(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۷؍جون ۲۰۱۹ء) علامہ زُہری کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن طارق ظَفَرِیؓ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ عروہ نے ان کا نام عبداللہ بن طارق بَلَوِی لکھا ہے جو انصار کے حلیف تھے۔ بعض نے کہا ہے کہ حضرت عبداللہ بن طارق بَلَوِی انصار کے قبیلہ بنوظَفَر کے حلیف تھے۔ ابنِ ہشام کے مطابق آپ قبیلہ بَلِیّ میں سے تھے اور قبیلہ بنو عبد بن رِزَاحْ کے حلیف تھے۔ حضرت مُعَتِّبْ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عُبَید حضرت عبداللہ بن طارقؓ کے اخیافی بھائی تھے یعنی والدہ کی طرف سے حقیقی بھائی تھے۔ حضرت عبداللہ بن طارقؓ کی والدہ بنو عُذْرَہ کی شاخ بنو کَاھِل سے تھیں۔ حضرت عبداللہ بن طارقؓ اور حضرت مُعَتِّبْ بن عُبَیدؓ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شامل ہوئے اور واقعہ رجیع کے دن دونوں بھائیوں کو شہادت نصیب ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن طارقؓ ان چھ صحابہ، یا بعض روایات کے مطابق جس میں بخاری کی روایت بھی شامل ہے ان کی تعداد دس بتائی جاتی ہے، ان میں شامل تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 3؍ ہجری کے آخر میں قبیلہ عَضَلْ اور قَارَہ کے چند آدمیوں کے پاس بھیجا تھا تا کہ وہ انہیں دین کے بارے میں کچھ سمجھ بوجھ دیں اور انہیں قرآن کریم اور اسلامی شریعت کی تعلیم دیں۔ جب یہ لوگ مقامِ رجیع تک پہنچے، جو حجاز میں ایک چشمہ ہے، جو قبیلہ ھُذَیل کی ملکیت تھا تو اس پر قبیلہ ھُذَیل کے لوگوں نے سرکشی اختیار کرتے ہوئے ان صحابہ کا محاصرہ کیا اور بغاوت کرتے ہوئے ان سے قِتال کیا، جنگ کی۔ ان میں سے سات صحابہ کے نام یہ ہیں:حضرت عاصم بن ثابتؓ، حضرت مَرْثَد بن اَبُو مَرْثَدؓ، حضرت خُبَیب بن عَدِیؓ، حضرت خالد بن بُکَیرؓ، حضرت زید بن دَثِنہؓ، حضرت عبداللہ بن طارقؓ اور حضرت مُعَتِّبْ بن عُبَیدؓ۔ ان میں حضرت مرثدؓ، حضرت خالدؓ اور حضرت عاصمؓ اور حضرت مُعَتِّبْ بن عُبَیدؓ تو وہیں شہید ہو گئے تھے۔ حضرت خُبیبؓ اور حضرت عبداللہ بن طارقؓ اور حضرت زیدؓ نے ہتھیار ڈال دیے تو کافروں نے انہیں قید کرلیا اور ان کو مکہ کی طرف لے کر چلنے لگے۔ جب وہ مقام ِظَہْرَان (ظہران مکہ سے پانچ میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے، وہاں) پہنچے تو حضرت عبداللہ بن طارقؓ نے رسی سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور اپنی تلوار ہاتھ میں لے لی۔ یہ کیفیت دیکھ کر مشرکین ان سے پیچھے ہٹ گئے اور آپؓ کو پتھروں سے مارنا شروع کر دیا یہاں تک کہ آپؓ شہید ہو گئے۔ اور آپؓ کی قبر ظَہْرَان میں ہے۔ واقعۂ رجیع ہجرت کے بعد 36 ویں مہینے میں، جو صفر کا مہینہ ہے اس میں ہوا۔ (سیرت ابنِ ہشام صفحہ 464 دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء) (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 284-285عبد اللہ بن طارق دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 347 عبد اللہ بن طارق و اخوہ لأمہ معتب بن عبید دار الکتب العلمیہ 1990ء) (صحیح البخاری کتاب الجہاد باب ھل یستأسر الرجل … الخ حدیث 3045) (معجم البلدان جلد 4 صفحہ 247 دار احیاء التراث العربی بیروت) حضرت حسانؓ اپنے اشعار میں ان اصحاب کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ وَابْنُ الدَّثِنَةِ وَابْنُ طَارِقٍ مِنْهُمْوَافَاهُ ثَمَّ حِمَامُهُ الْمَكْتُوْبُ پھر یہ جو نظم ہے اس کا پہلا شعر ہے: صَلَّى الْإِلٰهُ عَلَى الَّذِيْنَ تَتَابَعُوْايَوْمَ الرَّجِيْعِ فَأُكْرِمُوْا وَأُثِيْبُوْا پہلے شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ حضرت ابن دَثِنَہؓ اور حضرت ابن طارق ؓان میں سے تھے وہیں موت ان سے جا ملی جہاں وہ ان کے لیے مقدر تھی۔ اور پھر جو پہلا شعر ان کی نظم کا تھا اس میں وہ کہتے ہیں کہ خدائے معبودنے ان پر رحمت نازل کی جو غزوۂ رجیع کے دن پے در پے شہید ہوئے۔ پس انہیں اعزاز بخشا گیا اور انہیں ثواب دیا گیا۔ (الاستیعاب جلد 3 صفحہ 928-929، عبد اللہ بن طارق، دارالجیل بیروت 1992ء) دوسرے صحابی جن کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت عاقل بن بُکَیرؓ۔ حضرت عاقلؓ کا تعلق قبیلہ بنو سعد بن لیث سے تھا۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 462-463 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء) حضرت عاقِلؓ کا پہلا نام غَافِل تھا لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عاقل رکھ دیا۔ آپؓ کے والد کا نام تاریخ و سیرت کی زیادہ تر کتب میں بُکَیر آیا ہے تاہم چند کتابوں میں ابوبُکَیر بھی لکھا ہے۔ آپؓ کے والد بُکَیر زمانہ جاہلیت میں حضرت عمرؓ کے جدّ ِامجدنُفَیل بن عَبْدُالْعُزّٰی کے حلیف تھے۔ اسی طرح بُکَیر اور ان کے سارے بیٹے بنو نُفَیل کے حلیف تھے۔ حضرت عاقلؓ، حضرت عامرؓ، حضرت اِیَاسؓ، اور حضرت خالدؓ یہ چاروں بھائی بُکَیر کے بیٹے تھے۔ انہوں نے اکٹھے دارِارقم میں اسلام قبول کیا اور یہ سب دارِ ارقم میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے تھے۔ حضرت عاقلؓ، حضرت خالدؓ، حضرت عامرؓ اور حضرت اِیاسؓ ہجرت کے لیے مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو انہوں نے اپنے تمام مرد و زن کو اکٹھا کر کے ہجرت کی۔ سب عورتیں بچے وغیرہ سب نے اکٹھے ہجرت کی۔ یوں ان کے گھروں میں کوئی مکہ میں پیچھے باقی نہیں رہا، یہاں تک کہ ان کے دروازے بند کر دیے گئے۔ ان سب لوگوں نے حضرت رِفَاعہ بن عَبْدُالْمُنْذِرؓ کے ہاں مدینہ میں قیام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عاقلؓ اور حضرت مُبَشِّرْ بن عَبْدُالْمُنْذِرؓ کے درمیان عقد ِمؤاخات قائم فرمائی، بھائی چارہ قائم فرمایا، بھائی بھائی بنایا۔ آپ دونوں غزوۂ بدر میں شہید ہوئے تھے۔ ایک قَول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عاقلؓ اور حضرت مُجَذَّرْ بن زِیَاد کے درمیان عقدِ مؤاخات قائم فرمایا تھا۔ حضرت عاقل غزوۂ بدر کے روز 34؍سال کی عمر میں شہید ہوئے تھے۔ آپؓ کو مالک بن زُھَیر جُشَمِی نے شہید کیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 208، عاقل بن ابی البکیر ؓ، داراحیاء التراث العربی 1996ء) (اسد الغابہ جلد3 صفحہ113، عاقل بن البکیر، دارالکتب العلمیہ بیروت2008ء) (الاصابہ جلد 3 صفحہ466، عاقل بن البکیر، دارالکتب العلمیہ بیروت2005ء) ابن ِاسحاق کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت اِیاسؓ اور ان کے بھائیوں حضرت عاقِلؓ، حضرت خالدؓ اور حضرت عامرؓ کے علاوہ کوئی بھی چار ایسے بھائی معلوم نہیں جو غزوۂ بدر میں اکٹھے شریک ہوئے ہوں۔ (الاصابہ جلد1، صفحہ 310، ایاس بن البکیر ؓ، دارالکتب العلمیہ بیروت 2005ء) زید بن اسلم سے مروی ہے کہ ابوبُکَیر کے لڑکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ! ہماری بہن کا فلاں شخص کے ساتھ نکاح کردیجیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلالؓ کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ یعنی یہ جو چاروں بھائی تھے ان میں سے کچھ بھائی یا چاروں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی بہن کے رشتے کے لیے حاضر ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ سے رشتہ کے متعلق ان سے پوچھا۔ تسلی نہیں تھی تو چلے گئے۔ وہ لوگ دوسری مرتبہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہماری بہن کا فلاں شخص کے ساتھ نکاح کر دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ بلالؓ کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ اس بات پر وہ پھر چلے گئے۔ پھر وہ لوگ تیسری مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہماری بہن کا فلاں شخص کے ساتھ نکاح کر دیجیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلالؓ کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟پھر مزید فرمایا کہ ایسے شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو اہلِ جنت میں سے ہے؟ اس پر ان لوگوں نے حضرت بلالؓ سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 126، بلال بن رباح، داراحیاء التراث العربی بیروت1996ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: قرون اولیٰ کی خواتین کا عشقِ رسولﷺ