https://youtu.be/xSyc7COaHT4 جن اخلاقی، سماجی اور روحانی بیماریوں کا تعلق سائبرورلڈ کے ساتھ ہے ان امراض کا فہم و ادراک حاصل کرنا والدین کے لیے ضروری ہے۔جب آپ کا کردار و عمل آپ کے لفظوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے تب بول جادو جیسا اثر رکھ سکتے ہیں ڈیجیٹل انقلاب سے پہلے بچپن اور قدرتی شاہ پارے آپس میں اٹکھیلیاں کرتے تھے۔جب دُور منزلوں کے سفر پر نکلے پرندے ذرا سستانے کو چھت کی منڈیر پرپڑاؤ ڈالتے تو بچے حیرت اور خوشی سے انہیں تکتے۔اس دور میں بارش کی بوندیں کھلتے پھولوں کی کونپلیں،گیلی مٹی کی سوندھی خوشبو، گرمیوں کی کھڑی دوپہر کی خاموشی، چانن بھری راتوں کی ٹھنڈک، خوشی سنسنی تجسس کا ٹھکاناہوتے تھے۔جب زمانے نے کروٹ لی اور نئی نسلیں تیزی سے نیچرل دنیا سے سائبر ورلڈ میں سفر کرنے لگیں تو طلوع سحر کی تازگی ،مٹی کے گھروندے، ساون کے جھولے، گھنے بوڑھے درختوں کی چھاؤں اور نوخیز شاموں کے فسانے سب سکرین کے پیچھے گم ہوگئے۔ ڈیجیٹل انقلاب نے جہاں بہت سی آسانیاں پیدا کیں وہاں اس کے بھیانک اثرات و نقصانات سامنے آرہے ہیں۔ آج سکرین کا نشہ المیہ بن چکا ہے۔ بلا وجہ بے مقصد موبائل کے ساتھ چمٹے رہنا ،سوشل میڈیا ایپز پر گھنٹوں وقت برباد کرنا، سماجی اخلاقی مرض بن گیا ہے۔انٹرنیٹ کے ،منفی استعمال سے دوقسم کی برائیاں پھوٹتی ہیں۔ ایک وہ برائی ہے جو دوسروں کے سامنے بےجھجک کی جاتی ہے جیسے گھنٹوں ٹک ٹاک اور یو ٹیوب وغیرہ پر فضول لغو content دیکھتے رہنا(ٹک ٹاک کی بے مقصد ویڈیوز، کارٹون،گیمز وغیرہ)۔ اور دوسری برائی جو جنم لیتی ہے چھپ کر کی جاتی ہے۔ ایسی برائی کی تشہیر کرنا جو لوگوں سے چھپ کر پردوں میں کی جاتی ہو، ایک غیر مناسب اور معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا کرنے والا عمل ہے۔ تشہیر اور چرچے سے برائی کا رعب معاشرے سے ختم ہوجاتا ہے، اور پردوں میں چھپی برائی لوگوں کے لیے ایک معمولی سی بات بن جاتی ہے۔ لوگوں کے دل بے خوف اور بے پروا ہوجاتے ہیں، اور تشہیر چرچے برائی کی تحریک کا باعث بنتے ہیں۔ جنسی جرائم کی کہانیوں کو مسالہ دار ٹی وی شوز کی صورت میں گھر گھر پہنچانا معاشرے میں مزید خرابی کا سبب بنتا ہے۔ یہ ایک گھناؤنا دھندہ ہے جس میں جنسی کرائم اسٹوری کے ڈبے میں دراصل جنسی لذت کو پیک کیا جاتا ہے۔ کمرشل دنیا محض منافع کے گرد طواف کرتی ہے، اور اس سردمہر سنگ دل نگری میں پردے چاک کرکے مخفی برائیوں کے بل بورڈ لگا دینا بالکل مناسب نہیں۔ ٹی وی کے تو کچھ ڈھیلے ڈھالے ضابطے ہیں، لیکن سوشل میڈیا تو گویا بے لگام اور بدمست اونٹ ہے۔ یہاں کسی کی جنسی زندگی کو سامنے لانا (خواہ جھوٹی ہو یا سچی بات) ویڈیو یا پوسٹ کے وائرل ہونے کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔غرض یہ کہ جنسی بداعمالیوں اور جرائم کے ڈھنڈورے پیٹنا معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔اس ضمن میں ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ اگر کسی بدعملی، بدی یا جرم کی کثرت ہوجائے اور معاشرہ اس کے رنگ میں رنگتا چلا جائے، تو ایسی بدی پر غور وفکر کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ تب بدی سے منہ موڑ کر آنکھیں چرانا عقل مندی نہیں۔ جن معاشروں میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال عام ہوجائے، وہاں اس برائی پر غور و فکر کرنا، اس کے عوامل اور محرکات کا سراغ لگانا سودمند ثابت ہوتا ہے۔ گہرے تجزیے اور غیرجانب دار تحقیقات کو سامنے لانے اور اخبار بیچنے، ٹی وی کرائم شوز کی ریٹنگ بڑھانے یا محض چسکے لینے کے لیے تشہیری چرچے کرنے میں واضح فرق ہے۔ مخفی بدی کے تدارک اور اس سے بچاؤ کے لیے تجزیے، تحقیقات اور معلومات کو سامنے لانا حکمت بصیرت کا تقاضا ہے۔طویل تمہید باندھنے کا جواز یہ ہے کہ زیر بحث مضمون پر بہت کم لب کشائی کی جاتی ہے، کیونکہ اس کا تعلق جنسی کردار سے ہے۔ جنسی رویوں، بداعمالیوں، بدیوں اور جرائم پر گفتگو سے عام طور پر گریز کیا جاتا ہے، خاص طور پر ترقی پذیر معاشروں میں یہ موضوع ممنوعہ شجر سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف، مغربی ترقی یافتہ دنیا میں اگرچہ آزادانہ جنسی تعلقات کے لیے قبولیت پائی جاتی ہے، لیکن جنسی رویوں، جرائم اور استحصال پر گہرے تجزیے اور تحقیقات وہیں سے برآمد ہوتی ہیں۔ مشرق نہ تو اپنے زور بازو پر جنسی موضوعات پر تحقیق کرتا ہے اور نہ ہی جنسی بدیوں کے علاج پر توجہ دیتا ہے۔ ہاں، جب مغرب سے کوئی پکی پکائی تحقیق ہاتھ لگتی ہے، تو پھر چسکے لینے کے لیے اس پر گفتگو کر کے خوب دعوت اڑائی جاتی ہے۔جس موضوع پر ہم غور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ پورنوگرافی کی لعنت ہے۔ اس کی تباہ کاریوں کو سمجھنے کے لیے بھی ہمیں مغرب کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ مشرقی ترقی پذیر اور غریب ممالک کا خیال ہے کہ جنسیات مغرب کا مسئلہ ہے، حالانکہ ان ممالک کے چپے چپے پر بچوں کا جنسی استحصال ہو رہا ہوتا ہے۔ معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد ان کی لاشیں گندے نالوں یا کوڑے کے ڈھیروں سے ملتی ہیں۔ احساس محرومی میں جلتے ان ممالک کو مغرب کا ننگا پن تو نظر آتا ہے، لیکن اپنا کوزہ زدہ جسم دکھائی نہیں دیتا۔ مغرب میں اتنی حکمت دانش تو ہے کہ وہ عوامل اور پیٹرن دریافت کرتا ہے اور ان کی روشنی میں پالیسیاں اور قوانین بناتا ہے (خواہ یہ قوانین پالیسیاں ناقص، نامکمل یا ادھورے ہوں، لیکن وہ ایک طرف حرکت تو کرتے ہیں۔) سب سے پہلے پورنوگرافی کے نیورو بائیولوجی پر اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ پورنوگرافی دیکھنے سے دماغ ڈوپامائن خارج کرتا ہے۔ ڈوپامائن ایک نیورو کیمیکل ہے۔ پورنوگرافی کی طرف بار بار جانے اور اسے زیادہ وقت دینے سے اس کیمیکل کا اخراج بھی بڑھتا ہے، جس سے اس گند کو دیکھنا ایک نشہ اور لت بن جاتی ہے۔ اس کا نیورل کنکشن ڈوپامائن کے اخراج کے ساتھ مضبوط ہوتا جاتا ہے، بالکل ہیروئن کے نشے کی طرح۔ ہیروئن بھی اس کیمیکل کو متحرک کرتی ہے۔ دماغ اس کیمیکل کے اخراج کا تقاضا کرتا ہے۔ اس طلب کو پورا کرنے کے لیے نشہ آور ڈرگ لی جاتی ہے، اور جیسے جیسے دماغی طلب بڑھتی ہے، نشے کا استعمال بھی بڑھتا جاتا ہے۔ پورنوگرافی کے معاملے میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جوں جوں انسان اس دلدل میں دھنستا جاتا ہے، وہ پورنوگرافی کا نشئی بن جاتا ہے۔ جب اسے اس نشے تک رسائی نہیں ملتی، تو اس کے دماغ میں ایک تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ کسی طرح اس نشے کی لذت حاصل کی جائے۔ڈوپامائن کا اخراج اگر قدرتی اور فطری طور پر ہو، تو یہ بالکل نقصان دہ نہیں۔ خوشی، سرور اور لذت کا احساس زندگی کا اہم جزو ہے۔ لیکن جب اسے غیرفطری طریقوں، جیسے نشہ آور ڈرگ یا پورنوگرافی سے متحرک کیا جاتا ہے، تو یہ لذت کا راستہ بھیانک ثابت ہوتا ہے۔ پورنوگرافی کی لت سے جب اس کیمیکل کا غیرفطری اور زائد اخراج ہوتا ہے، تو یہ دماغ کے پری فرنٹل کورٹیکس کی کارکردگی کو کمزور کر دیتا ہے۔ پری فرنٹل کورٹیکس دماغ کا وہ حصہ ہے جو فیصلہ سازی، قوت ارادی، منطقی سوچ، استدلال اور جذبات کو منظم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ پورنوگرافی آہستہ آہستہ اس حصے کو بےاثر کرنا شروع کر دیتی ہے۔ عادی شخص کا خود پر قابو کمزور پڑ جاتا ہے۔ اس میں جنسی جارحیت، اضطراب، ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ اس لت کی وجہ سے باہر کی دنیا کے تعلقات اور سرگرمیوں میں دلچسپی کم ہوجاتی ہے، کیونکہ فطری انداز میں ڈوپامائن کے اخراج کی مقدار غیر فطری مقدار سے کم ہوتی ہے، اور دماغ کو زائد مقدار کی لت پڑ چکی ہوتی ہے۔ سکرین سے باہر کی مثبت سرگرمیاں اور اچھی دوستیاں دماغ کی غیر فطری طلب کو پورا نہیں کر سکتیں۔ یوں،اس نشے کا عادی شخص حقیقی دنیا میں کوئی خوشی محسوس نہیں کرتا۔ وہ زائد ڈوپامائن کے حصول کے لیے پورنوگرافی کی غلاظت میں دوبارہ اتر جاتا ہے۔نشے کا عادی زائد ڈوپامائن کا قیدی بن جاتا ہے۔ نیوروبائیولوجی کا یہ ٹیڑھا پن ایک اچھے بھلے انسان کو حیوانوں کے درمیان لا کھڑا کرتا ہے۔پورنوگرافی کے نفسیاتی اور اخلاقی اثرات بہت وسیع ہیں۔ ان پہلوؤں کو زیر بحث لاتے ہوئے کچھ الفاظ یا فقرے قارئین کی طبیعت پر گراں گزر سکتے ہیں۔ مجبوری یہ ہے کہ اگر اس موضوع کو چھیڑنا ہے، تو کچھ کراہت آمیز باتوں کا ذکر ضروری ہے۔ جن اخلاقی، سماجی اور روحانی بیماریوں کا تعلق سائبرورلڈ کے ساتھ ہے ان امراض کا فہم ادراک حاصل کرنا والدین کے لیے ضروری ہے اور اپنی ذات کے لیے بھی ضروری ہے۔جب آپ کا کردار عمل آپ کے لفظوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے تب بول جادو جیسا اثر رکھ سکتے ہیں۔ نو بلوغت کے عہد میں جب بچوں اور بچیوں میں جسمانی اور ہارمون کی سطح پر تبدیلیاں نمودار ہونے لگتی ہیں تو سمجھدار والدین بچوں کو ان تبدیلیوں سے متعلق حکمت کے ساتھ معلومات بھی دیتے ہیں اور تلقین بھی کرتے ہیں۔