اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ(گذشتہ سے پیوستہ) سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت کے حوالے سے حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی ایک تقریر (برموقع جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۷۹ء) رسالہ ’’انصارالدین‘‘ مئی وجون ۲۰۱۴ء میں شاملِ اشاعت ہے۔ ذاتی مشاہدات پر مبنی اس تاریخی خطاب کے خلاصہ کا دوسرا اور آخری حصہ ہدیۂ قارئین ہے۔ کچھ تذکرہ ان نوازشات اور احسانات کا کرتا ہوں جو آپؓ کی طرف سے اس عاجز پر بطور مرحمت خسروانہ ہوئے۔ اس عاجز کو حضرت مسیح موعودؑ کی پہلی زیارت کا شرف ۳؍ستمبر ۱۹۰۴ء کو لاہور میں حاصل ہوا۔ میری عمر اس وقت ساڑھے گیارہ سال تھی۔ اجلاس میں حضورؑ کا ایک مضمون پڑھا جارہا تھا لیکن اس دوران تمام وقت یہ عاجز حضور اقدسؑ کے مبارک چہرے پر ٹکٹکی باندھے رہا اور حضورؑ کی صداقت ہر لحظہ میرے دل میں محکم سے محکم تر ہوتی گئی۔ اس کے قریب ۸ ہفتے بعد ۲۷؍اکتوبر کی شام کو حضور علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لائے۔ دوسرے روز میری والدہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئیں اور بیعت سے مشرف ہوئیں۔ خاکسار بھی اُن کے ہمراہ تھا۔ میرے والد صاحب اس وقت تک حضورؑ کی صداقت کے قائل ہوچکے تھے لیکن ابھی بیعت نہیں کرپائے تھے۔ ان کے دوست چودھری محمدامین صاحب بھی سلسلہ کے متعلق حسن ظن رکھتے تھے لیکن بیعت کرنے میں انہیں کچھ تردد تھا۔ حضور علیہ السلام کے ساتھ جو اصحاب تشریف لائے تھے اُن میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ بھی شامل تھے۔ میرے والد اور چودھری محمد امین صاحب کے اطمینان کے لیے حضرت مولوی صاحبؓ کے ساتھ مغرب کے بعد دونوں کی ملاقات کا سلسلہ تین چار دن جاری رہا۔ خاکسار بھی اس مجلس میں حاضر ہوتا رہا جس کا ایک عظیم فائدہ یہ ہوا کہ حضرت مولوی صاحبؓ خاکسار کو پہچاننے لگ گئے۔ والد صاحب نے ان ملاقاتوں کے سلسلے کے اختتام پر دوسری صبح ہی نماز فجر کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔ لیکن چودھری صاحب اس سعادت سے محروم رہے۔ بیعت کرنے کے بعد والد صاحب کا دستور تھا کہ دسمبر کے آخر اور ماہ ستمبر کے آغاز کی عدالتی تعطیلات کے دوران قادیان حاضر ہوتے اور خاکسار کو بھی ساتھ لے جاتے۔ ان ایام میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی مجلس میں حاضری کا شرف حاصل ہوتا۔ آپؓ کا ایک عظیم الشان احسان اس ذرّۂ ناچیز پر یہ ہوا کہ جولائی ۱۹۰۷ء میں والد صاحب کو آپؓ کا ارشاد پہنچا کہ آپ اپنے بچے کی بیعت کرادیں۔ اگرچہ یہ خاکسار ۳؍ستمبر ۱۹۰۴ء سے ہی اپنے تئیں جماعت میں شمار کرتا تھا اور اپنے والدین کی بیعت میں خود کو شامل سمجھتا تھا لیکن حضرت مولوی صاحبؓ کے اس ارشاد کے بعد ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء کو بدوں اپنے والد صاحب کی تحریک کے خاکسار نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت اقدس میں بیعت کی اجازت کی درخواست کی اور حضورؑ کے اذن سے دست مبارک پر شرفِ بیعت سے مشرف ہوا۔ اگر حضرت مولوی صاحبؓ یہ ارشاد نہ فرماتے تو یہ عاجز اس سعادت عظمیٰ سے محروم رہتا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے وقت خاکسار گورنمنٹ کالج لاہور میں زیرتعلیم تھا۔ خاکسار حضوؑر کے جسد اطہر کے جلو میں قادیان حاضر ہوا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی بیعت سے مشرف ہوا۔ اس کے بعد قادیان میں حاضری کے مواقع میسر آنے پر زیادہ تر وقت حضورؓ کی مجلس میں گزارتا اور حضور کی طرف سے پیہم شفقت کا مورد ہوتا۔ اپریل ۱۹۱۱ء میں بی اے کے امتحان سے فارغ ہوکر خاکسار نے چند دن سیالکوٹ میں والدین کی خدمت میں گزارے اور پھر قادیان حاضر ہوگیا۔ جہاں چند ہفتے حضرت خلیفۃالمسیح ؓکی مجلس میں حاضر رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ابھی آپ نشست کے کمرے ہی میں دن بسر فرماتے تھے۔ کنپٹی کے ناسور پر روز پٹی ہوتی تھی۔ پٹی کے بعد شاگردوں میں سے کوئی کچھ دیر کے لیے آپ کا بدن دباتے تھے۔ خاکسار کی حاضری کے پہلے دن جب ظہر کی نماز پر آپ نے حاضرین کو یہ ارشاد فرمایا کہ جاؤ نماز ادا کرو تو خاکسار بھی تعمیلِ ارشاد کے لیے کھڑا ہو گیا۔ جس پر آپؓ نے فرمایا میاں تم یہیں ہمارے ساتھ نماز پڑھا کرو۔ نماز کے لیے آپ پلنگ کے ساتھ قبلہ رو ہوکر بیٹھ جاتے۔ خاکسار آپؓ کے دائیں جانب ذرا وقفہ چھوڑ کر کھڑا ہو جاتا۔ آپؓ کمال شفقت سے خاکسار کو دائیں جانب سے اپنے قریب کرلیتے۔ تین چار شاگرد بھی خاکسار کی دائیں جانب کھڑے ہو جاتے۔ شیخ تیمور صاحب نماز پڑھاتے۔ ایک دن عصر کی نماز کے وقت اتفاقاً شیخ تیمور صاحب موجود نہیںتھے۔ آپ نے خاکسار کو فرمایا میاں تم نے قرآن پڑھا ہے، تم نماز پڑھاؤ۔ تعمیل ارشاد کے بغیر چارہ نہ تھا۔ ایک دن ڈاکٹر صاحبان پٹی کرکے رخصت ہوگئے۔ کوئی شاگرد موجود نہیں تھا۔ خاکسار اکیلا ہی حاضر تھا۔ خاکسار کو بدن دبانے کی مشق نہیں تھی لیکن جرأت کرکے خاکسار پلنگ پر آپؓ کی پیٹھ کی طرف بیٹھ گیا اور ڈرتے ڈرتے اناڑی ہاتھوں سے آپؓ کے دائیں بازو کو دبانا شروع کیا۔ چند لمحوں کے بعد جب خاکسار نے اندازہ کیا کہ اب سو گئے ہوں گے تو خاکسار نے دبانا بند کردیا۔ آپؓ نے دایاں بازو اٹھا کر خاکسار کی گردن کے گرد ڈال کر خاکسار کے چہرے کو اپنے مبارک چہرے کے قریب کرلیا اور فرمایا میاں! ہم نے آپ کے لیے بہت بہت دعائیں کی ہیں۔ عصر کے بعد آپ نشست کے کمرے سے باہر صحن میں تشریف فرما ہوتے۔ وہاں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا۔ ایک دن خاکسار سے فرمایا: میاں! یہ کھیل کود کا وقت ہے تمہارا دل باہر جا کر کھیلنے کو نہیں چاہتا؟ خاکسار نے عرض کیا: حضور! مَیں جہاں ہوں وہیں خوش ہوں۔ خاکسار کو والد صاحب کا خط ملا کہ اب تمہارا نتیجہ نکلنے والا ہے۔ تم امید رکھتے ہو کہ تم بفضل اللہ پاس ہو جاؤگے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے تم انگلستان جاؤ۔ اس لیے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں اجازت کے لیے عرض کرو۔ خاکسار نے ایک عریضے میں چند معروضات درج کرکے حضور کی خدمت میں عریضہ پیش کردیا۔ آپ بہت مختصر گو اور مختصر نویس تھے۔ عریضہ کے ایک حاشیہ پر گزارش کے متعلق اپنا ارشاد درج فرما کر واپس کردیا۔ انگلستان جانے کے متعلق تحریر فرمایا: استخارہ کریں۔ آپ بھی اور آپ کے والد صاحب بھی، اطمینان ہو تو جائیے۔ چند دن بعد شیخ مبارک اسمٰعیل صاحب کا کارڈ لاہور سے لکھا ہوا مجھے ملا کہ تم اول درجہ میں پاس ہوگئے ہو۔ خاکسار نے کارڈ حضورؓ کی خدمت میں پیش کردیا۔ بہت خوش ہوئے۔ ہر آنے والے سے فرماتے کہ ہم آج بہت خوش ہیں، یہ پاس ہوگئے، تعجب ہے کہ انہیں پہلے سے ہی معلوم تھا۔ چند دن بعد خاکسار انگلستان کے سفر کی تیاری کے لیے سیالکوٹ چلا گیا اور پھر والد صاحب اور ماموں کے ساتھ حضورؓ کی خدمت اقدس میں رخصت کے لیے حاضر ہوا۔ آپؓ نے بڑی شفقت سے چند دعائیں اور ہدایات فرمائیں اور فرمایا: ہمیں خط لکھتے رہنا۔ خاکسار کے انگلستان سے ارسال کردہ ہر عریضہ کا جواب دست مبارک سے تحریر فرماتے اور چھوٹی سے چھوٹی بات میں دلچسپی کا اظہار فرماتے، مشورہ دیتے اور مشفقانہ دعائیں اور القاب ظفراللہ باشی ارشد و ارجمند باشی سے نوازتے۔ خاکسار کی انگلستان سے واپسی آپؓ کے وصال کے چند ماہ بعد ہوئی۔ صاحبزادہ عبدالحیٔ صاحب نے بتایا کہ تمہارا خط ملنے کے بعد جمعہ کی تیاری کے دوران فرماتے: اس کا خط دے دو۔ ہم جیب میں رکھیں گے اور اس کے لیے دعائیں کریں گے۔ شروع ۱۹۱۴ء میں آپؓ کی صحت کمزور ہونا شروع ہوئی اور کمزوری بتدریج بڑھتی چلی گئی۔ وسط فروری میں سِل کی صورت پیدا ہوگئی۔ ۱۴؍فروری کو لاہور سے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کو بلوایا گیا۔ انہوں نے دیر تک معائنہ کرنے کے بعد آپ کے ڈاکٹروں کی رائے کے ساتھ اتفاق کیا اور وہی نسخہ تجویز کیا جو زیر استعمال تھا اور مقوّی غذا بتائی۔ جب وہ چلے گئے تو آپؓ نے فرمایا: اس ڈاکٹر نے میرے پر یونہی وقت صرف کیا۔ ورنہ مجھے جو مرض ہے اس کی تشخیص تو اتنی آسان ہے۔ مَیں جب مطب میں بیٹھتا ہوں اور کوئی شخص باہر سے آتا ہے اور مجھے کہتا ہے مولوی صاحب سلام تو مجھے آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ مَیں اس کی آواز سے ہی پہچان جاتا ہوں کہ اسے یہ مرض ہے۔ ۲۶؍فروری کو ڈاکٹر صاحبان کی رائے کے موافق آپؓ کو نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی دارالسلام میں منتقل کردیا گیا۔ ۷؍مارچ کو آپؓ نے یہ وصیت لکھی: خاکسار بقائمی حواس لکھتا ہے ۔ لٓا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ مُحمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ۔ میرے بچے چھوٹے ہیں۔ ہمارے گھر میں مال نہیں۔ ان کا اللہ حافظ ہے۔ ان کی پرورش یتامیٰ مساکین فنڈ سے نہیں۔ کچھ قرضہ حسنہ جمع کیا جاوے۔ لائق لڑکے ادا کریں یا کتب جائیداد وقف علی الاولاد ہو۔ میرا جانشین متقی ہو۔ ہردلعزیز عالم باعمل۔ حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی درگزر کو کام میں لاوے۔ میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیر خواہ رہے۔ قرآن و حدیث کا درس جاری رہے۔ والسلام نورالدین پھر مولوی محمد علی صاحب کو ارشاد فرمایا: اسے پڑھ کر لوگوں کو سنا دیں۔ پھر دوبارہ اور سہ بارہ پڑھوائی۔ پھر پوچھا کہ کوئی چیز رہ تو نہیں گئی؟ عرض کیا گیا کہ یہ بالکل ٹھیک ہے۔ اس کے ۹؍دن بعد بروز جمعہ سوا دو بجے بعد دوپہر نماز جمعہ سے فارغ ہوتے ہی اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے اور حضرت مسیح موعودؑ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ ملک کے اخبارات اور جرائد نے آپؓ کی وفات پر یک زبان ہو کر خراج تحسین پیش کیا۔ مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے اخبار میں لکھا: ’’مجھے افسوس ہے کہ میں تحریک احمدیہ کے کاروانِ سالار و حقائقِ معنوی کے نباض حکیم نورالدین کی قلمی تعزیت میں سب سے پیچھے ہوں۔ ایک ایسی شخصیت جو وسعت علمی کے ساتھ زہد و تورع کے عملی مظاہر کا گنجینہ تھی۔ …معارف دینیہ اور دقائق طیبہ کے ساتھ ایک پُروسعت مطالعہ کے امتزاج نے جو صحف آسمانی سے لے کر عام افسانوں پر محیط تھا۔ نورالدین کو ایک ایسی اوج نظر پر فائز کردیا تھا جہاں نوع انسانی کے جذبات کے طلسم کا بھید سرآشکار ہو جاتا ہے۔ یہی باعث تھا کہ اس کے معانی پرورتکلّم کا ایک ہلکا سا تموّج کسی مخالف کی فسوں پرور بلند آہنگیوں پر ایک مُہر ِسکوت بن جاتا تھا۔ اس کی تمام آب و گل جوشِ دینی اور وُسعت ِعلمی کا ایک پُرندرت مجموعہ تھی اور اس کی جہاں پیما تارِنظر ایک پُرجذب کمند حکمت تھی۔ اس کے حکیمانہ تجسّس نے کمالِ تورع کے ساتھ مل کر لطائف سپہری کی آغوش اس کے لیے کھول دی تھی اور حکمتِ ازل کی کارسازیوں پر اس کا اعتماد سطحِ علمیت پر فائز ہوگیا تھا۔ اس کی آخری زندگی کا بیشتر حصہ تحریک احمدیہ کے ساتھ وابستہ رہا ہے اور اس کے لیل و نہار اسی جہد دینی کے پُرلطف مظاہر میں وقف ہوئے ہیں۔ … نورالدین کی ذات گرامی ہماری مادی نگاہوں سے مستور ہے لیکن مساحت گیتی پر اس کے نقش پا بدستور ثبت ہیں اور منزل استقامت کی جانب ہماری رہبری کررہے ہیں۔ لطف ازل اس کی خاک پر عنبر بار ہو …۔‘‘ (رسالہ البلاغ جولائی ۱۹۱۴ء جلد۱ نمبر۲ ازمالیرکوٹلہ) جب ایک غیر ازجماعت عالم کی نگاہ میں آپؓ کا یہ مقام تھا تو فدایان احمدؑ کی نگاہ میں اس مقام کی رفعت کیا ہوگی۔ اب مَیں اُس دعا کے ساتھ اپنی گزارشات ختم کرتا ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی وفات پر اُن کے حق میں کی تھی ؎ اے خدا بر تربت او ابر رحمت ہا ببارداخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم ………٭………٭………٭……… مزید پڑھیں: مسئلہ وفات مسیح ؑکی اہمیت