https://youtu.be/1B5MdhuRbFI حضرت منشی احمد جان صاحبؓ کے فرزند حضرت پیر منظور محمد صاحب رضی اللہ عنہ نےانتخاب خلافت ثانیہ اور بعض سرکردہ لوگوں کے الگ ہوجانے کے بعد ۲۷؍مئی ۱۹۱۴ء کو ایک رسالہ لکھا جس کا نام ’’پسرِ موعود‘‘اور دوسرا نام ’’مصلح موعود‘‘ تھا۔ جس میں پسر موعود کی پیش گوئی،اس کی علامات، اس کا مقام و مرتبہ،پسرموعود کے نام اور پسر موعود کی تعیین پر سیر حاصل مواد جمع کیا۔ اور بطور خاص حضرت خلیفة المسیح الاوّل ؓکی تعیین اور اس بابت تحریر مع دستخط کا عکس بھی شامل اشاعت کیا۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفہ المسیح الاوّلؓ کے برادرنسبتی حضرت پیر منظور محمد صاحب ؓ کے اس مفید رسالہ کے مقابل پر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہورکے امیر مولوی محمد علی صاحب نے جون ۱۹۱۴ء میں ایک رسالہ بعنوان ’’المصلح الموعود‘‘ تیار کیا جس میں حضرت پیر صاحب کے پیش کردہ دلائل اور حقائق کا ردکرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس صورت حال میں مولوی محمد علی صاحب کی اس مذکورہ بالا کتاب ’’المصلح الموعود‘‘کے جواب میں حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ نے اپنی یہ زیر نظر تصنیف تیار کی اور اس کا نام ’’نشان فضل‘‘ رکھا۔ یہ مواد رسالہ ماہنامہ تشحیذ الاذہان کے ماہ اگست ۱۹۱۴ء کے مکمل شمارہ پر مشتمل ہے، یعنی صفحہ اول تا ۶۴ صفحہ تک۔ حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓ کے جاری کردہ اس علمی رسالہ کے مدیر تب حضرت قاضی محمد ظہورالدین اکمل صاحب ؓ تھے۔ مصنف نے اپنی اس تصنیف کے آغاز میں نشان فضل کے ضمن میں اس امر پر روشنی ڈالی کہ مصلح موعود کا وجود بشیر اول کے بعد دوسرا ہوگا، اور وہ بشیر اول کے بعد بلاتوقف پیدا ہوگا۔ اور فاضل مصنف نے اس سلسلے میں الہامی پیش گوئی بابت مصلح موعود مطبوعہ اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء میں سے الہامی فقرات کو الگ الگ کرکے پیش کیا ہے جن سے صاف عیاں ہوجاتا ہے کہ پیش گوئی کا ابتدائی حصہ بشیر اول کے متعلق ہے اور ساتھ ہی اس عظیم الشان پیش گوئی کے دوسرے حصہ میں مصلح موعود کے اوصاف اور نشانیاں بتائی گئیں۔کوئی بھی انصاف پسند قاری ان علامات کا مطالعہ کرکے ہی اصل مصداق کو فوراً پہچان سکتا ہے۔ اس کتاب کے صفحہ ۵ پر نکات معرفت کے عنوان کے تحت پیش گوئی مصلح موعود کے الفاظ کا نہایت دلچسپ اور باریک بینی سے تجزیہ کیا گیا ہے، اور الہام کے الفاظ کا گہرا مطالعہ پیش کیا ہے۔ صفحہ ۱۳ پر مولوی محمد علی صاحب کے رسالہ کی بابت لکھا کہ ’’اس رسالہ میں ۱۰؍جولائی والے لڑکے کو ۲۰؍فروری والے دوسرے لڑکے سے ایک علیحدہ لڑکا بنانے کی کوشش کی گئی ہے‘‘ آگے چل کر صفحہ ۱۹ پر ہے کہ ’’رسالہ نشان فضل نے اپنی الہامی تعیین سے رسالہ المصلح الموعود کا کافی جواب دے دیا ہے بلکہ اسکے نوٹ میں بعض زائد جوابات بھی دیے گئے ہیں۔ ذیل میں بھی چند اور زائد جواب دیئے جاتے ہیں۔ ‘‘ اس کے بعد ’’ضمیمہ نشان فضل‘‘ شروع ہوتا ہے، جس میں قولہ اور اقول کی طرز پر دلچسپ اور ایمان افروز مواد موجود ہے۔ مثلا مخالفین خلافت یہ شبہ پھیلانے کی کوشش بھی کرتے کہ مصلح موعود تو تین صدیوں بعد آئے گا وغیرہ۔ حالانکہ تذکرہ الشہادتین کے اس حوالہ میں حضرت عیسیٰؑ کی حیات کے بودے عقیدہ کا رد کیا گیا ہے۔ نیز مخالفین یہ بھی مذاق اڑاتے تھے کہ اگر حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کو علم ہوگیا تھا کہ میاں صاحب ہی مصلح موعود ہونگے تو وہ ان کے سامنے کیوں خلیفہ بنے رہے وغیرہ۔ ۳۰؍رمضان المبارک۱۳۳۲ہجری کو یہ تصنیف مکمل کرتے ہوئے حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ نے علمی اور الزامی رنگ میں اتمام حجت کرنے کے بعد آخر پر رسالہ ’’المصلح الموعود‘‘ کے مصنف مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت لاہور کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ’’اب یا تو جیسا کہ ہم نے تمہارے رسالہ کا رد کردیا ہے حضرت میاں صاحب کو مصلح موعود مان کر مخالفت چھوڑو اور واپس آجاؤ۔ یا پھر اپنے ہی مسلمات کی بناء کو حضرت میاں صاحب کو حضرت اقدس کا حسن واحسان میں نظیر اور اولوالعزم مان کر مخالفت چھوڑ و اور واپس آؤ۔ یاد رکھو کہ حضرت میاں صاحب کا یہ دوسرا درجہ جس کو تمہیں اپنےہی مسلمات کی بناء پر ماننا چاہئے مصلح موعود سے کچھ کم نہیں۔‘‘ مزید پڑھیں: اشتراکیت اور اسلام(از حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے رضی اللہ عنہ)