اسی طرح جنسی برائی بگاڑ کے متعلق خود بھی واقف ہونا اور بچوں کو بھی حکمت دانش کے دائرے میں رہ کر معلومات دینا اور سمجھانا فائدہ مند ہے۔ اب ہم موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ پورنوگرافی کی وضاحت اگر ایک فقرے میں کی جائے، تو وہ یہ ہے: خاص طور پر عورت کی تذلیل، بے عزتی اور بے توقیری۔ عورت کے آبجیکٹیفیکیشن(عورت کو ایک شے بنا دینا) کو پورنوگرافی کہتے ہیں۔ پورنوگرافی کے عادی شخص کے لیے عورت محض ایک شے ہوتی ہے۔ اس کے دل سے عورت کی عزت توقیر ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے لیے عورت کا مطلب صرف جسم ہے، ایک ایسا جسم جو محض جنسی لذت کے لیے پیدا کیا گیا ہو۔ عورت کے جذبات، احساسات اور نفسیات سب پس منظر میں چلے جاتے ہیں، اور صرف جسم نمایاں رہتا ہے۔ اس زمانے میں عورت کی تذلیل کا سب سے مکروہ استعارہ پورنوگرافی ہے۔ پورنوگرافی کے عادی شخص کے تصور میں ہردم عورت موجود رہتی ہے، لیکن وہ اس عورت سے دور ہوتا جاتا ہے جس کی عزت وقار ہے، جو جذبات، احساسات اور ایک مکمل شخصیت رکھتی ہے۔ وہ ایک ایسی بے جان عورت میں محو تصورہوجاتا ہے جو محض ایک شے یا جنسی کھلونا ہے۔ ایسی مریضانہ سوچ اس کے ازدواجی تعلقات میں بھی زہر گھول دیتی ہے۔جن معاشروں میں عورت کے لیے عزت ختم ہوجائے اور قانون انصاف کی گرفت بھی کمزور ہو، وہ جنسی جرائم کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔ پورنوگرافی ایک باوقار اور باعزت عورت کو مٹا کر ایک بکاؤ مال اور دام میں پھنسنے کو بے تاب عورت کا تصور پیش کرتی ہے۔ اس کے بداثرات روح کو تاریک کر دیتے ہیں اور ان کے اثرات بہت دور تک پھیلتے ہیں۔ تعلقات اور رشتے معدوم ہونے لگتے ہیں۔ اس کا منحوس سایہ کسی آسیب کی طرح گھروں کو جکڑ لیتا ہے۔پورنوگرافی انڈسٹری صرف فحش مناظر فلما کر مارکیٹ میں نہیں فروخت کرتی، یہ دراصل جنسی fantasy کو فروخت کرتی ہے۔ فحش فلمیں بنانے والے جنسی تخیل گردی کے سوداگر ہوتے ہیں۔ سماعت اور دیگر حواس سے زیادہ گہرا تعلق آنکھ کا تخیل، خیال اور تصور سے ہوتا ہے۔ آنکھ کی کھڑکیاں تخیل خیال کی طرف زیادہ کشادگی سے کھلتی ہیں۔ فحش فلم ساز کمپنیاں آنکھ کے راستے تخیل خیال کو گندگی اور غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ آنکھ نہ صرف سامنے کی شے کو دیکھتی ہے، بلکہ اس کی تاریں تخیل خیال سے جڑی ہوتی ہیں۔ جب آنکھ گندی ہوتی ہے، تو خیالات بھی گندے ہوجاتے ہیں۔ جمے ہوئے برے خیالات اور گندے تخیلات ہر بدی، گناہ اور جرم کے بیج ہوتے ہیں۔ بدی اور جرم سب سے پہلے انسان کے اندر جمے ہوئے خیالات کی صورت میں نشوونما پاتے ہیں، پھر یہ بد عمل یا جرم کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ پورنوگرافی تخیل اور تصور کی گہرائی میں شہوت پرستی کے بڑے بڑے بت نصب کر دیتی ہے، اور پھر اس کا عادی ان کی پرستش میں جت جاتا ہے۔ پورنوگرافی انڈسٹری شیطانی تکنیکوں سے انسانی آنکھ کو حیوانی آنکھ میں تبدیل کر دیتی ہے، جو ہر دم شہوانی لذتوں کی تلاش میں بھٹکتی رہتی ہے۔ فحش فلم ساز کمپنیاں زندگی کے معاملات، تعلقات اور مقامات کو جنسی لذتوں کا تختہ مشق بنا دیتی ہیں۔اس طرح پورنوگرافی کی لت کا شکار شخص جنسی فینٹسی میں غرق ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے تخیل میں شہوانی معرکے تخلیق کرتا ہے اور ذہنی تخیلاتی شہوت نگری سے لذت حاصل کرتا ہے۔ جب بدی کا خیال مضبوط ہو کر دل و دماغ پر حاوی ہوجاتا ہے، تو وہ بدعملی یا جنسی جرم کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ دور حاضر میں ریپ اور بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کا تعلق پورنوگرافی سے سامنے رہا ہے۔ فحش ویب سائٹس پر حقیقی ریپ کی ویڈیوز بھی اپ لوڈ کی جاتی رہی ہیں۔فرد کی ذات پر پورنوگرافی سے پیدا شدہ شہوانی تخیل گردی کا اثر اس طرح پڑتا ہے کہ سب سے پہلے اس کی جسمانی صحت تنزلی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے، اور اس کی خود اعتمادی تنکوں کی طرح بکھرنے لگتی ہے۔ کہیں گہرائی میں احساس گناہ کچوکے مارتا ہے۔ فرد کا خود پر قابو کمزور پڑنے لگتا ہے۔ دل دماغ پر ایک دھند سی چھائی رہتی ہے۔ وہ پورنوگرافی میں بےلگام جنسی لذتوں کے نظارے دیکھتا ہے، جو اسے حقیقی دنیا میں میسر نہیں ہوتے۔ اسے ڈپریشن اور اضطراب گھیر لیتے ہیں۔ اس کا دل اچاٹ اور ذہن سست ہوجاتا ہے۔ آنکھوں کی چمک اور چہرے کی تازگی اور شادابی غائب ہوجاتی ہے۔ اس کا وجود تھکا تھکا سا ہو جاتا ہے، گویا کمزور جسم پر منوں وزن لاد دیا گیا ہو۔ وہ فحش فلموں کے اداکاروں کی جسمانی ساخت یا ظاہری شکل کو مثالی سمجھنے لگتا ہے اور اس طرح اپنی جسمانی شکل کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ مرض شادی کے بعد اس کے ازدواجی تعلقات کو کھا جاتا ہے۔ وہ اپنے جیون ساتھی کو اس معیار کا نہیں سمجھتا جو اس کی شہوت نگری میں قائم ہو چکا ہوتا ہے۔ اس طرح میاں بیوی کے تعلقات کمزور ہوجاتے ہیں۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ پورنوگرافی کی لت کا شکار خواتین بھی ہو سکتی ہیں۔ جب کوئی خاتون اس لت میں مبتلا ہوتی ہے، تو وہ اپنی جسمانی شکل کو کامیابی کا نسخہ سمجھ بیٹھتی ہے۔پورنوگرافی کسی بھی عمر کے فرد کو اپنا شکار بنا سکتی ہے۔ یہ سوچ کہ اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے پابندیاں ہونی چاہئیں لیکن اس کے بعد جو مرضی دیکھا جائے، انتہائی بچگانہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فحش مواد کسی بھی عمر میں شخص کے کردار کو تار تار اور عقل کو بوسیدہ کر سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا سانپ ہے جو ڈسے گا تو لازمی طور پر فرد کے جسم میں زہر پھیلائے گا۔ انسان میں جنسی جبلت ایک قوی اور طاقتور قوت ہے۔ پورنوگرافی اس قوت کو بے لگام، بے اعتدال اور بےمحل کرنے کا کاروبار ہے۔ اس لیے فحش مواد کو عمر کے ساتھ باندھنا محض دھوکا ہے۔