(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۲؍اپریل۲۰۲۴ء) روایت میں آتا ہے حضرت سعد بن معاذؓ کی والدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار تھے اور حضرت سعد بن معاذؓ گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے تھے۔ حضرت سعدؓ نے ان کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری والدہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو خوش آمدید کہو۔ آپؐ نے ان کی وجہ سے اپنا گھوڑا روک لیا یہاں تک کہ وہ قریب آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے لگیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بیٹے حضرت عمرو بن معاذ ؓکی شہادت پر تعزیت فرمائی تو انہوں نے کہاجب مَیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح سلامت دیکھ لیا تو بس اب میری مصیبت اور غم ختم ہو گیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ سعد سے فرمایا اے اُمّ سعد !تمہیں خوشخبری ہو اور سب شہیدوں کے گھر والوں کو بھی خوشخبری دے دو کہ ان سب کے مقتولین جنت میں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور سب نے اپنے اپنے گھر والوں کے لیے حق تعالیٰ سے شفاعت اور سفارش کی ہے۔یعنی یہ جوشہداءتھے انہوں نے اپنے گھر والوں کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور سفارش کی ہے۔ حضرت اُمّ سعدؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم سب راضی برضا اور خوش ہیں اور اس خوشخبری کے بعد بھلا ان پر کون رو سکتا ہے۔ کیا مقام ہے ان کے ایمان اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونے کا۔ پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! سب شہیدوں کے پسماندگان کے لیے دعا کریں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب شہدائےاُحد کے گھر والوں کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا۔اَللّٰهُمَّ أَذْهِبْ حُزْنَ قُلُوْبِھِمْ وَاجْبُرْ مُصِيْبَتَهُمْ، وَأَحْسِنِ الْخَلَفَ عَلٰى مَنْ خُلِّفُوْا۔اے اللہ! ان کے دلوں سے غم و الم کو مٹا دے۔ ان کی مصیبتوں کو دُور فرما دے اور شہیدوں کے جو جانشین ہیں انہیں ان کا بہترین جانشین بنادے۔(سیرت الحلبیہ جلد2 صفحہ345 دارالکتب العلمیۃ بیروت) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل مدینہ کی فدائیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے میدان سے واپس تشریف لائے تو مدینہ کی عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کے لئے نکل آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ ایک پرانے اور بہادر انصاری صحابی سعدبن معاذؓ نے پکڑی ہوئی تھی اور وہ فخر سے آگے آگے چلے آرہے تھے۔ شہر کے پاس انہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہوچکی تھی آتی ہوئی ملی۔ اُحد میں اس کا ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔اس بڑھیا کی آنکھوں میں موتیا بند اتررہا تھا اور اس کی نظر کمزور ہو چکی تھی۔ وہ عورتوں کے آگے کھڑی ہوگئی اور اِدھر ادھر دیکھنے لگی اور معلوم کرنے لگی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ سعدبن معاذؓ نے سمجھا کہ میری ماں کو اپنے بیٹے کے شہید ہونے کی خبر ملے گی تو اسے صدمہ ہو گا۔ اس لئے انہوں نے چاہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے حوصلہ دلائیں او رتسلی دیں۔ اس لئے جونہی ان کی نظر اپنی والدہ پر پڑی انہوں نے کہا، یا رسو ل اللہؐ! میری ماں! یارسول اللہؐ! میری ماں!’’ یعنی دو دفعہ بتایا کہ میری ماں آ رہی ہے۔ ‘‘آپؐ نے فرمایا۔’’ وہاں رک کے، ‘‘بی بی! بڑا افسوس ہے کہ تیرا ایک لڑکا اس جنگ میں شہید ہوگیا ہے۔ بڑھیا کی نظر کمزور تھی اس لئے وہ آپؐ کے چہرہ کو نہ دیکھ سکی۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتی رہی۔ آخر کار اس کی نظر آپؐ کے چہرہ پر ٹِک گئی۔ وہ آپؐ کے قریب آئی اور کہنے لگی یارسول اللہؐ! جب مَیں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا ہے تو آپ سمجھیں کہ مَیں نے مصیبت کو بھون کر کھالیا۔ اب دیکھو! وہ عورت جس کے بڑھاپے میں عصائے پیری ٹوٹ گیا تھا۔ کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو میں اس غم کو بھون کر کھا جاؤں گی۔ میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہوگی بلکہ یہ خیال کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور آپؐ کی حفاظت کے سلسلہ میں میرے بیٹے نے اپنی جان دی ہے میری قوت کو بڑھانے کا موجب ہوگا۔‘‘(قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین،انوار العلوم جلد 25صفحہ 441) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی طرح کا ایک اَور واقعہ بیان کرتے ہوئے احمدی عورتوں سے پوچھا کہ کیا تمہارے اندر دین کا وہی جذبہ موجزن ہے؟ پھر یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد احمدی خواتین کو مخاطب کر کے فریضۂ تبلیغ پر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یہی وہ عورتیں تھیں جو اسلام کی اشاعت اور تبلیغ میں مردوں کے دوش بہ دوش چلتی تھیں اور یہی وہ عورتیں تھیں جن کی قربانیوں پر اسلامی دنیا فخر کرتی ہے۔ تمہارا بھی دعویٰ ہے یعنی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والی عورتیں ہیں یہ تمہارا بھی دعویٰ ہے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام پر ایمان لائی ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز ہیں گویا دوسرے لفظوں میں تم صحابیات کی بروز ہو لیکن تم صحیح طور پر بتاؤ کہ کیا تمہارے اندر دین کا وہی جذبہ موجزن ہے جو صحابیات میں تھا؟ کیا تمہارے اندر وہی نور موجود ہے جو صحابیات میں تھا۔ کیا تمہاری اولادیں ویسی ہی نیک ہیں جیسی صحابیات کی تھیں؟ اگر تم غور کرو گی تو تم اپنے آپ کو صحابیات سے بہت پیچھے پاؤ گی۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ ان کی قربانیاں جو انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر کیں اللہ تعالیٰ کو ایسی پیاری لگیں کہ اللہ تعالیٰ نے بہت جلد ان کو کامیابی عطاکی اور دوسری قومیں جس کام کو صدیوں میں نہ کر سکیں ان کو صحابہ اور صحابیات نے چند سالوں کے اندر کر کے دکھایا۔(ماخوذ از فریضۂ تبلیغ اور احمدی خواتین، انوارالعلوم جلد18صفحہ 400-401) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مسیح ومہدیؑ کی بعثت کایہی زمانہ تھا