https://youtu.be/mAJDsoB3Yeg ’’سر ظفراللہ نے جس شاندار طریق پر ہمارے مقدمہ کی تفصیلات پیش کیں، اس نے دھوکا دینے والی اور میکاولین انداز کی شکایت کو اس کے صحیح مقام یعنی ملزم کے کٹہرے میں لا کھڑا کر دیا۔ اس نے انہیں پاکستان کی تاریخ میں ایک قابل فخر مقام دلا دیا۔ اور کشمیری نسل درنسل احساس تشکر کے ساتھ ان کو یاد رکھیں گے‘‘ (نوٹ : جس وقت یہ تحریر لکھی گئی، اس وقت تک ڈسکہ شہر والی معروف مسجد، جسے حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خانؓ نے تقریباً آٹھ دہائیاں قبل تعمیر کروایا تھا کو ’’بالائی آرڈرز‘‘ کے تحت شہید کیا جا چکا تھا۔ تاہم زیرنظر تحریر، مذکورہ مسجد کی شہادت کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔جسے بعد ازاں ’’بیرونی پریشر‘‘ کے زیراثر پنجاب پولیس کی ہی زیرنگرانی دوبارہ تعمیر کیا گیا ) پاکستان میں حال ہی میں احمدیہ مسجد ڈسکہ، جسے پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ اور قائد اعظم کے معتمد ترین ساتھی حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان ؓنے اپنے آبائی قصبہ ڈسکہ میں تقریباً آٹھ دہائیاں قبل تعمیر کروایا تھا۔ ڈسکہ کی شہری انتظامیہ نے ’’اوپر‘‘ کے سرکاری آرڈرز نیز تحریک قیام پاکستان کے اشد ترین مخالف ملاؤں کے مطالبے پر مسجد پر بلڈوزر چلا کر اسے مکمل طور پر شہید کر دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون جب ہوَس اقتدار میں مبتلا موجودہ انتظامیہ، چودھری صاحب کے خدائے واحد کی عبادت بجا لانے کے لیے تعمیرکردہ اس پاکیزہ گھر کو زمیں بوس کر رہی تھی تو چشم تصور میں دورِماضی کے وہ لمحات کسی فلم کی مانند ایک ایک کرکے آنکھوں کے سامنے سے گزرتے محسوس ہوئے۔ جب ہندوستان کی انتظامیہ کی پشت پناہی میں تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا جا رہا تھا۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر کی وہ مسجد بھی آنکھوں کے سامنے پھرنے لگی جس کی ظالمانہ بندش کی خبر کو کئی پاکستانی اخبارات نے بھی اپنے صفحات پربطور خاص چھاپا تھا۔ لیکن پاکستان کی حالیہ تاریخ میں جس طرح احمدیہ مساجد کو توڑا پھوڑا گیا، اس کی مثال پاکستان کی گذشتہ ۷۵؍سالہ تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ڈسکہ کی مذکورہ مسجد کی شہادت کے ساتھ ہی تاریخ پاکستان کے وہ لمحات آنکھوں کے سامنے ہجوم در ہجوم پھرنے لگے، جب چودھری سر محمد ظفراللہ خانؓ نے قیام پاکستان کی خاطر دامے، درمے، قدمے، سخنے اپنی خداداد صلاحیتیں وقف کر دیں۔ یاد رہے ڈسکہ کی اس شہید ہونے والی مسجد کو تعمیر کروانے والے چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ اس وقت محمد علی جناح صاحب کی ایک آواز پر سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کی خدمت کے لیے حاضر ہوگئے تھے جب راجہ صاحب بھوپال نے ہزاروں روپیہ تنخواہ پر ان کی خداداد صلاحیتوں وخدمات کو اپنی ریاست کے لیے چن لیا تھا۔ لیکن جب محمد علی جناح صاحب نے چودھری صاحبؓ کو نوزائیدہ مملکت پاکستان کی خدمت کے لیے بلایا تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خدمت پاکستان کے لیے حاضر ہوگئے۔ یہاں ضروری معلوم ہوا کہ چودھری صاحب کی پاکستان اور عالم اسلام کے لیے ان خدمات پربھی ایک نظر ڈال لی جائے، جس کو پاکستان کی موجودہ صوبائی کم ظرف و متعصب انتظامیہ نے مخالف قیام پاکستان ملاؤں کی آشیرباد کے عین مطابق ایک ذمہ دار انتظامیہ پر عائد شدہ ذمہ داریوں کو قطعی پس پشت ڈالتے ہوئے، بانیٔ پاکستان کے ایک معتمد و جاںنثار ساتھی کی تعمیر کردہ مسجد کو شہید کرنے کا نہایت ظالمانہ، قابل مذمت و انتہائی گھناؤنا کردار ادا کیا۔ جب پاکستان میں ۲۳؍مارچ کو قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان کی یاد منائی جاتی ہے، تویاد رہے کہ اس قرارداد کا اولین مسودہ، حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خانؓ کے خدا تعالیٰ کے عطا کردی عالی دماغ و قلم کا ہی مرہون منت ہے۔ انگریزی اخبار ’’ڈیلی ٹائمز‘‘ میں ایک مضمون چنانچہ اس حقیقت کو پاکستان کا ایک انگریزی اخبار ’’ڈیلی ٹائمز‘‘، اپنی ۲۲؍دسمبر۲۰۱۲ء کی اشاعت میں اسلام آباد کی معروف یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے لیکچرار جناب حسین احمد کے تحریر کردہ مضمون میں یوں منکشف کرتا ہے:’’یہ سرظفراللہ خان ہی تھے جنہوں نے قرارداد لاہور کا بھی مسودہ تیار کیا تھا۔ جس میں پہلی دفعہ پاکستان کا تصور پیش کیا گیا تھا۔سرظفراللہ خان کا تعلق بہرحال احمدیہ کمیونٹی سے تھا۔ اس لئےاس سلسلہ میں ان کے کردارکوسالہا سال تک صیغہ رازمیں رکھا گیا۔ یہاں تک کہ حال ہی میں وائسرائے ہند لارڈ لننتھگو کی تحریرکردہ دستاویزات اورخطوط نے سرظفراللہ خان کے کردارکی مرکزی حیثیت کومنکشف کردیا ہے۔‘‘ مؤرخ پاکستان عاشق حسین بٹالوی کے تأثرات محمد علی جناح صاحب کے رفیق، مؤرخ پاکستان جناب عاشق حسین بٹالوی لکھتے ہیں : ’’یہ احساس مجھے ابتک پریشان کر رہا ہے کہ ہم نے سات سالوں (۱۹۴۰ء تا ۱۹۴۷ء) میں تقسیم ہند کا کوئی نقشہ، کوئی فارمولا، کوئی بلیو پرنٹ تیار نہ کیا۔ سات سال مسلسل نعروں، تقریروں اوربیان بازیوں میں صرف کردیئے۔ بالآخر جب قرارداد لاہور کوعملی جامہ پہنانے کا وقت آیا توچودھری ظفراللہ خان کوصرف تین دن کی مدت دی گئی کہ اس قلیل عرصہ میں تن تنہا بیٹھ کر(مسلم لیگ کا ) کیس بھی تیارکریں اور گذشتہ ایک سوسال کا تاریخی مواد بھی مہیا کریں۔‘‘( ہماری قومی جدجہد۔صفحہ ۱۳۴) محترم چودھری صاحبؓ کی خدمات جلیلہ صرف مسودہ قرار داد اورحد بندی کمیشن کے سامنے پاکستان کا کیس پیش کرنے تک ہی محدود نہیں۔بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے ان کی خدمات کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ان کے اپنے وطن پاکستان کے لیے ہی ان کی خدمات کا تذکرہ و دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ بزبان غالب ؎ اک سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے اگر صرف کشمیر کے مسئلہ کو ہی لے لیا جائے، جو دونوں ممالک میں ابتدا سے ہی وجۂ تنازعہ بنا ہوا ہے۔تو اس ایک مسئلہ پر ہی محترم چودھری صاحبؓ کا کردار نہ صرف ناقابل فراموش ہے بلکہ اسے بیان کرنے کے لیے بھی ضخیم کتب درکار ہیں۔ خضر وزارت کے استعفیٰ کی کامیاب مساعی برطانوی حکومت تمام اختیارات ہندوستان کوسپرد کرنے کا اعلان کرچکی تھی۔مگر چونکہ برطانوی وزیراعظم ایٹلیکی حکومت کے اعلان اور وزارتی مشن کے فارمولا کے مطابق انتقال اقتدار ابتداءً صوبوں کو ہونے والا تھا اور صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت کی بجائے یونینسٹ وزارت قائم تھی۔جس کے وزیراعظم ( اس وقت صوبوں کا وزیراعلیٰ وزیراعظم ہی کہلاتا تھا) کی موجودگی میں پنجاب کے پاکستان میں شامل ہونے کا امکان قطعی طور پر مخدوش تھا ۔ اس وقت پنجاب کے وزیراعظم سردار خضر حیات ٹوانہ تھے۔ حدّ یہ ہے کہ قائداعظمؒ کے مشورے پر پنجاب کے مسلم لیگی اکابر نے انتہائی کوشش کی کہ سردار خضرحیات کو اپنے منصب سے مستعفی ہوجانے پر آمادہ کر لیں۔لیکن ان کی مساعی کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا۔ اس انتہائی نازک اور پریشان کُن موقع پر چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ بنفس نفیس لاہور آئے اور اپنی فراست اور دلائل کی معقولیت سے سردار خضرحیات کومستعفی ہوجانے پر آمادہ کر لیا۔چنانچہ صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت بننے کی راہ کھل گئی اورقائداعظم نے اس غیرمعمولی واقعہ پر بےپناہ مسرت و اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کیا۔ اخبار ’ٹریبون‘ نے ۵؍مارچ ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں لکھا: ’’معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ خضرحیات خاں نے یہ فیصلہ سرظفراللہ خان کے مشورہ اور ہدایت کے مطابق کیا ہے۔ ‘‘ مسلمانوں کے قدیمی ہفت روزہ ’پیسہ اخبار‘ لاہور نے اپنی ۱۰؍مارچ ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں، نیز ’ٹرانسفرآف پاور‘ مارچ ۱۹۴۷ءمیں واضح طور پر درج ہے کہ وزیراعظم پنجاب جناب خضرحیات نے استعفیٰ سے پہلے چودھری محمد ظفراللہ خان سے مشورہ کیا اور پھر مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ ہندو اخبار ’ملاپ‘ مؤرخہ ۲۰؍فروری ۱۹۴۷ءکی اشاعت میں لکھتا ہے:’’یہ ایک واضح بات ہے کہ چودھری ظفراللہ خان صاحب نے خضرحیات کو مجبور کرکے اس سے استعفاء دلایا۔ خضر حیات خان کا استعفاء مسلم لیگ کی وزارت بننے کا پیش خیمہ تھا۔اگرخضروزارت نہ ٹوٹتی تو آج پنجاب کی یہ حالت نہ ہوتی۔ ‘‘ پس یہ وہ ناقابل تردید حقائق ہیں(یعنی پنجاب کے پاکستان میں شامل ہونے کے ) جس کو کوئی بھی غیرجانبدار مؤرخ نظر انداز کر ہی نہیں سکتا۔لیکن آج حقیقت احوال یہ ہے کہ ایک تو ویسے ہی قحط الرجال ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ خودساختہ اکابر دین ،خدائی فوجداروں اور سیاسی بزرجمہروں کی پاکستان میں بن آئی ہوئی ہے۔بقول شاعر ہوئی ہے شعلہ نوائی وہ برسر منبرمحبتیں جو کبھی تھیں، رہیں نہیں باقی اب ہم آجاتے ہیں سفارتکاری کے محاذ کی طرف۔ دراصل جب بھی کوئی سفارت کار کسی اہم مسئلہ پر سفارتی جنگ لڑتا ہے تو اس کی کارکردگی کا اسی طرح جائزہ لیا جاتا ہے، جس طرح میدان جنگ میں کسی جرنیل کی کارکردگی کو پرکھ کر اس کی صلاحیتوں کے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں یہاں تین امور کا جائزہ لینا مطلوب ہے۔ پہلا حضرت چودھری صاحب ؓکے ساتھیوں کی رائے۔ دوسرا مخالفین پاکستان کی رائے۔ اور تیسرا غیرجانبدار مؤرخین کی رائے۔ چنانچہ اس ضمن میں چودھری صاحب کے ساتھیوں کی آپ کے بارے میں کیا رائے تھی ؟ پہلے وہ بیان کی جاتی ہے۔ سابقہ صدرآزاد کشمیر و سلامتی کونسل میں پاکستانی وفد کے رکن سردارمحمد ابراہیم خان کے تاثرات سلامتی کونسل میں پاکستان کے وفد میں آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار محمد ابراہیم خان صاحب بھی شامل تھے۔ وہ لکھتے ہیں :’’ سلامتی کونسل کے اجلاس میں ناکامی کے بعد بھارتی مندوب سرگوپال سوامی آئنگر اور شیخ عبداللہ کے درمیان آپس میں سخت کلامی بھی ہوتی رہی۔ کیونکہ شیخ عبداللہ صاحب سر آئنکر پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ پاکستان کے مندوب اور وزیرخارجہ چودھری ظفراللہ کا مقابلہ کرنیکی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔… چنانچہ بھارت کے دونوں نمائندے اسی طرح ایک دوسرے سے الجھتے ہوئے نیویارک سے نئی دہلی روانہ ہوگئے۔‘‘ ( کشمیر کی جنگ آزادی ۔مصنفہ سردارمحمد ابراہیم خان۔ناشر کلاسیک لاہور۔ مارچ ۱۹۶۶ء صفحہ ۱۹۶) پاکستان کے سابق وزیر خزانہ و وزیراعظم چودھری محمد علی کی رائے اس وقت کے پاکستان کے وفد کے ایک اَور رکن چودھری محمد علی صاحب ( جو بعد میں پاکستان کے وزیرخزانہ اور پھر وزیراعظم بھی بنے ) اپنی انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب میں رقمطراز ہیں : ترجمہ: ظفراللہ خان کے ماہرانہ تجزیے نے سلامتی کونسل میں اس بات کو منوا لیا کہ مسئلہ صرف نام نہاد حملہ آوروں کو کشمیر سے نکالنے کا نہیں تھا۔ (Ali, C.M۔(1965)۔The Emergence of Pakistan.Lahore, Pakistan: Research Society of Pakistan Page:301) یہی چودھری محمد علی اپنی ایک دوسری کتاب ’’ظہور پاکستان ‘‘کے صفحہ ۴۴۵ پر تحریر کرتے ہیں:’’عالم اسلام کی آزادی، استحکام، خوشحالی اور اتحاد کے لیے کوشاں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک مستقل مقصد ہے۔ حکومت پاکستان کا ایک اولین اقدام یہ تھا کہ شرق الاوسط کے ملکوں میں ایک خیرسگالی وفد بھیجا گیا۔ پاکستان نے فلسطین میں عربوں کے حقوق کو اپنا مسئلہ سمجھا اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے وزیرخارجہ ظفراللہ خان اس کے فصیح ترجمان تھے۔ علاوہ ازیں انڈونیشیا، ملایا، سوڈان، لیبیا، تیونس، مراکش، نائیجیریا اور الجزائر کی آزادی کی مکمل حمایت کی گئی۔‘‘ واضح رہے کہ چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے مذکورہ ممالک کی آزادی کی خاطر اپنی خداداد صلاحیتیں صرف کرکے ان ممالک کو آزادی جیسی نعمت سے ہمکنار کروایا۔ چنانچہ ان ممالک نے چودھری صاحب کو اپنے قومی اعزازات سے بھی نوازا۔ آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد یوسف صراف کے تاثرات آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد یوسف صراف صاحب اپنی انگریزی خودنوشت Kashmiri Fight For Freedom میں لکھتے ہیں: ترجمہ : سر ظفراللہ کی قیادت میں پاکستان کے وفد نے جو شاندار کردار ادا کیا، اس کا جائزہ لینا چاہیے۔ سر ظفراللہ نے جس شاندار طریق پر ہمارے مقدمہ کی تفصیلات پیش کیں، اس نے دھوکا دینے والی اور میکاولین انداز کی شکایت کو اس کے صحیح مقام یعنی ملزم کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیا۔ اس نے انہیں پاکستان کی تاریخ میں ایک قابل فخر مقام دلا دیا۔ اور کشمیری، نسل درنسل احساس تشکر کے ساتھ ان کو یاد رکھیں گے… سر ظفراللہ نے کشمیرکاز کو بڑے شاندار طریقے سے پیش کیا۔ انہوں نے سیکیورٹی کونسل میں پانچ گھنٹے تقریر کرکے ایک ریکارڈ قائم کر دیا … کشمیریوں کی حالت زار کا جو نقشہ سر ظفراللہ خان نے کھینچا، اس سے ان کی اپنی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اور بہت سے نمائندوں کی آنکھوں سے بھی آنسو بہتے دیکھے گئے … سر ظفراللہ نے کشمیر کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا کہ کس طرح کشمیر کو مہاراجہ گلاب سنگھ نے ایک معمولی رقم کے عوض ایسٹ انڈیا کمپنی سے خرید لیا تھا … ہندوستان بظاہر اعلیٰ اخلاق کے لبادے میں یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ اس کا جواب چودھری ظفراللہ خان صاحب نے اس ضرب المثل سے دیا کہ ’’ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، کھانے کے اور‘‘ اس ذکر پر پنڈت نہرو اتنا سٹپٹائے کہ وہ غیراخلاقی زبان استعمال کرنے پر اتر آئے۔ ( کشمیریز فائٹ فار فریڈم صفحہ ۱۰۴۹ ) پاکستانی سفیر برائے امریکہ و قائد اعظم کے دیرینہ ساتھی حسن اصفہانی کا ایک خط قائد اعظم کے نام پاکستانی سفیر برائے امریکہ مسٹر حسن اصفہانی کا ایک خط ان کی کتاب میں بتاریخ ۷؍فروری ۱۹۴۸ء، کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ کی بابت بھی شائع شدہ موجود ہے۔ اس میں مسٹر اصفہانی، قائد اعظم کے نام لکھے گئے خط میں لکھتے ہیں : ترجمہ :’’ظفراللہ خان نے شیخ عبداللہ ( کےموقف) کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں … !‘‘ کشمیری لیڈر شیخ محمد عبداللہ چنانچہ یہی کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ صاحب جو کہ UNO میں بھارتی وفد کے ایک اہم ممبر تھے۔ وہ اپنی کتاب ’’ آتش چنار ‘‘میں لکھتے ہیں : ’’سر ظفراللہ ایک ہوشیار برسٹر تھے۔ انہوں نے بڑی ذہانت اور چالاکی کا مظاہرہ کرکے ہماری محدود سی شکایت کو ایک وسیع مسئلے کا رُوپ دے دیا۔ اور ہندوستان و پاکستان کی تقسیم کے سارے پرآشوب پس منظر کو اس کے ساتھ جوڑ دیا۔ ہندوستان پر لازم تھا کہ وہ اپنی شکایات کا دائرہ کشمیر تک ہی محدود رکھتا۔ لیکن وہ سر ظفراللہ کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر رہ گیا۔… ہم چلے تو تھے مستغیث بن کر، لیکن ایک ملزم کی حیثیت سے کھڑے کر دئیے گئے۔‘‘(’’آتش چنار‘‘۔مصنفہ شیخ محمدعبداللہ۔ پبلشرعلی محمد اینڈ سنز، سری نگر کشمیر۔ایڈیشن اول : ۱۹۸۶ءصفحہ : ۴۷۳) کشمیرسےتعلق رکھنے والے ایک بھارتی رکن اسمبلی کی رائے پروفیسر بال راج مادھوک جو کہ دو مرتبہ بھارتی پارلیمنٹ کے رکن رہےاور ان کا تعلق بھی کشمیر سے تھا، انگریزی میں لکھتے ہیں : (ترجمہ ) پھر اس میں کیا تعجب ہے کہ انہوں نے ( یعنی شیخ عبداللہ صاحب نے ) مختلف مواقع پر جو بیانات دیے تھے اور تقاریر کی تھیں۔ اور پنڈت نہرو کے بیانات اور تقاریر نے ظفراللہ کے ہاتھ میں وہ چھڑی پکڑا دی تھی، جس سے وہ ہندوستان کی پٹائی کرتے رہے۔ (Kashmir the Storm Center of the world.By Bal Raj Madhok, page:53) ایک امریکی مؤرخ کا اظہار خیال اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ غیرجانبدار مؤرخین کی کشمیر کے معاملہ میں کیا رائے ہے ؟ امریکی مؤرخ پروفیسر سٹینلے وولپیرٹ (Stanley Wolpert) جوکہ برصغیر کی تاریخ پر ایک سند رکھتے ہیں۔ نیز بہت سی کتب کے مصنف تھے۔ جناح صاحب کی سوانح حیات میں لکھتے ہیں : (ترجمہ) جناح کی صحت اس قابل نہیں تھی کہ پاکستان اور بھارت کے معاملہ میں بحث کے لیے نیویارک کا سفر کرسکیں۔ لیکن پاکستان کے وزیر خارجہ نے پاکستان کے وکیل کی حیثیت سے بڑی ذہانت کا مظاہرہ کیا۔ سلیس اور فصیح انداز میں ہندوستان کےالزامات کو رد کرتے رہے۔ (Wolpert S.(2000) Jinnah of Pakistan Karachi. Oxford University Press P: 357) ایک برطانوی مصنف کے تاثرات مسٹرایچ ڈی ہڈسن اپنی کتاب The Great Divide میں لکھتے ہیں : (ترجمہ) جس طرح ہندوستان کی اپیل کو سلامتی کونسل میں سنا گیا، اس سے ہندوستان کی حکومت کو سخت مایوسی ہوئی۔ ان کی بچگانہ سوچ تھی کہ سلامتی کونسل فوراً بغیر کسی جھجک کے ہندوستان کی حمایت کرتے ہوئے، اس کو جارحیت کا نشانہ قرار دے گی۔ لیکن اس کے نمائندے، پاکستان کے سرمحمد ظفراللہ خان کے مقابلے کی بالکل صلاحیت نہیں رکھتے تھے … پنڈت نہرو نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے کہا کہ ہمیں اس مسئلہ کو اقوام متحدہ میں لے جانے پر سخت افسوس ہو رہا ہے۔( آکسفورڈ یونیورسٹی پریس۔ آکسفورڈ۔ نیویارک ) (Hodson H.V.1969۔The great Divide.London, UK, Hutchinson & Co) قدیم برطانوی اخبار لندن ٹائمز کا اداریہ سیکیورٹی کونسل میں بحث نے جو رخ اختیار کیا، اس سے ہندوستان کے تخیل اور فکر کو سخت دھچکہ لگا۔ ہندوستان اپنے کیس کو اس درجہ مضبوط خیال کرتا تھا کہ گویا وہ ہر قسم کی تردید سے بالا تر ہے۔ اور اسے یقین تھا کہ اقوام متحدہ فوری طور پر پاکستان کو سرزنش کرے گی۔ اور کشمیر کےمعاملے کو سلجھانےمیں ہندوستان کو آزاد چھوڑ دے گی لیکن چودھری ظفراللہ خان نے کمال قابلیت سے پاکستان کی طرف سے اس طرح صفائی پیش کی کہ کونسل کے اکثر ممبران پر واضح ہو گیا کہ ہندوستان کی طرف سے معاملات کو مکمل صورت میں پیش نہیں کیا گیا۔ پاکستان کے وزیرخارجہ نے اپنے نکتہ نظر کی وضاحت اس درجہ موثر انداز میں کی کہ سیکیورٹی کونسل ان کے استدلال سے مرعوب ہو گئی۔ ( اخبار لندن ٹائمز مؤرخہ۱۴؍جولائی ۱۹۴۸ء ) آخر میں یہ کہنا ہے کہ تحریک پاکستان کے اس جیدو بےلوث راہنما اور محمد علی جناح صاحب کے مخلص ساتھی حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی طرف سے تعمیر شدہ خانہ خدا کو جس طریق سے خدا اور آخرت کے خوف سے قطعاً عاری ہوکر زمیں بوس کیا گیا ہے، اس پر پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس ایم آر کیانی مرحوم کی ایک تحریر بے اختیار یاد آتی ہے۔ جناب محمد رستم کیانی اپنی ’’خود نوشت ‘‘میں لکھتے ہیں: مجھے نہایت ہی ذمہ دار شخص نے بتایا کہ ۱۹۴۷ء میں جب انگریز یہاں سےرخصت ہوئے تو وہ پاکستان کی ۲ نہایت قیمتی چیزیں ’’کنفیڈنشل باکس ‘‘ ( Confidential Box) میں بند کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ اور ہمیں اس سے بہت نقصان پہنچا ہے۔ یہ بات سن کر مجھے پریشانی لاحق ہوئی اور میں نے رازدارانہ انداز میں اس ذمہ دار شخص سے پوچھا : ’’تمہیں معلوم ہے وہ کیا چیزیں تھیں !؟ ‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ میرا شوق تجسس اور بڑھ گیا۔ میں اس کے اور قریب آ گیا۔ اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے راز بتا دینے کی استدعا کی۔ اس نے کہا: ’’انگریز، خدا اور آخرت کا خوف اور قانون کا احترام اپنے ساتھ لے گیا۔‘‘ یہ سن کر میں نے اپنے دل کو ٹٹولا، وہ ان دونوں چیزوں سے خالی تھا … !! ( افکار پریشاں ۔جسٹس ایم آر کیانی ) جسٹس کیانی کے مندرجہ بالا فکرانگیز الفاظ پڑھ کر معروف شاعر احسان دانش مرحوم کے یہ اشعار، بےاختیار ذہن کے دریچوں سے ٹکراتے محسوس ہونے لگے۔ یہ ڈھلتی رات، یہ سونی منڈیریں، مضمل تارےمجھےاس وقت کی گونگی فضا کچھ اورکہتی ہےتعصب نے یہاں کھینچی ہیں انسانوں میں دیواریںابھی اس ملک کی آب و ہوا کچھ اور کہتی ہے ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: زمانہ چال قیامت کی چل گیا