اس لعنت سے دور رہنے اور اپنوں کو اس سے بچانے کے لیے ان راستوں کو بند کرنا ضروری ہے جن سے یہ لعنت داخل ہوتی ہے۔ ایسی ایپس اور سافٹ ویئرز موجود ہیں جن کی مدد سے اس کا راستہ روکا جا سکتا ہے، جیسے کہ Covenant Eyes جو لیپ ٹاپ اور موبائل کے لیے دستیاب ہے۔ اس کی مدد سے پورنوگرافی کو بلاک کیا جاسکتا ہے، اور نابالغ جو کچھ انٹرنیٹ پر کرتا ہے، اس کی رپورٹ والدین کو ملتی رہتی ہے۔ (یہاں مقصد کسی ایپ یا سافٹ ویئر کی تشہیر کرنا نہیں۔ والدین خود تحقیق کرکے مناسب ایپ یا سافٹ ویئر حاصل کر سکتے ہیں۔)اگر کسی کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ اس لت میں مبتلا ہے، تو اسے مزید ذلیل نہیں کرنا چاہیے۔ حکمت کے ساتھ عادی شخص کو اس دلدل سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جنسی سرگرمی کا تعلق شرم سے وابستہ ہے، اس لیے کسی کی جنسی بدعملی سامنے آنے پر اسے مزید شرمندہ ذلیل کرنا حماقت ہے۔ جنسی بدخلقی افشا ہونے پر انسان پہلے ہی شرمندہ ہوتا ہے۔ اگر ارد گرد کے لوگ اسے مزید شرمسار کریں گے، تو وہ ٹوٹ جائے گا۔ سب سے بہتر محاسبہ اپنے نفس کا محاسبہ ہے، اور سب سے اچھی جھانکنے کی جگہ دوسروں کے گھر نہیں، بلکہ اپنا گریبان ہے۔ اگر کسی کے گھر کی بدخلقی معلوم ہو جائے، تو اپنے گھر کی طرف دوڑ لگانی چاہیے۔والدین نابالغ کو اس طرح سمجھا سکتے ہیں کہ تم اچھے ہو، لیکن یہ عادت بری ہے۔ تم روشن راستوں کے مسافر ہو، لیکن یہ لت تاریکیوں کا راستہ ہے۔ تم میں بہت سی خوبیاں ہیں، لیکن یہ نشہ ان خوبیوں کو نگل جاتا ہے۔ نابالغ کو اس کے نقصانات بتائیں۔ اس کی عزت نفس اور خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچائے بغیر اسے اس لعنت سے پاک کریں۔شاہ دین ہمایوں کا ایک شعر ہے: اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھیدوڑو، زمانہ چال قیامت کی چل گیا سرمائے، طاقت اور ہوس کے بھوکے اس زمانے نے قیامت کی چال چل دی ہے۔ اگر ہم نے اس چال کو نہ سمجھا اور اس سے محفوظ رہنے کی کوشش نہ کی، تو یہ نشہ خدانخواستہ ہماری نسلوں کی رگ رگ میں سرایت کر جائے گا۔ یاد رکھیں، پورنوگرافی صرف ایک کلک کی دوری پر ہے۔ ایک غلط کلک فرد کو اس لت میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اس لیے یہ قیامت کی چال ہے جو زمانے نے چل دی ہے۔ ہمیں فرد اور اس ایک غلط کلک کے درمیان رکاوٹیں کھڑی کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم اس شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ پورنو گرافی صرف ایک شروع کی برائی ہے جو سائبر ورلڈ سے نکلتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سے سائبر امراض ہیں جیسے توجہ کی کمی کا عارضہ(attention deficit disorder)۔یہ عارضہ بچوں اور بڑوں میں عام مسئلہ بن گیا ہے۔ اگر خدا کا فضل اور مدد اس ناتواں ناچیز کے شامل حال رہے تو خاکسار اس موضوع کو سپرد قلم کرنے کی کوشش کرے گا۔ (اے۔ راضی) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: کیا جنگیں تنازعات کا حل ہوا کرتی ہیں؟