https://youtu.be/ba6mV3lkeds (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍مارچ ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا: یہ بہت عظیم اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے روزہ کےاصل مقصدکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اصل مقصد تو تقویٰ پیدا کرنا ہے اگر یہ نہیں توروزے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ آج کل تو مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد میں بھوکا رہنے والی بات بھی نہیں رہی۔ اکثر خاص طور پر جو امیر لوگ ہیں سحری بھی بڑے اہتمام سے کھاتے ہیں اور افطاری بھی بڑے اہتمام سے کرتے ہیں۔ ہاں بیچارہ غریب ہے جسے سحری اور افطاری بھی بڑی مشکل سے میسر آتی ہے لیکن ان کا بھی روزے میں بھوک کے ساتھ پانی پینے سے رکنا اللہ تعالیٰ کی نظر میں تب مقبول ہو گا جب تقویٰ کے راستوں کی بھی تلاش کریں گے۔ اپنی عبادتوں کو سنوارنے کی کوشش کریں گے۔ یہاں یہ بھی بیان کر دوں کہ امیروں کو چاہیے کہ اپنے علاقے کے غریبوں کی رمضان میں خاص طور پر خبرگیری کریں۔ افطاریوں میں صرف امراء کو ہی جمع کر کے افطاریوں سے لطف اندوز نہ ہوں بلکہ غریبوں کی افطاریوں کا بھی انتظام کریں اور یہ جو دعوتوں کے رنگ میں بڑی بڑی افطاریاں ہوتی ہیں، ان کے حق میں تو ویسے بھی مَیں نہیں۔ یہ اب دکھاوے اور بدعت کا رنگ اختیار کر گئی ہیں۔ رمضان میں تو قرآن کریم کے پڑھنے، پڑھانے، سننے، سنانے کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے۔ ذکر الٰہی کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے۔عبادات کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے لیکن بجائے اس کے ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ مختلف قسم کے کام کررہے ہیں وہ اپنے کاموں سے آ کر افطاریوں کی دعوتیں کھانے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور جنہوں نے افطاریوں کی دعوت کی ہوتی ہے وہ بھی اس طرف توجہ دینے کی بجائے کہ قرآن و حدیث پڑھیں، ذکر الٰہی کریں، عبادت کی طرف توجہ دیں اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کس طرح اچھے سے اچھا انتظام ہو، افطاری کا سامان ہو، کیسی اچھے سے اچھی افطاری تیار ہو تاکہ ان کی واہ واہ ہو کہ افطاری میں بہت کمال کر دیا۔ تو یہ چیزیں رمضان کا مقصد نہیں ہیں۔ یہ تو تقویٰ سے دُور لے جانے والی باتیں ہیں۔پس ڈھال سے فائدہ اٹھانے کے لیے ڈھال کا صحیح استعمال کرنا بھی ضروری ہے ورنہ شیطان تو دائیں بائیں، آگے پیچھے سے حملہ کرے گا، کس طرح بچائیں گے؟ اور پھر یہ شیطان انسان کو کاری زخم لگا کر زخمی بھی کر سکتا ہے۔ پس ہمیں چاہیے کہ رمضان میں روزے کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ تقویٰ جو اصل مقصود ہے اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر جائز باتوں سے بھی رکیں تو پھر یقیناً اللہ تعالیٰ کی رحمت کی نظر ہم پر ہو گی اور اللہ تعالیٰ ہمارے شیطان کو بھی جکڑ دے گا اور نیکیاں کرنے کا وسیع میدان بلا روک ٹوک ہم پار کرتے چلے جائیں گے۔ عبادتوں اور ذکر الٰہی کا حصار ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے شیطانی حملوں اور روکوں سے بچاتا چلا جائے گا۔ شیطان کو کوئی معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہیے اس نے بڑے چیلنج سے یہ بات کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی اکثریت میرے بہکاوے میں آکر میرے پیچھے چلے گی۔ پس ہم نے رمضان میں اس کے اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے اور پھر یہ کوشش کرنی ہے کہ ہم عبادتوں اور قرآنی احکام پر عمل کرنے کے ہتھیار سے شیطان کا ہمیشہ مقابلہ کرتے چلے جائیں۔ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے روزہ کی حقیقت کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعودؑ روزے کی حقیقت کے بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں:روزے کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالَم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا ایک اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے آج کل تو روزہ کھانے پینے کا نام ہے۔ بہرحال آپؑ فرماتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا اس سے یعنی روزے سے منشا یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزے دار کو یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو اور دنیا سے بے رغبتی ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا تعالیٰ کے لیے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پرنہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی حمداور تسبیح اورتہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جائے۔ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے متقی کےابتدائی مدارج کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں: ’’جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: الٓـمّٓ۔ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (البقرہ:۲-۳) یہ کتاب تقویٰ کرنے والوں کو ہدایت کرتی ہے اور وہ کون ہیں ؟ الَّذِیۡنَ یؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ (البقرہ:۴)جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ یعنی ابھی وہ خدا نظر نہیں آتا‘‘ لیکن اللہ تعالیٰ پر ان کا ایمان ہے کہ خدا ہے اور تجربہ بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی ایمان لاتے ہیں کہ خدا ہے۔ ’’اور پھر نماز کو کھڑی کرتے ہیں یعنی نماز میں ابھی پورا سرور اور ذوق پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ کھڑی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابھی پورا سرور اور ذوق پیدا نہیں ہوتا۔ ’’تاہم بے لطفی اور بے ذوقی اور وساوس میں ہی نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ تجھ پر یا تجھ سے پہلے نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’یہ متقی کے ابتدائی مدارج اور صفات ہیں۔‘‘ یہ باتیں تو ایک متقی کے ابتدائی مدارج ہیں، درجے ہیں اور صفات ہیں۔ یہ ایمانی باتیں ہونی چاہئیں۔ ایمان بالغیب اور نماز کا قیام یہ سب ابتدائی باتیں ہیں۔ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے سوال ’’غیب پر ایمان کیوں لائیں ‘‘کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ غیب پر ایمان کیوں لائیں آج کل تو کیوں کا سوال نوجوانوں میں، بچوں میں بہت اٹھتا ہے۔ جس چیز کا ہمیں پتہ ہی نہیں اس پر ایمان کیوں لائیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:غیب پر ایمان تو ابتدائی شکل ہے۔ یہ کتاب جو دی گئی ہے اس پر عمل کرو۔ ایمان لانے کے بعد اس پر عمل ضروری ہے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کی صحیح پہچان دلائے گا۔ تو غیب سے باہر نکل کر مشاہدے کی حالت پیدا ہو گی۔ صرف غیب سے نہیں ہوگا بلکہ خود آدمی مشاہدہ کرے گا کہ کون خدا ہے۔ یہ تو دنیا کا اصول بھی ہے جو سائنٹسٹ (scientist)ہیں، ریسرچر(researcher) ہیں وہ جانتے ہیں کہ تجربات میں بھی پہلے ایک hypothesis بنتا ہے، اس پر بنیاد کر کے ریسرچ ہوتی ہے اور پتہ نہیں کہ وہ سچ ثابت ہو یا نہ ہولیکن اس پہ تصور میں ایک بنیاد بنائی جاتی ہے اور اس پر ریسرچ کی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایمان بالغیب کی بنیاد بنا کر پھر قرآنی احکامات پر عمل کرو، محنت کرو، غور کرو، پھر دیکھو تم مشاہدہ بھی کر لو گے سائنسدان تو صرف اپنی ریسرچ کے لیے، ایک تسلی کے لیے وہ ریسرچ کرتے ہیں اور ان کی تسلی ہوتی ہے تو پھر لوگوں کو بتاتے ہیں لیکن یہاں جو ایک تصورباندھا اور اس کے بعد ریسرچ کی اس سے ہر انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ ہے اسلام کی خوبی۔ یہ ہے ایمان بالغیب کی اصل حقیقت۔ سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے نماز کی ابتدائی حالت کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: (حضرت اقدس مسیح موعود ؑ) فرماتے ہیں کہ ’’اسی طرح پر نماز کے متعلق ابتدائی حالت تو یہی ہو گی جو یہاں بیان کی کہ وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں‘‘ قیام کا مطلب کھڑی کرنا۔’’یعنی نماز گویا گری پڑتی ہے۔ گرنے سے مراد یہ ہے کہ اس میں ذوق اور لذّت نہیں۔ بے ذوقی اور وساوس کا سلسلہ ہے۔ اس لئے اس میں وہ کشش اور جذب نہیں کہ انسان جیسے بھوک پیاس سے بیقرار ہوکر کھانے اور پانی کے لئے دوڑتا ہے اسی طرح پر نماز کے لئے دیوانہ وار دوڑے لیکن جب وہ ہدایت پاتاہے تو پھر یہ صورت نہیں رہے گی۔ اس میں ایک ذوق پیدا ہوجائے گا۔‘‘ نماز میں بھی ایک لذت آئے گی۔ ’’وساوس کا سلسلہ ختم ہو کر اطمینان اور سکینت کا رنگ شروع ہو گا۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’کہتے ہیں کسی شخص کی کوئی چیز گم ہوگئی تو اس نے کہا کہ ذرا ٹھہر جاؤ۔ نماز میں یاد آجائیگی۔ یہ نماز کاملوں کی نہیں ہوا کرتی کیونکہ اس میں تو شیطان انہیں وسوسہ ڈالتا ہے۔‘‘ یعنی چیز گم ہو گئی اس نے کہا اچھا ویسے تو یاد نہیں آ رہی چلو نماز پڑھتے ہیں۔ نماز میں میرے خیالات اِدھر اُدھر جاتے رہیں گے اور آخر شاید اس میں یہ بات یاد آجائے کہ مَیں نے کہاں وہ چیز رکھی تھی تو یہ نماز کاملوں کی نماز نہیں ہے، یہ شیطانی وسوسے ہیں ’’لیکن جب کامل کا درجہ ملے گا تو ہر وقت نماز ہی میں رہے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ہر وقت یاد رہے گا۔ ’’اور ہزاروں روپیہ کی تجارت اور مفاد بھی اس میں کوئی ہرج اور روک نہیں ڈال سکتا۔‘‘ دنیا کے کام بھی ہوں گے اور خدا تعالیٰ کا خوف بھی رہے گا، خدا تعالیٰ یاد بھی رہے گا۔ فرمایا ’’اسی طرح پر باقی جو کیفیتیں ہیں وہ نرے قال کے رنگ میں نہ ہوں گی۔ ان میں حالی کیفیت پید اہو جائے گی اور غیب سے شہود پر پہنچ جاوے گا۔ یہ مراتب نرے سنانے ہی کو نہیں ہیں۔‘‘ یہ مرتبے جو مَیں نے بیان کیے ہیں یہ صرف سنانے کے لیے نہیں ہیں ’’کہ بطور قصّہ تم کو سنا دیا اور تم بھی تھوڑی دیر کے لئے سن کر خوش ہو گئے۔ نہیں یہ ایک خزانہ ہے اس کو مت چھوڑو۔ اس کو نکال لو۔ یہ تمہارے اپنے ہی گھر میں ہے اور تھوڑی سی محنت اور سعی سے اس کو پا سکتے ہو۔‘‘ سوال نمبر۷: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے تقویٰ کی کون سی دو اقسام بیان فرمائیں؟ جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں یاد رکھو کہ دعائیں منظور نہ ہوں گی جب تک تم متقی نہ ہو اور تقویٰ اختیار نہ کرو۔ تقویٰ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک علم کےمتعلق دوسرا عمل سےمتعلق۔ علم کے متعلق تو بیان کردیا ہے کہ علومِ دین نہیں آتے اور حقائق معارف نہیں کھلتے جب تک متقی نہ ہو اور عمل کے متعلق یہ ہے کہ نماز، روزہ اور دوسری عبادات اس وقت تک ناقص رہتی ہیں جب تک متقی نہ ہو۔ اس بات کو بھی خوب یادرکھو کہ خدا تعالیٰ کے دوحکم ہیں۔ اوّل یہ ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ نہ اس کی ذات میں، نہ صفات میں، نہ عبادات میں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ نوع انسان سے ہمدردی کرو۔اللہ کا حق ادا کرو۔بندوں کا حق ادا کرو۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ یـتَّقِ اللّٰہَ یجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۔ وَّیرْزُقْہُ مِنْ حَیثُ لَا یَحْتَسِبُ(الطلاق:۳-۴) پس تقویٰ ایک ایسی چیز ہے کہ جسے یہ حاصل ہو اسے گویا تمام جہان کی نعمتیں حاصل ہو گئیں۔‘‘تقویٰ اختیار کرو گے تو ایسے ایسے سامان اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے گا اور ایسی جگہوں سے رزق دے گا جہاں تمہارا گمان بھی نہیں ہو گا۔ فرمایا کہ ’’یاد رکھو متقی کبھی کسی کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ وہ اس مقام پر ہوتا ہے کہ جو چاہتا ہے خدا تعالیٰ اس کے لئے اس کے مانگنے سے پہلے مہیا کر دیتا ہے۔‘‘ پس یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ متقی کو دنیاوی رزق بھی دیتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’مَیں نے ایک دفعہ کشف میں اللہ تعالیٰ کو تمثل کے طور پر دیکھا۔ میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر فرمایا۔جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو ۔‘‘ فرمایا ’’پس یہ وہ نسخہ ہے جو تمام انبیاء و اولیاء و صلحاء کا آزمایا ہوا ہے۔‘‘ تم بھی آزماؤ۔ فرماتے ہیں ’’…ہماری جماعت کو چاہئے کہ تقویٰ کی راہوں پر قدم ماریں اور اپنے دشمن کی ہلاکت سے بیجا خوش نہ ہوں۔ تورات میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کے دشمنوں کے بارے میں ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’مَیں نے ان کو اس لئے ہلاک کیا کہ وہ بد ہیں‘‘ اس لیے ان کو ہلاک کیا ’’نہ اس لئے کہ تم نیک ہو۔‘‘ تمہاری نیکی کی وجہ سے دشمن ہلاک نہیں ہوئے بلکہ وہ اپنی بدی کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ ’’پس نیک بننے کی کوشش کرو۔‘‘ فرمایا ’’میرا ایک شعر ہے ہر اِک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے۔اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہےپھر آپؑ فرماتے ہیں ‘‘…تقویٰ ایک تریاق ہے جو اسے استعمال کرتاہے تمام زہروں سے نجات پاتا ہے۔ مگر تقویٰ کامل ہونا چاہئے۔ مزید پڑھیں: احمدیہ مسلم میڈیکل ایسوسی ایشن (AMMA) کی پہلی عالمی کانفرنس سے حضورِ انور کے بصیرت افروز انگریزی خطاب کا خلاصہ