہا کہ تم نے ابھی تک مالیہ جمع نہیں کروایا۔ وہ کہنے لگا کہ آج ہی تم آئے ہو بڑے ذیلدار۔ ہم کیا تم کو ذیلداری کرنے دیں گے؟ آپؓ گھوڑی پر سوار تھے۔ چھلانگ لگا کر اترے اور اسکی خوب خبر لی۔لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہو گیا۔ اتنے میں تھانے دار آگیا۔ لوگوں نے اسے بتایا کہ پہلے نمبر دار نے ذیلدار صاحب کے ساتھ بدتمیزی کی ہے۔ اس طرح کنجاہ کے لوگوں کو پتہ چل گیا کہ نئے ذیلدار صاحب بڑے بہادر اور دلیر انسان ہیں۔ جب کھوکھر غربی میں احمدی کافی تعداد میں ہوگئے تو آپؓ نے غیر احمدیوں کو الگ مسجد تعمیر کروا کر دی تا کہ وہ اپنی نمازیں الگ ادا کریں۔اس سے پہلے سب لوگ ایک ہی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے۔ ایک روز آپؓ اپنے پوتے مکرم ملک عزیز احمد صاحب کے ہمراہ مسجد میں (جس میں اب احمدی نماز ادا کرتے تھے) نماز ادا کرنے آئے۔ مسجد میں ابھی اتنے زیادہ نمازی نہیں آئے تھے۔انہوں نے دیکھا کہ غیر احمدیوں نے الگ مسجد ہونےکے باوجود احمدیوں کی مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے اپنا امام کھڑا کر دیا ہےاور دوسرے غیر احمدی اس کے پیچھےنماز ادا کر ہے ہیں۔آپؓ سے یہ دیکھا نہ گیا اور اس قدر ڈانٹ ڈپٹ کی کہ وہ نماز چھوڑ کر بھاگ گیا اور دوسرے لوگ بھی نماز چھوڑ کر بھاگ گئے۔ آپؓ نے انہیں کہا کہ خبردار اگر آپ نے اس مسجد میں دوبارہ نماز پڑھی۔ آپ کو الگ مسجد بنا کر دی ہے۔ادھر نماز پڑھا کریں۔ اس واقعہ کے بعد انہوں نے دوبارہ ایسا کرنے کی جرأت نہیں کی۔ آپؓ فجر کی نماز کے لیے جب مسجد جاتے تو اپنے پوتے مکرم ملک عزیز احمد صاحب کو آواز دیتے اور کہتے آؤ عزیز! نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ انہیں ساتھ لے کر مسجد جاتے۔ آپؓ گھر میں آ کر بھی اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے تھے۔آپؓ کو گن کر تسبیح کرنا پسند نہیں تھا۔ کہا کرتے تھے کہ اپنے خدا کو یاد کرنا اور وہ بھی گن کر ؟ یہ کیا بات ہوئی کہ تسبیح ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے اور کہنا ہم بڑے نیک ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یاد کرو تو بغیر گن کر یاد کرو۔ آپؓ کے پوتے محترم ملک عزیز احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ گرمیوں کے دنوں میں ہمارے گاؤں میں بجلی نہیں ہوتی تھی۔رات کو ہم چھت پر سوتے تھے۔اس وقت میں جوان تھا۔ ایک رات میں چھت پر سو رہا تھا کہ اچانک نیند میں اٹھ کر میں نے بے ہوشی کی حالت میں چھت کے منڈیر پر چلنا شروع کر دیا۔ مجھے کچھ خبر نہیں تھی۔ ہمارا گھر بہت اونچا تھا۔ اگر اوپر سے نیچے گر تا تو مر جاتا۔اس وقت حضرت ملک سلطان علی ذیلدار صاحبؓ چھت پر تہجد کی نماز ادا کر رہے تھے۔آپؓ کو نماز میں محسوس ہوا کہ میں منڈیر پر نیند کی حالت میں چل رہا ہوں۔ آپؓ نے نماز میں دعا مانگنی شروع کر دی کہ یا اللہ! اس کو بچا لے۔ حضرت ملک سلطان علی ذیلدار صاحبؓ نے بعد میں مجھے بتایا کہ میں دعا کرتا رہا حتیٰ کہ آپ اپنی چارپائی پر آ کر سو گئے۔ آپؓ نے مجھے نصیحت کی کہ اگر آئندہ چھت پر سونا ہے تو اپنی ٹانگ کو کسی دوپٹے سےچارپائی کے ساتھ باندھ لیا کریں تاکہ بے ہوشی کی حالت میں نیچے نہ گر جائیں۔ اسی طرح ايک دفعہ حضرت ملک سلطان علی ذیلدار صاحبؓ اور آپؓ کے تین بیٹوں پر قتل کا ایک جھوٹا کیس بنا دیا گیا۔ آپؓ نے خدا تعالیٰ سے بہت دعا کی جو اس رنگ میں پوری ہوئی کہ جب آپؓ اس کیس کے سلسلہ میں منڈی بہاؤلدین سےآگے ایک تھانے میں اپنے بیٹوں کے ساتھ گئے تو وہاں کے ایس ایچ او کو آپؓ نے تبلیغ کرنی شروع کر دی۔آپؓ کے بیٹوں نے کہا کہ : ابا جی! ہم ۳۰۲ کے کیس میں یہاں آئے ہیں اور آپ نے تبلیغ شروع کر دی ہے۔ ایس ایچ او کہنے لگا کوئی بات نہیں آپ اپنی بات جاری رکھیں۔وہ کبھی آپؓ سے پوچھتا کہ آپ کبھی قادیان گئے ہیں؟ حضرت مسیح موعودؑ سے کیسےملے؟ حضورؑ آپ کو کیسے لگے؟ ان سے آپ کی کیا کیا باتیں ہوئیں؟ وہ بڑے مزے سے آپؓ کی باتیں سنتا رہا۔ آخر میں کہنے لگا کہ میں تو خود احمدی ہوں۔مجھے تو آپ کی باتیں سن کر بڑا مزا آ رہا تھا اور آپ لوگ پریشان ہو رہے تھے۔ پھر ایس ایچ او نے کہا کہ اب آپ کو کوئی تھانے میں نہیں بلائے گا۔ میں یہ کیس سیل کر رہا ہوں۔ آج آپ میرے مہمان ہیں واپس نہ جائیں۔ آپؓ نے کہا کہ نہیں پیچھے گھر والے پریشان ہونگے اس لیے ہمیں اجازت دیں۔ یہ آپؓ کی دعا کا اثر ہی تھا جس کی وجہ سے آپؓ اس مقدمے سے بفضلہ تعالیٰ باعزت طریقے سے بری ہوئے۔آپؓ کی وفات ۸۵ سال کی عمر میں ۱۹۶۰ء میں ہوئی۔اللہ تعالیٰ آپؓ کو اپنے قرب و جوار میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہميں اپنے ان بزرگوں کی نيکياں جاری کرنے والا بنائے۔ آمین ثم آمین ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: سردار احمد خادم صاحب معلم وقف جدید